Apna Business PK

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ANS 01

تعلیمی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دلکش اور دل پذیر انداز میں معلومات کو پیش کرنے کے فن سے واقف اساتذہ ہی موثر تدریس اور بہتر اکتساب فراہم کرنے میں کامیابی حاصل کر تے ہیں۔تدریس ایک معمولی کام نہیں بلکہ تنظیم و ترتیب ،محنت شاقہ ،سنجیدہ غور و فکر کے تسلسل کا دوسرا نام ہے۔عموماً دیکھا گیا ہے کہ کمرۂ جماعت میں استادیک عالم ،فاضل شخص کی صورت میں داخل ہوتا ہے اور معلومات کو بغیر کسی تنظیم و ترتیب اور منصوبہ بندی کے روایتی اندا ز میں منتقل کرنے میں جٹ جاتا ہے۔ دوران تدریس طلبہ پر اپنی علمیت کا سکہ جمانے کی سعی و کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ بچے بے بسی سے استاد کی علم و فضیلت کی اس بے موسم اور غیر متوقع بارش سے سہم جاتے ہیں۔ ان کے پاس پڑھائے جانے والے سبق کو بے دلی سے (passively)سننے کے کوئی دوسرا راستہ نہیں رہتا ۔افتادگی، بے دلی اور بوجھ پن کے ساتھ وہ معلومات کو اپنی بیاضوں (نوٹ بکس) میں تحریر کر نے لگ جاتے ہیں۔،تحریر کردہ نوٹس کو رٹّہ لگاکر ، امتحان گاہ یا پھر کمرۂ جماعت میں لوٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔جب یہ سب ہونے لگے تب ہم کیسے ایک فطری تعلیمی عمل کی توقع کرسکتے ہیں۔ اس طرح کی تدریس سے بچوں کی معلومات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوتااوربچوں میں سطحی پن بھی پیدا ہونے لگتا ہے۔ معلومات کی زندگی بہت مختصر ہوتی ہے اور بہت ہی قلیل مدت میں وہ بچوں کے ذہن سے محو بھی ہوجاتے ہیں۔اس طور سے فراہم کردہ تمامتر معلومات کو طلبہ یاد نہیں رکھ پاتے ، جس کی وجہ سے وہ ان معلومات کی شناخت ،اطلاق اور استعمال سے بھی عاجز نظر آتے ہیں۔ ماہرین تعلیم نے کبھی بھی اس طریقہ تدریسکو اعتبار کی نگاہ سے نہیں دیکھا ہے۔کئی مرتبہ اساتذہ اپنے مضمون اور موضوع پر عبور و دسترس کے باوجودعامیانہ اور غیر موثر طریقہ سے معلومات کی پیش کشی کی وجہ سے دلچسپ اکتسابی فضاء پیدا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ فن تدریس اساتذہ سے کمرۂ جماعت میں اپنے معلومات کی پیش کشی کو بہتر بنانے کا مطالبہ کرتی ہے۔اساتذہ مناسب اور منظم طریقوں کو برؤے کار لاتے ہوئے معلومات کی منتقلی کو یقینی بنائیں تاکہ بامقصد اور کارآمد اکتساب کو پروان چڑھایا جاسکے۔آج کے تصنع اور ریاکاری سے پر سماج نے جہاں طلبہ کو تن آسان ،سہل پسند اور غفلت کا خوگر بنادیا ہے وہیں اساتذہ کی ذمہ داریاں اور پیشہ وارانہ تقاضوں کوپہلے سے کئی زیادہ بڑھا بھی دیا ہے۔ماہر تعلیم ہربرٹ اسپنسر نے سبق کی منصوبہ بندی میں معلومات کی پیش کش (Presentation of Knowledge)کوسب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ معلومات کی پیش کشی کے اثرات کو درس و تدریس اور اکتساب پر واضح طور پر محسو س کیا جاسکتا ہے۔ مضبوط و مستحکم اکتساب کی بنیادیں معلومات کی پیش کش پر تعمیر کی جاتی ہیں۔طلبہ میں پھیلی سستی ،بے فکری اور عدم توجہ کی وجہ سے ان کا مستقبل تبا ہ وتاریک ہو رہا ہے۔ ایسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں طریقہ تدریس کو دلچسپ و موثر بنا تے ہوئے اساتذہ، طلبہ کی صلاحیتوں کوپروان چڑھا نے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ذیل میں صراحت کردہ رہنمایانہ خطوط پر عمل آور کے ذریعے اساتذہ معلومات کی پیش کشی میں اصلاح و ترمیم کے ذریعے سبق کی پیش کش کو مزید دلچسپ اور مفید بنا سکتے ہیں۔
(1)فن تدریس کا سب سے پہلا اصول پڑھانے سے پہلے طلبہ کو پڑھنے کے لئے آمادہ(تیار) کرنا ہے۔سبق کی تدریس سے قبل بچوں میں سیکھنے کا جذبہ ،شوق و ذوق پیدا کیا جائے۔ شوق و ذوق کی بیداری اور محرکے کے بغیر یہ کام انجام دینا بہت ہی مشکل ہے۔بچوں میں محرکہ پیدا کرنے میں سابقہ معلومات کا اعادہ بے حد کارگرہو تا ہے۔سبق یا معلومات کی پیش کش کا آغاز حوصلہ افزا ء سوالات، دلچسپ سرگرمی یاسابقہ معلومات کے اعادہ سے انجام دیں۔یہ طرزعمل سابقہ معلومات اور نئی معلومات میں ایک تسلسل پیدا کرتے ہوئے سبق و معلومات کی تفہیم کو آسان بنا نے میں معاون ہوتا ہے۔اس کے علاوہ اس طریقہ کار کے ذریعے طلبا نئی معلومات کو بہت جلد قبول کر پاتے ہیں۔اساتذہ معلومات کی پیش کش میں بہت احتیاط سے کام لیں۔ نئے معلومات کی ترسیل سے قبل طلبہ کی سابقہ معلومات سے مکمل طور پر آگہی حاصل کریں۔پچھلی جماعتوں میں پیش کیئے گئے معلومات اور مفروضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے نئے معلومات پیش کریں۔ہربرٹ کی نظر میں سبق کو موثر بنانے کے لئے سبق کی موثر تیار ی ضروری ہے۔اگر استاد سبق پڑھنے کی موثرتیاری کرئے گا تبھی طلبہ میں سبق پڑھنے کا شوق اور محرکہ پیدا ہوگا۔ہربرٹ نے بچوں کی سابقہ معلومات سے سبق اور تدریس کو جوڑنے پر بہت زور دیا ہے۔وہ بچوں کی سابقہ معلومات پر سبق کی بنیاد رکھنے کا موئید نظر آتا ہے۔ میرا تدریسی تجربہ بھی اساتذہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ تدریس کو مفید اور موثر بنانے کے لئے معلومات پیشکرنے کا آغاز طلبہ کی سابقہ معلومات سے کریں۔اساتذہ مناسب طریقے سے سابقہ معلومات کو پڑھائے جانے والے مواد سے مربوط کردیں تاکہ طلبہ کو نفس مضمون کی تفہیم میں کوئی دقت اور پریشانی نہ ہو۔

(2)معلومات کی پیش کش، کو موثر بنانے میں طلبہ کے نفسیاتی تقاضوں اور ذہنی استعداد کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔معلومات کی وضاحت اور تفہیم ،طلبہ کی علمی سطح کو مدنظر رکھ کر کی جائے تاکہ وہ بغیر کسی الجھن اور دقت کے ذہنی طور پر معلومات کو قبول کر سکیں۔ سوالات کے ذریعے طلبہ کی علمی سطح کی جانچ اور معیار کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔ طلبہ کی ذہنی اور علمی صلاحیتوں سے معلومات کی پیش کشی کو ہم آہنگ کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے تاکہ طلبہ کی لیاقت اور قابلیت میں قابل قدر اضافہ ہوسکے۔مختصراً اس بارے میں اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ’’طلبہ کی ذہنی بالیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اساتذہ معلومات پیش کرنے کے فرائض انجام دیں۔‘‘
(3)اگر بعض وجوہات کی بناء طلبہ کسی مضمون کی مبادی معلومات ،)بنیادی معلومات Basic knowlege) نہ سکھیں ہوں تب ان کو اس موضوع کی مزید)آگے کی ، اعلیadvance Knowledge (معلومات فراہم کرنا بے فیض اور وقت کا زیا ں ہوتا ہے۔بنیادی معلومات کے بغیر اعلی معلومات پیش کرنا بے معنی ہوتا ہے۔طلبہ میں اکتسابی دلچسپی اور تیزی اس وقت دیکھنے میں آتے ہے جب ان کو کسی بھی موضوع کی بنیادی معلومات کا علم ہوتا ہے یاپھر اعلی معلومات کی پیش کشی سے قبل ان کو بنیادی معلومات فراہم کردئیے جاتے ہیں۔اگر طلبہ کی بنیادی معلومات اور ان کی علمی سطح کا ادراک کئیے بغیر تدریسی فرائض انجام دیئے جائیں گے تو یہ ناقص تدریس ہی کہلائی گی۔ اعلی معلومات کی پیش کشی کے دوران استاد کو اس بات کا علم ضروری ہے کہ پیش کردہ معلومات طلبہ کی سابقہ معلومات سے ہم آہنگ اور ان کے معیار کے مطابقہیں۔ اگر طلبہ کسی مخصوص موضوع و مضمون کی مبادیا ت سے نا واقف ہوں تب استاد اعلی معلومات کی فراہمی سے قبل ان کو بنیادی معلومات فراہم کرے تاکہ طلبہ میں نئے معلومات کو حاصل کرنے کا شوق و ذوق پیدا ہوسکے۔

(4)معلومات کی تفہیم و وضاحت کے دوران معروف)معلوم Known)سے غیر معروف)نامعلوم (Unknown کارشتہ جوڑیں۔معروف معلومات سے غیر معروف کی جانب پیشرفت کرتے ہوئے اساتذہ طلبہ کو جذباتی اور ذہنی طور پر اکتساب کے لئے ابھارسکتے ہیں۔ معلومات کی پیش کش کے وقت اس بات کا خاص خیال ر ہے کہ پیش کی جانے والی معلومات طلبہ کی سابقہ معلومات سے مربوط ہوں۔اگر سابقہ معلومات (معروف معلومات) پیش کیئے جانے والے معلومات (نامعلوم معلومات)میں ربط ہوگا تب بچے نئی معلومات آسانی سے سیکھیں گے۔معلوم حقائق کے بل پر غیر معروف حقائق کو آسانی سے سیکھاجا سکتا ہے۔
(5)اساتذہ کو ا درسی کتاب( جو طلبہ کی ضروریات کی تکمیل کی متحمل نہ ہو ) پر سختی سے عمل درآمد کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ یہ ایک معرو ف حقیقت ہے کہ طلبہ کو استاد پڑھتا ہے نا کہ درسی کتاب۔اساتذہ طلبہ کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے لئے دیگر تعلیمی وسائل، ٹولس(تدریسی معاون اشیاء)اور دیگر درسی کتابوں کا بھر پور استعمال کریں تاکہ پریزنٹیشن(پیش کش ) کو موثر بنایا جاسکے۔ سبق کی تدریس ہو یا معلومات کی پیش کش استاد اور طالب علم دونوں کی شراکت ضروری تصور کی جاتی ہے۔ بشب مویشو(Bishop Moisshou)کی کتاب ثانوی درجات کی تدریس سے ایک سطر بیان کرنا میں بے حد ضروری تصور کرتا ہوں تاکہ اساتذہ کو دروان درس و تدریس کوئی شک و شبہ نہ رہے۔”Stduent is the centre of the whole educational process, he is the life of the teachers effort.”اس قول کی روشنی میں اساتذہ درسی کتاب پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے علم کی منتقلی کی جانب اپنی توجہ مرکوز کریں۔ استاد کتنا پڑھا چکاہے یہ بات میری نظر میں اہمیت کی حامل نہیں ہے بلکہ میرے نزدیک بچوں نے کتنا سیکھا یہ بات بہت اہم ہے۔نصاب (syallabus)کی تکمیل کتاب کے پہلے صفحے سے آخری صفحے تک اوراق پلٹنے کا نام نہیں ہے بلکہ درسی کتاب میں پوشیدہ علوم کو طالب علم نے کتنا سیکھا یہ بہت اہمیت والی بات ہے۔سبق کی تدریس میں اساتذہ صرف درسی کتب پر اکتفاء نہ کریں اور درسی کتب کی صحت اور معیار پر مکمل اعتبار نہ کریں ۔اپنے علم اور تجربہ کو بروئے کار لاتے ہوئے تدریسی فرائض انجام دیں۔

(6) منظم تدریس اور پر کیف اکتساب کو پروان چڑھانے کے لئے مناسب مثالوں اور وضاحتوں سے کام لیں۔تدریسی مرحلوں میں منطقی ترتیبکو ملحوظ رکھیں۔روزانہ کی اساس پر سبق کی منصوبہ بندی کریں۔منصوبہ بندی کے دوران استاد روزانہ کے اسباق کی منصوبہ بندی کو پورے نصاب سے مربوط وہم آہنگ رکھے تاکہ نصاب کے مقاصد کو باآسانی حاصل کیاجاسکے۔ماہر تعلیم مائیکل کے مطابقکسی مخصوص دن،ایک خاص مقررہ وقت پر سلسلہ وار اکتسابی تجربات کو سبقکہتے ہیں۔”A lesson may be defined as a series of learning experiences which occur in a single block of time on a particular day.”موثر پیش کش کے لئے اساتذہ کا تعلیمی مواد ، تدریسی معاون اشیاء،تدریسی سرگرمیوں اور دیگر تعلیمی وسائل سے باخبر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ایک باخبر استاد ہی ایک باشعور معاشرہ تعمیرکر سکتا ہے۔
(7)اساتذہ تفہیم ،تشریح اوروضاحتوں کے بیچ طلبہ کو مختصر وقفہ فراہم کریں تاکہ وہ غور و فکر کر سکیں، اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں، اپنے شکوک و شہبات کے ازالہ کے لئے سوالات کر سکیں۔ تفہیم و تشریح کے دوران مختصر وقفہ طلبہ کے لئے سود مند ہوتا ہے۔یہ مختصر سا وقفہجہاں طلبہ کو افہام و تفہیم کے عمل میں ایک فعال کردار اداکرنیپر مائل کرتا ہے وہیں اساتذہ کو بھی آرام و استراحت کا موقعفراہم کر دیتا ہے۔
(8)وضاحت ،تفہیم و تشریح کے لئے استعمال کردہ زبان طلبہ کی معیار کے مطابق ہونی چاہیئے اور اس کے برموقع و برمحل استعمال کے ہنر سے استاد کی آشنائی ضروری ہوتی ہے۔ اساتذہ اہم نکات کی تفہیم کے لئے الفاظ و جملوں پر زور دینے اور مخصوص اشاروں (gestures)کے استعمال سے ہرگز گریز نہ کریں۔

(9)معلومات کی پیش کش کے دوران طلبہ کی جانب سے کیئے جانے والے سوالات کا احیتاط سے سامنا کریں۔طلبہ کے سوالا ت سے بدمزہ اور غصہ ہونے کے بجائے خوش گواری سے پیش آئیں اور سوالات کو تدریس میں ایک موثر وسیلہ کے طور پر استعمال کریں۔
(10)اہم نکات کی مناسب اور وضعی تکرار اہم معلومات کے تعین میں مددگار ہوتی ہے۔ جہاں بھی ضرورت ہو وضاحتی اور تفہیمی خلاصہ پیش کریں۔
(11)تفہیم و وضاحت کے لئے جہاں کہیں ضرورت محسوس ہو تدریسی معاون اشیاء کا استعمال کریں۔تدریسی معاون اشیاء (ٹیچنگ ایڈس) کا استعمال طلبہ میں اکتسابی دلچسپی کو پروان چڑھانے کے ساتھ مشکل تصورات کو عام فہم اور آسان بنانا کر پیش کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔
(12)سبق کے آخر میں طلبہ کی جانچ اور اعادہ سے ان کے اکتساب کی سطح کا علم ہوتاہے ۔پریز نٹیشن (پیش کش ) کے اختتام پر جانچ اور اعادہ سے اساتذہ کی تدریسی تاثیر اور جامعیت کا بھی اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے۔اسی لئے اساتذہ اپنے ہر پریزنٹیشن کے اختتام پر جانچ اور اعادہ (Evaluation @ Recapitulation)سے ضرور کام لیں۔
(13)سبق کا آغاز جس قدر اہمیت کا حامل ہوتا ہے اسی طرح سبق کا اختتام بھی اہم ہوتا ہے۔ بہتر اختتامیہ طلبہ کے ذہنوں پر کبھی نہ مٹنے والے نقش بنادیتا ہے۔سبق کے اختتام پر اساتذہ تھوڑا تجسس باقی رکھیں تاکہ طلبہ میں خود اکتسابی ،تحقیق اور جستجو کی کیفیت پیدا ہو سکے۔اختتام پر کوئی ایسا پہلو نا تمام چھوڑ دیں جس سے طلبہ خود کو تشنہ کام محسوس کر نے لگے ۔یہی تشنگی طلبہ کو تحقیق اور جستجو کی جانب مائلرکھے گی۔ طلبہ میں خوداعتمادی کی کیفیت پروان چڑھے گی ،وہ آزاد اور خود کار اکتساب کی جانب گامزن ہوجائیں گے۔
کمرۂ جماعت (کلاس روم) میں اساتذہ بغیر کسی منظّم منصوبہ بندی کے تیز رفتاری سے اسباق اور نصاب کی تکمیل میں مصروف رہتیہیں۔اسباق و نصاب کی تکمیل کے دوران وہ اکثربھول جاتے ہیں کہ جو معلومات وہ طلبہ کو فراہم کر رہے ہیں کیا طلبہ کے ذہن انھیں جذب بھی کر پا رہے ہیں یا نہیں۔سبق کی تدریس اورمعلومات کو پیش کرنے کے فن (تکنیک) سے اساتذہ کا آراستہ ہونا بے حدضروری ہے۔استاد خواہ کتنا ہی لائق اور قابل ہو اگر وہ معلومات اور سبق کی پیش کش کے فن سے نابلد ہوتب وہ طلبہ میں اکتسابی گراوٹ اور بیزارگی پیدا کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔درس و تدریس کی کامیابی کا انحصار خواہ وہ کوئی بھی مضمون ہواساتذہ کی معلومات (سبق) کی پیش کش پر ہوتا ہے۔سبق طلبہ کے ذہنوں میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوجاتا ہے اگر استاد اس کو دلچسپ اور دل پذیر بناکر پیش کرے۔پیش کش جس قدر موثرہوگی اکتساب کا معیار بھی اتنا ہی بلند و ارفع ہوگا۔تدریس میں تاثیر اور اکتساب میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے تدریس کے فنی اصولوں پر اساتذہ کو کاربند ہونے کی سخت ضرورت ہے۔جب اساتذہ فنی اصولوں کی باریکیوں کو سمجھنے میں کامیاب ہوجائیں گے تب درس و تدریس ان کے لئے نہایت سہل اور دلچسپ سرگرمی بن جائے گی۔

ANS 02

دوران تدریس طلبہ پر اپنی علمیت کا سکہ جمانے کی سعی و کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ بچے بے بسی سے استاد کی علم و فضیلت کی اس بے موسم اور غیر متوقع بارش سے سہم جاتے ہیں۔ ان کے پاس پڑھائے جانے والے سبق کو بے دلی سے (passively)سننے کے کوئی دوسرا راستہ نہیں رہتا ۔افتادگی، بے دلی اور بوجھ پن کے ساتھ وہ معلومات کو اپنی بیاضوں (نوٹ بکس) میں تحریر کر نے لگ جاتے ہیں۔،تحریر کردہ نوٹس کو رٹّہ لگاکر ، امتحان گاہ یا پھر کمرۂ جماعت میں لوٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔جب یہ سب ہونے لگے تب ہم کیسے ایک فطری تعلیمی عمل کی توقع کرسکتے ہیں۔ اس طرح کی تدریس سے بچوں کی معلومات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوتااوربچوں میں سطحی پن بھی پیدا ہونے لگتا ہے۔ معلومات کی زندگی بہت مختصر ہوتی ہے اور بہت ہی قلیل مدت میں وہ بچوں کے ذہن سے محو بھی ہوجاتے ہیں۔اس طور سے فراہم کردہ تمامتر معلومات کو طلبہ یاد نہیں رکھ پاتے ، جس کی وجہ سے وہ ان معلومات کی شناخت ،اطلاق اور استعمال سے بھی عاجز نظر آتے ہیں۔ ماہرین تعلیم نے کبھی بھی اس طریقہ تدریسکو اعتبار کی نگاہ سے نہیں دیکھا ہے۔کئی مرتبہ اساتذہ اپنے مضمون اور موضوع پر عبور و دسترس کے باوجودعامیانہ اور غیر موثر طریقہ سے معلومات کی پیش کشی کی وجہ سے دلچسپ اکتسابی فضاء پیدا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ فن تدریس اساتذہ سے کمرۂ جماعت میں اپنے معلومات کی پیش کشی کو بہتر بنانے کا مطالبہ کرتی ہے۔اساتذہ مناسب اور منظم طریقوں کو برؤے کار لاتے ہوئے معلومات کی منتقلی کو یقینی بنائیں تاکہ بامقصد اور کارآمد اکتساب کو پروان چڑھایا جاسکے۔آج کے تصنع اور ریاکاری سے پر سماج نے جہاں طلبہ کو تن آسان ،سہل پسند اور غفلت کا خوگر بنادیا ہے وہیں اساتذہ کی ذمہ داریاں اور پیشہ وارانہ تقاضوں کوپہلے سے کئی زیادہ بڑھا بھی دیا ہے۔ماہر تعلیم ہربرٹ اسپنسر نے سبق کی منصوبہ بندی میں معلومات کی پیش کش (Presentation of Knowledge)کوسب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ معلومات کی پیش کشی کے اثرات کو درس و تدریس اور اکتساب پر واضح طور پر محسو س کیا جاسکتا ہے۔ مضبوط و مستحکم اکتساب کی بنیادیں معلومات کی پیش کش پر تعمیر کی جاتی ہیں۔طلبہ میں پھیلی سستی ،بے فکری اور عدم توجہ کی وجہ سے ان کا مستقبل تبا ہ وتاریک ہو رہا ہے۔ ایسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں طریقہ تدریس کو دلچسپ و موثر بنا تے ہوئے اساتذہ، طلبہ کی صلاحیتوں کوپروان چڑھا نے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ذیل میں صراحت کردہ رہنمایانہ خطوط پر عمل آور کے ذریعے اساتذہ معلومات کی پیش کشی میں اصلاح و ترمیم کے ذریعے سبق کی پیش کش کو مزید دلچسپ اور مفید بنا سکتے ہیں۔
(1)فن تدریس کا سب سے پہلا اصول پڑھانے سے پہلے طلبہ کو پڑھنے کے لئے آمادہ(تیار) کرنا ہے۔سبق کی تدریس سے قبل بچوں میں سیکھنے کا جذبہ ،شوق و ذوق پیدا کیا جائے۔ شوق و ذوق کی بیداری اور محرکے کے بغیر یہ کام انجام دینا بہت ہی مشکل ہے۔بچوں میں محرکہ پیدا کرنے میں سابقہ معلومات کا اعادہ بے حد کارگرہو تا ہے۔سبق یا معلومات کی پیش کش کا آغاز حوصلہ افزا ء سوالات، دلچسپ سرگرمی یاسابقہ معلومات کے اعادہ سے انجام دیں۔یہ طرزعمل سابقہ معلومات اور نئی معلومات میں ایک تسلسل پیدا کرتے ہوئے سبق و معلومات کی تفہیم کو آسان بنا نے میں معاون ہوتا ہے۔اس کے علاوہ اس طریقہ کار کے ذریعے طلبا نئی معلومات کو بہت جلد قبول کر پاتے ہیں۔اساتذہ معلومات کی پیش کش میں بہت احتیاط سے کام لیں۔ نئے معلومات کی ترسیل سے قبل طلبہ کی سابقہ معلومات سے مکمل طور پر آگہی حاصل کریں۔پچھلی جماعتوں میں پیش کیئے گئے معلومات اور مفروضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے نئے معلومات پیش کریں۔ہربرٹ کی نظر میں سبق کو موثر بنانے کے لئے سبق کی موثر تیار ی ضروری ہے۔اگر استاد سبق پڑھنے کی موثرتیاری کرئے گا تبھی طلبہ میں سبق پڑھنے کا شوق اور محرکہ پیدا ہوگا۔ہربرٹ نے بچوں کی سابقہ معلومات سے سبق اور تدریس کو جوڑنے پر بہت زور دیا ہے۔وہ بچوں کی سابقہ معلومات پر سبق کی بنیاد رکھنے کا موئید نظر آتا ہے۔ میرا تدریسی تجربہ بھی اساتذہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ تدریس کو مفید اور موثر بنانے کے لئے معلومات پیشکرنے کا آغاز طلبہ کی سابقہ معلومات سے کریں۔اساتذہ مناسب طریقے سے سابقہ معلومات کو پڑھائے جانے والے مواد سے مربوط کردیں تاکہ طلبہ کو نفس مضمون کی تفہیم میں کوئی دقت اور پریشانی نہ ہو۔

(2)معلومات کی پیش کش، کو موثر بنانے میں طلبہ کے نفسیاتی تقاضوں اور ذہنی استعداد کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔معلومات کی وضاحت اور تفہیم ،طلبہ کی علمی سطح کو مدنظر رکھ کر کی جائے تاکہ وہ بغیر کسی الجھن اور دقت کے ذہنی طور پر معلومات کو قبول کر سکیں۔ سوالات کے ذریعے طلبہ کی علمی سطح کی جانچ اور معیار کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔ طلبہ کی ذہنی اور علمی صلاحیتوں سے معلومات کی پیش کشی کو ہم آہنگ کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے تاکہ طلبہ کی لیاقت اور قابلیت میں قابل قدر اضافہ ہوسکے۔مختصراً اس بارے میں اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ’’طلبہ کی ذہنی بالیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اساتذہ معلومات پیش کرنے کے فرائض انجام دیں۔‘‘
(3)اگر بعض وجوہات کی بناء طلبہ کسی مضمون کی مبادی معلومات ،)بنیادی معلومات Basic knowlege) نہ سکھیں ہوں تب ان کو اس موضوع کی مزید)آگے کی ، اعلیadvance Knowledge (معلومات فراہم کرنا بے فیض اور وقت کا زیا ں ہوتا ہے۔بنیادی معلومات کے بغیر اعلی معلومات پیش کرنا بے معنی ہوتا ہے۔طلبہ میں اکتسابی دلچسپی اور تیزی اس وقت دیکھنے میں آتے ہے جب ان کو کسی بھی موضوع کی بنیادی معلومات کا علم ہوتا ہے یاپھر اعلی معلومات کی پیش کشی سے قبل ان کو بنیادی معلومات فراہم کردئیے جاتے ہیں۔اگر طلبہ کی بنیادی معلومات اور ان کی علمی سطح کا ادراک کئیے بغیر تدریسی فرائض انجام دیئے جائیں گے تو یہ ناقص تدریس ہی کہلائی گی۔ اعلی معلومات کی پیش کشی کے دوران استاد کو اس بات کا علم ضروری ہے کہ پیش کردہ معلومات طلبہ کی سابقہ معلومات سے ہم آہنگ اور ان کے معیار کے مطابقہیں۔ اگر طلبہ کسی مخصوص موضوع و مضمون کی مبادیا ت سے نا واقف ہوں تب استاد اعلی معلومات کی فراہمی سے قبل ان کو بنیادی معلومات فراہم کرے تاکہ طلبہ میں نئے معلومات کو حاصل کرنے کا شوق و ذوق پیدا ہوسکے۔

(4)معلومات کی تفہیم و وضاحت کے دوران معروف)معلوم Known)سے غیر معروف)نامعلوم (Unknown کارشتہ جوڑیں۔معروف معلومات سے غیر معروف کی جانب پیشرفت کرتے ہوئے اساتذہ طلبہ کو جذباتی اور ذہنی طور پر اکتساب کے لئے ابھارسکتے ہیں۔ معلومات کی پیش کش کے وقت اس بات کا خاص خیال ر ہے کہ پیش کی جانے والی معلومات طلبہ کی سابقہ معلومات سے مربوط ہوں۔اگر سابقہ معلومات (معروف معلومات) پیش کیئے جانے والے معلومات (نامعلوم معلومات)میں ربط ہوگا تب بچے نئی معلومات آسانی سے سیکھیں گے۔معلوم حقائق کے بل پر غیر معروف حقائق کو آسانی سے سیکھاجا سکتا ہے۔
(5)اساتذہ کو ا درسی کتاب( جو طلبہ کی ضروریات کی تکمیل کی متحمل نہ ہو ) پر سختی سے عمل درآمد کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ یہ ایک معرو ف حقیقت ہے کہ طلبہ کو استاد پڑھتا ہے نا کہ درسی کتاب۔اساتذہ طلبہ کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے لئے دیگر تعلیمی وسائل، ٹولس(تدریسی معاون اشیاء)اور دیگر درسی کتابوں کا بھر پور استعمال کریں تاکہ پریزنٹیشن(پیش کش ) کو موثر بنایا جاسکے۔ سبق کی تدریس ہو یا معلومات کی پیش کش استاد اور طالب علم دونوں کی شراکت ضروری تصور کی جاتی ہے۔ بشب مویشو(Bishop Moisshou)کی کتاب ثانوی درجات کی تدریس سے ایک سطر بیان کرنا میں بے حد ضروری تصور کرتا ہوں تاکہ اساتذہ کو دروان درس و تدریس کوئی شک و شبہ نہ رہے۔”Stduent is the centre of the whole educational process, he is the life of the teachers effort.”اس قول کی روشنی میں اساتذہ درسی کتاب پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے علم کی منتقلی کی جانب اپنی توجہ مرکوز کریں۔ استاد کتنا پڑھا چکاہے یہ بات میری نظر میں اہمیت کی حامل نہیں ہے بلکہ میرے نزدیک بچوں نے کتنا سیکھا یہ بات بہت اہم ہے۔نصاب (syallabus)کی تکمیل کتاب کے پہلے صفحے سے آخری صفحے تک اوراق پلٹنے کا نام نہیں ہے بلکہ درسی کتاب میں پوشیدہ علوم کو طالب علم نے کتنا سیکھا یہ بہت اہمیت والی بات ہے۔سبق کی تدریس میں اساتذہ صرف درسی کتب پر اکتفاء نہ کریں اور درسی کتب کی صحت اور معیار پر مکمل اعتبار نہ کریں ۔اپنے علم اور تجربہ کو بروئے کار لاتے ہوئے تدریسی فرائض انجام دیں۔

(6) منظم تدریس اور پر کیف اکتساب کو پروان چڑھانے کے لئے مناسب مثالوں اور وضاحتوں سے کام لیں۔تدریسی مرحلوں میں منطقی ترتیبکو ملحوظ رکھیں۔روزانہ کی اساس پر سبق کی منصوبہ بندی کریں۔منصوبہ بندی کے دوران استاد روزانہ کے اسباق کی منصوبہ بندی کو پورے نصاب سے مربوط وہم آہنگ رکھے تاکہ نصاب کے مقاصد کو باآسانی حاصل کیاجاسکے۔ماہر تعلیم مائیکل کے مطابقکسی مخصوص دن،ایک خاص مقررہ وقت پر سلسلہ وار اکتسابی تجربات کو سبقکہتے ہیں۔”A lesson may be defined as a series of learning experiences which occur in a single block of time on a particular day.”موثر پیش کش کے لئے اساتذہ کا تعلیمی مواد ، تدریسی معاون اشیاء،تدریسی سرگرمیوں اور دیگر تعلیمی وسائل سے باخبر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ایک باخبر استاد ہی ایک باشعور معاشرہ تعمیرکر سکتا ہے۔
(7)اساتذہ تفہیم ،تشریح اوروضاحتوں کے بیچ طلبہ کو مختصر وقفہ فراہم کریں تاکہ وہ غور و فکر کر سکیں، اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں، اپنے شکوک و شہبات کے ازالہ کے لئے سوالات کر سکیں۔ تفہیم و تشریح کے دوران مختصر وقفہ طلبہ کے لئے سود مند ہوتا ہے۔یہ مختصر سا وقفہجہاں طلبہ کو افہام و تفہیم کے عمل میں ایک فعال کردار اداکرنیپر مائل کرتا ہے وہیں اساتذہ کو بھی آرام و استراحت کا موقعفراہم کر دیتا ہے۔
(8)وضاحت ،تفہیم و تشریح کے لئے استعمال کردہ زبان طلبہ کی معیار کے مطابق ہونی چاہیئے اور اس کے برموقع و برمحل استعمال کے ہنر سے استاد کی آشنائی ضروری ہوتی ہے۔ اساتذہ اہم نکات کی تفہیم کے لئے الفاظ و جملوں پر زور دینے اور مخصوص اشاروں (gestures)کے استعمال سے ہرگز گریز نہ کریں۔
(9)معلومات کی پیش کش کے دوران طلبہ کی جانب سے کیئے جانے والے سوالات کا احیتاط سے سامنا کریں۔طلبہ کے سوالا ت سے بدمزہ اور غصہ ہونے کے بجائے خوش گواری سے پیش آئیں اور سوالات کو تدریس میں ایک موثر وسیلہ کے طور پر استعمال کریں۔

10)اہم نکات کی مناسب اور وضعی تکرار اہم معلومات کے تعین میں مددگار ہوتی ہے۔ جہاں بھی ضرورت ہو وضاحتی اور تفہیمی خلاصہ پیش کریں۔
(11)تفہیم و وضاحت کے لئے جہاں کہیں ضرورت محسوس ہو تدریسی معاون اشیاء کا استعمال کریں۔تدریسی معاون اشیاء (ٹیچنگ ایڈس) کا استعمال طلبہ میں اکتسابی دلچسپی کو پروان چڑھانے کے ساتھ مشکل تصورات کو عام فہم اور آسان بنانا کر پیش کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔
(12)سبق کے آخر میں طلبہ کی جانچ اور اعادہ سے ان کے اکتساب کی سطح کا علم ہوتاہے ۔پریز نٹیشن (پیش کش ) کے اختتام پر جانچ اور اعادہ سے اساتذہ کی تدریسی تاثیر اور جامعیت کا بھی اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے۔اسی لئے اساتذہ اپنے ہر پریزنٹیشن کے اختتام پر جانچ اور اعادہ (Evaluation @ Recapitulation)سے ضرور کام لیں۔
(13)سبق کا آغاز جس قدر اہمیت کا حامل ہوتا ہے اسی طرح سبق کا اختتام بھی اہم ہوتا ہے۔ بہتر اختتامیہ طلبہ کے ذہنوں پر کبھی نہ مٹنے والے نقش بنادیتا ہے۔سبق کے اختتام پر اساتذہ تھوڑا تجسس باقی رکھیں تاکہ طلبہ میں خود اکتسابی ،تحقیق اور جستجو کی کیفیت پیدا ہو سکے۔اختتام پر کوئی ایسا پہلو نا تمام چھوڑ دیں جس سے طلبہ خود کو تشنہ کام محسوس کر نے لگے ۔یہی تشنگی طلبہ کو تحقیق اور جستجو کی جانب مائلرکھے گی۔ طلبہ میں خوداعتمادی کی کیفیت پروان چڑھے گی ،وہ آزاد اور خود کار اکتساب کی جانب گامزن ہوجائیں گے۔
کمرۂ جماعت (کلاس روم) میں اساتذہ بغیر کسی منظّم منصوبہ بندی کے تیز رفتاری سے اسباق اور نصاب کی تکمیل میں مصروف رہتیہیں۔اسباق و نصاب کی تکمیل کے دوران وہ اکثربھول جاتے ہیں کہ جو معلومات وہ طلبہ کو فراہم کر رہے ہیں کیا طلبہ کے ذہن انھیں جذب بھی کر پا رہے ہیں یا نہیں۔سبق کی تدریس اورمعلومات کو پیش کرنے کے فن (تکنیک) سے اساتذہ کا آراستہ ہونا بے حدضروری ہے۔استاد خواہ کتنا ہی لائق اور قابل ہو اگر وہ معلومات اور سبق کی پیش کش کے فن سے نابلد ہوتب وہ طلبہ میں اکتسابی گراوٹ اور بیزارگی پیدا کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔درس و تدریس کی کامیابی کا انحصار خواہ وہ کوئی بھی مضمون ہواساتذہ کی معلومات (سبق) کی پیش کش پر ہوتا ہے۔سبق طلبہ کے ذہنوں میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوجاتا ہے اگر استاد اس کو دلچسپ اور دل پذیر بناکر پیش کرے۔پیش کش جس قدر موثرہوگی اکتساب کا معیار بھی اتنا ہی بلند و ارفع ہوگا۔تدریس میں تاثیر اور اکتساب میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے تدریس کے فنی اصولوں پر اساتذہ کو کاربند ہونے کی سخت ضرورت ہے۔جب اساتذہ فنی اصولوں کی باریکیوں کو سمجھنے میں کامیاب ہوجائیں گے تب درس و تدریس ان کے لئے نہایت سہل اور دلچسپ سرگرمی بن جائے گی۔اساتذہ یہ بات اپنی ذہنوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیں کہ درس و تدریس صرف پڑھانے کا نہیں بلکہ پڑھنے کا بھی نام ہے

ANS 03

1

اس میں کسی بھی موضوع پر بحث و گفتگو کے ذریعہ تعلیم دی جاتی ہے۔پہلے استاذ طلبہ سے ، پھر طلبہ آپس میں ایک دوسرے سے مباحثہ کرتے ہیں۔ اس کی خصوصیات ہیں:
(1) اس میں کھلے ذہن سے بحث کی اجازت ہوتی ہے۔
(2) لیڈرشپ کی صلاحیت نکھرتی ہے۔
(3) برداشت اور سامنے والے کو سننے کی طاقت پیدا ہوتی ہے۔
(4) طلبہ کی عادت و اطوار کی پیمائش کی جاتی ہے۔
(5) طلبہ کے تاثرات کا اندازہ لگ جاتا ہے۔
(6) منطقی فکر کی صلاحیت پروان چڑھتی ہے۔
2

ایک اہم مسئلہ اردو کے مقاصد کے تعین کا ہے۔ عام طور پر کسی زبان کو پڑھانے کے چار مقاصد ہیں: سننا، بولنا، پڑھنا اور لکھنا۔ ایک مضمون کی حیثیت سے نثر ، نظم، انشا اور قواعد کے الگ الگ مقاصدہوتے ہیں اور ہرمقصد کے عمومی اورخصوصی مقاصد ہوتے ہیں جیسے نثر کی تدریس کے دو مقاصدافہامِ مطالب اور اظہارمافی الضمیرہیں۔ نظم کے تین مقاصد ہیںجن میں افہامِ مطالب، اظہار مافی الضمیر اور استحسان ہیں۔ انشا کے مقاصد بھی تین ہیں جن میں افہامِ مطالب، اظہار مافی الضمیر اور اطلاق ہیں۔

اُردو زبان کی تدریس میں ہم اپنی زبان کو نہ جانے کیوں ایک اجنبی زبان کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ زبانوں کے رسم الخط الگ ضرور ہیں لیکن ان کی بنیادی باتیں الگ نہیں ہو سکتیں۔ جب ہم اسکولوں اور کالجوں میں اردو اساتذہ کو پڑھاتا ہوا دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اُردو زبان، زبان نہیں صرف ایک مضمون ہے۔ اِس ترقی یافتہ دور میں بھی جماعت میںصرف لیکچردے کر اور چند عبارتیں لکھو ا کر کام نہیں چلایا جاسکتا۔
اسکول کے اساتذہ تیار کرنے کے لئے بی ایڈ اور ڈی ایڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی تدریس کے مسائل اس وقت ابھر کر سامنے آتے ہیں جب طلبہ اسکولوں میں تدریس کی مشق کے لئے جاتے ہیں اور اردو کے اسباق پڑھاتے ہیں۔اس میں سب سے پہلا مسئلہ طریقۂ تدریس کا ہے۔عام طور سے ہم اپنے طلبہ کو طریقۂ تدریس کے بارے میں بتاتے ہیں کہ پہلے تمہید باندھی جائے یعنی کسی بھی سبق، موضوع یا عنوان کو براہِ رست نہ بتا کر طلبہ کی سابقہ معلومات پر مبنی سوالات و جوابات کی بنا پر سبق کا موضوع یا عنوان بتایا جائے۔ اس کے پیچھے یہ فکر کارفرما ہے کہ طلبہ کو تدریس کیلئے ذہنی طور پر تیار کیا جائے تاکہ وہ پڑھائے جانے والے سبق میں خاطر خواہ دلچسپی لیں۔اعلانِ سبق کے بعد موزوں آواز، صحیح تلفظ اور درست لب و لہجہ کے ساتھ سبق کی بلند خوانی کی جائے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ استاد کی بلند خوانی ایسی ہو کہ سبق کا مفہوم خود بہ خود واضح ہو جائے۔ظاہر سی بات ہے بلند خوانی کے ذریعے مفہوم کو واضح کرنے میں استاد کو اپنی تمام تر قوتوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانا پڑے گا۔ اس میں مؤثر آواز کے ساتھ ساتھ آوازوںکا اتار چڑھاؤ، لب و لہجہ ، الفاظ کی ادائیگی، تلفظ کی درستگی، حرکات و سکنات، سب کچھ شامل ہے۔ بلند خوانی کے بعد چند مقصدی سوالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خاموش مطالعہ کی تاکید کی جاتی ہے تاکہ طلبہ انہماک اور یکسوئی کے ساتھ مطالعہ کر سکیں۔
اس کے بعد ایک اہم مسئلہ عبارت کی تفہیم کا آتا ہے جس میں جملوں یا عبارت کے پیچھے چھپے ہوئے مفہوم کو واضح کرنا ہوتا ہے اور طلبہ کے ذہن کو جھنجھوڑنا ہوتا ہے۔الفاظ کے معنی اخذ کرائے جاتے ہیں تاکہ طالب علم ایک لفظ کے ایک سے زائد استعمالات سے روشناس ہو سکے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ اساتذہ تمہید کے بغیر سبق پڑھانا شروع کر دیتے ہیں، پھر سوالات کے جواب اور الفاظ کے معنی تختۂ سیاہ پر لکھ دیتے ہیں یا لکھوا دیتے ہیں۔ اس طرح کی تدریس میں طلبہ کا کوئی رول نہیں ہوتا، وہ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ اسکولوں سے نکل کرجب طلبہ جامعات اور کالجوں میں جاتے ہیںتو وہ یہ عادت اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں اور تعلیم و تدریس میں حصّہ نہیں لیتے بلکہ بیزار بیزار سے نظر آتے ہیں۔ جامعات اور کالجوں میں بھی زبان کے ترسیلی رول کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ وہاں زبان صرف ادب بن کر رہ جاتی ہے ۔ میں نے دیکھا ہے کہ کسی بھی جریدے میںا گر کوئی مضمون غالب، اقبال، میر، پریم چند وغیرہ سے ہٹ کر ہوتا ہے تو اس پرزیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ جامعات اور کالجوں میں عام طور سے لیکچر اور بحث و مباحثہ (وہ بھی بہت کم)پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ جب یہی طلبہ بی ایڈ یا ڈی ایڈ کرنے آتے ہیںاور ان کو تدریس کے مختلف طریقوں سے روشناس کرایا جاتا ہے تو وہ ہکا بکا رہ جاتے ہیںکہ اب تک تو ہم نے ایسا نہیں کیا تھا۔

ایک اہم مسئلہ اردو کے مقاصد کے تعین کا ہے۔ عام طور پر کسی زبان کو پڑھانے کے چار مقاصد ہیں: سننا، بولنا، پڑھنا اور لکھنا۔ ایک مضمون کی حیثیت سے نثر ، نظم، انشا اور قواعد کے الگ الگ مقاصدہوتے ہیں اور ہرمقصد کے عمومی اورخصوصی مقاصد ہوتے ہیں جیسے نثر کی تدریس کے دو مقاصدافہامِ مطالب اور اظہارمافی الضمیرہیں۔ نظم کے تین مقاصد ہیںجن میں افہامِ مطالب، اظہار مافی الضمیر اور استحسان ہیں۔ انشا کے مقاصد بھی تین ہیں جن میں افہامِ مطالب، اظہار مافی الضمیر اور اطلاق ہیں۔ اسی طرح قواعد کے بھی تین مقاصد یعنی علم، فہم اور اطلاق ہیں ۔ ہم اردو مضمون کے طلبہ کواس درجہ بندیٔ مقاصد کے ساتھ نہیں پڑھاتے بلکہ عام اور خاص مقاصد سے کام چلاتے ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب ہماری درسی کتابوںہی میں مقاصد کی یہ درجہ بندی نہیں ہے اور مقاصد کا پیش نگاہ رکھنا کیوں ضروری ہیں اس کا بیان نہیں ہے تواس صورت میں طالب علم کس طرح صحیح علم حاصل کریگا اور جب صحیح علم حاصل نہیں ہوگا تو وہ پڑھائے گا کیسے؟ یہاں ضرورت ہے کہ اُردو تدریس کی بنیادی باتوں کو واضح کیا جائے۔
یہ دریافت کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ نمونے کا سبق ایک طالب علم کیلئے تیار کیا جا رہا ہے یا پوری جماعت کیلئے۔ نفسیاتی اُصول یہ ہے کہ نمونے کا سبق فردِ واحد کو ذہن میں رکھ کر تیارکیا جانا چاہئے کیونکہ ہر طالب علم اپنی انفرادیت لے کر جماعت میں آتا ہے۔ نمونے کا سبق تیار کرتے وقت یا پڑھاتے وقت اس نفسیاتی اصول کو سامنے رکھنا چاہئے کہ جماعت میں بیٹھا ہوا ہر طالب علم دوسرے سے الگ ہے۔ ہمیں اردو کی کتابوں میںکہیں بھی طالب علم کا لفظ نہیں ملتا بلکہ ’طلبہ‘ ملتا ہے۔ کتابوں میں فردِ واحد نہ ہونے کی وجہ سے بھرم پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ نمونے کا سبق تیار کرتے وقت طلبہ کی جگہ طالب علم لکھا جائے تاکہ ہر طالب علم کو توجہ کا مرکز بنایا جاسکے۔
ہمارے طلبہ کے ساتھ ایک اور مسئلہ تلفظ کا ہے۔ سند یافتہ ایم اے کا تلفظ بھی اتنا خراب ہوتا ہے کہ رونا آتا ہے۔ تلفظ کون درست کرائے؟ بی ایڈ، ڈی ایڈ، جامعات یا اسکول کے اساتذہ؟ طالب علم کا تلفظ درست کرنے کا عمل اسکول میں داخلہ لیتے ہی شروع ہو جاتا ہے اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تلفظ کی بنیادی ذمے داری ان اساتذہ کی ہے جو اسکول میں اُردو زبان دانی پڑھاتے ہیں۔ اسکولوں کے یہ اساتذہ بی ایڈ یا ڈی ایڈ کرنے کے بعد ہی پڑھاتے ہیں لیکن بی ایڈمیں آنے سے پہلے یہ طلبہ جامعات سے آتے ہیں۔ جامعات سے آنے کے بعد بھی طلبہ کا تلفظ درست نہیں ہوتا۔ اب سوال یہ ہے کہ بی ایڈ یا ڈی ایڈ میں تدریسی طریقے بتائے جائیں یا تلفظ درست کرایا جائے؟ عام طور سے طلبہ جیسا تلفظ لے کر آتے ہیں اس تلفظ کے ساتھ ہی وہ اسکول میں پڑھانے جاتے ہیں لہٰذا جب اساتذہ کا تلفظ درست نہیں ہوگا تو وہ طلبا کا تلفظ کیا درست کریں گے۔ ہمیں کسی بھی سطح پر تلفظ کو ایک معمولی غلطی سمجھ کرچھوڑنے کے بجائے کوشش کرنی چاہئے کہ ہر سطح پر طلبہ کا تلفظ درست کیا جائے۔

ANS 04

کہانی، اسکرین پلے اور مکالمہ، ان تینوں کو ملا کر ٹی وی ڈراما یا فلم لکھی جاتی ہے۔ ہر رائٹر کی خواہش ہوتی ہے کہ اسٹوری بھی اس کی اپنی ہو، ڈائیلاگ بھی اپنے ہوں اور اسکرین پلے بھی اس کا اپنا ہو، مگر یہ تینوں کام الگ الگ اشخاص بھی کر سکتے ہیں۔ یہ تینوں اپنی اپنی جگہ اہم ہیں۔ لیکن فلم یا ڈراما لکھنے میں تینوں میں سے زیادہ اہم اسکرین پلے ہی ہوتا ہے۔ پہلے وقتوں میں بنی خاموش فلمیں، اس بات کا ثبوت ہیں کہ فلم، ڈائیلاگ کے بغیر بھی بن سکتی ہے۔ مکالمہ سب کچھ نہیں، جذبات (ایموشن) اہم ہیں، اس کے بیان کے لیے چاہے خاموشی زباں ہو جائے۔

کیا اسٹوری یا کہانی کے بغیر ڈراما سیریل یا فلم بن سکتی ہے؟ ایسے میں کہا جا سکتا ہے کہ ایک مکمل کہانی نا بھی ہو تو فلم بنائی جا سکتی ہے۔ یا یہ کہ کئی کہانیوں کے ٹکڑے ملا کر، ہندی فلم ”گج گامنی“ کی مثال سامنے کی ہے۔ دوسری صورت، ایسی فلمیں، جن میں الگ الگ کئی کہانیاں ہوتی ہیں، جیسے ہندی فلم ”دس کہانیاں“ ۔ یہ بھی ہے کہ آپ کہانی کسی اور کی لے لیں اور اس پہ فلم یا ٹی وی ڈراما بنا لیں۔

اگر آپ سکرین کے لیے کہانی لکھ رہے ہیں تو سب سے اہم ہے اسکرین کو سمجھنا۔ عکس و آہنگ کے ذریعے آپ وہ دکھا پائیں، جو دکھانا چاہتے ہیں۔

داستان گوئی/اسٹوری ٹیلنگ کیا ہے؟ کسی واقعے کو کرداروں کے ذریعے بیان کرنا اسٹوری ٹیلنگ کہلاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنی بات دنیا تک کیسے پہنچاتے ہیں۔ بہت سے داستان گو گزرے ہیں۔ بڑے کہانی کاروں نے سیکھنے اور سمجھنے کا کام ہمیشہ جاری رکھا۔ سیکھنے کے خواہش مند کو زیادہ سے زیادہ سمجھنا، دیکھنا، اور پڑھنا ہو گا۔ لکھنے والا خود کو فلموں سے، ڈراموں سے، کتابوں سے کاٹ کے رکھے گا تو امکان ہے وہ ایک اچھا مصنف نہیں بن پائے گا۔

کیا کچھ لکھنے سے پہلے پلاننگ ضروری ہے؟ بحیثیت استاد، ہمیں اس بات کا تجربہ ہے کہ ہم نے اپنا سبق سلیبس کے مطابق اچھے سے تیار کیا ہوتا ہے، پہلے سے ورک شیٹ تیار کی ہوتی ہیں، پہلے سے سوال تیار کیے ہوتے ہیں، تو ہمارے ذہن میں سبق کا مکمل تصور موجود ہوتا ہے۔ ہم اسے آسانی سے بچوں کے اذہان میں منتقل کر سکتے ہیں۔ پس ثابت ہوا کوئی بھی فیلڈ ہو، پلاننگ بہت اہم ہوتی ہے۔ اسکرین پلے رائٹنگ میں بھی آپ کو پلاننگ کر کے لکھنا ہو گا۔

اسکرپٹ میں ڈائیلاگ (مکالمہ) کی اہمیت کیا ہے؟ اسکرپٹ میں ڈائیلاگ کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن ڈائیلاگ وہاں جنم لیتا ہے، جہاں دو یا دو سے زیادہ لوگ بات چیت کے ذریعے کسی تبدیلی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی نصاب میں، اردو میں مکالمہ لکھنا سکھایا جاتا ہے، نیز بچے انگلش میں ڈائیلاگ رائٹنگ کرتے ہیں۔ وہیں سے انھیں تربیت ملنا شروع ہوتی ہے کہ ڈائیلاگ کیسے لکھنا ہے۔ بطور استاد میں دو بچوں کو آمنے سامنے بٹھا کر کہتی ہوں، آپ ایک پیپر درمیان رکھیں اور قلم پکڑیں۔ آپ میں سے ایک ڈاکٹر اور دوسرا مریض ہے۔ آپ نے آپس میں جو بات چیت کرنی ہے، وہ لکھتے چلے جائیں۔ لکھتے لکھتے ڈاکٹر اپنا مکالمہ مکمل کرے اور مریض اپنا۔ ہم بچوں کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ ہر ڈائیلاگ (مکالمہ) کا ایک مقصد ہونا چاہیے۔ پھر اختتام ایسے الفاظ پر کرنا ہے کہ بات واضح ہو۔ ڈاکٹر کی نصیحت بھی سامنے آ جائے۔ درزی اور گاہک کے درمیان مکالمہ بھی انھی خطوط پر ہو۔ اسی طرح کنجڑے (سبزی فروش) اور گاہک کے درمیان مکالمہ ہو گا۔

بچے یوں مختلف کرداروں کی زبان، انداز اور لہجے سیکھتے ہیں۔ یہ مکالمے اس لیے نصاب میں شامل کیے جاتے ہیں کہ بچوں کو مکالمہ ابتدائی جماعت سے لکھنا آ جائے۔ اساتذہ ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ ڈائیلاگ (مکالمہ) طویل نہ ہو، بل کہ مختصر ہو۔ جامع ہو۔ جو بات کہنی ہو وہی کی جائے۔ اضافی جملے کاٹ کر فائنل ڈرافٹ تیار کر لیا جائے۔

اسکرپٹ کیسے لکھا جائے؟ انڈیکس کارڈ کیا ہوتے ہیں اور یہ ہماری مدد کیسے کرتے ہیں؟ پروفیشنل، انڈیکس کارڈ کو لکھنے میں سہولت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جب آپ کہانی بنانے لگیں تو بجائے سیدھے پیپر پہ لکھنے کے آپ کارڈ کا استعمال کریں۔ مختلف رنگوں کے کارڈ آپ مختلف کرداروں، مختلف سچوایشن یا مختلف مقامات کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

ہم کہانی کو انڈیکس کارڈ کے ذریعے کیسے ڈویلپ کر سکتے ہیں؟ میں ایک کہانی لکھ رہی۔ مثال کے طور پر میرے پاس ایک کارڈ ہے، جس پر میں نے ایک جملے میں کہانی لکھی۔ ”ہیرو نے پینڈمک میں کرونا وائرس، جو اس کے نزدیک مین میڈ وائرس ہے، کی ویکسین کا فارمولا تیار کیا۔ اس میں اسے انسانی خون اور تمام انسانی اعضا کے نمونے درکار ہیں اور وہ یہ تمام نمونے اسی ولن کے جسم سے حاصل کرنا چاہتا ہے، جس نے یہ وائرس تیار کیا۔ وہ اپنے مشن میں کام یاب ہو جاتا ہے۔“

اس کارڈ کو میز پر سب سے اوپر رکھ لیں۔ اس کہانی کو ایک ڈراما سیریل کی چھبیس قسطوں میں پھیلانا ہے، تو میں اس کارڈ کے نیچے اس کہانی کو ٹکڑوں میں چھبیس کارڈوں پہ لکھ لوں گی۔ مثلا: پہلے کارڈ پر ہم نے ہیرو کا تعارف دیا۔ یعنی یہ پہلی قسط ہوئی۔ اس کے ماحول، فیملی بیک گراؤنڈ اور فرینڈز کے بارے میں لکھیں گے۔ دوسرے کارڈ پر، ہیرو کے بائیوٹک انجینئرنگ کے تجربات ہوں گے۔ کیوں کہ وہ ویکسین بنا رہا ہے۔ تیسرے کارڈ پر، جو کچھ پینڈمک کے دوران میں دنیا بھر میں ہو رہا ہے، یعنی تباہ کاری وغیرہ، وہ ہو گا۔ پانچویں کارڈ پہ ہیروئن کا تعارف ہو گیا۔ لو پارٹ یا رومانی عنصر کہانی میں شامل کر دیا جائے گا۔ ساتھ ہی یہ لکھا کہ ہیرو کا دوست مر جائے گا۔ اموات بڑھنا شروع ہو جائیں گی۔ اس طرح مختلف کارڈوں پر کہانی کے مختلف حصے بیان ہوں گے۔

چھٹے حصے میں ہم ہیرو کا ارادہ بتائیں گے کہ وہ اس ’مین میڈ‘ وائرس بنانے والے کو ڈھونڈتا ہے۔ ساتویں حصے میں ہیرو کے ویکسین پر تجربات اور ویکسین کا فیل ہونا دکھائیں گے۔ رومان بھی ہو گا۔ ہیرو کو دوبارہ تجربات سے گزرنا ہو گا۔ چوں کہ ہیروئن بھی بائیوٹک انجینئر ہے، تو وہ دونوں مل کر نئے راستے تلاش کریں گے۔

یوں تمام انڈیکس کارڈ، کہانی کے خاص نکات واضح کریں گے۔ کسی کام کو ٹکڑوں میں تقسیم کریں، تو آسانی رہتی ہے۔ انڈیکس کارڈ ہمیں یہی سہولت فراہم کرتے ہیں۔

ہم مختلف رنگوں کے کارڈوں کو مختلف کرداروں کی شناخت کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر ہیرو کارڈ کا رنگ نیلا رکھا گیا ہے، تو کارڈ دیکھنے سے معلوم ہو جائے گا کہ ڈرامے کے تمام مناظر میں، کتنے میں ہیرو موجود ہے۔ ایسے رنگ کی مدد سے با آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ مناظر کی تقسیم اور کہانی میں ان کے توازن کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

انڈیکس کارڈ، اسٹوری ڈویلپنگ میں بھی مدد دیتے ہیں اور اسکرین پلے میں بھی۔ پینتیس چالیس مناظر کے لیے الگ الگ انڈیکس کارڈ لکھ رکھے ہوں، پھر آرام سے ایک ایک کارڈ کے لیے ڈائیلاگ کمپوز کر لیے جائیں۔ ہدایت یہ ہے کہ انڈیکس کارڈ پر تحریر کو مختصر رکھیں۔ چھہ سات لفظوں سے زیادہ نہ لکھیں۔

اگر کوئی پروفیشنل رائٹر بننا چاہتا ہے۔ فلم، ڈراما، ناول یا افسانہ لکھنا چاہتا ہے، تو دیوار پر ایک سافٹ بورڈ (کاک بورڈ) لگا کے اپنے لیے سہولت پیدا کر سکتا ہیں۔ یہ کاک بورڈ مختلف تجارتی مراکز، دفاتر اور کلاس روم میں لگا ہوتا ہے۔ اس پر ہم کچھ بھی چپکا سکتے ہیں۔ یہ بہت مدد گار ہوتا ہے۔ انڈیکس کارڈ کے ذریعے اپنی ساری میپنگ اور پلاننگ لکھ کے، کاک بورڈ پر چسپاں کی جا سکتی ہے۔

اپنی سہولت کے مطابق عمودی یا افقی انڈیکس کارڈ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ یعنی اپنے سامنے میز پر پھیلا کر یا پھر دیوار پہ لگے بورڈ پہ تھم پن کی مدد سے لگا کر۔ انھی کارڈوں پہ اگر کچھ اور شامل کرنا چاہیں، تو اسٹکی نوٹ بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ انڈکس کارڈز کو آگے پیچھے کرنا، کہانی کو درمیان یا کہیں اور سے شروع کرتے ہوئے، آگے پیچھے کے مناظر بیان کرنا، یا کوئی منظر بعد میں شامل کرنا، نکال دینا، یہ لکھنے والے کے ہاتھ میں ہے۔ جتنے کارڈ چاہیں استعمال کریں، باقی زائل کر دیں۔ یہ کارڈ مارکیٹ میں ارزاں نرخوں پہ دست یاب ہیں۔ کارڈ کی جگہ کاغذ کی رنگ برنگی پرچیاں بھی استعمال کی جا سکتی ہیں۔

یہ سب آسانیاں، اسکرین پلے سافٹ ویئر بھی دیتے ہیں۔ اردو میں لکھنے کے لیے، اس سافٹ ویئر میں اردو یونی کوڈ کا ٹیکسٹ پیسٹ کرنے کی زحمت گوارا کرنا پڑے گی۔

اسکرپٹ کی تیاری کے کون کون سے مراحل ہوتے ہیں؟ آپ اپنا اسکرپٹ اگر کسی پروڈکشن ہاؤس، ڈائریکٹر یا پروڈیوسر کو پیش کر رہے ہیں، تو خیال رہے آپ کا اسکرپٹ پروفیشنل انداز میں تیار کیا گیا ہو۔ مثلا: یہ چند امور مدنظر رکھیے۔

1: پہلے صفحے پہ نمایاں حروف میں فلم/ڈرامے کا عنوان یا ٹائٹل لکھیں۔ اس کے نیچے مصنف کا نام، پھر ہدایت کار، پیش کار کا نام لکھنا ہو گا۔ یہ سب بولڈ رائٹنگ میں اور نمایاں فونٹ میں لکھیں۔

2: اگلے صفحے پر آپ ایک سے ڈیڑھ صفحہ میں کہانی کی سمری (خلاصہ) لکھیں گے۔

3: ’سائی ناپسس‘ تیار کریں گے۔ یعنی ایک ہی صفحے پہ چند اہم چیزیں لکھیں گے۔ اول نمبر پہ ’لاگ لائن‘ ۔ لاگ لائن فلم میکر، یا پروڈکشن ہاؤس کے لیے ہوتی ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ تیس سے پینتیس الفاظ میں لکھی جانی چاہیے۔ مثال کے طور پر ایک فلم کی لاگ لائن یہ ہو سکتی ہے : ”تین اندھے اپنی بے مثال تکنیک کی وجہ سے بنک لوٹنے میں کام یاب ہو جائیں گے۔“ لاگ لائن میں چونکا دینے والا عنصر موجود ہونا چاہیے۔ اسی لاگ لائن میں کہانی کے اہم کردار کی خصوصیات بھی بتانا ہوتی ہیں۔

پھر ’ٹیگ لائن‘ لکھیے۔ ٹیگ لائن فلم یا ڈرامے کی پبلسٹی کے لیے ہوتی ہے۔ یوں تو اس کے لیے الگ سے پروفیشنل ہوتے ہیں لیکن اگر لکھنے والا اپنے اسکرپٹ کو جانتے ہوئے لکھ دے گا تو اچھی بات ہے۔ ٹیگ لائن تیکھی ہو، کیوں کہ اس کا مقصد ناظرین کو اپنی طرف مائل کرنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد کہانی کے مرکزی کردار (ہیرو) کو ایک سطر میں بیان کریں۔ اس طرح کہانی کے ولن کو ایک سطر میں بیان کریں۔ پھر کہانی کا مرکزی خیال اور اختتام واضح انداز میں، اس ترتیب سے لکھ دیجیے۔ یہ سب فقط ایک صفحے پہ اتارنا چاہیے۔

4: دوسرے صفحے پہ کہانی کی ’ون لائن‘ دی جائے گی۔ ون لائن اسکرپٹ سے مراد ہے کہ آپ انڈیکس کارڈ پر مختصراً لکھے ایک ایک جملے سے، جتنے جتنے منظر بنانے ہیں، بناتے جائیے اور فی الحال ایک ایک منظر یا منظر میں کیا ہو گا، اس کا احوال مختصراً لکھتے جائیے۔ خیال رہے کہ ہر منظر پر ایک ترتیب سے جلی سرخی دیتے جائیے۔ جیسا کہ منظر نمبر، مقام، وقت، کردار۔ ایک یا دو چار سطروں میں لکھنا ہے کہ اس منظر میں کیا ہو گا۔

5: جب مناظر کی تقسیم ہو گئی تو ’ڈائیلاگ شیٹ‘ تیار کی جاتی ہے۔ ڈائیلاگ شیٹ تیار کرنے کے لیے بس اتنا ہی کرنا ہوتا ہے کہ ون لائن اسکرپٹ ہی کو کاپی پیسٹ کر لیں۔ ہیڈنگ وہی رہیں گی۔ بس جہاں جہاں منظر نمبر بیان کیے گئے تھے، اس تلے ڈائیلاگ لکھنا شروع کر دیے جائیں۔

فارمیٹ کے مطابق اداکاروں کے تاثرات/ حرکات و سکنات لکھی جائیں۔
ذہن نشین رہے، ہر منظر کے اختتام پر ”کٹ“ یا اس کا متبادل ”ڈزالو“ ، ”فیڈ آؤٹ“ وغیرہ، لکھنا ضروری ہے۔

6: اپنی اور ڈائریکٹر کی سہولت کے لیے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک ماہر کی طرح کام کرنے کے لیے ’کیریکٹر شیٹ‘ بھی ساتھ ساتھ تیار کرنی چاہیے۔ ایک چارٹ کی صورت میں ’کردار نگاری‘ کیجیے۔ اس میں کردار کا حلیہ، عمر، تعلیم، فکر، پیشہ، ماحول، نفسیات وغیرہ، لکھی جانی چاہیے۔ کہانی میں وقت یا کردار کی عمر اور عمر کے ساتھ کردار کا حلیہ بدلتا چلا جاتا ہے، تو وہ بھی اس چارٹ میں درج کیا جانا چاہیے۔

7: ان کے بعد ’شیڈول شیٹ‘ آتی ہے۔ شیڈول شیٹ میں لوکیشن، کردار اور بجٹ وغیرہ ہوتا ہے۔ یہ سبھی ایک پروفیشنل رائٹر کو معلوم ہونا چاہیے۔ وہ جانتا ہو کہ اس کے لکھے کا کیا بجٹ ہو گا۔ کتنے منظر ان ڈور، کتنے آؤٹ ڈور میں رکارڈ ہوں گے۔ وغیرہ۔ اگر چہ ’شیڈول شیٹ‘ ، رائٹر کو بنانے کی ضرورت نہیں، مگر پھر یہ ضروری ہے کہ رائٹر یہ تمام معلومات رکھتا ہو۔

8: اگلا نمبر ’شاٹ لسٹ‘ (Shot List) کا ہے۔ شاٹ لسٹ میں آپ کلوز شاٹ، میڈیم شاٹ اور وائڈ شاٹ لکھ سکتے ہیں۔ آپ کیمرے کی موومنٹ بھی لکھ سکتے ہیں، مگر یہ شاٹ لسٹنگ اور شیڈول شیٹ دونوں در اصل ڈائریکٹر کی جاب ہے۔

اسکرپٹ رائٹنگ میں سافٹ وئیر ہماری کیا مدد کرتے ہیں؟ گو کہ اسکرپٹ رائٹنگ کے لیے بے شمار سافٹ وئیر موجود ہیں، لیکن انٹر نیٹ سے سرچ کریں، تو ٹاپ لسٹڈ چار پانچ سافٹ ویئر نمایاں ہیں۔ یونی کوڈ میں اردو ٹائپنگ کر کے ان سافٹ ویئرز سے ہر طرح کی مدد لی جا سکتی ہے۔ مثلا: فائنل ڈرافٹ 10 ہے۔ اس کی مدد سے مناظر کو پھر سے ترتیب دے سکتے ہیں اور اپنی اسٹوری کو ڈویلپ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح سیل ٹکس سافٹ ویئر میں کریکٹرز پر زیادہ کام کر سکتے ہیں۔ یہ سافٹ ویئر گروپ رائٹنگ کی سہولت بھی دیتا ہے۔ دو لوگ مل کر آسانی سے ایک ڈراما، فلم لکھ سکتے ہیں۔

ANS 05

دوران تدریس طلبہ پر اپنی علمیت کا سکہ جمانے کی سعی و کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ بچے بے بسی سے استاد کی علم و فضیلت کی اس بے موسم اور غیر متوقع بارش سے سہم جاتے ہیں۔ ان کے پاس پڑھائے جانے والے سبق کو بے دلی سے (passively)سننے کے کوئی دوسرا راستہ نہیں رہتا ۔افتادگی، بے دلی اور بوجھ پن کے ساتھ وہ معلومات کو اپنی بیاضوں (نوٹ بکس) میں تحریر کر نے لگ جاتے ہیں۔،تحریر کردہ نوٹس کو رٹّہ لگاکر ، امتحان گاہ یا پھر کمرۂ جماعت میں لوٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔جب یہ سب ہونے لگے تب ہم کیسے ایک فطری تعلیمی عمل کی توقع کرسکتے ہیں۔ اس طرح کی تدریس سے بچوں کی معلومات میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوتااوربچوں میں سطحی پن بھی پیدا ہونے لگتا ہے۔ معلومات کی زندگی بہت مختصر ہوتی ہے اور بہت ہی قلیل مدت میں وہ بچوں کے ذہن سے محو بھی ہوجاتے ہیں۔اس طور سے فراہم کردہ تمامتر معلومات کو طلبہ یاد نہیں رکھ پاتے ، جس کی وجہ سے وہ ان معلومات کی شناخت ،اطلاق اور استعمال سے بھی عاجز نظر آتے ہیں۔ ماہرین تعلیم نے کبھی بھی اس طریقہ تدریسکو اعتبار کی نگاہ سے نہیں دیکھا ہے۔کئی مرتبہ اساتذہ اپنے مضمون اور موضوع پر عبور و دسترس کے باوجودعامیانہ اور غیر موثر طریقہ سے معلومات کی پیش کشی کی وجہ سے دلچسپ اکتسابی فضاء پیدا کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ فن تدریس اساتذہ سے کمرۂ جماعت میں اپنے معلومات کی پیش کشی کو بہتر بنانے کا مطالبہ کرتی ہے۔اساتذہ مناسب اور منظم طریقوں کو برؤے کار لاتے ہوئے معلومات کی منتقلی کو یقینی بنائیں تاکہ بامقصد اور کارآمد اکتساب کو پروان چڑھایا جاسکے۔آج کے تصنع اور ریاکاری سے پر سماج نے جہاں طلبہ کو تن آسان ،سہل پسند اور غفلت کا خوگر بنادیا ہے وہیں اساتذہ کی ذمہ داریاں اور پیشہ وارانہ تقاضوں کوپہلے سے کئی زیادہ بڑھا بھی دیا ہے۔ماہر تعلیم ہربرٹ اسپنسر نے سبق کی منصوبہ بندی میں معلومات کی پیش کش (Presentation of Knowledge)کوسب سے زیادہ اہمیت دی ہے۔ معلومات کی پیش کشی کے اثرات کو درس و تدریس اور اکتساب پر واضح طور پر محسو س کیا جاسکتا ہے۔ مضبوط و مستحکم اکتساب کی بنیادیں معلومات کی پیش کش پر تعمیر کی جاتی ہیں۔طلبہ میں پھیلی سستی ،بے فکری اور عدم توجہ کی وجہ سے ان کا مستقبل تبا ہ وتاریک ہو رہا ہے۔ ایسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں طریقہ تدریس کو دلچسپ و موثر بنا تے ہوئے اساتذہ، طلبہ کی صلاحیتوں کوپروان چڑھا نے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ذیل میں صراحت کردہ رہنمایانہ خطوط پر عمل آور کے ذریعے اساتذہ معلومات کی پیش کشی میں اصلاح و ترمیم کے ذریعے سبق کی پیش کش کو مزید دلچسپ اور مفید بنا سکتے ہیں۔
(1)فن تدریس کا سب سے پہلا اصول پڑھانے سے پہلے طلبہ کو پڑھنے کے لئے آمادہ(تیار) کرنا ہے۔سبق کی تدریس سے قبل بچوں میں سیکھنے کا جذبہ ،شوق و ذوق پیدا کیا جائے۔ شوق و ذوق کی بیداری اور محرکے کے بغیر یہ کام انجام دینا بہت ہی مشکل ہے۔بچوں میں محرکہ پیدا کرنے میں سابقہ معلومات کا اعادہ بے حد کارگرہو تا ہے۔سبق یا معلومات کی پیش کش کا آغاز حوصلہ افزا ء سوالات، دلچسپ سرگرمی یاسابقہ معلومات کے اعادہ سے انجام دیں۔یہ طرزعمل سابقہ معلومات اور نئی معلومات میں ایک تسلسل پیدا کرتے ہوئے سبق و معلومات کی تفہیم کو آسان بنا نے میں معاون ہوتا ہے۔اس کے علاوہ اس طریقہ کار کے ذریعے طلبا نئی معلومات کو بہت جلد قبول کر پاتے ہیں۔اساتذہ معلومات کی پیش کش میں بہت احتیاط سے کام لیں۔ نئے معلومات کی ترسیل سے قبل طلبہ کی سابقہ معلومات سے مکمل طور پر آگہی حاصل کریں۔پچھلی جماعتوں میں پیش کیئے گئے معلومات اور مفروضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے نئے معلومات پیش کریں۔ہربرٹ کی نظر میں سبق کو موثر بنانے کے لئے سبق کی موثر تیار ی ضروری ہے۔اگر استاد سبق پڑھنے کی موثرتیاری کرئے گا تبھی طلبہ میں سبق پڑھنے کا شوق اور محرکہ پیدا ہوگا۔ہربرٹ نے بچوں کی سابقہ معلومات سے سبق اور تدریس کو جوڑنے پر بہت زور دیا ہے۔وہ بچوں کی سابقہ معلومات پر سبق کی بنیاد رکھنے کا موئید نظر آتا ہے۔ میرا تدریسی تجربہ بھی اساتذہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ تدریس کو مفید اور موثر بنانے کے لئے معلومات پیشکرنے کا آغاز طلبہ کی سابقہ معلومات سے کریں۔اساتذہ مناسب طریقے سے سابقہ معلومات کو پڑھائے جانے والے مواد سے مربوط کردیں تاکہ طلبہ کو نفس مضمون کی تفہیم میں کوئی دقت اور پریشانی نہ ہو۔

(2)معلومات کی پیش کش، کو موثر بنانے میں طلبہ کے نفسیاتی تقاضوں اور ذہنی استعداد کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔معلومات کی وضاحت اور تفہیم ،طلبہ کی علمی سطح کو مدنظر رکھ کر کی جائے تاکہ وہ بغیر کسی الجھن اور دقت کے ذہنی طور پر معلومات کو قبول کر سکیں۔ سوالات کے ذریعے طلبہ کی علمی سطح کی جانچ اور معیار کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔ طلبہ کی ذہنی اور علمی صلاحیتوں سے معلومات کی پیش کشی کو ہم آہنگ کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے تاکہ طلبہ کی لیاقت اور قابلیت میں قابل قدر اضافہ ہوسکے۔مختصراً اس بارے میں اتنا کہنا ہی کافی ہوگا کہ’’طلبہ کی ذہنی بالیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اساتذہ معلومات پیش کرنے کے فرائض انجام دیں۔‘‘
(3)اگر بعض وجوہات کی بناء طلبہ کسی مضمون کی مبادی معلومات ،)بنیادی معلومات Basic knowlege) نہ سکھیں ہوں تب ان کو اس موضوع کی مزید)آگے کی ، اعلیadvance Knowledge (معلومات فراہم کرنا بے فیض اور وقت کا زیا ں ہوتا ہے۔بنیادی معلومات کے بغیر اعلی معلومات پیش کرنا بے معنی ہوتا ہے۔طلبہ میں اکتسابی دلچسپی اور تیزی اس وقت دیکھنے میں آتے ہے جب ان کو کسی بھی موضوع کی بنیادی معلومات کا علم ہوتا ہے یاپھر اعلی معلومات کی پیش کشی سے قبل ان کو بنیادی معلومات فراہم کردئیے جاتے ہیں۔اگر طلبہ کی بنیادی معلومات اور ان کی علمی سطح کا ادراک کئیے بغیر تدریسی فرائض انجام دیئے جائیں گے تو یہ ناقص تدریس ہی کہلائی گی۔ اعلی معلومات کی پیش کشی کے دوران استاد کو اس بات کا علم ضروری ہے کہ پیش کردہ معلومات طلبہ کی سابقہ معلومات سے ہم آہنگ اور ان کے معیار کے مطابقہیں۔ اگر طلبہ کسی مخصوص موضوع و مضمون کی مبادیا ت سے نا واقف ہوں تب استاد اعلی معلومات کی فراہمی سے قبل ان کو بنیادی معلومات فراہم کرے تاکہ طلبہ میں نئے معلومات کو حاصل کرنے کا شوق و ذوق پیدا ہوسکے۔

(4)معلومات کی تفہیم و وضاحت کے دوران معروف)معلوم Known)سے غیر معروف)نامعلوم (Unknown کارشتہ جوڑیں۔معروف معلومات سے غیر معروف کی جانب پیشرفت کرتے ہوئے اساتذہ طلبہ کو جذباتی اور ذہنی طور پر اکتساب کے لئے ابھارسکتے ہیں۔ معلومات کی پیش کش کے وقت اس بات کا خاص خیال ر ہے کہ پیش کی جانے والی معلومات طلبہ کی سابقہ معلومات سے مربوط ہوں۔اگر سابقہ معلومات (معروف معلومات) پیش کیئے جانے والے معلومات (نامعلوم معلومات)میں ربط ہوگا تب بچے نئی معلومات آسانی سے سیکھیں گے۔معلوم حقائق کے بل پر غیر معروف حقائق کو آسانی سے سیکھاجا سکتا ہے۔
(5)اساتذہ کو ا درسی کتاب( جو طلبہ کی ضروریات کی تکمیل کی متحمل نہ ہو ) پر سختی سے عمل درآمد کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ یہ ایک معرو ف حقیقت ہے کہ طلبہ کو استاد پڑھتا ہے نا کہ درسی کتاب۔اساتذہ طلبہ کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے لئے دیگر تعلیمی وسائل، ٹولس(تدریسی معاون اشیاء)اور دیگر درسی کتابوں کا بھر پور استعمال کریں تاکہ پریزنٹیشن(پیش کش ) کو موثر بنایا جاسکے۔ سبق کی تدریس ہو یا معلومات کی پیش کش استاد اور طالب علم دونوں کی شراکت ضروری تصور کی جاتی ہے۔ بشب مویشو(Bishop Moisshou)کی کتاب ثانوی درجات کی تدریس سے ایک سطر بیان کرنا میں بے حد ضروری تصور کرتا ہوں تاکہ اساتذہ کو دروان درس و تدریس کوئی شک و شبہ نہ رہے۔”Stduent is the centre of the whole educational process, he is the life of the teachers effort.”اس قول کی روشنی میں اساتذہ درسی کتاب پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے علم کی منتقلی کی جانب اپنی توجہ مرکوز کریں۔ استاد کتنا پڑھا چکاہے یہ بات میری نظر میں اہمیت کی حامل نہیں ہے بلکہ میرے نزدیک بچوں نے کتنا سیکھا یہ بات بہت اہم ہے۔نصاب (syallabus)کی تکمیل کتاب کے پہلے صفحے سے آخری صفحے تک اوراق پلٹنے کا نام نہیں ہے بلکہ درسی کتاب میں پوشیدہ علوم کو طالب علم نے کتنا سیکھا یہ بہت اہمیت والی بات ہے۔سبق کی تدریس میں اساتذہ صرف درسی کتب پر اکتفاء نہ کریں اور درسی کتب کی صحت اور معیار پر مکمل اعتبار نہ کریں ۔اپنے علم اور تجربہ کو بروئے کار لاتے ہوئے تدریسی فرائض انجام دیں۔

(6) منظم تدریس اور پر کیف اکتساب کو پروان چڑھانے کے لئے مناسب مثالوں اور وضاحتوں سے کام لیں۔تدریسی مرحلوں میں منطقی ترتیبکو ملحوظ رکھیں۔روزانہ کی اساس پر سبق کی منصوبہ بندی کریں۔منصوبہ بندی کے دوران استاد روزانہ کے اسباق کی منصوبہ بندی کو پورے نصاب سے مربوط وہم آہنگ رکھے تاکہ نصاب کے مقاصد کو باآسانی حاصل کیاجاسکے۔ماہر تعلیم مائیکل کے مطابقکسی مخصوص دن،ایک خاص مقررہ وقت پر سلسلہ وار اکتسابی تجربات کو سبقکہتے ہیں۔”A lesson may be defined as a series of learning experiences which occur in a single block of time on a particular day.”موثر پیش کش کے لئے اساتذہ کا تعلیمی مواد ، تدریسی معاون اشیاء،تدریسی سرگرمیوں اور دیگر تعلیمی وسائل سے باخبر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ایک باخبر استاد ہی ایک باشعور معاشرہ تعمیرکر سکتا ہے۔
(7)اساتذہ تفہیم ،تشریح اوروضاحتوں کے بیچ طلبہ کو مختصر وقفہ فراہم کریں تاکہ وہ غور و فکر کر سکیں، اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں، اپنے شکوک و شہبات کے ازالہ کے لئے سوالات کر سکیں۔ تفہیم و تشریح کے دوران مختصر وقفہ طلبہ کے لئے سود مند ہوتا ہے۔یہ مختصر سا وقفہجہاں طلبہ کو افہام و تفہیم کے عمل میں ایک فعال کردار اداکرنیپر مائل کرتا ہے وہیں اساتذہ کو بھی آرام و استراحت کا موقعفراہم کر دیتا ہے۔
(8)وضاحت ،تفہیم و تشریح کے لئے استعمال کردہ زبان طلبہ کی معیار کے مطابق ہونی چاہیئے اور اس کے برموقع و برمحل استعمال کے ہنر سے استاد کی آشنائی ضروری ہوتی ہے۔ اساتذہ اہم نکات کی تفہیم کے لئے الفاظ و جملوں پر زور دینے اور مخصوص اشاروں (gestures)کے استعمال سے ہرگز گریز نہ کریں۔
(9)معلومات کی پیش کش کے دوران طلبہ کی جانب سے کیئے جانے والے سوالات کا احیتاط سے سامنا کریں۔طلبہ کے سوالا ت سے بدمزہ اور غصہ ہونے کے بجائے خوش گواری سے پیش آئیں اور سوالات کو تدریس میں ایک موثر وسیلہ کے طور پر استعمال کریں۔

10)اہم نکات کی مناسب اور وضعی تکرار اہم معلومات کے تعین میں مددگار ہوتی ہے۔ جہاں بھی ضرورت ہو وضاحتی اور تفہیمی خلاصہ پیش کریں۔
(11)تفہیم و وضاحت کے لئے جہاں کہیں ضرورت محسوس ہو تدریسی معاون اشیاء کا استعمال کریں۔تدریسی معاون اشیاء (ٹیچنگ ایڈس) کا استعمال طلبہ میں اکتسابی دلچسپی کو پروان چڑھانے کے ساتھ مشکل تصورات کو عام فہم اور آسان بنانا کر پیش کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔
(12)سبق کے آخر میں طلبہ کی جانچ اور اعادہ سے ان کے اکتساب کی سطح کا علم ہوتاہے ۔پریز نٹیشن (پیش کش ) کے اختتام پر جانچ اور اعادہ سے اساتذہ کی تدریسی تاثیر اور جامعیت کا بھی اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے۔اسی لئے اساتذہ اپنے ہر پریزنٹیشن کے اختتام پر جانچ اور اعادہ (Evaluation @ Recapitulation)سے ضرور کام لیں۔
(13)سبق کا آغاز جس قدر اہمیت کا حامل ہوتا ہے اسی طرح سبق کا اختتام بھی اہم ہوتا ہے۔ بہتر اختتامیہ طلبہ کے ذہنوں پر کبھی نہ مٹنے والے نقش بنادیتا ہے۔سبق کے اختتام پر اساتذہ تھوڑا تجسس باقی رکھیں تاکہ طلبہ میں خود اکتسابی ،تحقیق اور جستجو کی کیفیت پیدا ہو سکے۔اختتام پر کوئی ایسا پہلو نا تمام چھوڑ دیں جس سے طلبہ خود کو تشنہ کام محسوس کر نے لگے ۔یہی تشنگی طلبہ کو تحقیق اور جستجو کی جانب مائلرکھے گی۔ طلبہ میں خوداعتمادی کی کیفیت پروان چڑھے گی ،وہ آزاد اور خود کار اکتساب کی جانب گامزن ہوجائیں گے۔
کمرۂ جماعت (کلاس روم) میں اساتذہ بغیر کسی منظّم منصوبہ بندی کے تیز رفتاری سے اسباق اور نصاب کی تکمیل میں مصروف رہتیہیں۔اسباق و نصاب کی تکمیل کے دوران وہ اکثربھول جاتے ہیں کہ جو معلومات وہ طلبہ کو فراہم کر رہے ہیں کیا طلبہ کے ذہن انھیں جذب بھی کر پا رہے ہیں یا نہیں۔سبق کی تدریس اورمعلومات کو پیش کرنے کے فن (تکنیک) سے اساتذہ کا آراستہ ہونا بے حدضروری ہے۔استاد خواہ کتنا ہی لائق اور قابل ہو اگر وہ معلومات اور سبق کی پیش کش کے فن سے نابلد ہوتب وہ طلبہ میں اکتسابی گراوٹ اور بیزارگی پیدا کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔درس و تدریس کی کامیابی کا انحصار خواہ وہ کوئی بھی مضمون ہواساتذہ کی معلومات (سبق) کی پیش کش پر ہوتا ہے۔سبق طلبہ کے ذہنوں میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوجاتا ہے اگر استاد اس کو دلچسپ اور دل پذیر بناکر پیش کرے۔پیش کش جس قدر موثرہوگی اکتساب کا معیار بھی اتنا ہی بلند و ارفع ہوگا۔تدریس میں تاثیر اور اکتساب میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے تدریس کے فنی اصولوں پر اساتذہ کو کاربند ہونے کی سخت ضرورت ہے۔جب اساتذہ فنی اصولوں کی باریکیوں کو سمجھنے میں کامیاب ہوجائیں گے تب درس و تدریس ان کے لئے نہایت سہل اور دلچسپ سرگرمی بن جائے گی۔اساتذہ یہ بات اپنی ذہنوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیں کہ درس و تدریس صرف پڑھانے کا نہیں بلکہ پڑھنے کا بھی نام ہے

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Services

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی  کی   حل شدہ اسائنمنٹس۔ پی ڈی ایف۔ ورڈ فائل۔ ہاتھ سے لکھی ہوئی، لیسن پلین، فائنل لیسن پلین، پریکٹس رپورٹ، ٹیچنگ پریکٹس، حل شدہ تھیسس، حل شدہ ریسرچ پراجیکٹس انتہائی مناسب ریٹ پر گھر بیٹھے منگوانے کے لیے  واٹس ایپ پر رابطہ کریں۔ اس کے علاوہ داخلہ بھجوانے ،فیس جمع کروانے ،بکس منگوانے ،آن لائن ورکشاپس،اسائنمنٹ ایل ایم ایس پر اپلوڈ کروانے کے لیے رابطہ کریں۔

WhatsApp:03038507371

Recent Posts

To Get All AIOU Assignments Contact Us On WhatsApp​

error: Content is protected ! click on any one google Ads to copy meterial
Open chat
Hello!
How Can I Help You

Adblock Detected

Please Turn Off AD Bloker