Apna Business PK

AIOU Course Code 9256-2 Solved Assignment Autumn 2021

9256 کورسٹیلی ویژن براڈ کاسٹنگ کے اصول

پروگرام بی ایس

2مشق نمبر

سوال

مسودہ برائے ڈرامہ تحریر کرتےوقت کن باتوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے ۔ مدلل وضاحتکری

ڈراما ایسی کہانی یا قصہ ہے جو اداکاری کے لیے لکھا جائے یا اداکاری کے ذریعے پیش کیا جائے۔ یہ اصطلاح یونانی لفظ (قدیم یونانی: δρᾶμα, drama) سے اخذ ہوئی جس کے معانی حرکت، عمل یا فعل کے ہیں۔ اس لفظ کا ماخذ ایک یونانی فعل (قدیم یونانی: δράω, draō) ہے جس کے معانی ’کرنا‘ یا ’دکھانے‘ کے ہیں

ڈراما ادب کی ایک قدیم صنف ہے۔ ڈرایونانی لفظ ڈرو سے نکلا ہے جسکے معنی کر کے دکھانا ہے۔ یہ ایک ایسی صنف ہے جس میں انسانی زندگی کی حقیقتوں اور صداقتوں کو اسٹیج پر نقل کے ذر لعیے پیش کیا جاتا ہے۔ ڈراماکوعمل سے جڑا ہوا ادب کہا جاتا ہے یعنی ایسا ادب جس کو مختلف فنون لطیفہ جیسے موسیقی ، رقص گیت اور مصوری کی مدد سے زیرعمل لایا جاتا ہے۔ تاہم ڈرامہ کے اجزائے تر کیبی چھ ہیں، قصہ یا پلاٹ، کردار،نفس موضوع،  مکالمہ ،موسیقی،اوربصری مواد

ڈرامے کبھی حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں کبھی کبھی بالکل ہی فرضی کرداروں پر۔ تحریک آزادی ہند جیسے موضوع کے کسی پہلو پر، کسی مخصوص مجاہد آزادی پر لکھا گیا ڈراما حقیقت پر مبنی ہو سکتے ہیں۔ تاہم لیلٰی پر مجنوں، شیریں اور ف رہاد اور اسی طرح کے موضوعات اور کرداروں پر مبنی ڈرامے بالکلیہ فرضی ہوتے ہیں۔ حقیقی کرداروں اور حالات کی ادائیگی میں بھی کئی ڈرامائی عنصر شامل ہو سکتے ہیں۔ کئی مکالمے اور حالات تحیل پر مبنی ہو سکتے ہیں، حالاں کہ اس کے پس پردہ ضرور کوئی تاریخی سچائی اور زبان زد عام بات ممکن ہے۔ فرضی کرداروں کی ادائیگی میں بھی یہ ضروری سمجھا گیا ہے ڈراموں کی پیش کشی کے دوران متصورہ تاریخی دور، مخصوص تہذیبی پس منظر، کرداروں کے نفسیاتی پہلو، عام لوگوں کے تصورات اور زبان زد عام روایات کا خیال رکھا جائے۔ کسی ڈرامے کی کامیابی کے لیے ضروری ہے ہر کردار کی ادائیگی کرنے والا اپنے ذاتی تصورات کو چھوڑ کر کردار کی سوچ، اس کے خیالات، جذبات اور مکالموں مکمل طور ضرورت کے حساب سے ادا کرے۔ یہ اس لیے بھی بے حد ضروری ہے تا کہ ناظریں کہائی اور اس کی اسٹیج پر پیش کشی پر یقین سے دیکھیں اور اس سے لطف اندوز ہو۔ کردار نبھانے والوں کی ذاتی زندگی اور کردار کی اسٹیج پر دکھائی جانے والی تصویر میں بہت بڑا فرق ممکن ہے۔ ایک ہیرو ڈاتی زندگی یا تو ایک برا انسان ہو سکتا ہے یا پھر کم سے کم ہیرو جتنا شریف النفس، نیک طینت اور ہمیشہ مدد کے لیے آگے نہ اٹھے۔ اسی طرح اسکرین جس شخص کو بد خو، بد معاش اور نا ہنجار دکھایا جاتا ہے، وہ ممکن ہے کہ حقیقی زندگی میں بے حد شریف اور خوش اخلاق ہو۔

ابتدائیہ:

ڈرامہ ادب کی ایک مقبول اور قدیم صنف ہے۔ مغرب میں یونان ڈرامے کے فن کا مرکز تھا۔ ایس کائی لیس، سوفو کلیز ،اسٹو فنز اور پیڈیز جیسے مشہورِ زمانہ ڈرامہ نگار اسی قدیم سرزمین کے فرزند تھے ۔

ہندوستان میں بھی ڈرامے کی تاریخ دو ہزار برس پرانی ہے ۔سنسکرت زبان کے ڈرامہ نگار بھبھوتی اور کالی داس ڈرامے کی دنیا کے روشن آفتاب و مہتاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اردو ڈرامہ سنسکرت ڈرامہ نگاری کے مرہونِ منت ہے۔

ہندو دھرم اور سماج میں شری کرشن جی اور رام چندر جی کی لیلاؤوں کیلئے ڈرامے ہی کو ذریعہ بنایا گیا تھا۔

کالی داس کے ڈرامے مالویکی، اگنی مترا ، شکنتلہ اور وکرم روشنی شاہکار ڈرامے تصور کئے جاتے ہیں ، جن میں شکنتلہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

ڈرامے کی تعریف:

بقول ارسطو ’’ڈرامہ انسانی اعمال کی نقال ہے۔

یا۔۔۔

ڈرامہ انسانی زندگی کی عملی تصویر ہے۔

یا۔۔۔

زندگی کا کوئی پہلو ڈرامے کامو ضوع بن سکتا ہے اس کی تکمیل ادبی اصنا ف کی طرح محض الفا ظ سے نہیں ہو تی بلکہ مجسم عمل کی ضرورت پڑتی ہے۔

اردو کا پہلا ڈرامہ:

اردو ڈرامہ نگاری کی تاریخ میں پہلے ڈرامے کے تعین کیلئے کوشش و جدو جہد جاری ہے ۔۔ مختلف محققین نے مختلف ڈراموں کو اردو ادب کا پہلا ڈرامہ قرار دیا ہے ۔ مثلاً عبد الحئ ،سید محمود، ڈاکٹر اعجاز حسین اور مولانا حامد حسن قادری نے کالی داس کے ڈرامے شکنتلہ کو ہی اردو ادب کا اولین ڈرامہ قرار دیا ہے۔ پروفیسر مسعود حسین اور ڈاکٹر اشرف نے نواب واجد علی شاہ کے ڈرامے ’’ رادھا کرشن ‘‘کو اولین ڈرامہ قرار دیا ہے۔ بادشاہ حسین نے ممبئی میں اسٹیج کئے گئے ڈرامے ’’بابو جالندھر ‘‘ کو اولین ڈرامہ تسلیم کیا ہے ۔پروفیسر احتشام حسین نے ’’ راجہ گوپی چندر ( ۱۸۵۲) ‘‘کو اولین ڈرامہ تسلیم کیا ہے۔ ڈاکٹر رام بابو سکسینہ اور ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے امانت لکھنوی کے ڈرامے ’’ اندر سبھا (۱۸۵۳) ‘‘ کو اولین ڈرامہ تسلیم کیا ہے ۔

رہسوں اور سبھاؤں کا دور:

بعض ناقدین کے مطابق اردو ڈرامے کے باقاعدہ آغاز کا سہرا واجد علی شاہ اختر پیا کے سر ہے۔ لکھنؤ کا یہ نواب رقص و سرور کا دلدادہ تھا ۔رام لیلا کی محافل سے متاثر ہو کر اس نے بھی شاہی قلعے میں رقص ونغمے کی محافل سجائیں ۔ ان محافل کو باقاعدہ اسٹیج کیا جانے لگا اور ان کا نام ’’رہس ‘‘ رکھا گیا۔

واجد علی شاہ نے اپنے پہلے مثنوی ’’ افسانہ عشق ‘‘ کو اس طرز پر لکھا اور اسٹیج کیا ۔اس کے علاوہ ان کا ڈرامہ ’’ رادھا کرشن کنہیا ‘‘ لکھنؤ باغ میں اسٹیج کیا گیا۔

واجد علی شاہ کے دور میں ہی امانت لکھنوی نے اپنا منظوم ڈرامہ ’’ اندر سبھا‘‘ تحریر کیا جو کہ رقص وسرور کی ہنگامہ آرائیوں پر مشتمل تھا۔ ابتدائی بند ملاحظہ ہو۔

سبھا میں دوستو اندرونی آمد آمد ہے

پری جمالو کے افسر کی آمد آمد ہے

خوشی سے چہچہے لازم ہے مورت بلبل

اب اس چمن میں گلِ تر کی آمد آمد ہے

واجد علی شاہ کی سرپرستی میں اور بھی ڈرامے ہوئے جن میں عیش و نشاط کا سامان بہم تھا۔ ’’مگر اندر سبھا ‘‘ سارے ہندوستان میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کی مقامی زبانوں ’’ دیونا گری ،گورمکھی اور گجراتی ‘‘ میں اس ڈرامے کے ترجمے ہوئے۔ اس کے علاوہ غیر ملکی زبانوں میں بھی اس کے ’’ چالیس ‘‘ ایڈیشن شائع ہوئے۔

زبا ن و بیان سلا ست ،شگفتگی اور روانی کی وجہ سے اندر سبھا کی مقبو لیت کو دیکھتے ہو ئے پیر بخش کا نپو ری نے ’’نا گرسبھا‘‘ لکھا۔ ۱۸۵۶ میں ما سٹر احمد حسین کا ’’بلبل بیمار‘‘ ایدل جی کھوری کے ’’خورشید‘‘ اور ’’حا تم ‘‘ ’’ ہیرا ‘‘اور پگلا حجا م اسٹیج ہو ئے۔ ’’ ہیرا ‘‘ میں سیلانی کا کردار اور ’’ پگلا حجا م‘‘میں حجام کا کردار خود ایدل جی کھوری نے ادا کیا۔

اردو ڈرامے کے ارتقاء میں تھیٹریکل کمپنیوں کا کردار:

سبھاؤں خصوصاً ’’اندر سبھا ‘‘ کی کامیابی کے بعد ہندوستان کے طول و عرض خصوصاً ممبئی کے پارسیوں کی توجہ اسٹیج اور ڈراموں کی جانب مبذول ہو گئی۔ اس کے علاوہ جنگل میں بھی ڈرامے کو اسٹیج کرنے کا رواج عام ہوا۔ جسکا ذکر ’’ عشرت رحمانی، پروفیسر مسعود حسین رضوی اور دیگر ناقدین ‘‘ نے اپنے مضامین میں کیا ہے ۔

ڈرامے کے ارتقاء میں اردو ڈرامے کے شیکسپیر آغا حشر کا شمیری کا حصہ : (۱۸۷۹ تا۱۹۳۵)

اردو ڈرامہ ابھی احسن لکھنوی ، پنڈت نرائن بیتاب دہلوی اور طالب بنارسی کی نگارشات کی زد میں تھا ۔سارا ہندوستان ان کے رنگ و آہنگ میں مست تھا۔ کہ ڈرامے کی دنیا میں ایک ایسا آفتاب طلوع ہوا جس کی روشنی سے دیگر تمام ستاروں کی روشنی ماند پڑ گئی۔

یہ شخص اردو ڈرامے کا شیکسپئر آغا حشر کاشمیری تھا۔جس نے شیکسپئر کے ڈراموں کو اس خوبصورتی سے اردو میں ڈھالا کہ اس کی روح بھی قائم رہی اور اس میں مشرقی تمدن بھی سما گیا۔

ان کے ڈراموں کی فہرست طویل ہے ،مگر مشہور ڈرامے درج ذیل ہیں:

سفید خون ۔۔خوبصرت بلا ۔۔ آنکھ کا نشہ۔۔ ترکی حور۔۔ میرِ ہوس۔۔ یہودی کی لڑکی ۔۔ بلوا منگل عرف بھگت سور داس ۔۔ نعرہ توحید۔۔ سنسار چکر۔۔رستم سہراب۔

’’آفتابِ محبت ‘‘ ان کا پہلا ڈرامہ ہے جو احسن لکھنوی کے چیلینج پر لکھا۔

انکا پہلا کمرشل ڈرامہ ’’ مرید شک ‘‘ ہےجو الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کیلئے لکھا جس کے مالک کاوس جی کھٹاؤ تھے۔

ان کا سب سے پہلا ہندی ڈرامہ’’ بلوا منگل عرف بھگت سور داس ‘‘ہے جو اپنی اشتراکی کمپنی انڈین شیکسپئر تھیریٹیکل کمپنی کیلئے لکھا۔اس کمپنی کی بنیاد راجہ راگھو راؤ کی شراکت میں ۱۹۱۰ میں ڈالی تھی۔

ان کا پہلا مجلسی ڈرامہ سلور کنگ عرف نیک پروین تھا جو ۱۹۱۰ میں اسٹیج کیا گیا تھا۔

حشر کے علاوہ بیسویں صدی کے دوسرے ڈرامہ نگار درج ذیل ہیں

محمد ابراہیم محشر انبا لوی ،رحمت علی ،دُوَرِکا پَرشاد اُفق،غلام علی دیوانہ ، مرزا عباس اور آغا شاعر دہلوی بہت مشہور ہوئے۔

بیسویں صدی کے وسط میں ڈرامے کا فنی و ادبی ارتقاء :

آغا حشر کے بعد اردو ڈرامے کی مقبولیت پر حکموں نے قبضہ کر لیا ۔لہٰذاڈرامہ تجارت کے ہاتھوں سے نکل کر خلص فنی و ادبی نگاہوں کا مرکز بن گیا۔ اس دور کے فنی و ادبی ڈرامہ نگار ذیل میں درج ہیں جو کہ بہت مشہور ہوئے۔

مولانا عبد الحلیم شرر( شہیدِ فا )۔مولانا محمد حسین آزاد( ڈرامہ اکبر )۔ مرزا ہا دی رسو ا(مرقع لیلی مجنو ں) احمد علی شوق قدوائی (قاسم و زہرا) ۔ مولانا ظفر علی خان ( جنگ ِ روس و جاپان )۔کرشن چندر ( زخمی پنجاب )۔ منشی امراؤ علی ( البرٹ )۔

جدید ڈرامہ نگاری کا آ غاز اور امتیا ز علی:

جدید ڈرامہ نگاری کا آغا ز امتیا زعلی تاج جیسے ڈرامہ نگار سے ہو تا ہے ان کا ڈرامہ انا ر کلی (۱۹۳۲)میں طبع ہوا یہ دور جدید کا سنگِ میل ثا بت ہوا۔

بقول احمد سلیم:

انار کلی ڈرامہ اپنی کردار نگا ری مو ضوع اور مقصد کی ہم آہنگی اور ادبی حسن کی بدولت بے مثال کا رنا مہ ہےــ

جدید ڈرامو ں میں حکیم شجاع کا (باپ کا گناہِ ) مجیب عالم کا ( انجام ) ڈاکٹر عابد حسین (پردہ غفلت) جیسے نما یا ں نام ہیں۔

یک با بی ڈرامےاور مغربی اثرات :

مغربی علوم و فنو ن کی زیر اثر یک بابی ڈرامے کی ابتدا ء ہو تی ہے۔اس فن کا فرو غ بھی تراجم سے ہوا۔اس میں امتیا ز علی تاج کے علا وہ ڈاکٹر اشتیا ق حسین کا’’نقش آخر’ ’ شاہد دہلوی کا ’’کھڑکی‘‘ عابد علی عابد،،اشفاق احمد، احمد ندیم قاسمی،،کے نام قابل ذکر ہیں۔

مزرا ادیب بھی اس فن کے بے تاج بادشاہ ہیں ان کو اس فن کی باریک بینیو ں کا علم ہے۔ ان کے ڈرامو ں میں ’’آنسو اور ستارے،لہو اور قالین اور رشتے کی دیوار‘‘ اپنی مثا ل آپ ہیں۔

اردو ڈرامے کے ارتقاء میں ترقی پسند تحریک کا حصہ:

انقلاب ، روس کے بعد ساری دنیا میں فکر کی ایک نئی لہر دوڑ گئی۔بر صغیر پاک و ہند بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔چند دانشوروں نے ترقی پسند تحریک کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس تحریک کے تحت حقیقت نگاری ڈرامے کی روح قرار پائی۔سردار جعفری ،مرزا ادیب اور پروفیسر محمد مجیب نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا

قیام پا کستان کے بعد ڈرامہ نگاری کا ارتقاء :

قیام پاکستان کے بعد کے ڈرامو ں میں اسٹیج کی رونقیں بحا ل ہو گئیں اس میں معین الدین نے ہجرت کے دکھ،اور انسانی اقدار کی پاما لی کو طنز ومزاح کے ساتھ پیش کیا، ان کے ڈرامو ں میں ’’تعلیم با لغان‘‘مرزا غالب بندر روڈ پر‘‘ اور ’’لال قلعے سے لا لو کھیت تک ‘‘ بہت نما یا ں ہیں۔فلمی اور ٹیلی ویژن کے اثرات: فلمی اور ٹیلی ویژن کے آجانے سے اسٹیج کی رونقوں میں کمی واقع آگئی۔ اس ضمن میں ان کہی، انکل عرفی، شمع، تعبیر، خاک اور خون، طاہرہ، خدا کی بستی، دیواریں وغیرہ۔

ڈرامے کے ارتقاء میں ریڈیو اور ٹیلیویژن کا کردار اور عہد حاضر کے ڈرامے:

مو جو دہ دور میں میڈیا کی ترقی نے خوشگوار اثرات مرتب کئے عہد حا ضر میں کما ل احمد رضوی، اور انور مقصود نے طنز ومزاح، فا طمی ثریا بجیا نے گھریلو زندگی کے مسائل، سلیم احمد نے تاریخی مو ضو عات، اور اشفا ق احمد نے روحانی اور نفسیا تی الجھنو ں کے حوالے سے ڈرامے پیش کئے،۔

یہاں امجد اسلام امجد، با نو قدسیہ ، عبد القادر جونیجو،مستنصر حسین تارڑ ، منو بھائی اور حسینہ معین کے ڈرامے بیش بہا خزانے سے کم نہیں۔۔۔۔۔۔۔

ڈرامے کے ذرائع

ڈرامے کئی ذرائع کے تحت پیش کیے جاتے ہیں:

سڑک کے ڈرامے / اسٹریٹ ڈراما: یہ ڈرامے کسی عوامی موضوع یا عوام میں کسی موضوع کے لیے بے داری کے لیے ہوتا ہے۔ مثلًا، بڑھتی آبادی، گھریلو تشدد، معاشرے میں عورت کا مقام، وغیرہ۔

اسٹیج ڈراما: یہ کسی ڈراما گروپ، اسکول یا کالج میں حاضرین کے رو بہ رو پیش ہوتا ہے۔

ٹی وی ڈراما: یہ ڈرامے ایک بار میں بھی ختم ہوتے ہیں اور سیریل کی طرح جاری بھی رہتے ہیں۔

ریڈیو ڈراما: یہ ٹی وی ڈرامے ہی کی طرح ہوتے ہیں۔ مگر ان میں تصویر دکھائی نہیں جاتی۔

فلمی ڈراما: ہر فلم دو یا تین گھنٹے کا اپنے آپ میں منفرد ڈراما ہوتی ہے۔

 

 

سوال

مسودے کی تیاری اور پروگرام کی تخلیق کے لوازمات پر نوٹ لکھیں۔

ڈرامے کی اس تعریف میں جہاں کہانی، کردار، عمل اور مکالمے کو ضروری عناصر قرار دیا گیا ہے، وہاں اسٹیج اور تماشائی بھی اس کے دو اہم کردار ہیں، جس طرح اسٹیج کی ضرورتوں کا خیال رکھے بغیر اچھا ڈراما نہیں لکھا جاسکتا۔ اس طرح تماشائی، نفسیات اور اس کی پسند کو دھیان میں رکھے بغیر بھی ڈرامے کی کامیابی ممکن نہیں۔

ڈرامے کی کئی قسمیں ہیں، ان میں سے چند درجِ ذیل ہیں:

٭ المیہ یا ٹریجڈی:۔ وہ ڈراما جس میں پیش کیے جانے والے حادثات و واقعات دردناک ہوں یا اس کا انجام المیہ یا حزنیہ ہو، ٹریجڈی (Tragedy) یا المیہ کہلاتا ہے۔

٭ طربیہ یا کامیڈی:۔ وہ ڈراما جس کی اساس معاشرے کی کوئی ناہمواری یا کمزوری ہو اور اسے طنزیہ مِزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا ہو، طربیہ یا کامیڈی کہلاتا ہے۔ جس ڈرامے کا انجام طربیہ ہو، وہ بھی ڈرامے کی اس قسم کے تحت شمار کیا جاتا ہے۔

٭ میلو ڈراما:۔ ڈرامے کی یہ قدیم صورت ہے۔ اس میں شاعری اور موسیقی کا بہت عمل دخل ہوتا ہے اور اس کی فضا رومانی اور جذباتی ہوتی ہے۔ ڈرامے کا انجام عموماً طربیہ ہوتا ہے۔ میلو ڈراما یونانی لفظ “Melos” بمعنی موسیقی اور فرانسیسی لفظ ڈراما سے مل کر بنا ہے۔ کرداروں کی خود کلامی بھی میلو ڈرامے میں پائی جاتی ہے۔ ڈرامے کی یہ قسم محبت اور عقیدت کے اظہار کے لیے موزوں ترین ہے۔

٭ فارس:۔ ڈراما کا وہ روپ ہے جس کا بڑا مقصد ناظر کے لیے تفریحِ طبع کا سامان پیدا کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے عموماً سطحی ظرافت اور مضحکہ خیز واقعات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ عوام میں ڈرامے کی یہ قسم بہت مقبول ہے۔

٭ برلیسک :۔ برلیسک (Burlasque) ڈرامے کی ایسی قسم ہے جس میں پست اور گھٹیا درجے کا مِزاح پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں بھانڈوں کی طرح مشہور شخصیات کی نقلیں اتاری جاتی ہیں اور ناظرین کی تفنن طبع کا سامان مہیا کیا جاتا ہے۔

٭ اوپیرا:۔ اوپیرا (Opera)ایک منظوم ڈراما ہوتا ہے جس کی کہانی اور پلاٹ المیہ بھی ہوسکتا ہے اور طربیہ بھی۔ ڈرامے کی فضا اور ماحول جزوی یا کلی طور پر غنائیت (موسیقیت) کا حامل ہوتا ہے۔ ڈراما کی یہ قسم بھی بڑی قدیم ہے۔

دورِ حاضر کی ضرورت کے مطابق ڈرامے میں درجِ ذیل قسموں کا اضافہ بھی ہوا ہے:

٭ یک بابی ڈراما (One Act Play)

٭ ریڈیو ڈراما

٭ ٹی وی ڈراما

ڈرامے کے لئے درج ذیل عناصر کا ہو نا ضروری ہے،

 پلاٹ۔کردار،مکالمہ،خودکلامی،آغاز،تسلسل،کشمکش،نقطہ عروج، انجام۔

 اردو ڈرامہ،کب سامنے آیا؟

 یقین کے ساتھ یہ بتانا مشکل ہے کہ ڈرامے کا آغاز کب ہوا،لیکن یہ طے ہے کہ انسان میں تماشا دیکھنے کا شوق فطری ہے اور ہمیشہ سے ہے ۔ایک خیال یہ ہے کہ زمانہ قدیم میں رقص و سرور کی محفلیں گرم کی جاتی تھیں جو کسی قبیلے کی فتح یا مزہبی تہوار کے موقعوں پر منعقد ہوتی تھیں۔اس کیبعد ایران اور مصر میں صحن کی چار دیواری میں دیوتاؤں کی پرستش کی خاطر یا مردے کو دفنانے کی رسم کے سلسے میں چھوٹے چھوٹے کھیل کھیلے جاتے ہیں اسے ڈرامے کی بالکل ابتدائی شکل کہا جاتا ہے ۔ڈرامائی ادب اور تھیٹر کے باقاعدہ آغاز کا زمانہ قریباً پانچ سو سال قبل مسیح قرار دیا جاتا ہے اور اس دور میں یونان میں ڈرامے نے بہت ترقی کی اور بڑے بڑے ڈرامے نگار پیدا ہوئے ۔اس کے بعد اہل یورپ نے بطور خاص ڈرامے کو اپنایا اور اس پر خصوصی توجہ دی۔

 مغرب کے مقابلے میں اردو میں ڈرامہ کم لکھا گیا ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اردو ادب پر ابتداء میں تصوّف کا اثر تھا اور ہمارے صوفیاء نے اپنی مذہبی احتیاط پسندی کی بنا پر ڈرامے کی طرف توجہ نہ کی۔اس کے علاوہ ہمارے ادب پر سب سے زیادہ اثر فارسی زبان وادب کا تھا ۔اردو کا پہلا ڈرامہ واجد علی شاہ نے۱۲۵۸ء میں،، رادھا کھنیا،،لکھا،اسی زمانے میں پھر امانت لکھنوی نے اپنا ڈرامہ ،،اندر سبھا،،لکھا یہ اردوڈرامے کا بالکل ابتدائی زمانہ تھا۔

 اردو کا دوسرا دور بمبئی سے شروع ہوتا ہے اس کے ڈرامہ نگاروں میں احسن لکھنوی ،بیتاب بنارسی،اورطالب بنارسی قابلِ ذکر ہیں۔اس دورے ڈرامے ایک تایخی حیثیت کے تو ضرور حامل ہیں لیکن ادبی اور فنی اعتبار سے زیادہ بلند درجہ نہیں رکھتے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں جن لوگوں نے سر پرستی کی انہیں ڈرامے کی ادبی حیثیت سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی بلکہ انھوں نے ڈرامے کو تجارتی بنیادوں پر اپنایا تھا ۔

 اس کے بعد ڈرامے کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے اس دور کے ڈرامہ نگاروں میں حکیم احمد شجاع ،سیّد امتیاز علی تاج،آغا شاعردہلوی،وغیرہ قابلِ ذکر ہیں ۔یہ وہ ڈرامہ نگار ہیں جنہوں نے قدیم تھیٹھر روایات سے بھی فائدہ اٹھایا اور جدید انگریزی اور یورپی ڈرامے سے بھی واقفیت رکھتے تھے ۔چنانچہ انہوں نے جو ڈرامے لکھے ان میں قدیم وجدید ڈرامے کی روایات کا اجتماع نظر آتا ہے۔اس زمانے کے ڈرامے میں عشق ومحبت کے علاوہ معاشرتی اور سماجی موضوعات پر بھی ڈرامے لکھے گئے۔زبان وبیان کے اعتبار سے بھی وہ ڈرامے خاصے کامیاب نظر آتے ہیں ۔آزادی کے بعد پاکستان میں آر ٹ کو نسلوں،ریڈیو اور ٹیلی ویژن نے ڈرامے کے فروغ میں نمایاں کردار انجام دیا۔اس حوالے سے جو ڈرامہ نگار سامنے آئے ہیں ان میں مرزا ادیب ،اپندرناتھ اشک،آغا بابر،خواجہ معین االّدین اور اشفاق احمد کے نام ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔

 

 

سوال

 سوپ اوپرا کے ارتقاء اور خصوصیات  پر نوٹ لکھیں۔

21 فروری 1947 کو یعنی آج سے پورے 59 برس پہلے ٹیلی وژن کا پہلا ’سوپ اوپرا‘ منظرِ عام پر آیا، نام تھا:

A woman to remember

اس سے پہلےسن 30 کے عشرے میں امریکی ریڈیو سٹیشنوں سے سلسلہ وار ڈرامے شروع ہو چکے تھے جنھیں دِن کے وقت گھریلو خواتین سنتی تھیں چنانچہ اشتہاری وقفوں میں زیادہ تر صابن کی تشہیر کی جاتی تھی۔

مزے کی بات یہ ہے کہ جب ٹیلی وژن پر روزانہ قِسط والے اِن ڈرامائی سلسلوں کا آغاز ہوا تو اولّین ڈرامہ جس موضوع پر تحریر کیا گیا وہ بذاتِ خود ’ریڈیو سوپ‘ ہی تھا یعنی ڈرامے کی کہانی ایک ایسی عورت کے گرد گھومتی تھی جو ریڈیو کی صدا کار ہے اور ایک مشہور ریڈیو سوپ میں کام کر رہی ہے۔ اسی سوپ میں کام کرنے والا ایک اور کردار اسکی جان کا دشمن بنا ہوا ہے۔ وہ ریڈیو ڈرامے کی ریہرسلوں میں اسے پریشان کرتا ہے، ڈرامہ نشر ہونے کے دوران بھی اسے ستاتا ہے اور ریڈیو سے باہر کی زندگی میں بھی ہاتھ دھو کے اُس کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔

آخر ریڈیو سٹیشن میں کام کرنے والے ایک اور کردار کو خاتون سے ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے جو آہستہ آہستہ محبت میں بدل جاتی ہے۔

ٹیلی وژن کا یہ اوّلین سوپ صرف ڈھائی سال تک چلا لیکن اس میں کام کرنے والے فنکاروں کو اتنی شہرت ملی کہ بعد میں اُن کے ڈرامے سال ہا سال چلتے رہے۔

جنوبی ہند کےمقبولِ عام سوپ ستارے چیتن اور دیپا

1956 میں شروع ہونے والا امریکی سوپ:

As the World Turns

آج تک چل رہا ہے اور خاصا مقبول ہے۔

اسی طرح جنوری 1973 میں شروع ہونے والا ’آل مائی چلڈرن‘ بھی آج تک پورے زور شور سے جاری ہے۔

روزانہ چلنے والے دو اور سوپ ڈرامے بھی یہاں قابلِ ذکر ہیں کیونکہ انھیں چلتے ہوئے چالیس برس سے زیادہ ہوگئے ہیں لیکن اُن کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آیا اور یہ ڈرامے ہیں:

Days of our lives

اور

General Hospital

برطانیہ میں آئی ۔ ٹی ۔ وی نے 9 دسمبر 1960 کو اپنے سلسلہ وار کھیل ’کارونیشن سٹریٹ‘ کا آغاز کیا تھا اور آج چھیالیس برس بعد بھی یہ سلسلہ کامیابی سے جاری ہے۔

امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ آسٹریلیا کے ٹیلی وژن نے بھی سوپ اوپراز یعنی صابن ڈراموں کو خوب مقبولیت بخشی ہے اور دو آسٹریلوی سلسلے

Neighbours

اور

Home and Away

تقریباً ساری دُنیا میں دکھائے جا چُکے ہیں۔

مغربی ملکوں کے بعد مشرق میں بھی صابن ڈراموں کا چلن ہو گیا ہے اور آج کل جاپان، چین، تھائی لینڈ، روس اور مشرقِ وسطیٰ میں روزانہ چلنے والے کئی کھیل کسی نشے کی طرح ناظرین سے چمٹ چکے ہیں۔ عربی زبان میں سب سے زیادہ سوپ مصر میں تیار ہوتے ہیں اور ساری عرب دنیا میں دکھائے جاتے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں ٹی وی دیر سے پہنچا لیکن 1964 میں لاہور کا تجرباتی ٹی وی سٹیشن قائم ہونے کے کچھ ہی عرصہ بعد سلیم چشتی کا لکھا ہوا ایک سلسلے وار ڈرامہ پی۔ ٹی۔ وی سے نشر ہونے لگا۔

پاکستان ٹیلی وژن: پرانے ڈراموں کے مقبول فنکار روحی بانو اور مسعود اختر

1965 کی پاک بھارت جھڑپوں میں پاکستانی ٹیلی وژن نے پروپیگینڈا کے محاذ پر جو کامیابیاں حاصل کیں اُن کے باعث ٹی وی کی مقبولیت میں فوری طور پر اضافہ ہو گیا، اور سلسلہ وار کھیل کی مانگ بھی بڑھنے لگی۔

اس موقعے پر ریڈیو پاکستان میں بطور سٹاف آرٹسٹ کام کرنے والے اشفاق احمد خم ٹھونک کر میدان میں آئے اور انھوں نے ٹاہلی تھلّے اور اُچّے برج لاہور دے جیسے سلسلے تحریر کئے جن میں اُردو پنجابی کے ملے جلے کردار تھے۔

لاہور میں منو بھائی، انور سجاد، بانو قدسیہ، امجد اسلام امجد اور بعد میں اصغر ندیم سیّد نے اس کام کو آگے بڑھایا جبکہ کراچی میں حسینہ معین، فاطمہ ثریا بجیا اور حمید کاشمیری اس طرح کے کھیل لکھتے رہے۔

سلسلے وار ڈرامے کی مقبولیت کے باوجود ہمارے یہاں روزانہ قسطوں والا صابن ڈرامہ عرصہ دراز تک رواج نہ پا سکا، البتہ بھارت میں ساس بہو کی گھریلو کہانیوں پر مبنی سلسلے جو شروع میں محض ہفتہ وار تھے بعد میں مسلسل چار دِن تک دکھائے جانے لگے۔

روزانہ سوپ کا تصوّر ہمارے لئے آج بھی کسی حد تک نیا ہے لیکن ٹی۔ وی چینلز کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اُن کا باہمی مقابلہ اب اس موڑ پر آن پہنچا ہے جہاں زیادہ اشتہار حاصل کرنے کے لئے ہر چینل زیادہ سے زیادہ قسطوں والے ڈراموں کی تلاش میں ہے۔

سوال

انٹرنیٹ اور ٹیلی ویژن کے اسلامی دنیا پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں تنقیدی جائزہ لیں ۔

آج جس دور میں ہم جی رہے ہیں یہ جدید ٹیکنا لوجی کا دور ہے، اور ٹیکنالوجی کی اہمیت سے کوئی باشعور شخص انکار نہیں کرسکتا، انسانی زندگی کا کوئی شعبہ اس ٹیکنالوجی سے خالی نہیں رہا، چاہے وہ تعلیم کا شعبہ ہو یا کھیل کا ، زراعت ہو یا صنعت و تجارت ، طب کا شعبہ ہو یا میدان جنگ ہو،لباس، کھانا، سفر ، سواری،رہن سہن غرضیکہ صبح بستر سے اٹھنے سے لے کر دوبارہ بستر پر جانے تک انسان ٹیکنالوجی میں گھرا ہے ۔

اس ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کو تو بہت آسان بنا دیا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے ہماری طرز زندگی پر بڑے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں ، ہماری سوچ وفکر، گفتگو، تہذیب و ثقافت کو بدل کررکھ دیا ہے، یہ اثرات مثبت بھی ہیں اور منفی بھی ہیں۔

(2) جدید ٹیکنالوجی کے مثبت اثرات

ٹیکنالوجی دنیا میں آئی اور اس نے انسان کو اپنا عادی بنا لیا، اب انسان ٹیکنالوجی کا عادی ہو چکا ہے اور اس کے بنا نہیں رہ سکتا۔ انسان ہمیشہ سے اپنے لئے آسانی ڈھونڈتا رہا ہے اور اس مقصد کے لئے طرح طرح کی نئی ٹیکنالوجی تیار کر لی۔ہماری زندگی میں ایجادات کا سلسلہ جاری ہے روزانہ بیسیوں چیزیں ایسی دیکھنے میں آتی ہیں جنہیں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبہ جات مثلاً زراعت، توانائی، تجارت، سفر اور رابطوں کے لئے ٹیکنالوجی نہایت اہم کردار ادا کر رہی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر زرعی پیداوار کے لئے زرعی مشینری، توانائی کے حصول کےلئے جدید نیوکلر، شمسی اور ہوا کی توانائی کا استعمال شروع کر دیا گیا ہے۔انسان نے زمین سے اپنے سفر کا سلسلہ گھوڑے اور خچر سے شروع کیا اور اب جدید دور میں گاڑی، ریل گاڑی اور ہوائی جہاز پر سفر کر رہا ہے۔جدید دور کے انٹرنیٹ نے برقی پیغامات یعنی ای میل اور چیٹ کے ذریعے پیغام رسانی کو آسان بنا دیا ہے اور اس طرح انسانوں کے درمیان دوریاں ختم ہو گئی ہیں۔ انسان دنیا میں کہیں بھی بیٹھا ہو، اپنے کسی بھی عزیز سے ای میل اور چیٹنگ اور وائس چیٹ کے ذریعے بات چیت کر سکتا ہے۔

ٹیکنالوجی نے دوریوں اور فاصلوں کوختم کر دیا ہے۔ موبائل فون جدید دور کی اہم ٹیکنالوجی ہے۔ دور حاضر کی اس جدیدٹیکنالوجی نے انسانی رابطوں کے سلسلے کو آسان بنا دیا ہے اور مسلمان کے لئے   صلہ رحمی اور رشتہ داری نبھانا ، دور دراز کے رشتہ داروں کے حالات سے باخبر رہنا آسان ہوگیا ہے۔

انسان نے کمپیوٹرٹیکنالوجی کو ایجاد کر کے اپنے بیشتر مسائل کوحل کر لیا ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں کمپیوٹر اہم جز بن گیا ہے۔اکیسویں صدی کی زندگی میں کمپیوٹر بہت اہمیت رکھتاہے۔ حساب کتاب، ڈیزائننگ، اردو اور انگلش ٹائپنگ، موبائل، ویب اور دیگرسوفٹ ویئرز نے متعدد معاملات کو آسان بنا دیا ہے، سوفٹ ویئرز کے آنے سے پہلے ان معاملات کوحل کرنے میں بہت مشکلات پیدا ہوتی تھیں۔

اس کے علاوہ انٹرنیٹ کی بدولت گھر بیٹھے کاروباری لین دین بھی آسان ہو گئی ہے۔ یونیورسٹیز میں ٹیکنالوجی کے ذریعے آن لائن تعلیم کا نظام متعارف کرا دیا گیا ہے، اب جو لوگ کاروبار کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ آن لائن تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ دینی تعلیم کے میدان میں بھی ٹیکنالوجی نے بہت سہولیات فراہم کی ہیں، بہت سی کتب ڈیجیٹل موڈ میں انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں جن تک رسائی پہلے عام طالب علم کے لئے نہایت مشکل تھی، بہت سی قیمتی کتب کا ذخیرہ ، احادیث کی تخریج،اور اہم علماء کے آڈیو ، ویڈیو دروس بآسانی انٹرنیٹ سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔

(3) جدید ٹیکنالوجی کے منفی اثرات

یہ بات ایک حقیقت ہے کہ آج اقوام عالم میں سب سے بڑا اور مؤثرہتھیار میڈیا ہےجس کی ہر گھر تک رسائی جدید ٹیکنالوجی کی مرہون منت ہے۔میڈیا جس میں ٹیلی ویژن کے چینلز ، اخبارات، ویب سائٹس شامل ہیں ، ایک ایسا مؤثر ذریعہ ہے جس سے پوری قوم کے افکار ونظریات متزلزل کئے جاسکتے ہیں، ان میں ایک بڑی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔

اس بات سے ہم بخوبی واقف ہیں کہ میڈیا کا ایک بہت بڑا حصہ ان ہاتھوں میں ہے جو اسلامی حدود و قیود ، آداب ، ضوابط سے ناواقف ہیں ، بلکہ اسلام کےنام سے خار کھاتے ہیں اور ہمہ وقت اسلامی اقدار اور اخلاق کے پرخچہ اڑانے کی تگ ودو میں مصروف ہیں، اور اپنی ان کوششوں کی بدصورتی کو ’’روشن خیالی‘‘ اور ’’آزادی اظہار رائے‘‘ جیسے خوبصورت ناموں کے پیچھے چھپانے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔

ہمارے بچوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد جن میں لڑکیوں کی اکثریت ہے کا زیادہ تر وقت ٹیلی  ویژن یا کمپیوٹر کے سامنے گزرتا ہے، اکثر مائیں اپنے بچوں کی تربیت سے جان چھڑانے کی خاطر انہیں ٹیلی ویژن پر کارٹون دکھانے میں مشغول کردیتی ہیں، اکثر نوجوان لڑکے لڑکیوں کے پاس موبائل فون، سمارٹ فون، ٹیبلٹ، لیپ ٹاپ وغیرہ موجود ہیں ، اور بدقسمتی سے اکثر والدین اس بات سے ناواقف ہوتے ہیں کہ ان کے بچے کی موبائل فون وغیرہ پر کیا مصروفیات ہیں ؟،اور ان کی آنکھیں اس وقت کھلتی ہیں جب کوئی سانحہ ہوجاتا ہے۔

ٹیلی ویژن میں دکھائے جانے والے کارٹونز اور فلموں میں ایسے کردار بنائے جاتے ہیں جو اسلامی عقائد سے بالکل متضاد ہوتے ہیں ، دیوی دیوتاؤں کی تصوراتی دنیا ، انہیں ایسے مافوق الفطرت کردار میں دکھایا جاتا ہے جن کی مرضی سے دنیا چلتی ہے، ایسی زبان استعمال کی جاتی ہے جو اسلامی اقدار کے منافی ہوتی ہے اور بچوں اور نوجوانوں کے ذہن میں بیٹھ جاتی ہے اور پھر وہ ویسی ہی زبان استعمال کرتے ہیں، ایسے اخلاق باختہ مناظر ہوتے ہیں جو بچوں اور نوجوانوں کی حیا اور شرم کو مٹا کر رکھ دیتے ہیں ، اور پھر جب سارا دن یہ بچے اور نوجوان ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر پر یہ سب کچھ دیکھتے اور سنتے ہیں تو ان کا کردار بھی ویسا ہی ہوتا ہے، پھر وہ والدین کو کسی خاطر میں نہیں لاتے، اپنی مرضی اور چاہت پر مصر ہوتے ہیں ، اطاعت اور فرمانبرداری کی حس مر چکی ہوتی ہے تو والدین کو شکایت ہوتی ہے کہ ہماری اولاد فرمانبردار نہیں !۔ اس معاملہ میں سب سے بڑے قصور وار وہ والدین ہیں جو یہ نہیں سمجھتے کہ ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر دراصل وقت گزاری کا ذریعہ نہیں بلکہ بچے کی ذہنی تربیت کا سب سے بڑا استاد ہے، بچہ جو کچھ ٹیلی ویژن میں دیکھتا ہے وہ ویسا ہی کرنے کی کوشش کرتا ہے، اگر اس نے اپنے بڑوں کے ساتھ وقت گزارا ہوتا، اپنے والدین کے ساتھ زیادہ تر وقت رہتا ، ان کی باتیں سنتا سمجھتا تو آج یقینا ان والدین کو یہ شکایت نہ ہوتی۔

انٹرنیٹ کے متعلق چند چشم کشا حقائق:

1 پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد تین کروڑ سے متجاوز ہے۔

2 انٹرنیٹ صارفین میں مرد وں اور خواتین کا تناسب 70-30 کا ہے، یعنی پاکستان میں تقریبا ایک کروڑ خواتین انٹرنیٹ استعمال کرتی ہیں۔

380 فیصد انٹرنیٹ صارفین دن میں اوسطا دو سے تین گھنٹے انٹرنیٹ پر صرف کرتے ہیں۔

4 سوشل ویب سائٹس کے صارفین قریبا ایک کروڑ ہیں۔

5 سوشل ویب سائٹس کے صارفین میں سے دو تہائی صارفین 25 سال سے کم عمر ہیں۔[3]

ان حقائق سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کم عمر لڑکے اور لڑکیوں کی کتنی بڑی تعداد اپنا زیادہ تر وقت انٹرنیٹ پر صرف کرتی ہے، اور انٹرنیٹ سے وہ سب کچھ سیکھتے ہیں جو انہیں اپنے والدین سے سیکھنا چاہئے، ان کی سوچ ، فکر، طرز گفتگومیں انٹرنیٹ کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔

  انٹرنیٹ کے چند بڑے نقصانات:

انٹرنیٹ کے یقینا بہت سے فوائد ہیں جن سے کسی کو انکار نہیں ، لیکن اس کے نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں جس سے کوئی نظریں نہیں چرا سکتا، بچوں کو انٹرنیٹ فراہم کردینا اور پھر ان کی نگرانی نہ کرنا ایک ایسا المیہ ہے جس نے ہماری نوجوان نسل کی حیا کا جنازہ نکال دیا ہے۔ بچوں کی نگرانی کرنے کا ہرگز بھی یہ مقصد نہیں ہے کہ ان پربلاوجہ شک کیا جائے ، بلکہ اس کا مقصد صرف اتنا ہے کہ بچے کو معلوم ہو کہ مجھے ہر چیز کی آزادی حاصل نہیں ۔ انٹرنیٹ کے بڑے نقصانات میں سے چند درج ذیل ہیں:

(1) عقائد میں بگاڑ اور فساد

انٹرنیٹ کے صارف کے سامنے ایک پوری دنیا کھلی ہے، وہ جو چاہے دیکھ سکتا ہے سن سکتا ہے پڑھ سکتا ہے، ہزاروں لاکھوں ویب سائٹس تک اس کی رسائی ہے، اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے دشمنان اسلام نے مسلمانوں کے عقائد و نظریات کو تبدیل کرنے کا سب سے آسان اور مؤثر ذریعہ انٹرنیٹ ہی کو بھرپور استعمال کیا ہے، کسی بھی سرچ انجن میں لفظ’’GOD‘‘لکھتے ہی ہزاروں عیسائی ویب سائٹس سامنے آجاتی ہیں، اسی طرح یہودی دعوتی ویب سائٹس کی بھی مختلف زبانوں جیسے انگلش، عربی، جرمن وغیرہ میں بھرمار ہے ، ایک اندازہ کے مطابق صرف ایک مہینہ میں ان یہودی اور اسرائیلی ویب سائٹس کے زائرین کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہے۔جہاں تک دیگر مذاہب باطلہ کی بات ہے تو ان کی بھی بےشمار دعوتی ویب سائٹس موجود ہیں ، جن میں قادیانی ، منکرین حدیث، کذاب ،مدعی نبوت جیسے یونس کذاب جس نے ہالینڈ میں نبوت کا جھوٹا دعوی کیا ہے کی ویب سائٹ موجود ہے، اسی طرح ملعون گوہر شاہی کے خلیفہ اور ماننے والوں کی ویب سائٹس بھی موجود ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ شیطانی مذہب کے پیروکار جو کہ تمام ادیان کے انکاری ہیں اور کفروالحاد کے داعی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت اور عفت وحیا ، اور محرمات کے ساتھ نکاح نہ کرنے کی پابندی کو لغو قرار دیتے ہیں ، برہنہ رہنے ، ہر قسم کی برائی کرنے اور شیطان کی عبادت کرنے کی ترغیب دیتے ہیں ، ایسے شیطان کے پجاریوں کی ویب سائٹس بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔

مسلم نوجوان جو عموما ویسے بھی بدقسمتی سے اسلامی عقائد سے مکمل آگاہ نہیں اور دین سے بیزار ہےوہ ان ویب سائٹ کا براہ راست نشانہ ہے، کتنے ہی مسلم نوجوان اس قسم کی ویب سائٹس کا وزٹ کرکے اور ان کا لٹریچر پڑھ کر گمراہ ہوچکے ہیں، واللّٰہ المستعان۔

 

سوال

درج ذیل پر نوٹ لکھیں۔ ۔

الف ۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نشریاتی ادارے

ریاست ہائے متحدہ امریکا کا سرکاری بین الاقوامی نشریاتی ادارہ ہے جس کاصدر دفتر واشنگٹن ڈی سی میں واقع ہے اس کا قیام یکم فروری 1942ءکو

کی سماعت منصف اعظم پاکستان کی عدالت میں گوہر شاہی کے حق میں نعرے لگانے پر دس 10 افراد گرفتار ریاست ہائے متحدہ امریکا کے محکمہ ء آزادی ء مذہب کی رپورٹ

یو ایس ایس آر کے زوال کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا دوسری جنگ عظیم کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بے مثال ترقی و خوشحالی ہوئی امریکیوں

بڑی عالمی طاقت کی حیثیت سے اپنے بارے میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے وژن کو مضبوطی سے قائم کیا اور دو اس میں کیوبا کے امریکی تعلقات پر شدید مضمرات

سکتا ہے ہم آپ کے پاس ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں نہیں آسکتے ہیں لیکن انفرادی عرب آپ تک پہنچ سکتے ہیں . ہم امریکہ کو دشمنوں میں شامل نہیں کرتے ہیں

اختیار کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات میں دبئی میں قیام کیا اسی دوران بے نظیر نواز شریف اور دیگر پارٹیوں کے سربراہان کے ساتھ مل کر لندن میں اے آر ڈی کی بنیاد

کلیکشن سے ہوا تھا جس میں ساڑھے چھ ہزار کتابیں تھیں اسی لیے لائبریری کی مرکزی عمارت کا نام جیفرسن بلڈنگ ہے تھامس جیفرسن کی کتابوں میں ایک قرآن پاک بھی تھا

یورپی دفاتر میں کام کرنے والے کچھ اہلکار ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہجرت کرگئے جب ڈبلیو جے سی نے اپنا صدر دفتر وہاں منتقل کیا 1940 کی دہائی میں نیو یارک کے

اللہ نوری شامل تھے جبکہ ان میں چیف آف انچارج خورداد شامل تھے اس دوران بھی شائع ہوئے نئے اخبارات جو تیزی سے نئے شعبوں میں داخل ہو رہے تھے جن پر تقریبا

یہودی فرانس کی سلطنت کے خاتمے اور چھ روزہ جنگ کے نتیجے میں فرانس چلے گئے تھے ریاست ہائے متحدہ امریکہ بہت سے مصری لبنانی اور شامی یہودیوں کی منزل تھی عرب

ب۔  فارمیٹ کی تعریف اور مثال

فرانسیسی شکل یا اطالوی فارمیٹ سے ، اصطلاحی شکل کسی شکل ، تصویر ، پینٹنگ ، وغیرہ کے سائز اور پیمائش سے مراد ہے ۔ مثال کے طور پر: “براہ کرم یہ دستاویزات اے 4 فارمیٹ میں پرنٹ کریں جو مجھے میونسپلٹی کے سامنے پیش کرنا چاہئے” ، “دستی قانونی شکل میں ہے ، لہذا ہمیں اسے ذخیرہ کرنے کے لئے بڑے فولڈر کی ضرورت ہے” ، “فبیان نے مجھے 13 13 فارمیٹ فوٹو فریم دیا 18 ” ۔

فارمیٹس کے کاغذ بہترین معروف میں معیاری لوگ ہیں 1922 کی طرف DIN 476 سٹینڈرڈ ایک جرمن ادارے کی. اس معیار نے بین الاقوامی مساوی ( آئی ایس او 216 ) کی بنیاد کے طور پر کام کیا ، اگرچہ بہت سارے ممالک اب بھی دوسرے روایتی نظاموں کا استعمال کرتے ہیں۔

آئی ایس او 216 کے ذریعہ تسلیم شدہ فارمیٹس کو 0 سے 10 تک سائز کے ساتھ ، تین سیریز ( A ، B اور C ) میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ دنیا بھر میں سب سے مشہور کاغذی شکل A4 ہے (یعنی سیریز A سائز 4 ، 210 x 297 ملی میٹر کے برابر ہے )۔

میں امریکہ لاطینی امریکی بعض ممالک اور میں، جیسے فارمیٹس خط ، Oficiیا فولیو ) اور قانونی استعمال کیا جاتا ہے .

سب ایک کے تکنیکی اور رسمی خصوصیات پروگرام ٹیلی ویژن یا ریڈیو یا ایک آودک جاتا ہے : بھی شکل کے طور پر جانا جاتا ہے “اداکارہ نے اعلان کیا ہے کہ یہ کریں گے پٹی کی شکل کے ساتھ ایک میکسیکن سیریز میں حصہ لینے” ، ریڈیو کی شکل کی طرح “میں میگزین ” ، “ مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم مزید کفیل افراد کو راغب کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں رسالہ کی شکل میں ترمیم کرنا پڑے گی ” ۔

کمپیوٹنگ کے لئے ، ایک فارمیٹ ایک خاص ڈھانچہ ہوتا ہے جو کمپیوٹر کو معلومات کو بائنری کوڈ میں تبدیل کرنے اور اس کے برعکس دیتا ہے۔ کچھ مشہور فارمیٹس JPEG (تصویری)، AVI (ویڈیو)، اور DOC (ٹیکسٹ فائل) ہیں۔

حالیہ برسوں میں ، ڈیجیٹل فارمیٹ میں موجود مواد نے زیادہ سے زیادہ وزن حاصل کیا ہے ، جو جسمانی اشیاء کی مخالفت کرتا ہے ، عام طور پر ڈی وی ڈی یا بلو رے پر ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ تاہم ، جسمانی سے ڈیجیٹل میں اس منتقلی کی تمام علاقوں میں یکساں طاقت کے ساتھ تعریف نہیں کی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ یقین دہانی کرانا ممکن ہے کہ آج تخلیق کردہ 99 فیصد ویڈیوگیموں کے پاس ڈاؤن لوڈ کے قابل ورژن ہے (متعدد بار ، خصوصی طور پر) ، مثال کے طور پر فلموں میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ اس فرق کی وجوہات مواد کو ذخیرہ کرنے کے لئے ضروری خلا میں نہیں ہیں ، کیونکہ موجودہ نسل کے کھیل عام طور پر 10 جی بی (گیگا بائٹ) سے تجاوز کرتے ہیں ، اور ان کا وزن 45 جی بی کے قریب ہونا زیادہ عام ہے۔ . اس رجحان کا بنیادی تغیر عوام الناس: ویڈیو گیم صارفین اکثر تکنیکی ترقی کے ذریعہ بہکاتے ہیں اور ، اگرچہ ان میں سے ایک بڑی تعداد اپنے پسندیدہ کھیلوں سے جسمانی رابطے سے محروم نہیں رہنا چاہتی ہے ، لیکن ڈیجیٹل فارمیٹ کے کچھ تکنیکی فوائد انھیں مجبور کرتے ہیں۔ چھلانگ

ڈیجیٹل فارمیٹ میں ویڈیو گیمز کی تقسیم کی ایک طاقت توانائی کی بچت ہے جس میں اس کی ضرورت ہوتی ہے ، کیونکہ یہ ڈسک ریڈر اور موٹر کو چلانے سے انکار کرتا ہے جس سے گرمی پیدا ہوتی ہے جس سے یہ کنسول میں پیدا ہوتا ہے اور ریفریجریشن کے نتیجے میں ضرورت؛ بے شک ، یہ فرق اس وقت پایا جاتا ہے اگر اسٹوریج میڈیم میں فلیش میموری ٹکنالوجی موجود ہے ، کیونکہ ہارڈ ڈرائیو میں بھی میکانی حصے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف ، ویڈیو گیم کا مقامی میموری اسٹوریج عام طور پر پڑھنے کی رفتار کو تیز کرتا ہے اور اس کی کارکردگی کو بہتر بناتا ہے ، حالانکہ یہ استعمال شدہ ٹیکنالوجی پر منحصر ہے۔ یہ ذکر کرنا چاہئے کہ یہ کتنا ہی سہولت فراہم کرتا ہے ، ڈیجیٹل فارمیٹ میں مصنوعات کو ذخیرہ کرنے کے ل disc ڈسکس یا کارڈ خریدنے کے لئے مالیاتی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر ڈاؤن لوڈ کے قابل متبادل کی قیمت جسمانی ورژن کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم نہیں ہے ،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Services

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی  کی   حل شدہ اسائنمنٹس۔ پی ڈی ایف۔ ورڈ فائل۔ ہاتھ سے لکھی ہوئی، لیسن پلین، فائنل لیسن پلین، پریکٹس رپورٹ، ٹیچنگ پریکٹس، حل شدہ تھیسس، حل شدہ ریسرچ پراجیکٹس انتہائی مناسب ریٹ پر گھر بیٹھے منگوانے کے لیے  واٹس ایپ پر رابطہ کریں۔ اس کے علاوہ داخلہ بھجوانے ،فیس جمع کروانے ،بکس منگوانے ،آن لائن ورکشاپس،اسائنمنٹ ایل ایم ایس پر اپلوڈ کروانے کے لیے رابطہ کریں۔

WhatsApp:03038507371

Recent Posts

To Get All AIOU Assignments Contact Us On WhatsApp​

error: Content is protected ! click on any one google Ads to copy meterial
Open chat
Hello!
How Can I Help You

Adblock Detected

Please Turn Off AD Bloker