6408 تدریس اسلامیات امطالعہ پاکستان
پروگرام ایسوسی ایٹ ڈگری ان ایجوکیشن
2021 سمسٹر خزاں
1مشق نمبر
سوال
تدریس اسلامیات کے عمومی و خصوصی مقاصد تفصیل سے بیان کریں
دنیا کے کسی بھی شعبہ میں بلندی حاصل کرنے کیلئے حصول علم ضروری ہے ،حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر آج تک تعلیم وتعلم کا سلسلہ جاری ہے ، سماج ومعاشرہ میں اسے سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے ،مذہب اسلام نے بھی اس پر بے پناہ توجہ دی ہے ،قرآن کریم کی سب سے پہلی آیت میں حصول علم کی ترغیب دی گئی ہے ،جنگ بدر کے قیدیوں کے تبادلے کے وقت بھی نادار قیدیوں سے، جو فدیہ کی ادائیگی سے قاصر تھے تاہم لکھنا پڑھنا جانتے تھے، انہیں حکم ہوا کہ دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو چھوڑ دیئے جائیں گے۔ چنانچہ کاتب وحی سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اسی طرح لکھنا سیکھا تھا۔
یہ واقعات بتانے کیلئے کافی ہیں کہ اسلام میں علم کی اہمیت روزاول سے ہے، ،دینی اور عصری تقسیم کے بغیر علم نافع کا حصول مسلمانوں کیلئے ضروری ہے ،قرآن وحدیث کے ساتھ سائنس اور عصری علوم سیکھنا ہمارے فرائض میں شامل ہے ،جس طرح مسلمانوں پر نمازہ روزہ اور دیگر احکامات فرض کئے گئے ہیں، اسی طرح خلافت وحکومت اور جہاں بانی کی ذمہ داریاں بھی مسلمانوں پر عائد کی گئی ہے، اس لئے دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کا حصول بھی مسلمانوں کے فرائض میں شامل ہیں اور شروع سے مسلمان اس پر عمل پیرارہے ہیں
موثر تدریسی خصوصیات
تدریسی اصولوں کا موثراستعمال:۔تدریس ایک پیشہ ہی نہیں بلکہ ایک فن ہے۔ پیشہ وارانہ تدریسی فرائض کی انجام دہی کے لئے استاد کا فن تدریس کے اصول و ضوابط سے کم حقہ واقف ہوناضروری ہے۔ ایک باکمال استاد موضوع کو معیاری انداز میں طلبہ کے ذہنی اور نفسیاتی تقاضوں کے عین مطابق پیش کرنے کے فن سے آگاہ ہوتا ہے۔ معیاری اور نفسیاتی انداز میں نفس مضمون کو پیش کر نا ہی تدریس ہے۔ موثر تدریس کے لئے ،کسی بھی موضوع کی تدریس سیقبل، استاد کا موضوع سے متعلق اپنی سابقہ معلومات کا تشفی بخش اعادہ ا ور جائزہ بے حد ضروری ہے۔ سابقہ معلومات کے اعادہ و جائزہ کے علاوہ موضوع سے متعلق جدید تحقیقات و رجحانات سے لیس ہوکر اساتذہ اپنی شخصیت کو باکمال اور تدریس کو بااثر بنا سکتے ہیں۔ موثر تدریس کی انجام دہی کے لئے اساتذہ کا تدریسی مقاصد سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔تدریسی اصولوں پر عمل پیرائی کے ذریعے اساتذہ مقاصد تعلیم کی جانب کامیاب پیش رفت کر سکتے ہیں۔ موثر تدریس اورتعلیمی مقاصد کے حصول میں تدریسی اصول نمایا ں کردار ادا کرتے ہیں۔تدریسی اصولوں سے اساتذہ کیوں، کب اور کیسے پڑھانے کا فن سیکھتے ہیں۔تدریسیاصولوں کا علم اساتذہ کو تدریسی لائحہ عمل کی ترتیب اور منظم منصوبہ بندی کا عادی بناتا ہے۔کیوں، کب ، اورکیسے پڑھا نے کااصو ل اساتذہ کی مسلسل رہنمائی کے علاوہ تدریسی باریکیوں کی جانکاری بھی فراہم کرتا ہے ۔ تدریسی اصولو ں پر عمل کرتے ہوئے اساتذہ موثر اور عملی تدریس کو ممکن بناسکتے ہیں۔تدریسی اصول بامقصد تدریس،نئے تعلیمی رجحانات ، تجزیہ و تنقید، مطالعہ و مشاہدہ ،شعور اور دلچسپی کو فروغ دیتے ہیں۔ تدریسی اصولوں پر قائم تعلیمی نظام نتیجہ خیز اور ثمر آورثابت ہوتا ہے۔تدریسی اصولوں پرکاربند استا د معلم سے زیادہ، ایک رہنما اور رہبرکے فرائض انجام دیتاہے۔ جدید تعلیمینظریات کی روشنی میں استاد ایک مدرس اور معلم ہی نہیں بلکہ ایک رہبر اور رہنما بھی ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات سے عدم آگہی کی وجہ سے ہم اس نظریہ تعلیم کو جدیدیت سے تعبیر کر رہے ہیں جب کہ یہ ایک قدیم اسلامی تعلیمی نظریہ ہے جہا ں استاد کو معلومات کی منتقلی کے ایک وسیلے کی شکل میں نہیں بلکہ ایک مونس مشفق مربی رہنما اور رہبر کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ تدریسی اصولوں سے باخبر استاد بنیادی تدریسی و نفسیاتی اصولوں کی یکجائی سے تعلیم و اکتساب کو طلبہ مرکوز بنادیتا ہے۔ذیل میں اہمیت کے حامل چند نمایاں تدریسی اصولوں کو بیان کیا جارہاہے ۔
(1) ترغیب و محرکہ تدریسی اصولوں میں اساسی حیثیت کا حامل ہے۔طلبہ میں تحریک و ترغیب پیدا کیئے بغیر موثر تدریس کو انجام نہیں دیا جاسکتا۔ طلبہ میں اکتسابی میلان ترغیب و تحریک کے مرہون منت جاگزیں ہوتاہے۔ حصول علم، پائیدار اکتساب اور علم سے کسب فیض حاصل کرنے کے لئے طلبہمیں دلچسپی اور تحریک پیدا کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔فعال و ثمر آور اکتساب ترغیب و تحریک کے زیر اثر ہی ممکن ہے۔تدریس میں ہر مقام پر طلبہ میں محرکہ کا مطالبہ کرتی ہے۔ بغیر محرکہ پیدا کیئے کامیاب اکتساب ممکن ہی نہیں ہے۔اکتسابی دلچسپیوں کی برقراری کے لئے محرکہ بہت اہم ہے۔محرکہ کی وجہ سے طلبہ میں اکتساب کی تمنا انگڑائی لیتی ہے
2)درس و تدریس استاد اور طالب علم پر مبنی ایک دوطرفہ عمل ہے۔موثر تدریس اور کامیاب اکتساب کے لئے تعلیمی عمل میں استاد اور شاگرد دونوں کی سرگرم شرکت لازمی تصور کی جاتی ہے۔تعلیمی سرگرمیوں کے بغیر تدریسی عمل بے کیف اور عدم دلچسپ بن جاتا ہے۔طلبہ میں اکتسابی دلچسپی کی نمو ،فروغ اور برقراری میں تعلیمی سرگرمیاں بہت اہم ہوتی ہیں۔ کامیاب اکتساب اور موثر تدریس میں محرکہ کے بعد سب سے نمایاں مقام سرگرمیوں پر مبنی تدریس و اکتساب (Activity Based Teaching)کو حاصل ہے۔ سرگرمیوں پر مبنیتدریس طلبہ میں تعلیم سے دلچسپی ،شوق و ذوق پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔سرگرمیوں کے زیر اثر طلبہ میں نصابی مہارتیں فروغ پانے لگتی ہیں۔سرگرمیوں کے زیر اثر انجام پانے والی تدریس اور اکتساب موثر اور پائیدار واقع ہوتے ہیں۔سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ میں عملی اکتساب (Practical Learning)فروغ پاتی ہے۔تدریسی اصولوں میں سرگرمیوں پر مبنی تدریس کو بہت اہمیت حاصل ہے اسی لئے اساتذہ اپنی تدریس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے سرگرمیوں(activities)کو اپنی تدریس کا لازمی جزو بنا لیں۔
(3)دوران تدریس استاد جو حکمت عملی اختیار کرتا ہے اسے تدریسی حکمت عملی یا طریقہ تدریس کہتے ہیں۔تدریسی طریقہ کار معلومات کی منتقلی اورطلبہ میں علم سے محبت و دلچسپی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔تدریس دراصل معلومات کی منتقلی کا نام نہیں ہے بلکہ طلبہ میں ذوق و شوق کو پیدا کرنے کا نام ہے۔ طلبہ میں علم کا ذوق و شو ق اگر پیدا کردیا جائے تب اپنی منزلیں وہ خود تلاش کرلیتے ہیں۔ایک کامیاب استاد اپنے طریقہ تدریس سے طلبہ میں معلومات کی منتقلی سے زیادہ شوق و ذوق کی بیداری کو اہمیت دیتا ہے۔وہ تدریسی حکمت عملی اور طریقہ کار کامیاب کہلاتا ہے جو بچوں میں اکتساب کی دلچسپی کو برقرار رکھے ۔اساتذہ طلبہ میں اکتسابی دلچسپی کی برقراری کے لئے تدریسی معاون اشیاء(چارٹ،نقشے،خاکے،تصاویر،قصے ،کہانیوں،دلچسپ مکالموں اور فقروں) کو اپنی تدریسی حکمت عملی میں شامل رکھیں۔
(4)اختیار کردہ تعلیمی پروگرام اور سرگرمیوں کے پہلے سے طئے شدہ مقاصد ہونے چاہیئے۔ اور ان مقاصد کے حصول کے لئے مناسب لائحہ عمل کے تحت اساتذہ کو تعلیمی سرگرمیوں کو منتخب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔مبنی بر مقاصد تعلیمی سرگرمیاں تعلیمی اقدار کی سربلندی اور بامعنی اکتساب میں بہت معاون ہوتی ہیں۔تعلیمی سرگرمیاں تعلیمی مقاصد سے مربوط ہونی چاہیئے۔ورنہ تعلیمی مقاصد کا حصول اور بامقصد اکتساب دونوں بھی ناممکن ہوجاتے ہیں۔
(5)اساتذہ تدریسی تنوع کے لئے جہاں مختلف سرگرمیوں سے کام لیتے ہیں وہیں تدریس کے دوران انھیں ایک بات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہو تی ہے اور یہ توجہ تدریس کا سب سے اہم اصول ہے اور وہ ہے بچہ کی انفرادیت کا احترام ۔بچے کی انفرادیت اور اس کی شخصیت کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر اساتذہ کو تدریسی خدمات انجام دینی چاہیئے۔دوران تدریس بچے کی انفرادیت اور اس کے اکتسابی تنوع (Learning Diversities)کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔کیونکہ ہر بچے کی ذہنی صلاحیت ، ذہانت ، جذباتیت، احساس دلچسپی اور ضروریا ت میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ان تمام امور کو مد نظر رکھتے ہوئے اساتذہ کو تدریسی فرائض انجام دینا ضروری ہوتا ہے۔اساتذہ جب طلبہ کی شخصیت اور انفرادیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیتے ہیں تب استاد اور شاگرد میں ایک اٹوٹ وابستگی پیدا ہوجاتی ہے اور کند ذہن سے کند ذہن طالب علم بھی تعلیم میں دلچسپی لینے لگتا ہے ۔طلبہ کی انفرادیت اور اکتسابی تنوع کا خیال رکھنے سے ایک بہت ہی خوش گوار تدریسی اور اکتسابی فضا جنم لیتی ہے۔اور اس فضاء میں ہر بچہ خود کو نہایت اہم اور خاص تصور کرنے لگتا ہے۔ تعلیمی و تدریسی حکمت عملی اختیار کرتے وقت اساتذہ طلبہ کے تنوع اور انفرادیت کا بطور خاص خیال رکھیں ۔
(6)موثر تدریس ،بہتر اکتساب اور طلبہ میں تخلیقیت اور اختراعی صلاحیتوں کی نمو و فروغ کے لئے اساتذہ تخلیقی اور اختراعی طریقہ ہائے تدریس کو بروئے کار لائیں۔ طلبہ میں ہر قسم کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ضروری ہوتا ہے اور تخلیقی تدریس اس اہم کام کی تکمیل میٖں ایک اہم عنصر تصور کی جاتی ہے۔تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے والی تدریسی اقداربامقصد اور ثمر آور اکتساب میں کلیدی کردار انجام دیتے ہیں۔
(7)سابقہ معلومات کا موجودہ علم سے ارتباط،نامعلوم کو معلوم سے مربوط کرنا،معلومات زندگی کو عملی زندگی سے جوڑنا ہی علم ارتباط (principal of correlation)کہلاتا ہے۔علم ارتباط کو فن تدریس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے جس کی بغیر علم بے مقصد اور فضول شئے بن جاتا ہے۔علم ارتباط کے ذریعہ معلومات ،دانشوری میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور علم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے طلبہ کے ذہنوں میں محفوظ ہوجاتا ہے۔علم ارتباط کی وجہ سے معلومات(علم ) نہ صرف محفوظ ہوجاتے ہیں بلکہ وقت ضرورت معلومات کو بازیاب (Retention and Retreival)کرنے کی صلاحیت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
(8)تدریس کو معقول موثر اور طلبہ کے لئے دلچسپ بنانے کے لئے اساتذہ ، بہتر سے بہتر طریقہ تدریس(Teaching methods)،تدریسی حکمت عملی(teaching strategies)،تعلیمی معاون اشیاء (Teadching aids)اور دیگر وسائل کا بر موقع استعمال کرنے میں غایت درجہ کی احتیاط سے کام لیں۔موثر تدریس مناسب طریقہ تدریس کے انتخاب کا دوسرا نام ہے۔ اسی لئے اساتذہ کمرۂ جماعت ،طلبہ کی استعداد، اور ذہنی تنوع کو مد نظر رکھتے ہوئے تدریسی طریقوں کا انتخاب کریں ۔
(9)تعلیم و تدریس کا اہم مقصد طلبہ میں صحت مند اقدار کی منتقلی ،صحت مند رویوں ، عادات کی تشکیل و استحکام،نظم و ضبط(discipline) کا فروغ ،کردار سازی، زندگی میں معاون مہارتوں اور عزت نفس کا فروغ ہے۔وہ تعلیم بامقصد اور کارآمد تصور کی جاتی ہے جو ہر طالب علم کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ایک بامقصد اور کارآمد زندگی کے لئے کو تیار کیا جاتا ہے ۔مذکورہ مقاصد کے پیش نظر درس و تدریس کو طلبہ کی شخصی ترقی کا ایک اہم ذریعہ تصور کیا گیا ہے۔ اساتذہ ایسی تدریسی حکمت عملی اور طریقوں کو بروئے کار لائیں جو طلبہ کی شخصی ترقی اور استحکام کا باعث بنے۔
(10)اعادہ (Recapitulation)اور تعین قدر ،جانچ (Evaluation)کے ذریعے اکتساب کی ترقی اور تدریس کی تاثیر کا پتا چلتا ہے۔ اسی لئے ایسی تدریس کامیاب تصور کی جاتی ہے جس میں طلبہ کی مسلسل جانچ اور اعادہ کی کنجائش فراہم کی جاتی ہے۔ اساتذہ موثر تدریس اور مستحکم اکتساب کے لئے اپنی تدریسی حکمت عملی میں جانچ (تعین قدر) اور اعادہ (Recapitualation)کو لازما جگہ دیں۔مسلسل جانچ و تعین قدر کے ذریعہ استاد طلبہ کی اکتسابی ترقی کی جانچ و پیمائش کو انجام دیتا ہے ۔جانچ و تعین قدر کے ذریعہ استاد طلبہ کی اکتسابی ترقی میں مانع عوامل سے واقف ہوتا ہے۔ جانچ و تعین قدر ہی اساتذہ کو اصلاحی تدریس کے طریقے وضع کرنے میں مددفراہم کرتا ہے۔اساتذہ طلبہ کی جانچ و پیمائش کے بعد اصلاحی تدریس کے ذریعہ اکتسابی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اساتذہ اپنی تدریسی سرگرمیوں میں طلبہ کی مسلسل جامع جانچ ،اکتسابی ، اخلاقی اور برتاؤ کی ترقی کے لئے مکمل گنجائش اور مواقع فراہم کریں
11) طلبہ میں خوش گوار اکتساب کے فروغ کے لئے مختلف اوقات اور مراحل میں طلبہ کی نفسیات اور اپنی تدریسی سطح پر اساتذہ کا نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔نفسیاتی اور ذہنی صلاحیتوں کو پیش نظر رکھ کر اساتذہ طریقہ تدریس کو اپنائیں تاکہ تدریس کو طلبہ مرکوز بنایا جاسکے۔وہ تدریس بہتر مانی جاتی ہے جس میں نفسیاتی عوامل پر توجہمرکوز کی جاتی ہے اور نفساتی تقاضوں کے عین مطابق طریقہ تدریس اور تدریسی حکمت عملی وضع واختیار کی جاتی ہے۔
(12) تدریس عمل کو جدید تکنیکی و تخلیقی نظریات سیہم آہنگ کرتے ہوئیمزید بہتر اورعصری تقاضوں کے عین مطابق بنایا جاسکتا ہے۔اساتذہ نئے تعلیمی رجحانات اور اختراعی و تکنیکی وسائل سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے اکتساب کے عمل کو پر کیف ،پائیدار،موثر اور یاد گار عمل بنا سکتے ہیں۔تجربوں اور تجزیات پر مبنی تدریس نہ صرف موثر بلکہ پائیدار بھی ہوتی ہے۔تعلیمی دنیا میں وقوع پذیر تبدیلیوں سے اساتذہ کا واقف ہونا ضروری ہے۔ اساتذہ اپنی صلاحیتوں کو عصری تقاضوں کے عین مطابق بناکر طلبہ کو تعلیمی عمل میں مزید فعال اور سرگرم بناسکتے ہیں۔عصری تقاضوں سے نا واقف اساتذہ معلومات میں اضافہ تو کجا طلبہ کی رہی سہی صلاحیتوں کے بے دردانہ قتل کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ایک بہتر استاد تدریس کے اساسی پہلوؤں سے سرموئے انحراف کیئے بغیر نئے تدریسی تجربات و طریقوں کو ایجاد و اختیار کرتا ہے۔
تدریسی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے استاد نہ صرف اپنی تدریسی صلاحیتوں کو فروغ دیتا ہے بلکہ معیاری اکتساب کو پروان چڑھانے میں کامیابی بھی حاصل کرتا ہے۔تدریسی اصولوں پر عمل پیرائی کے ذریعہ مشکل اور گنجلک تدریسی مسائل آسان اور سہل ہوجاتے ہیں۔ تدریسی اصول کے ذریعے نہ صرف استاد الجھن اور پریشانی سے محفوظ رہتا ہے بلکہ طلبہ بھی تشکیک اور تشویش سے مامون رہتے ہیں۔استاد کا میکانکی انداز میں سبق پڑھا نا طلبہ کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ زمانے قدیم سے یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ طلبہ میں علم حاصل کرنے کے لئے شوق و ذوق بہت ضروری ہے۔ میری نظر میں جس طرح حصول علم کے لئے طلبہ میں شو ق و ذوق ضروری ہے بالکل اسی طرح موثر تدریس کے لئے استا د میں بھی تدریس افعال کی انجام دہی کے لئے شوق و ذوق اور جوش و جذبے کا پا یا جا نا نہایت ضروری ہے۔طالب علم کی ذہنی استعداد کی طرح معلم کی تدریسی لیاقت بھی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔اکثر و بیشتر طلبہ ہی امتحان اور آزمائش کے نام پر تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔ بہت ہی کم یا نہیں کے برابر اساتذہ کی تدریسی لیاقت اور استعداد کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔ اکتساب کے زوال یاماند پڑھنے پر عموما طلبہ کو لعن طعن کا سامنا کرنا پڑتا ہے بہت کم اساتذہ کی تدریسی لغزشوں کی طرف نگاہ کی جاتی ہے ۔اس حقیقت سے مجھے کوئی انکار نہیں ہے کہ فروغ علم اور اکتساب کے زوال میں طلبہ کی غفلت شامل حال ہے لیکن بد کو بدتر بنانے میں اساتذہ کا بھی کہیں نہ کہیں ہاتھ ہے۔ اساتذہ کامیاب طلبہ کو جس شان سے اپنی کارکردگی کا نمونہ بنا کر پیش کرتے ہیں اسی طرح ضروری ہے کہ وہ بچوں میں اکتساب کی ماندگی کے اسباب تلاش کرنے کیعلاوہ اپنے تدریسی طریقہ کارکی خامیوں کا بھی جائزہ لیں۔اپنے تدریسی تجربات کی روشنی میں مجھے یہ بات کہتے کوئی عار محسوس نہیں ہورہاہے کہ اساتذہ اپنی تدریسی جہالت کی بناء پر بچوں کی صلاحیتوں کا قتل کر رہے ہیں۔حروف کی ترتیب و صوتیات سے واقف فرد استاد نہیں ہوتا ہے بلکہ استاد طلبہ کے نفسیاتی ،معاشرتی مسائل کا ادراک رکھتا ہے ان کی سابقہ معلومات اور ذہنی صلاحیتوں اور استعداد کو ملحوظ رکھ کر اپنی تدریسی حکمت عملی وضع کرتا ہے۔بہتر ،کامیاب اور موثر تدریس کی انجام دہی کے لئے استاد کا لائق ،قابل اور تربیت یافتہ ہونابہت ضروری ہے۔ اساتذہ درس و تدریس کے جدید نظریات اور تکینک سے خود کو آراستہ کرتے ہوئے ایک جہالت سے پاک معاشرے کی تعمیر میں نمایا ں کردار انجام دے سکتے ہیں۔
سوال
مدرسے کی سزا اور جزا میں معلم کے کردار تفصیلی بحث کریں
طالب علم جس شخصیت سے زیادہ متا ثر ہوتا ہے، وہ اس کا استاد ہے۔ طالب علم اپنے استاد سے تہذیبی اقدار اور اخلاقیات کے وہ اسالیب سیکھتا ہے جو اس کی زندگی کا رُخ بدل دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ استاد کی ’’شخصیت‘‘ سے مراد کیا ہے ؟ آسان لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’شخصیت‘‘ سے مراد اس کا رویہ اور ظاہری تصویر مثلاً لباس، چال ڈھال، لب و لہجہ اور برتاؤ ہے۔ ’’مثالی‘‘ کا سابقہ ساتھ لگا کر استاد یعنی ’’مثالی استادکی شخصیت‘‘ کے مفہوم میں چند دیگر امور بھی شامل ہوتے ہیں۔ استاد کی شخصیت تب کامل ہوگی جب اعلیٰ اخلاق، حسین ظاہر ی تصویر کے ساتھ تدریسی عمل میں اخلاصِ نیت، ذاتی شوق و دلچسپی اور تدریسی عمل کے ذریعے طالبِ علم کی اصلاح و تربیت کا اور اسی طرح مثالی طلبہ کے ذریعے پورے معاشرے کی تعمیر کا جذبہ شامل ہو۔ دینی مدارس کے اساتذہ کرام کے لیے اپنی شخصیت میں نکھار ، حسن اور شائستگی پیدا کرنے کے لیے بہترین نمونہ تو سیرت طیبہ ہی ہے، اس کے بعد اسلاف کی عظیم تاریخ ہے ۔ جس میں شخصیت کی تکمیل و تحسین کا پورا سامان موجود ہے۔ عصر حاضر کے تناظر میں بات کی جائے تو واضح رہنا چاہیے کہ استاد کا کام طالب علم کو محض چند اسباق یا کتب پڑھا دینا نہیں ہے، بلکہ اس کا اصل کام اپنے طلبہ میں علم کا شوق پیدا کرنا، مزید جاننے کی لگن پیدا کرنا اور تحقیق و جستجو کے لیے ان کی استعداد میں اضافہ کرنا ہے۔
استاد کا ظاہر
استاد جتنی دلکش اور اچھی شخصیت کا مالک ہوتا ہے اس کا اتنا ہی اچھا اور مثبت اثر طالب علم پر پڑتا ہے ۔ طالب علم اپنی شخصیت کی تعمیر میں اس کا اتباع کرتا ہے اور حصول علم میں اس کی زبان سے ادا ہونے والے ایک ایک لفظ پر خصوصیت کے ساتھ توجہ دیتا ہے ۔استاد کا ظاہر کافی وسیع مفہوم رکھتا ہے جس پر مسلمان اہل علم، بالخصوص محدثین کے قدیم ادوار ہی کی تحریر یں موجود ہیں۔ جو عام طور پر ’’سامع و متکلم‘‘ یعنی حدیث لینے والے طالب علم اور حدیث بیان کرنے والے استادکے لیے آداب کے عنوان سے معروف ہیں۔ بطور مثال یہاں چند آداب کا ذکر غیر ضروری نہ ہوگا۔
طالب علم کو جھوٹ سے پرہیز اور سچ بولنے کی عادت ڈالنے کے لیے استاد کو جھوٹ بولنے سے اجتناب اور سچ بولنے کا التزام کرنا ہوگا۔
استاد کا طلبہ کے ساتھ گفتگو کا انداز اور لب ولہجہ ہمہ وقت نرم و شیریں ہونا چاہیے ۔ زبان کی نرمی اور سختی کے اثرات اور نتائج بہت دور رس ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اپنے متبعین اور متعلقین کو شیر یں گفتاری اور خوش کلامی کی بڑی تاکید فرماتے اور بدزبانی اور سخت کلامی سے شدت کے ساتھ منع فرماتے تھے ۔ یہاں تک کہ بری بات کے جواب میں بھی بری بات کہنے کو آپؐ پسند نہیں فرماتے تھے ۔
معاشی زندگی میں جو پیشے عرفِ عام میں یا شرعاً ر ذیل اور ناپسند یدہ شمار ہوتے ہیں، اساتذہ کو چاہیے کہ ان سے پرہیز کریں۔ کوئی ایسا کام نہ کریں جس کی وجہ سے اُن پر کوئی الزام لگنے کا اندیشہ ہو۔ جو کام بظاہر معیوب اور مکروہ ہو اس کے ارتکاب سے بچیں اگرچہ درحقیقت وہ کام جائز اور درست ہو۔ اس لیے کہ ایسے کام کرنے سے نہ صرف ان کی عزت گھٹ سکتی ہے بلکہ خود ان کی شخصیت کا وقار اور اعتماد بھی متاثر ہونے کا اندیشہ رہتا ہے ۔
مدارس کے اساتذہ کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ عادات، اقوال و اعمال،لباس اور وضع قطع کے لحاظ سے ہمیشہ حدِّ جواز کے قریب رہنے کے بجائے مستحبات اور مندوبات کی جانب بڑھیں۔ ایک استاد، جس کو تعلیم و تربیت کی عظیم ذمہ داری اٹھانے پر معمارِ قوم کا خطاب ملا ہے ، اس کے لیے شایاں نہیں کہ مستحسن امر ترک کرکے صرف جائز ہی پر اکتفا کرے۔
تعلیمی اداروں میں سزا کا اسلامی تصور
تعلیمی اداروں میں تعلیم کے لیے تشدد اورمارپیٹ کاتصور بہت شدید قسم کی وابستگی رکھتاہے، لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ سخت مار کے بغیر بچے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ یہ ایک غلط تصور ہے، اس سے بچے کو تعلیم سے نفرت بھی ہوسکتی ہے اور تعلیمی سلسلے کو ادھورا چھوڑ کر بھاگ بھی جاتے ہیں۔ درس وتدریس کے سلسلے میں قرآنی تعلیمات یہ ہیں کہ آپ نرم خوئی اوررحم دلی سے کام لیں اوردرشت مزاجی سے گریز کریں۔ اللہ تعالیٰ پیغمبر m کو فرماتے ہیں: ’’فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ، وَلَوْکُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ۔‘‘(۱) ’’پس اللہ کی رحمت ہی تھی جس کی بنا پر آپ لوگوں کے لیے نرم خوہوگئے اور اگر آپ درشت مزاج اور سخت دل ہوتے تویہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے۔‘‘ اسی طرح پیغمبر m کا ارشاد ہے کہ: ’’میں ہر معاملہ میںآسانی کرنے والا استاذ بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔‘‘(۲) ان واضح ارشادات کی روشنی میں تعلیم کومارنے سے نہیں، بلکہ پیار سے عام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج المیہ یہ ہے کہ بعض اساتذہ بچوں کو بڑی بے رحمی سے مارتے ہیں اورجب چھڑی اٹھاتے ہیں توپھر روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیتے ہیں، ان کواس وقت کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ چھڑی بچے کے جسم پر کہاں لگ رہی ہے، اس سے نقصان کا کس قدر اندیشہ ہے۔ بعض اساتذہ کو دیکھاگیاہے کہ وہ بچوں کی ہڈی پر زور زور سے چھڑیاں مارتے ہیں ، بچوں کو تھپڑ، مکے، گھونسے اور لاتیں مارتے ہیں۔ بچوں کے ہاتھ پائوں کو بے دردی سے مروڑتے ہیں۔ یہ سب چیزیں قرآن وسنت، خلف وسلف کے افکار اور فقہ اسلامی کے سراسر خلاف ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ طلباء کرام کو جرائم پر سزادی جاسکتی ہے۔ اس طرح علم وادب سکھانے کے لیے بھی بقدرِ ضرورت سزا کی اجازت ہے، جس کے لیے شریعت نے حد مقرر کی ہے۔ جرائم پر سزا کاتصور قرآن نے تسلیم کیاہواہے، مثلاً خاوند کو اجازت ہے کہ وہ اپنی بیوی کو تعظیم کے دائرے میں رکھے۔ نفسیاتی سزا کے طورپر اس سے ہم بستری نہ کرے۔ اگر نفسیاتی سزا بے اثر ہوتی ہے تو اُسے معمولی طور پر جسمانی سزا دے سکتا ہے۔ باپ کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ بچوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے مارے۔ اس معاملہ میں جس حدیث کا حوالہ آتاہے اس کے مطابق بچوں کو سات سال کی عمر میں کہنا چاہیے کہ وہ نمازپڑھیں اوردس سال کی عمر میں انہیں مارنے کا بھی حق ہے۔ شارحین حدیث نے اس حدیث سے یہ استدلال کیاہے کہ بچوں کوتعلیمی اداروں میں مارنا اسلامی تعلیمات سے روگردانی نہیں ہے، البتہ کڑی سزا اور بچوں کو مرعوب کرنے کے لیے موقع بہ موقع ڈنڈا چلانا مضر اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ سزا فقہ اسلامی کی روشنی میں فقہ اسلامی میں یہ تصریح موجود ہے کہ اساتذہ کی اول ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ اپنے شاگردوں کو بہت شفقت سے پڑھانے کااہتمام کریں، وقتاً فوقتاً ان کو ترغیب دینے اورشوق دلانے کا سلسلہ رکھیں۔ اگر کبھی غلطی ہوجائے توزبانی سمجھانے کی کوشش کریں۔ اگر سمجھانا مفید نہ ہو تو زبانی تنبیہ کریں، کچھ ڈانٹ پلادیں (لیکن تنبیہ اورڈانٹ میں غیر مہذب کلمات استعمال کرنے سے اجتناب کریں) اگر یہ بھی مفید نہ ہو تو پھر بوقت ِضرورت بقدرِ ضرورت سزادینے کی بھی گنجائش ہے، مگر سزا دینے میں چند باتوں کی احتیاط کی جائے: ۱:۔۔۔۔۔ اتنا نہ مارا جائے کہ جسم پر کوئی گہرا نشان ہوجائے۔ علامہ حصفکی v فرماتے ہیں : ’’إذا ضرب المعلم الصبی ضربًا فاحشًا فإنہ یعزر و یضمنہ لومات ۔‘‘ (۳) ’’جب استاد بچے کو سخت مارے تواس استاد کو تعزیرکی جائے گی، اگر بچہ مر گیا تووہ اس کا ضامن ہوگا ۔‘‘ علامہ ابن عابدین v فرماتے ہیں: ’’ لیس لہ أن یضربھا فی التأدیب ضربًا فاحشًا وھوالذی یکسر العظم أویحرق الجلد أو یسوّدہٗ۔‘‘(۴) ’’استاد کے لیے یہ جائز نہیں کہ شاگرد کو ادب دلانے کے لیے سخت مارے ، سخت مارنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ہڈی ٹوٹے، کھال اُکھڑے یا کھال سیاہ ہوجائے۔‘‘ ۲:۔۔۔۔۔ سزابچے کے تحمل سے زیادہ نہ ہو، نبی کریم a نے ایک معلم سے فرمایا : ’’إیّاک أن تضرب فوق الثلاث فإنک إذا ضربتَ فوق الثالث اقتص اللّٰہُ منک۔‘‘ (۵) ’’تین ضرب سے زیادہ مت مارو، اگر تم تین ضرب سے زیادہ ماروگے تو اللہ تعالیٰ تم سے قصاص لے گا۔‘‘ ۳:۔۔۔۔۔ چہرے پر نہ مارا جائے۔ رسول اللہ a نے چہرے پر مارنے سے منع فرمایاہے۔ ملا علی قاری v فرماتے ہیں کہ: چہرے پر مارنے کی ممانعت اس وجہ سے ہوئی ہے کہ یہ اعظم الاعضاء ہے اوراجزاء شریفہ اورلطیفہ پر مشتمل ہے، اگر کسی نے چہرے پر تھپڑ مارا تواس پر ضمان لازم ہے، جیساکہ علامہ ابن عابدین vنے اس بات پر تصریح کی ہے: ’’ فلوضربہٗ علی الوجہ أوعلٰی المذاکیر یجب الضمان بلاخلاف ۔‘‘ (۶) ’’اگر کسی کو چہرے پر مارا یا اندام مخصوصہ پر تواس پر بغیر کسی خلاف کے ضمان واجب ہوگی۔‘‘ ۴:۔۔۔۔۔بلاقصور نہ ماراجائے۔ اگر کسی استاد نے بلاقصور بچے کومارا تویہی استاذ سزا پانے کے قابل ہے۔ شامی میں ہے: ’’إذا ضربھا بغیر حق وجب علیہ التعزیر وإن لم یکن فاحشا۔‘‘ (۷) ’’جب (بچے) کو بغیر قصور مارا تواس پر تعزیر واجب ہوگی، اگر چہ اس نے سخت نہیں ماراہو۔‘‘ درمختار کے اس قول ’’ لہٗ إکراہ طفلہ علی تعلیم القرآن وأدب وعلم ‘‘ سے معلوم ہوتاہے کہ بدتمیزی کرنا اور سبق میں کوتاہی کرنا دونوں قصور ہیں جن کی وجہ سے بچوں کوسزا دینا جائز ہے۔ ۵:۔۔۔۔۔ سزا ضربِ معتاد سے زیادہ نہ ہو خواہ کیفاً ہو (جیسے بچے کو الٹا مارنا) خواہ کماً ہو (جیسے تین ضربوں سے زیادہ مارنا)خواہ محلاً ہو (جیسے چہرے اوراندام مخصوصہ پر مارنا) شامی میں ہے کہ اگر کسی نے ضرب معتاد سے زیادہ مارا تواس پر ضمان واجب ہوگا۔ سزا اورجدید تعلیمی نفسیات کی تحقیق جدید تعلیمی نفسیات کی تحقیق سے ثابت ہوتاہے کہ طلبہ کو اخلاقی جرائم پر سزا دی جاسکتی ہے، اس کے علاوہ جسمانی سزا طلبہ کے تعلیمی عمل پر بُرا اثر ڈالتی ہے، لہٰذا حتیٰ الامکان جسمانی سزا سے معلم گریز کرے۔ سزا طالب علم کی عزتِ نفس اورخودداری مجروح کرتی ہے۔ استاد کے خلاف نفرت پیداکرتی ہے اوربسااوقات طالب علم سلسلۂ تعلیم ہی ختم کردیتاہے، لہٰذا استاد کو بچوں کی نفسیات سے پوری طرح واقف ہونا چاہیے۔ اما م غزالی v فرماتے ہیں کہ: تدریس کے دوران استاد کو طالب علم کی نفسیات کے مطابق اپنے تدریسی امور سرانجام دینے چاہئیں۔ مسلمان مفکرین: تعلیم اور سزا ۱:۔۔۔۔۔ ابن خلدون ؒ خوب یاد رکھیے! تعلیم کے سلسلے میں بے جا مارپیٹ اورڈانٹ ڈپٹ مضر ہے، خصوصاً چھوٹے بچوں کے حق میں، کیونکہ یہ استاد کی نااہلی اورغلط تربیت کی نشانی ہے۔ جن کی نشوونما ڈانٹ ڈپٹ اور قہر وتشدد سے ہوتی ہے، خواہ وہ پڑھنے والے بچے ہوں یا لونڈی غلام یا نوکر چاکر، ان کے دل ودماغ پر استاد کاقہر ہی چھایاہوتاہے۔ بے چاروں کی طبیعت بجھ کر رہ جاتی ہے، امنگ وحوصلہ پست ہوجاتاہے، شوق ودلچسپی جاتی رہتی ہے اورطبیعت میں مستی پیداہوجاتی ہے، بلکہ بعض اوقات تودماغ معطل ہوکر رہ جاتا ہے۔ تشدد سے جھوٹ اور بدباطنی پیدا ہوتی ہے اور خود داری سلب ہوجاتی ہے، گویا جبر وتشدد بچوں کومکروفریب اوردغابازی کی تعلیم دیتاہے۔ (۸) ۲… امام غزالیv استاد کو بچوں کی بدسلوکی پرنصیحت کرنا چاہیے، لیکن سزا کے معاملے میں اُسے کھلے عام اورطوالت سے پرہیز کرنا ہوگا، کیونکہ اس سے طالب علم اور استاذ کے درمیان احترام کا پردہ ہٹ جاتا ہے۔(۹) ۳… ابن حجر v استاذ کو کڑی سزا دینے کا حق نہیں، تاوقتیکہ وہ اس کے والد یا سرپرست سے اجازت نہیں لے لیتا۔(۱۰) ۴… معلم تیونس Al.Qalishi استاد صاحب ناراض ہو تواس حالت میں اس کو مارنا نہیں چاہیے، کیونکہ ایسے موقع پر اس کے ذاتی احساسات حالات کو مسخ کرسکتے ہیں۔ اسی معلم نے ایک اور اصول پر زور دیاہے، وہ یہ ہے کہ استاذ کو ذاتی وجوہات کی بنا پر سزا نہیں دینی چاہیے۔
سوال
طبعی سماجی اور اسلامی علوم کے ساتھ اسلامیات کے ربط اور تعلق کو ااپنے الفاظ میں بیان کر یں ۔
ہمارے نظام تعلیم میں مضامین کو مخصوص شعبوں کے ذریعہ اس طرح منضبط اورمرتب کیا گیا ہے کہ ایک شعبے کے طلبہ دوسرے مضامین سے قطعی ناواقف رہتے ہیں ۔ اگرچہ علوم اب اتنے وسیع ہو چکے ہیں کہ تخصیص(سپیشلائزیشن) لازمی ہو گئی ہے۔ تاہم آرٹس کے طلبہ کو سائنس کی بنیادی باتوں اور سائنس کے طلبہ کو معاشرتی علوم کی بنیادی باتوں کا ضرور علم ہونا چاہئے تاکہ ذہنوں میں ضروری وسعت پیدا ہو اور طلبہ اپنے مخصوص مضامین میں گم ہو کر نہ رہ جائیں اور زندگی کے دوسرے شعبوں کے بارے میں قطعی بے علم رہ جانے کی وجہ سے محدود نقطہ نظر اور حقیقت سے عاری ذہنیت پیدا نہ کر لیں۔ علاوہ ازیں اس بات کی شدت سے کمی محسوس کی جا رہی ہے کہ سکول ‘ کالج‘ یونیورسٹی اور دینی مدارس کے نصاب تعلیم میں انقلابی تبدیلی کی جائے کیونکہ جو طلباء سکول‘ کالج‘ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کا نصاب ایسا ہو کہ انہیں دین اسلام کے عقائد و نظریات کے بارے میں جاننے کا موقع ملے نیز انہیں عملی زندگی اسلام کے مسلمہ اصولوں کے مطابق بسر کرنے کی تربیت دی جائے۔ بالکل اسی طرح جو طلباء دینی مدارس سے تحصیل علم کرتے ہیں انہیں ضروری ہے کہ جدید علوم مثلاً سائنس ‘ ریاضی‘ کمپیوٹر‘ مطالعہ پاکستان وغیرہ سے آگاہ کیا جائے۔ لہٰذا ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کیلئے ضروری ہے کہ دینی مدارس اور سکول و کالج اور یونیورسٹی کے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں وحدت قائم کی جائے۔
افغانستان کیلئے فوری اقدامات اٹھانا ہوں گے: وزیر اعظم عمران خان ہمارے موجودہ نصاب ہائے تعلیم میں نظری تعلیم پر بہت زور دیا جاتا ہے لیکن عملی تربیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ کمپیوٹر کا دور ہے لہٰذا بڑھتی ہوئی فنی اور ٹیکنیکل ضروریات کا تقاضا یہ ہے کہ تعلیم کے ذریعہ محض کلرک پیدا نہ کئے جائیں بلکہ طلبہ کو مختلف شعبوں میں مہارت بہم پہنچا کر معاشی زندگی کے ہر شعبے کے لئے ماہر افراد پیدا کئے جائیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب پرائمری تعلیم کے بعد ثانوی تعلیم کا درجہ شروع ہوتے ہی طلبہ کو مختلف ہنر بھی سکھائے جائیں تاکہ جو طلبہ ثانوی یا اعلیٰ ثانوی درجوں تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کر سکیں وہ کسی ہنر یا فن میں مہارت رکھتے ہوں اور باعزت طریقے سے اپنی روزی کمانے کے قابل ہوں۔ فنی تعلیم کے بغیر محض ڈگری لینے کے بعد روزگار کے مواقع میسر نہ آنے پر ہمارے نوجوان جرائم کی دنیا کی نذر ہو جاتے ہیں۔ یہ صورتحال موجودہ نظام تعلیم کے ناقص ہونے پر دلالت کرتی ہے۔
وفاقی وزیر شبلی فراز کی گاڑی پر فائرنگ، گارڈ اور ڈرائیور زخمی
ہماری تعلیمی پسماندگی کا ایک اہم سبب ذریعہ تعلیم و تدریس ہے۔ ابھی تک اعلیٰ درجوں کے طلبہ کو غیر ملکی زبان کے ذریعہ تعلیم دی جاتی ہے۔ پہلے یہ خرابی چھوٹے درجوں میں بھی تھی لیکن قوم کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اب ڈگری (بی اے‘ ایم اے) تک کی تعلیم میں اپنی قومی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کا اختیار دیا گیا ہے۔ تاہم ابھی فنی اور پیشہ وارانہ اداروں میں غیر ملکی زبان ہی ذریعہ تعلیم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ناکام طلبہ کی تین چوتھائی تعداد اسی مضمون(انگلش) میں فیل ہوتی ہے۔ اکثر طلباء انگریزی بطور لازمی مضمون کی وجہ سے تعلیم سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں یعنی ان طلبہ کی قوتیں غیر ملکی زبان کی مشکلات پر قابو پانے میں صرف ہو جاتی ہیں اور مختلف شعبوں میں تخلیقی ذہن کو ابھرنے کا موقع نہیں ملتا۔ اگر ہماری پوری تعلیمی سرگرمیاں اردو میں سرانجام پائیں تو طلبہ کا بہت سا وقت بچ سکتا ہے اور وہ مختلف مضامین میں گہری بصیرت حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں کیونکہ زبان محض ایک ذریعہ تعلیم ہی نہیں ہوتی بلکہ کسی قوم کے تہذیب و تمدن کا مظہر بھی ہوتی ہے۔ قومی زبان کو اپنانے سے پاکستانی طلبہ میں اپنی قومیت کا صحیح شعور اجاگر ہو گا اور انہیں ذہنی غلامی سے نجات ملے گی۔
پاکستان،ملائیشیا کاڈرامہ،فلم،میڈیاصنعت میں تعاون بڑھانے پراتفاق
ہمارے موجودہ نظام تعلیم میں امتحانات کاطریقہ بھی غلط ہے۔ ہمارے ہاں جو امتحانات ہوتے ہیں ان کے ذریعہ قوت یاداشت کا اندازہ تو ہو جاتا ہے لیکن کسی کی قابلیت اور ذہانت اور کسی مضمون میں اس کی بصیرت و مہارت کا صحیح اندازہ محض ان امتحانات سے نہیں لگایا جا سکتا۔ ان امتحانات میں وہ طالب علم بہت اچھا نتیجہ ظاہر کرے گا جس نے اتفاقاً ایک آدھ دن پہلے سارے نصاب میں صرف وہ سوال پڑھ لئے ہوں جو امتحان میں آ گئے ہوں لیکن ایسا طالب علم جس نے سارا نصاب تو پڑھا مگر اتفاقاً وہ سوال نہ پڑھ سکا جو پوچھے گئے تو وہ مشکل سے ہی کامیاب ہو سکے گا لہٰذا موجودہ طریق امتحان میں بھی اصلاح کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں مغربی ممالک کے نظام ہائے تعلیم کے اچھے پہلو اپنانے چاہئیں۔ اساتذہ کرام کا طریقہ تدریس معیار تعلیم کے عروج و زوال میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ ہمارے ہاں اساتذہ کے طریقہ ہائے تدریس میں خاصی اصلاح کی ضرورت ہے۔ بچوں کو خوف سے ڈرا دھمکا کر یا بعض مجبوریوں کی وجہ سے پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ کلام روم میں استاد کی غیر حاضری اور زبردستی بچے کو ٹیوشن پڑھنے کی رغبت سے علمی ماحول کا فقدان ہے۔ خلاصے‘ ٹیسٹ پیپرز کی وجہ سے ہمارے ہاں لائبریریوں کی اہمیت طلبہ کے ذہن نشین نہیں کرائی جاتی اور نہ لائبریریوں سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کے وسیع مواقع ہی انہیں مہیا کئے جاتے ہیں۔
نظام تعلیم اور نظام تربیت دینی مدرسوں کے دو ایسے بنیادی عنصر ہیں جن کو معیاری اورمستحکم بنانے کے لیے جلسوں، میٹنگوں اور منصوبوں سے زیادہ ضروری عملی اقدامات ہیں، مدارس عربیہ کے مہتمم وذمہ دار حضرات کا مزاج عموماً یہ بن چکا ہے کہ مدرسہ کے ظاہری وجود (تعمیرات) بڑھانے اور حصولِ مالیات پر ان کی توجہ زیادہ رہتی ہے، مدرسہ کے تعلیمی نظام ومعیار پر توجہ برائے نام اور دوسرے نمبر پر ہوتی ہے اور تربیتی ماحول سازی اور اس کے لیے عملی کوششوں یا اساتذئہ کرام سے طلبہ کی تربیت کے موضوع پر گفتگو یا مشاورت کا کبھی نمبر نہیں آتا اور یہ شعبہ ہمیشہ بے توجہی کا شکار رہتے ہوئے تعلیمی سال پورا ہوجاتاہے، اس کا منفی اثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ طلبہ کا نہ تو نمازوں کا مزاج بنتا، نہ اخلاق وکردار قابل اطمینان ہوتے ہیں اور نہ وضع قطع پورے طور پر شریعت وسنت کے مطابق ہوپاتی۔ تربیت سے کورے ایسے طلبہ معاشرہ میں کیا اثرات چھوڑتے ہیں، ہر ذی شعور آدمی اس کا نہ صرف اندازہ لگاسکتا ہے؛ بلکہ تربیتی ماحول سے عاری مدرسوں کے ایسے غیرتربیت یافتہ طلبہ کا بخوبی مشاہدہ کرسکتا ہے۔
اس وقت ہماری ان معروضات کا اصل مقصد اپنے ہم مشرب اہل مدارس کو تعلیم وتربیت کے معیار اور استحکام کے لیے عملی اقدامات کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ اگر واقعی ہم مخلصانہ طور پر ادارہ چلانا چاہتے ہیں تو ہمیں درجِ ذیل اُمور کو سنجیدگی سے اپنانا ہوگا۔
(۱) لائق اور باصلاحیت مدرسین کا انتخاب کریں، گرانی کے مدنظر اور یہ سوچتے ہوئے کہ مدرس بھی ہماری طرح ایک انسان ہے، اس کے بھی بشری تقاضے ہیں، بہت زیادہ نہیں تو اچھی مناسب تنخواہ اس کے لیے تجویز کریں۔ نیز کوشش کریں کہ اس کے لیے فیملی کواٹر (رہائشی مکانات) کا نظم بھی مدرسہ کی جانب سے ہوجائے، یقینا اس کا فائدہ ادارہ کی طرف لوٹے گا۔
(۲) ہفتہ میں نہیں تو پندرہ روز میں ضرور اپنے مدرسین کو بیٹھا کر کتاب ”مثالی استاذ“ میں سے کچھ مضمون سنائیں اور بچوں کی تعلیم وتربیت کے متعلق مذاکرہ کریں۔
(۳) ہرماہ تعلیمی جائزہ کا نظام بنائیں، عربی درجات نہ ہوں تو حفظ وناظرہ اور تجوید وغیرہ کے درجات میں آپ خود یا اپنے معتمد سے تعلیمی تحریری جانچ کرائیں جانچ کا پرچہ اس طرح مرتب ہو کہ ہر بچہ کی ہر ماہ کی تعلیمی کیفیت اورایام حاضری محفوظ ہوجائیں؛ تاکہ اگلے ماہ جائزہ میں فرق سامنے آجائے، کمزوری بدستور رہنے کی صورت میں استاذ سے بازپرس ہو۔
(۴) عربی درجات اگر قائم ہیں تو ماہانہ اور سالانہ نصاب تعلیم کی مقدار ضرور متعین فرمائیں، نیز ہر ماہ مدرسین سے ہر کتاب کی مقدار خواندگی لکھ کر اپنے پاس جمع کریں؛ تاکہ ہر مہینہ کی تدریسی مقدار سامنے رہے۔
(۵) ایک ادارہ کے ذمہ دارو مہتمم کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنا ایک گھنٹہ تدریس کے لیے ضرور رکھیں؛ تاکہ اپنے اسلاف واکابر کی پاکیزہ روایت کی اتباع کے ساتھ اپنا ذاتی نفع بھی ہو، اگر فارسی وعربی کی جماعتیں نہ ہوں تو شعبہٴ تحفیظ القرآن کے بچوں کا اُردو نصاب وغیرہ کا ہی گھنٹہ اپنے لیے لازم کرلیں۔
(۶) تعلیمی اُمور سے متعلق اگر کوئی مدرس مشورہ پیش کرے تو اس کو یکسر نظر انداز نہ کریں؛ بلکہ اس کو سنجیدگی سے سن کر ادارہ کے مفاد میں مناسب اقدام کریں اور مدرسین سے چندہ ہرگز نہ کرائیں۔
(۷) ششماہی وسالانہ امتحان کا انعقاد باقاعدگی کے ساتھ ہو عجلت اور خانہ پُری کے پہلو کو نظرانداز کرتے ہوئے فراغت واطمینان کے ساتھ تقریری وتحریری امتحان کا نظم کیا جائے۔ اچھے باذوق مدرسین کو مدعوکریں اور بہ وقت امتحان ان سے واضح طور پر بتادیں کہ امتحان کا رسمی تاثر نہ لکھ کر طلبہ کی انفرادی یا اجتماعی خامی، کمزوری کی نشاندہی کریں؛ تاکہ اس کے ازالہ کی مثبت کوشش بآسانی اساتذئہ کرام انجام دے سکیں۔ نیز ممتحن حضرات کی نشان زدہ خامیوں اور غلطیوں پر کبیدہ خاطر نہ ہوں؛ بلکہ خوش دلی کے ساتھ ان کو قبول کریں اور مہمان ممتحن حضرات کو اپنا خیرخواہ ومحسن تصور کرتے ہوئے اپنے ادارہ میں انھیں بلانے کا سلسلہ متواتر جاری رکھیں۔ خامیاں سامنے آنے پر مدرسین کو اصلاح کا موقع دیں، ان سے بدظن نہ ہوں اور نہ ان کو معزول کرنے کا خیال کریں۔
(۸) طلبہ کی تعطیل پر قابوپانے کے لیے مناسب ضابطہ تجویز کرنا ضروری خیال کریں، علاقائی طلبہ کے لیے بھی اور دوسرے صوبوں و اضلاع کے طلبہ کے لیے بھی ان کے حسب حال غور وفکر کے بعد ایسا اُصول بن جائے کہ طلبہ چھٹیاں کم لیں اور اپنے اوقات کی پابندی کریں۔
(۹) موبائل کے تعلق سے چشم پوشی قطعاً نہ کی جائے، خاص طور پر چپ والا موبائل اگر کسی طالب علم کے پاس سے برآمد ہو، اس کو منع کریں اور نہ ماننے کی صورت میں اس کو ادارہ میں ہرگز نہ رکھیں۔ گاہ بگاہ طلبہ کی نگرانی کے لیے چند اساتذہ کو مقرر کردیں؛ تاکہ چند فاسد مزاج طلبہ کی وجہ سے پورے مدرسہ کا تعلیمی ماحول متاثر نہ ہو۔
(۱۰) مدرسہ کے منتظم ومہتمم کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا زیادہ وقت مدرسہ میں گذرے شدید تقاضے ہی میں سفر ہو، بعض مدرسوں کے ذمہ دار حضرات کئی کئی ماہ چندہ کے لیے سفر میں رہتے ہیں، حتیٰ کہ بعض حضرات تو ششماہی یا سالانہ امتحان میں بھی موجود نہیں رہ پاتے، اس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ تعلیم چوپٹ ہوجاتی ہے۔
(۱۱) ایک ادارہ کے سربراہ و ذمہ دار کے لیے جس طرح ادارہ کے تعلیمی وانتظامی اُمور میں سرپرست حضرات سے مشاورت لازم ہے، اسی طرح اپنی نگرانی واصلاحِ نفس کے لیے بھی اپنا بڑا کسی کو مقرر کرنا ضروری ہے۔ صلحاء ومشائخ، مرشدین کاملین ہر زمانہ میں موجود رہتے ہیں، مہتمم صاحب جب اپنی اصلاحی وابستگی کسی بزرگ سے رکھیں گے تو عملہ کے افراد پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
(۱۲) تعلیمی سال کے آغاز میں اگر ہوسکے تو اپنے ادارہ میں زیرتعلیم بچوں کے سرپرست حضرات کی ایک میٹنگ ضرور منعقد ہوجائے۔ اس میں تعلیمی امور سے متعلق چند ضروری باتیں سرپرستوں سے زبانی ہو کہ بچہ کی تعلیم میں اہل خانہ مزید اعانت کس طرح کریں، گھر جانے پر بچہ کی نگرانی، خرچ کے لیے زیادہ رقم اس کے ہاتھ میں نہ دینا، غلط مصاحبت سے بچہ کو کیسے بچایا جائے وغیرہ ان باتوں کو تحریری طور پر مرتب کرکے سرپرستوں کے حوالہ بھی کردیں؛ تاکہ وہ ان کو سامنے رکھیں اور مدرسین کی کوششوں کے ساتھ اہل خانہ بھی بچہ کی اخلاقیات سنوارنے میں معاون ثابت ہوسکیں۔
(۱۳) مہتمم و ذمہ دار حضرات اکثر نمازیں اپنے ادارہ کی مسجد میں ادا کرنے کا التزام کریں؛ تاکہ طلبہ کی نمازوں کے تعلق سے صحیح صورت حال سامنے آتی رہے۔ ذمہ دار کی موجودگی یقینا مدرسین وملازمین کو فکرمند رکھتی ہے اور کام صحیح ہوتا رہتا ہے۔
اس تفصیل کے عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مہتمم وناظم بحیثیت اہتمام وانتظام اپنی توجہ مدرسہ کے تعلیمی وداخلی اُمور پر متواتر رکھیں، طلبہ ومدرسین کے متعلق جو معروضات پیش کی گئیں ان کو عمل میں لائیں۔ تو ان شاء اللہ تعلیم و تربیت میں بہتری آئے گی اور رفتہ رفتہ تعلیمی معیار میں ترقی کے آثار شروع ہوں گے۔ تعطیل اور موبائل فون کے تعلق سے یا ہر ماہ تعلیمی جانچ کی وجہ سے ہوسکتا ہے کچھ طلبہ مدرسہ سے چلے جائیں اس سے پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں، ہماری نظر کمیّت کے بجائے کیفیت پر رہے، طلبہ سو کی بجائے پچاس رہ جائیں؛ لیکن مال فریش اور صاف ستھرا تیار ہو، اس سے مدرسہ کا معیار بنے گا۔ رہا مسئلہ چندہ کا کہ طلبہ کی تعداد کم ہونے سے چندہ کم ہوگا، ایسا بھی نہیں؛ بلکہ کام کی قدر کرنے والے اللہ کے نیک بندے ضرور متوجہ ہوں گے۔ مدرسہ چلانے اور اس کے معیارِ تعلیم وتربیت کو اچھا بنانے کے لیے ہم اپنے اسلاف کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے کا سلسلہ شروع کریں، متقدمین حضرات تابعین وصحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور پیارے معلم ومربی محسن انسانیت حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی معلمی کے پاکیزہ دور کو اسوہ بنانے کی فکرکریں اور ہمارے مدارس کی جڑیں ہمیشہ صفہٴ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مربوط ومستحکم رہیں دراصل یہی ہمارا اوّلین مقصد ہے اور اسی میں فلاحِ دارین مضمر ہے۔ اللّٰہم وفقنا لما تحب وترضٰی
سوال
طلبہ کی ہمہ گیر تربیت کے لیے نصاب کی اصلاح کے ضمن میں مختلف اقدامات تریحر کر یں ۔
تربیت‘ کا مفہوم اور اہمیت
اب میں اپنے اصل موضوع یعنی ’تربیت طلبہ‘ کی طرف آتا ہوں۔ سب سے پہلے تو یہ بات سمجھنے کی ہے کہ تربیت کیا ہے اور اس سے مقصود کیا ہے؟ جس چیز کو ہم تعلیمی اصطلاح میں ’تربیت‘ کہتے ہیں، شرعی اصطلاح میں اسے ’تزکیہ‘ کہا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے میں نے آپ کے سامنے جو آیت کریمہ تلاوت کی، وہ تزکیہ سے متعلق ہے۔ تزکیہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ زک و ہے۔ اس کے دو معنی ہوتے ہیں: ایک کسی چیز کو پاک صاف کرنا اور دوسرے اس کو کو جلا دینا اور پروان چڑھانا۔ گویا جب ہم تزکیہ نفس کی اصطلاح استعمال کریں گے تو مطلب یہ ہوگا کو نفس کو عقائد واعمال اور اخلاق وکردار کی ساری کمزوریوں سے پاک کرنا اور ان کی جگہ ان خوبیوں کو پروان چڑھانا جو کہ شریعت کو مطلوب ہیں۔ اچھا کیا ہے، برا کیا ہے، کن اخلاق واوصاف کو پروان چڑھانا ہے اور کن چیزوں سے بچنا ہے؟ اس کافیصلہ شریعت کرتی ہے۔
اس تزکیہ کی اہمیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ جتنے پیغمبر بھی اس نے بھیجے، وہ لوگوں کے تزکیے کے لیے ہی بھیجے۔ سورۃ الاعلیٰ میں ہے کہ ’قد افلح من تزکی فذکر اسم ربہ فصلی…….. ان ہذا لفی الصحف الاولی صحف ابراہیم وموسی‘ یعنی صحف ابراہیم وموسیٰ میں بھی یہی بات کہی گئی تھی کہ لوگوں کی فلاح کا دار ومدار تزکیہ (اور عبادت وترجیح آخرت) پر ہے۔ اسی طرح سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ ’اذہب الی فرعون انہ طغی فقل ہل لک الی ان تزکی‘ یعنی فرعون کے پاس جاؤ کہ وہ سرکش ہو گیا ہے اور اسے تزکیہ اختیار کرنے کی تلقین کرو۔ (النازعات ۷۹:۱۷) نبی کریم ﷺ کی ڈیوٹی بھی اللہ تعالیٰ نے یہ لگائی کہ لوگوں کو کتاب وحکمت کی تعلیم دیں اور ان کا تزکیہ کریں۔ قرآن حکیم میں یہ بات چار مواقع پر بیان ہوئی ہے۔ سورہ جمعہ میں، آل عمران میں اور دو دفعہ سورۂ بقرہ میں۔ ایک جگہ پر آپ کی ذمہ داریاں بیان کرتے ہوئے تزکیہ کا ذکر شروع میں ہے اور دوسری جگہ آخر میں، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جو چیز اول وآخر مطلوب ہے، وہ تزکیہ ہی ہے۔ ویسے بھی تعلیم کا مطلب ہوتا ہے علم کاحصول اور کچھ چیزوں کا جاننا۔ ظاہر ہے کہ کسی چیز کا علم یا کچھ معلومات کا جان لینا اصل مقصد نہیں ہوتا بلکہ اصل مقصد تو اس علم پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ تعلیم سے مقصود بھی تزکیہ ہی ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، ’قد افلح من زکاہا وقد خاب من دساہا‘۔ یعنی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا، وہ کامیاب ہے اور جس نے یہ نہ کیا، وہ ناکام ہے) (الشمس ۹۱:۹، ۱۰) تو تزکیہ کی اہمیت یہ ہے کہ یہ ہماری فلاح کا ضامن ہے۔ فلاح کیا ہے؟ فلاح اسلام کا ایک جامع تصور اور اصطلاح ہے۔ اس میں دین اور دنیا دونوں کی کامیابی شامل ہے۔ کامیابی یہ ہے کہ آدمی آخرت میں سرخرو ہو اور دنیا کی زندگی اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے گزارے۔ گویا تزکیہ یہ ہے کہ نفس انسانی کی ایسی تربیت ہو کہ اس کے لیے اللہ کے احکام کی اطاعت آسان ہو جائے، اور شریعت کی پیروی اس کی طبیعت بن جائے۔
دیکھیے! انسانی نفس کی جو ساخت اور بناوٹ ہے، اس میں خیر اور شر دونوں شامل ہیں۔ ’فالہمہا فجورہا وتقواہا‘(الشمس ۹۱:۸) یعنی انسان میں اللہ تعالیٰ نے نیکی کے جراثیم بھی رکھے ہیں اور برائی کے بھی۔ انسان جس پہلو کو ترقی دیتا ہے، وہی اس کی شخصیت پر غالب آ جاتا ہے۔ اس بات کو نبی کریم ﷺ نے یوں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو فطرت پر پیدا کرتا ہے لیکن والدین اور ماحول کسی کو یہودی اور کسی کو عیسائی بنا دیتا ہے۔ تو ماحول کے ان منفی اثرات کے ازالہ کے لیے انسانی جبلتوں، محرکات، عواطف اور مدرکات، ان سب کی صحیح تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی ان کی اس طریقے سے نشوونما کہ خیر کا پہلو بڑھتا جائے اور اس کی نمو ہوتی جائے، جبکہ انسانی شخصیت کا حیوانی پہلو جو فجور کا پہلو ہے، وہ دبتا چلا جائے۔ نفس انسانی کے سارے ذہنی، فکری اور جسمانی قویٰ کی ایسی نشوونما بے حد اہم ہے کیونکہ جب تک آدمی کی صحیح تربیت نہ ہو، وہ نہ اسلام نہ لا سکتا ہے اور نہ اسلامی احکام پر کماحقہ عمل کر سکتا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیے کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ میں، جب مسلمانوں پر بہت کڑا وقت تھا، دو آدمیوں یعنی حضرت عمر اور ابوجہل کے لیے ہدایت کی دعا فرمائی کہ یا اللہ، ان میں سے کسی ایک کو قبول اسلام کی توفیق عنایت فرما۔ تو ایک کے بارے میں دعا قبول ہو گئی جبکہ دوسرے کے بارے میں نہیں ہوئی کیونکہ قبول ہدایت کی جو صلاحیت سیدنا عمرؓ میں پائی جاتی تھی، ابو جہل اس سے محروم تھا۔ تو نفس کی سعادت کا مدار اس کے تزکیے پر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس تربیت کا وسیلہ بھی بتا دیا ہے یعنی تعلیم کتاب۔ اس کی بنیاد قرآن حکیم ہے۔ قرآن حکیم علم کا ذریعہ بھی ہے اور تزکیہ کا بھی۔ جب علم اور تزکیہ دونوں کی بنیاد قرآن پر ہو اور حکمت کے ساتھ ہو تو وہ شخصیت وجود میں آتی ہے جو قرآن کو اور اسلام کومطلوب ہے۔
اس تربیت کو اگر آپ تعین کے ساتھ جاننا چاہیں کہ یہ کیا ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس کے دو پہلو ہیں: ایک معصیت سے بچنا اور دوسرے درجہ ’احسان‘ کا حصول۔ یعنی تربیت کا حاصل یہ دو چیزیں ہیں: ایک یہ کہ آدمی اللہ کی معصیت سے بچ جائے، اس کی اطاعت کے قابل ہو جائے اور اس کے احکام کی پیروی آسانی سے اور خوشی سے کرنے لگ جائے۔ دوسرے یہ کہ آدمی احکام شریعت پر عمل کرتے ہوئے انہیں بہترین طریقے سے سرانجام دے۔ ’احسان‘ کا مطلب ہے کسی کام کو اپنی بہترین صورت میں اور کمال کے ساتھ کرنا۔ حدیث جبریل میں یہ بات یوں بیان کی گئی ہے کہ ’ان تعبد اللہ کانک تراہ‘ ۔ اس سے بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوئی کہ احسان کا تعلق صرف عبادت سے ہے۔ اول تو عبادت کا مطلب عربی زبان میں وسیع تر ہے۔ پھر دوسری روایت میں ان تعبد اللہ کے بجائے ان تعمل للہ کے الفاظ آئے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ساری زندگی میں اطاعت کے جتنے بھی کام ہوں، وہ اعلیٰ ترین درجے کے ہوں۔ گویا احسان کا مطلب ہے حصول کمال یا excellence۔
تربیت سے تغافل کے اسباب
اب ذہن میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ تربیت اتنی اہم ہے اور اس کو تعلیم کی اصل غایت کی حیثیت حاصل ہے تو پھر ہمارے تعلیمی نظام میں اس سے صرف نظر کیوں کر لیا گیا ہے اور اس کو عملاً اہمیت کیوں نہیں دی جاتی؟ اس تغافل کے بہت سے نظری اور عملی اسباب ہیں۔
ایک وجہ تو یہ ہے کہ والدین کو بچوں کی تربیت کی اہمیت کا احساس ہی نہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری بس یہ ہے کہ اچھا کھلانے پلانے اور اچھا پہنانے کے ساتھ بچوں کو سکول کالج یا مدرسے میں پڑھنے کے لیے بھیج دیا جائے، اس سے زیادہ ان کو ان کی تعمیر سیرت وکردار کی کوئی فکر نہیں۔ گویا جسمانی پرورش اور ظاہری ضروریات کی فراہمی سے زیادہ وہ اپنی کوئی ذمہ داری نہیں سمجھتے۔ حالانکہ جو چیز بچوں کی ضروریات کے حوالے سے سب سے زیادہ اہم ہے، وہ یہ ہے کہ وہ ان کی تعمیر سیرت وکردار کی خبر رکھتے، اس کے لیے پریشان ہوتے، کوشش اور جدوجہد کرتے اور خود اس کے لیے وقت نکالتے۔ آج کل بچے سکولوں میں جاتے ہیں، شام کو واپس آتے ہیں تو ٹیوشن کے لیے بھجوا دیے جاتے ہیں، رات کو ٹی وی کھول کر والدین خود بھی بیٹھ جاتے ہیں اور بچوں کو بھی ساتھ بٹھا لیتے ہیں۔ اس سے زیادہ والدین بچوں کے لیے کوئی وقت نہیں نکال پاتے۔ اس کا سبب یہی ہے کہ والدین کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ بچے کی تربیت بھی ان کی ذمہ داری ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اساتذہ بھی طلبہ کی تربیت کی ذمہ داری سے غافل ہو گئے ہیں، حالانکہ ان کا اصل کام پڑھا دینا نہیں، بلکہ تربیت کرنا ہے۔ خاص طور پر ہمارے ماحول میں اساتذہ کی یہ ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ماحول میں ٹی وی اور وی سی آر کی صورت میں بگاڑ پیدا کرنے والے عوامل پہلے سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ ان عوامل میں سے ایک بری صحبت بھی ہے۔ غربت بھی ایک مسئلہ ہے۔ والدین دو اور دو چار کے چکر میں رہتے ہیں، دال روٹی کی فکر کرتے ہیں، صبح سے شام تک ان کو سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی کہ دیکھیں کہ بچے کس حال میں ہیں۔ بعض اوقات والدین کی ناچاقی بھی بچوں کے بگاڑ کا سبب بن جاتی ہے۔ تو تعلیمی اداروں، خاص طور سے دینی تعلیمی اداروں میں طلبہ کی تربیت پر توجہ دینے کی بے حد ضرورت ہے۔
تربیت کی اقسام
تربیت کو ہم کئی قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ دینی تربیت، فکری و علمی تربیت، انتظامی تربیت اور جسمانی تربیت وغیرہ۔ یہ سارے تربیت کے مختلف پہلو ہیں اور باہم متجاوز بھی ہیں۔ اب ہم ان پر ذرا تفصیل سے گفتگو کریں گے۔
۱۔ دینی تربیت:
دینی تربیت میں پورے دین کو شامل سمجھنا چاہیے۔ ہمارا جو دین ہے، اس کے مشمولات کو ہم چار بڑے شعبوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: ایک عقائد، دوسرے عبادات، تیسرے اخلاق وآداب اور چوتھے معاملات۔ عقائد ظاہر ہے کہ ہر چیز کی بنیاد ہیں۔ عبادات کا تعلق بندے اور رب کے درمیان ہے، جبکہ اخلاق وآداب اور معاملات کا تعلق انسانوں کے مابین مسائل سے ہے۔ ان مسائل سے ہمارے دین کا ایک بڑا حصہ متعلق ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ مدارس میں پڑھائے جانے والے مواد کا غالب حصہ فقہ سے متعلق ہوتا ہے، اس لیے کہ فقہ میں زندگی کے روز مرہ مسائل سے بحث ہوتی ہے اور انسانوں کو جن معاملات سے سابقہ پیش آتا ہے، وہ فقہ میں زیر بحث آتے ہیں۔
دینی تربیت کے بارے میں ہمارے ہاں تعلیمی اور تربیتی حلقوں میں کئی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً ہمارے ہاں تصوف کے نام سے جو ادارہ تربیت اور تزکیہ کے لیے وجود میں آیا، اس میں اس وقت ہمارے ہاں زیادہ زور ذکر اور عبادات پر دیا جاتا ہے۔ تھوڑی سی توجہ اخلاق پر دے دی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ میں ان چیزوں کی اہمیت کم نہیں کر رہا، لیکن ایک متوازن تربیت کی ضرورت ہے۔ عبادات یقیناًاہم ہیں لیکن کیا معاملات غیر اہم ہیں؟ کیا جھوٹ بولنا غیر اہم ہے؟ وعدہ خلافی کرنا غیر اہم ہے؟ بیوی بچوں کے ساتھ بدسلوکی کرنا غیر اہم ہے؟ یہ بھی اسی طرح خدا ورسول کے حکم ہیں جیسے پہلی چیزیں۔ تو تربیت میں کچھ پہلوؤں کو اہمیت دینا اور کچھ کو نہ دینا یہ دینی لحاظ سے ایک غیر متوازن رویہ ہے۔
عبادات کی تربیت، (مثلاً نماز وقت پر اور باجماعت ادا کرنا) : اس میں یہ ذہن میں رہے کہ چونکہ مدارس کا ماحول دینی ہوتا ہے اس لیے اس لحاظ سے وہاں بعض پہلوؤں پر کم توجہ کی ضرورت ہوگی اور بعض دوسروں پر زیادہ کی۔ عام تعلیمی اداروں میں عبادات کے حوالے سے دینی تربیت کی زیادہ ضرورت محسوس کی جاتی ہے کیونکہ وہاں مساجد نہیں ہوتیں، طہارت خانے نہیں ہوتے، وضو کی جگہ نہیں ہوتی، وغیرہ۔
جب ہم تربیت کی بات کرتے ہیں، خصوصاً دینی لحاظ سے تو روز مرہ زندگی کے آداب پر بھی خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے، مثلاً آداب میں سے ایک یہ ہے کہ وقت پر کام کیا جائے۔ میں نے دیکھا ہے کہ دینی مجالس میں اس چیز کا اہتمام نہیں کیا جاتا حالانکہ نماز میں ہمیں سب سے پہلے یہی بات سکھائی جاتی ہے۔ جماعت کا وقت ہوتے ہی لوگ گھڑیاں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اور الحمد للہ یہ مشاہدہ ہے کہ کم از کم نماز میں ہم وقت کی پابندی کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ہماری عادت کیوں نہیں بنتی؟ ہم نماز میں تو وقت کی پابندی کرتے ہیں، اس کے بعد کیوں نہیں کرتے؟ نماز میں اگر یہ شریعت کا حکم ہے تو باہر کیوں نہیں؟ نماز میں حکم ہے کہ صف آگے پیچھے نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہم میں اتحاد پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں، خلا نہ ہو، صف ٹیڑھی نہ ہو، یہ خوبیاں جو شریعت نماز میں پیدا کرنا چاہتی ہے، وہ باہر کی زندگی میں کیوں منتقل نہیں ہوتیں؟
۲۔ فکری وعلمی تربیت
فکری وعلمی تربیت میں حریت فکر، تحقیق، تقریر وتحریر کی مشق، لائبریری کا استعمال، مطالعاتی وتفریحی سفر وغیرہ شامل ہیں۔ سب سے پہلے حریت فکر کو لیجیے۔ ممکن ہے میری یہ بات آپ کو قابل ہضم نہ لگے، لیکن میں عرض کرتا ہوں کہ حریت فکر کی تربیت بھی بالکل دینی اساس رکھتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی سے، جن کی ایک ایک بات ہمارے لیے حجت ہے، ہمیں اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ خود آپ نے اپنے صحابہ میں اس چیز کی حوصلہ افزائی کی۔ بدر کے موقع پر دیکھ لیجیے، جب حضرت حباب بن منذرؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ! جس جگہ آپ نے فوج کو اترنے کا حکم دیا ہے، کیا وہ وحی پر مبنی ہے؟ آپ نے فرمایا، نہیں۔ تو کہا کہ یہ جگہ تو مناسب نہیں۔ غزوۂ احزاب میں بھی ایسے ہی ہوا۔ نبی کریم ﷺ نے سوچا کہ کچھ دے دلا کر یہودیوں سے معاملہ طے کر لیا جائے کیونکہ باہر دشمن ہے، یہ کہیں اندر سے وار نہ کر دیں۔ انصار کے سرداروں کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ اگر وحی کی بنیاد پر حکم ہے تو سر تسلیم خم ہے لیکن اگر محض تجویز ہے تو ہم اتفاق نہیں کرتے۔ آپ نے ان کی بات مان لی۔ یہ تو خیر بڑے معاملات ہیں۔ گھر کی خادمہ حضرت بریرہؓ کا واقعہ تو آپ کے علم میں ہوگا۔ اس کا خاوند پاگل ہوا پھرتا تھا۔ روتا ہوا اس کے پیچھے گلیوں میں بھاگتا تھا۔ چاہتا تھا کہ اس کے نکاح میں رہے، کیونکہ بریرہؓ کے آزاد ہونے کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا تھا۔ صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کی سفارش کی تو آپ نے بریرہؓ کو بلایا اور کہا کہ مغیث کے ساتھ نکاح برقرار رکھو۔ اس نے کہا کیا یہ آپ کا حکم ہے؟ فرمایا نہیں، محض سفارش ہے۔ تو کہنے لگی معاف کیجیے، میں اس کے نکاح میں نہیں رہنا چاہتی۔
تو بلاشبہ کمال درجے کی اطاعت کا تصور بھی شریعت میں موجود ہے، وہ اپنی جگہ، لیکن یہ چیز اس کی نقیض نہیں۔ اور رسول اللہ ﷺ صحابہ کو اس کا فرق وقتاً فوقتاً سمجھاتے رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو دیکھا کہ کچھ صحابہ کھڑے ہیں، آپ نے ارشاد فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ جو جہاں تھا، وہیں بیٹھ گیا۔ جو لوگ دروازے میں تھے، وہ بھی وہیں بیٹھ گئے اور راستہ بند ہو گیا۔ آپ نے بعد میں کہا کہ بھائی راستہ تو چھوڑ دو۔ صحابہ کی اطاعت کا یہ حال تھا اور ظاہر ہے کہ اگر نبی کی اطاعت بھی ہیچ پیچ کے ساتھ کریں تو وہ اطاعت کیا ہوئی؟ غیر مشروط اطاعت مطلوب ہے اور صحابہ کرام نے ہمارے لیے اس کے بہترین نمونے چھوڑے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہمارا دین فکری حریت کا بھی علمبردار ہے۔ یہ چیز اللہ ورسول کی غیر مشروط اطاعت کی نقیض نہیں۔ اطاعت غیر مشروط اور پورے جذبے اور شدت کے ساتھ کرنی چاہیے، لیکن دین ہمیں یہ نہیں سکھاتا کہ ہم اپنے دل ودماغ کے دروازے بند کر لیں اور سوچنا چھوڑ دیں۔
اب اگر آپ مدارس کے نظام تعلیم کے بارے میں حریت فکر کا عملی اطلاق کرنا چاہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ تین مسائل آپ کی فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ ایک مقاصد تعلیم، دوسرے نصاب تعلیم، اور تیسرے دین میں مسلک کا مقام۔ ممکن ہے یہ موضوع سے کچھ تجاوز ہو لیکن میں درخواست کرتا ہوں کہ آئیے چند منٹ کے لیے ان پر کچھ غور کر لیں۔
مقاصد تعلیم:
جب ہم نظام تعلیم کی بات کرتے ہیں تو نصاب، کتابوں، تعلیمی ماحول اور بہت سی دیگر باتوں سے پہلے جو بات زیر بحث آتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس تعلیمی نظام کے مقاصد کیا ہیں؟ ہمارے مدارس میں ایک بات مشہور ہے اور وہ یہ کہ ہم نے بس علما اور مولوی پیدا کرنے ہیں جو مسجدیں سنبھالیں اور مدرسے چلائیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ناقص اور کمزور بات ہے۔ مسلمانوں کے نظام تعلیم میں کبھی ثنویت نہیں رہی، اس میں ہمیشہ وحدت رہی ہے۔ دینی نظام تعلیم کا یہ محدود ہدف دراصل گزشتہ صدی میں اس وقت کے حالات کے تناظرمیں طے کیا گیا تھا۔ درس نظامی جب ہندوستان میں رائج تھا تو سی ایس پی افسر پیدا کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ ۱۸۵۷ء سے پہلے انہی مدارس سے فارغ ہونے والے لوگ تحصیل دار اور کلکٹر لگتے تھے، جج اور قاضی بھی وہی بنتے تھے، ڈاکٹر اور طبیب بھی وہی ہوتے تھے۔ ملک کا نظام چلانے کے لیے ساری بیوروکریسی انہی مدارس سے آتی تھی۔ انگریزوں کے تسلط اور قبضے کے نتیجے میں برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی تواس کے ساتھ ہی اس تعلیمی نظام کی بساط بھی لپیٹ دی گئی۔ مسلمانوں نے ۱۸۵۷ء میں مزاحمت کی تو چھ چھ سو علما کو ایک دن میں درختوں کے ساتھ پھانسی دی گئی ۔ یوں کہنا چاہیے کہ ان کو پوری طرح کچل دیا گیا۔ فارسی جو اس وقت کی قومی زبان بھی تھی اور سرکاری بھی، اس کی جگہ انگریزی کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کر دیا گیا، تو فارسی عربی پڑھنے والے بیروزگار ہو گئے۔ مثل مشہور ہوگئی کہ پڑھیں فارسی بیچیں تیل۔ ان کو نوکری نہیں ملتی تھی۔ معاشرے میں ان کا کوئی ذریعہ روزگار نہیں تھا، کیونکہ انگریزی آ گئی تھی۔ اس صورت حال میں کچھ علما نے سوچا کہ اب حکومت تو ہمارے پاس رہی نہیں، پہلے بڑے بڑے وقف ہوتے تھے اور حکومتیں وسائل مہیا کرتی تھیں۔ اب یہ تعلیمی نظام ختم ہو گیا ہے اور انگریز نے سارا نظام بدل دیا ہے تو اب امت کا مستقبل کیا ہوگا؟ انہوں نے سوچا کہ ہمارا اجتماعی نظام تو باقی نہیں رہا تو کم از کم ہمارا یہ جو مساجد کا نظام ہے، اور نکاح طلاق کے جو مسائل ہیں، اور خوشی غمی کی جو رسمیں ہیں تو انفرادی اور معاشرتی زندگی کے ان دائروں میں ہی میں دین کو بچا لیا جائے، اگرچہ کسی کونے کھدرے میں لگ کر ہی بچایا جا سکے۔ چنانچہ انہوں نے مدرسہ دیوبند کی بنیاد ڈالی۔
لیکن یہ صورت حال ۱۹۴۷ء میں ختم ہو گئی۔ اب ہم نہ دار الحرب میں ہیں اور نہ انگریز ہم پر حکمران ہیں۔ اب تو آپ کا اپنا ملک ہے تو آپ پہلے والی پالیسی کیسے رکھ سکتے ہیں؟ لہٰذا اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں ہمیں صرف ایسے عالم دین ہی پیدا نہیں کرنے ہیں جو مدرسے اور مسجدیں سنبھالیں۔ یقیناًیہ بھی سنبھالنے چاہییں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس معاشرے کا کیا قصور ہے کہ اس کو ایسا جج نہ ملے جو دین جانتا ہو؟ مسلمانوں کی ریاست ہے تو جج آخر ایسا کیوں ہو جس کو انگریزوں کا قانون تو یاد ہو لیکن وہ شرعی قانون سے واقف نہ ہو؟ ہمارے ہاں وکیل ہیں جو قانون کی تشریح کرتے ہیں۔ ان سے پہلے مفتی ہوتے تھے، اب وکیل آ گئے ہیں۔ تو ان وکیلوں کو اسلامی قانون کی تعلیم دینا کس کا کام ہے؟ کیا وہ دینی کام نہیں؟ کیا یہ سارا نظام ایسے ہی چلتا رہے؟ ہم اس میں کوئی حصہ نہیں لیں گے؟
اس وقت دینی مدارس میں ایک اندازے کے مطابق حفظ وناظرے کے درجات کو چھوڑ کر زیادہ سے زیادہ دو لاکھ طالب علم پڑھتے ہیں جبکہ گزشتہ سال کے اکنامک سروے آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق پرائمری سکول میں داخلہ لینے والے پاکستانی بچوں کی تعداد تقریباً ۲ کروڑ ہے۔ اب یہ کون سا دین ہے یا دین کی کون سی حکمت عملی ہے کہ آپ دو لاکھ بچوں کو تو پڑھا رہے ہیں اور دو کروڑ کو بھولے ہوئے ہیں؟ ان کو دین کون سکھائے گا؟ کیا وہ مسلمانوں کے بچے نہیں؟ بات اس وقت حکومت یا غیر حکومت کی نہیں ہو رہی۔ سوال یہ ہے کہ اہل دین، جو لوگوں کو دین سکھانا چاہتے ہیں، ان کی ان دو کروڑ بچوں تک اپروچ ہی نہیں۔ ان بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ میں آپ کے استاد کتنے ہیں؟ ان استادوں کی تربیت میں آپ کا کتنا ہاتھ ہے؟ آپ کے پیش نظر تو دین کی خدمت ہے، آپ تو دین کو غالب کرنا چاہتے ہیں، معاشرے میں دین دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ کا مقصد تعلیم یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ صرف مدرسے کے مولوی پیدا کریں؟ اس ملک کو چلانے والے لوگ جو مسلمان ہیں اور آپ کے بھائی ہیں، ان کو دین سکھانا کیا آپ کی ذمہ داری نہیں؟ آپ اس نکتے پر غور فرمائیں کہ اہل دین کو صرف مدرسے اور مسجد تک محدود نہیں رہنا ہے۔ اگر آپ اس معاشرے میں اسلام چاہتے ہیں اور دین ہی کی خدمت کے لیے آپ نے ادارے بنائے ہیں، تو آپ کا دائرہ کار محدود نہیں ہونا چاہیے۔ حالات کے بدلنے کی وجہ سے جو بنیادی تبدیلی آئی ہے، اس کے لحاظ سے آپ کو مقاصد تعلیم میں وسعت پیدا کرنی چاہیے۔
نصاب تعلیم:
جب آپ مقاصد تعلیم میں توسیع کریں گے تو نصاب خود بخود بدل جائے گا۔ معاف کیجیے گا، آپ کے لیے یہ بات شاید نئی ہو۔ ہم لوگ جو کالج یونیورسٹی میں ہیں، ہمارے لیے یہ بات نئی نہیں ہے۔ ہر سال یونیورسٹی میں کلاسیں شروع ہونے سے پہلے پروفیسروں کی میٹنگیں ہوتی ہیں جن میں پروفیسر یہ طے کرتا ہے کہ اس نے کیا پڑھانا ہے۔ مثلاً اصول فقہ ایک مضمون ہے تو میرے ذمے یہ ہے کہ میں نے اصول فقہ پڑھانا ہے۔ اب اس میں کیا پڑھانا ہے، تو وہ میری صواب دید پر منحصر ہے۔ یونیورسٹی مجبور نہیں کرتی کہ فلاں کتاب پڑھاؤ۔ بلکہ مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا کہ میں جب شریعہ اکیڈمی (بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد) میں تھا اور ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کے ساتھ کام کرتا تھا تو ہمارے پروگرام مینیجر ایک سول جج تھے جو آج کل ایڈیشنل سیشن جج ہیں۔ میں فقہ القرآن والسنۃ پڑھاتا تھا تو انہوں نے مجھ سے یہ کہا کہ تم فلاں چیز پڑھاؤ۔ مجھے اس بات پر غصہ آیا اور میں نے ڈاکٹر غازی کو ان کی تحریری شکایت کی کہ یہ کون ہوتے ہیں مجھے بتانے والے کہ میں کیا پڑھاؤں اور کیا نہ پڑھاؤں؟ ڈاکٹر صاحب نے اس سے کہا کہ جاؤ اور ڈاکٹر امین سے معذرت کرو۔ یہ تمہارا کام نہیں کہ تم یونیورسٹی کے استاد کو یہ بتاؤ کہ کیا پڑھانا ہے۔
تو نصاب کوئی غیر متبدل چیز نہیں ہوتی۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں نصاب صرف قرآن مجید تھا۔ بعد میں لوگوں نے حدیثیں بھی پڑھنا شروع کر دیں۔ اگلی صدی میں فقہ بھی شامل ہو گئی۔ اس وقت اصول فقہ نہیں تھے۔ اس سے اگلی صدی میں اصول کی تعلیم بھی شروع ہو گئی۔ جب یونانی علوم کا ریلا آیا تو منطق بھی شامل ہو گئی۔ تو نصاب کوئی مقدس گائے نہیں ہوتی۔ یہ ہمیشہ زمانے اور معاشرے کی ضروریات کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ نصاب کے کچھ اجزا مثلاً قرآن وسنت، یقیناًکبھی تبدیل نہیں ہوں گے۔ اسی طرح چونکہ ہمارے دینی مآخذ عربی میں ہیں، تو عربی زبان بھی نہیں بدلے گی۔ لیکن، معاف کیجیے، فارسی کو کوئی تقدس حاصل نہیں۔ اس کی اس وقت یقیناًضرورت تھی جب اسے قومی زبان کی حیثیت حاصل تھی، یہ اس وقت معاشرتی زبان بھی تھی۔ اس وقت جو نہیں پڑھتا تھا، تیل بیچتا تھا، اسے روزگار نہیں ملتا تھا۔ یہ ذریعہ اظہار تھی۔ اب فارسی ذریعہ اظہار نہیں ہے۔ تو کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہیں اس لحاظ سے دیکھنا چاہیے۔ نصاب کو تقدس حاصل نہیں ہوتا۔ نصاب سے مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ ایسے موثر اور متبحر علما تیار کیے جائیں جو معاشرے تک بہترین طریقے سے دین پہنچا سکیں، دین کی خدمت کر سکیں، لوگوں کے قول وعمل کو شریعت کے مطابق ڈھال سکیں۔
اب آپ ہماری موجودہ ضروریات کے لحاظ سے اس نصاب پر نظر ڈالیں تو کئی خامیاں محسوس ہوں گی۔ مغرب اور امریکہ کے ایجنڈوں کو چھوڑیے، خود سوچیے کہ کیا ہمارے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس دنیا کو سمجھیں؟ اگر امام غزالی کی یہ مجبوری تھی کہ وہ یونانی فلسفہ پڑھیں اور پھر ’’تہافت‘‘ لکھیں تو آج ہماری مجبوری یہ کیوں نہیں ہے کہ ہم پہلے مغرب کا فلسفہ پڑھیں اور پھر اس کی تردید کریں؟ آپ اگر مغرب کا فلسفہ سمجھتے ہی نہیں تو اس کا رد کیسے کریں گے؟ اس لیے ان علوم کو جاننا جو اس وقت دنیا میں مروج ہیں، خود ہماری ضرورت ہے۔ جس طرح قدیم زمانے میں یونانی فکر گمراہیوں کا سرچشمہ تھی، آج اسی طرح مغربی فکر گمراہیوں کا منبع ہے۔ آپ کیسے کہتے ہیں کہ انگریزی پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں؟ جب تک آپ انگریزی نہیں پڑھتے، آپ کو پتہ کیسے چلے گا کہ آپ کے دشمن کی سوچ کیا ہے اور اس کا رد کیسے کرنا ہے؟
اسی طرح قرآن مجید کو اس نصاب میں وہ مرکزی حیثیت حاصل نہیں جو اسے حاصل ہونی چاہیے۔ معاف کیجیے گا، آپ کو حدیث کا دورہ تو پڑتا ہے، قرآن کا کیوں نہیں پڑتا؟ کیا قرآن حدیث سے کم اہم ہے؟ پھر قرآن و حدیث کو آپ فقہی تناظر میں اور فقہی زاویہ نگاہ سے پڑھاتے ہیں۔ قرآن وحدیث کے پیغام، فلسفہ اور ان کی حکمت کے بہت کم پہلو زیر غور آتے ہیں۔ فقہی مباحث میں بھی غلط ترجیحات قائم کر لی گئی ہیں۔ بخاری کی ایک حدیث رفع یدین پر آ گئی تو حنفی نقطہ نظر کی وضاحت میں استاد چھ دن یہ ثابت کرنے پر صرف کرے گا کہ رفع یدین نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے مقابلے میں جب معاملات سے متعلق کوئی حدیث آئے گی تو ترجمہ پڑھ کر فارغ ہو جائیں گے۔ آخر کیا قصور ہے اس حدیث کا؟ عربی زبان، جیسا کہ آپ بھی تسلیم کریں گے کہ دینی مدارس کے طلبہ کو نہ لکھنی آتی ہے اور نہ بولنی۔ تو ان سب حوالوں سے نصاب اور منہج تعلیم میں اصلاح کی ضرورت ہے۔
مسلک کا مقام:
تیسری چیز یہ ہے کہ ہم نے مسالک کو دین بنا لیا ہے۔ معاف کیجیے گا، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اپنا مسلک چھوڑ دیجیے۔ مسلک ہونا چاہیے۔ فقہ ہو یا کلام، ہر آدمی کا ایک مسلک ہوتا ہے۔ یہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے، لیکن وہ مسلک دین نہیں ہوتا، وہ اجتہادی مسلک ہوتا ہے۔ اس کی حیثیت ایک رائے کی ہوتی ہے۔ حضرت قائد اعظم سے کسی نے پوچھا کہ آپ شیعہ ہیں یا سنی؟ وہ وکیل آدمی تھے اور ہوشیار تھے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ شیعہ تھے یا سنی؟ سوال کرنے والا خاموش ہو گیا کیونکہ اس کے ذہن میں شرارت تھی۔ تو عرض یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مسلکی تقسیم ضرورت سے زیادہ شدید ہے اور وہ بعض حلقوں میں خونی تقسیم بن گئی ہے۔ سیکڑوں آدمی قتل ہو چکے ہیں۔ اگرچہ اس کے اسباب زیادہ تر دوسرے ہیں، اصلاً مسلکی اور فقہی اختلافات بنیاد نہیں، لیکن نور بشر کے جھگڑوں میں مسجدیں دھلتی ہم نے بھی دیکھی ہیں۔ حالانکہ اگر غور کریں تو ہمارے ملک میں مسلکی اختلافات کی کوئی بڑی بنیاد نہیں، اس لیے کہ غالب اکثریت حنفی ہے۔ بریلوی بھی حنفی ہیں او ردیوبندی بھی۔ اہل ظاہر یا اہل حدیث بالکل تھوڑے ہیں، پانچ یا سات فی صد ہوں گے۔ تو پھر جھگڑے کیوں؟ اس وقت شیعہ کو چھوڑ کر باقی چاروں وفاقوں کے نصاب میں کوئی خاص فرق نہیں۔ چھوٹی موٹی کتابوں کا فرق ہے۔ حتیٰ کہ اہل حدیث بھی فقہ میں ہدایہ ہی پڑھاتے ہیں۔ اس کے باوجود نصاب کیوں ایک نہیں بنتا؟ وفاق کیوں ایک نہیں بنتا؟ میں عرض کروں گا کہ یہ وفاقوں کی تقسیم بھی اسٹیبلشمنٹ کی قائم کردہ ہے۔ وہ علما میں تفریق ڈالے رکھنا چاہتی ہے۔ ان کے اندر اتحاد نہیں دیکھنا چاہتی۔ ضیاء الحق چاہتا تو پانچ وفاقوں کی اجازت نہ دیتا، دو کی دیتا تو سب اہل سنت مجبور ہوتے کہ ایک ہی نظام کے تحت کام کریں۔معاف کیجیے گا، اس معاملے میں علما کو بالغ نظری کا ثبوت دینا چاہ
سوال
مندرجہ ذیل عنوانات میں سے کسی کی پر لوٹ لکھیں ۔
الف ۔ اسلامیات کے نصاب کے مقاصد
پہلی قسم کے مدارس کے فارغ التحصیل قرا ء اور حفاظ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد عموماً کسی مسجد میں امام یا موذن کی خدمات انجام دیتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی حفظ یا تجوید کے مدرسے میں بطور معلم خدمات انجام دیتے ہیں۔ آج کل یہ حضرات اپنی آمدنی میں کچھ اضافہ کرنے کے لئے ہوم ٹیوشنز پر بھی انحصار کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں اعلیٰ دینی تعلیم کے لئے بے شمار مدارس کا ایک جال پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ ان کامکمل کیریئر بس یہی ہوتا ہے اور وہ اسی سے حاصل ہونے والی قلیل آمدنی سے اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔
2-دوسرے درس نظامی اور اعلیٰ دینی تعلیم کے مدارس۔
دینی تعلیم کے کورس کو درس نظامی کہا جاتا ہے۔ یہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور کے ایک ماہر تعلیم ملا نظام الدین کا ترتیب دیا ہوا نصاب ہے جو تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس میں بالعموم رائج ہے۔ اس دور میں یہ نصاب حکومت کی سول سروس کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ اس نظام تعلیم نے مجدد الف ثانی جیسے بزرگ بھی پیدا کیے یہ اور نواب سعد اللہ خان دونوں ایک ہی استاد کے شاگرد تھے۔ نواب سعد اللہ خان وہ سیاست د ان ہیں جو شاہ جہان کے دور میں پورے ہندوستان ( یعنی موجودہ افغانستان ، پاکستان، موجودہ ہندوستان ، موجودہ بنگلہ دیش، موجودہ سری لنکا اور موجودہ نیپال) کم ازکم یہ چھے ملک اتنی بڑی سلطنت میں شامل تھے جس کا نواب سعداللہ خان کم از کم اڑتالیس سال وزیراعظم رہا ہے ، گویا بڑی بڑی سلطنتیں چلانے والے مدبرین اور اعلی سے اعلی دینی قیادتیں فراہم کرنے والے بزرگان (جو مجدد الف ثانی کے درجے کے لوگ ہوں) اسی نظام تعلیم نے پیدا کیے تاج محل جس انجنیئر نے بنایا وہ اسی نظام تعلیم کاپڑھا ہوا تھا جس سے اس نے تاج محل جیسی عمارت بنائی جو آج دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک نمایاں عجوبہ ہے ۔
تعلیم کا مقصد ایک طرف نئی نسل کو ثقافتی سرمایہ منتقل کرنا ہے تو دوسری طرف فرد کے قوت فکرکی نشوونما مقصود ہے ۔ قوت فکر میںعقل نظری اور عقل استقرائی دونوں کی نشوونما شامل ہے۔عقل نظری کا تعلق منطق و فلسفہ سے ہے جب کہ عقل استقرائی کا تعلق طبیعیات،کیمیا اور حیاتیات وغیرہ کے طبعی علوم اور تاریخ و اجتماعیات وغیرہ کے عمرانی علوم سے ہے ۔ ملا نظام الدین ؒنے اسے صرف عقل نظری کی نشوونما تک محدود رکھا اور ان کے نزدیک تعلیم کا اصل مقصد عقل و فکر و فہم کی نشوونما تھایہی وہ فلسفہ تھا جس کی بنیاد پردرس نظامیہ کی بنیاد رکھی گئی۔
وقت کی ضرورت کے پیش نظر اس میں چند معمولی تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں۔ حال ہی میں حکومت نے دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ان کے نصاب کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کئے ہیں جس کے تحت بعض جدید علوم کو بھی دینی مدارس کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔
ان مدارس کے فارغ التحصیل علماء عموماً مساجد میں امام یا خطیب کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں۔ ان میں سے جو افراد اچھی تقریر کرنا جانتے ہیں وہ جمعے کی نماز کی خطابت کے علاوہ جلسوں وغیرہ میں تقاریر کرکے بھی کچھ رقم کما لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں سے جو علمی اعتبار سے مستحکم ہوتے ہیں، وہ کسی مدرسے میں بطور معلم ملازمت حاصل کر لیتے ہیں۔ ہمارے عام سکولوں کے نصاب میں بھی عربی پڑھائی جاتی ہے، اس وجہ سے بعض علماء جدید تعلیمی اداروں میں بھی بطور عربی اور اسلامیات کے معلم کے خدمات انجام دیتے ہیں۔ بعض ایسے حضرات جنہیں مالی امداد کرنے والے دوست اور ساتھی مل جائیں ، عموماً اپنا دینی مدرسہ کھول لیتے ہیں۔ یہ حضرات معاشی اعتبار سے سب سے بہتر حالت میں ہوتے ہیں۔
اگر دینی تعلیم و تعلم کو کوئی بطور کیریئر اختیار کرنا چاہے تو اس میں اس کے لئے دنیاوی اعتبار سے کوئی خاص کشش موجود نہیں ہے۔ 2003 میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق حفظ و قراۃ کے مدارس کے ایک عام معلم کی تنخواہ 2500 سے لے کر 6000 روپے تک ہوتی ہے۔ مدارس کے ائمہ کی تنخواہیں بھی اسی رینج میں ہوتی ہیں جبکہ مساجد کے موذن اور خادم حضرات کو 1500 سے 3000 روپے تک ادا کئے جاتے ہیں۔ درس نظامی کے فارغ التحصیل علماء بطور خطیب تقریباً 4000 سے 8000 روپے تک تنخواہ پاتے ہیں اور مدارس میں بطور معلم بھی زیادہ سے زیادہ اتنی ہی رقم حاصل کر پاتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار بھی بڑے شہروں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں عام لوگ مساجد اور مدارس کو اچھی خاصی رقم بطور چندہ ادا کرتے ہیں۔
چھوٹے شہروں اور دیہات میں یہ رقوم اور بھی کم ہو جاتی ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک امام مسجد اپنی تمام تر کاوشوں کے بعد بڑی مشکل سے زیادہ سے زیادہ پانچ چھ ہزار روپے اور خطیب زیادہ سے زیادہ دس بارہ ہزار روپے کما پاتا ہے۔ جو حضرات اپنے مدرسے قائم کر لیتے ہیں، وہ نسبتاً بہتر حالت میں ہوتے ہیں۔ افراط زر کے ساتھ ساتھ ان ائمہ و خطباء کی تنخواہوں میں بھی کوئی خاص اضافہ نہیں ہوتا۔گویا جس تنخواہ پر ایک امام یا خطیب اپنے کیریئر کا آغاز کرتا ہے، تقریباً اتنی ہی یا اس سے کچھ زیادہ پر اس کے کیریئر کا اختتام ہوتا ہے۔
یہ بھی غنیمت ہے کہ عموماً مساجد کے ساتھ امام و موذن کی رہائش کا انتظام کیا جاتا ہے اور ان کے یوٹیلیٹی بلز وغیرہ ادا کردیے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود اس رقم سے یہ حضرات جس درجے کا معیار زندگی حاصل کر سکتے ہیں، اس کا اندازہ ہر شخص کر سکتا ہے۔یہی وجوہات ہیں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ فل ٹائم خدمت کے طور پر اسے اختیار نہیں کرتا۔ اس طبقے میں جو لوگ دین کا درد رکھتے ہیں، وہ اپنی معاش کے لئے کوئی اور انتظام کرتے ہیں اور دینی خدمات کو پارٹ ٹائم مشغلے کے طور پر انجام دیتے ہیں۔
مساجد کی اکثریت کا نظام انتظامیہ کمیٹیوں کے تحت چلتا ہے۔ بہت سے مساجد کی کمیٹیاں بھی ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہیں جو شاذ ونادر ہی مسجد میں آ کر نماز پڑھتے ہیں۔ بہت مرتبہ ان لوگوں کا رویہ امام مسجد سے حقارت آمیز ہوتا ہے اور یہ انہیں ذاتی ملازم سے زیادہ حیثیت نہیں دیتے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ امام و خطیب کے انتخاب اور احتساب کا فریضہ وہ لوگ انجام دیتے ہیں جو علوم دینیہ کی ابجدبھی واقف نہیں ہوتے۔
یہی وجہ ہے کہ امام و خطیب کو مسجد میں انتظامیہ اور نمازیوں کی منشا اور مرضی کے مطابق ہی بات کرنا پڑتی ہے اور اسے مکمل طور پر آزادی رائے حاصل نہیں ہوتی۔ کھل کر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا بھی اکثر اوقات ان کے لئے خاصا مشکل ہوجاتا ہے جو ان کی اصل ذمہ داری ہے۔ ان سب کے علاوہ مساجد کی تزئین اور آرائش پر تو لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں اور لوگ بھی اس میں دل کھول کر چندہ دیتے ہیں لیکن اس زندہ وجود کی کسی کو خبر نہیں ہوتی جو اس مسجد کا سب سے اہم حصہ ہے۔ مساجد کی تزئین و آرائش میں اسراف کی حد تک خرچ کرنے میں کسی کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا لیکن اس انسان کا کوئی خیال نہیں کرتا جسے اپنے علاوہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ بھی پالنا ہے۔ اگر مساجد کی کمیٹیوں کے عہدے دار اپنے اپنے ائمہ مساجد کے گھروں میں جاکر ان کے معیار زندگی کا اندازہ لگائیں تو وہ خود کبھی بھی ایسی زندگی گزارنا پسند نہ کریں۔
ملک بھر میں چھوٹے بڑے مدارس کا اتنا بڑا جال پھیلا ہوا ہے کہ اس سے ہر سال فارغ التحصیل ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں شمار کی جاسکتی ہے۔ ملک میں اتنی بڑی تعداد میں نہ تو مساجد کی تعمیر ہو رہی ہے اور نہ ہی نئے مدارس وجود میں آ رہے ہیں۔ مدارس کے ذہین طلباء عموماً دین پر ریسرچ کا ذوق رکھتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسے ادارے بہت کمہیں جہاں دین پر ریسرچ کی جارہی ہو۔ ان حالات کے پیش نظر اس طبقے میں بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس کا حل سوچنا نہ صرف ارباب حکومت کا کام ہے بلکہ مدارس کے منتظمین اور علماء کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے پر خوب غور و خوض کرکے اس کا کوئی حل نکال سکیں
ب۔ طبعی علوم کے ساتھ اسلامیات کا ربط
طبیعیات، مادے اور توانائی کے علم اور ان کے باہمی تعلق کے مطالعے کو کہا جاتا ہے۔
علم طبیعی (physical science) کا ایک بنیادی شعبہ ہے۔ اس کی تعریف یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ یہ فطرت یا طبیعہ کے اصول و قوانین کے مطالعہ کا نام ہے۔ طبیعیات ایک ایسا سائنسی علم ہے جس میں فطرت و طبیعہ کے ان بنیادی قوانین پر تحقیق کی جاتی ہے کہ جو اس کائنات کے نظم و ضبط کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہ فطرت کے قوانین چار اہم اساسوں کے گرد گھومتے ہیں جو بنام زمان و مکاں اور مادہ و توانائی ہیں۔ اس کا لب لباب یوں کہہ سکتے ہیں کہ طبیعیات دراصل کائنات کی تشکیل کرنے والے بنیادی اجزاء اور ان اجزاء کے باہمی روابط کے مطالعے اور پھر ان کے زیرِ اثر چلنے والے دیگر نظاموں (بشمول انسان ساختہ) کے تجزیات کا نام ہے۔
طبیعیات کے مظاہر کی مختلف مثالیں۔
طبیعیات کے سلسلے میں ایک عمومی بات یہ ہے کہ یہ طبیعی اجسام سے متعلق رہتا ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ عام طور پر اس میں غیر نامیاتی (Inorganic) اجسام یا مادوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس نامیاتی (Organic) مرکبات اور مادوں کا مطالعہ عام طور پر حیاتیات اور فعلیات کے زمرے میں آتا ہے۔ کیمیاء میں اکثر ایسے مقامات آتے ہیں جہاں اس کا علم غیر نامیاتی دائرے سے نکل کر نامیاتی اجسام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، مثال کے طور پر حیاتی کیمیاء۔ یہ دائرہ بندی گو بنیادی تصور قائم کرنے کے لیے تو اہم ہے لیکن آج سائنس کی ترقی نے ان تمام علوم کے دائروں کا مدہم کرکے اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ جہاں اکثر مقامات پر ان کی سرحدیں ایک دوسرے میں نفوذ کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔
ج۔ اسلامیات میں مطالعہ فنون کی اہمیت
اسلامی فنون سے مراد وہ تمام ظاہری فنون ہیں جو ساتویں صدی عیسوی میں مسلمان اکثریتی علاقوں میں یا اُن علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی حکومت تھی پروان چڑھے۔ اسلام کی آمد سے لے کر اب تک اسلامی فنون کی ترقی میں بہت سے لوگوں اور علاقوں نے اپنا حصہ ڈالا ہے۔
قلعہ آگرہ میں اسلامی فن کا ایک نمونہ
مسلمانوں نے بہت سے فنون کو بام عروج تک پہنچا دیا۔ جن فنون میں مسلمانوں نے ترقی کی اُن میں درج ذیل مضامین بھی شامل ہیں۔
خطاطی
مصوری
قالین بافی اور غالیچہ سازی
شیشہ سازی
مطالعہ کو علم و دانش کی معدن کہا جاتا ہے۔ مطالعہ ذہن کو بنجر پن سے محفوظ رکھتا ہے۔ مطالعہ نہ صرف طالب علموں کے لیے نفع بخش ہوتا ہے بلکہ اساتذہ بھی اس کے ثمرات سے فیض و حظ اٹھاتے ہیں۔ مطالعہ نہ صرف اساتذہ بلکہ طلبہ کے علم میں ترو تازگی کو برقرار رکھنے میں اہم کردار انجام دیتا ہے بلکہ طلبہ بھی مطالعہ کی صحت مند عادات کو اپنا کر اپنے علم میں نہ صرف دن دگنی رات چوگنی ترقی کر سکتے ہیں بلکہ اپنی یادداشت کو بھی بہتر بنا سکتے ہیں۔ مطالعہ ایک فن ہے۔ طلبہ فنِ مطالعہ کے اسرار و رموز سے آشنا ہو کر اپنے تحصیل علم کے سفر کو پُر کیف اور آسان بنا سکتے ہیں۔ مطالعہ پڑھنے سے پیشتر، دوران مطالعہ اور اختتام، ہر مرحلہ میں فکر خیزی پر منحصر ہوتا ہے۔ عام طور پر مطالعہ کی دو اقسام ہوتی ہیں۔
(1)عام مطالعہ (casual reading) (2) سنجیدہ مطالعہ (serious reading)
اخبارات، رسائل و جرائد اور دیگر مواد کو جس کے نہ بھی پڑھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا عام مطالعہ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ ان رسائل و جرائد میں چھپنے والے مواد کو یاد رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔طلبہ کے لیے چھپنے والے تعلیمی رسائل بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ اس کے برعکس ایسا مواد یا کتب جن میں موجود معلومات کو بازیافت کرنے اور اعادہ کرنے کی ضرورت درپیش ہوتی ہے، خاص طور پر طلبہ کو اس مطالعہ کی سخت حاجت ہوتی ہے۔ مطالعہ کی اس قسم کو سنجیدہ مطالعہ یا (serious reading) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔SQ5R فنِ مطالعہ کی ایک خاص تکنیک
طالب علموں میں سنجیدہ مطالعہ کی عادات کو فروغ دینے اور مستحکم کرنے کے لیے ماہرین نفسیات و تعلیم نے کئی سود مند طریقے ایجاد کیے ہیں۔ مطالعہ کو استحکام بخشنے والے جدید طریقوں میں ماہرین تعلیم و نفسیات کا SQ5R کا طریقہ بہت ہی کار گر اور سود مند ثابت ہوا ہے۔اپنی اثر انگیزی کی وجہ سے مطالعہ کے طریقے SQ5R کو عالمی سطح پر بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس مضمون کے ذریعہ اساتذہ اور طلبہ کو مطالعہ کے نہایت موثر طریقہ کار SQ5R سے متعلق معلومات فراہم کی جا رہی ہیں تاکہ اساتذہ اپنے شاگردوں کو اس فن سے آراستہ کرتے ہوئے ان کے تعلیمی سفر کو آسان اور موثر بنائیں۔ SQ5R۔ کسی بھی طالب علم کے لیے درسی کتب کے اسباق کو پڑھنا جہاں مشکل ہوتا ہے وہیں اسباق کو سمجھنے میں بھی ان کو نہایت دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوران مطالعہ ذہنی عدم ارتکاز کی وجہ سے طلبہ اسباق کو سمجھنے اور مطالب و مفاہیم سے آشنائی پیدا کرنے میں عام طور پر ناکام رہتے ہیں۔ ذہنی عدم ارتکاز کی شکایت عام طور پر اکثر طلبہ میں پائی جاتی ہے۔ماہرین تعلیم و نفسیات نے مطالعہ کو اثر آفرینی اور انہماک و ارتکاز کی خوبیوں سے لیس کرنے کے لیے ہی SQ5R کی حکمت عملی کو وضع کیا ہے۔اس طریقہ کار کو اپناتے ہوئے طلبہ اپنے مطالعہ کو بہتر بنا سکتے ہیں اور اپنی یادداشت کو استحکام فراہم کرتے ہوئے فقید المثال کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ طلبہ کے زیر مطالعہ مضامین خواہ وہ طبیعات (physics) کیمیاء (chemistry) حیاتیات (biology) ریاضی (mathematics) معاشیات(economics) تاریخ (history) ہو یا پھر ہوا بازی یعنی ہوائی جہاز کو اڑانے کی تعلیم و تربیت ہی کیوں نہ ہو، مطالعہ کے SQ5R طریقہ کو استعمال کرتے ہوئے طلبہ نفس مضمون کو دیرپا ذہن نشین رکھ سکتے ہیں
د۔ مطالعہ قرآن کے علوم
علوم قرآن کو دوحصّوں میں تقسیم کیاجاتا ہے:
اولاً۔ وہ علوم جو قرآن سے ماخوذ ہیں اور جنہیں آیاتِ قرآن میں تحقیق اور جستجوسے حاصل کیا جاتا ہے انہیں ”علوم فی القرآن” کہتے ہیں۔
ثانیاً۔ وہ علوم جنہیں فہم القرآن کے لئے مقدمہ کے طور پر سیکھا جاتاہے انہیں علوم لِلْقُرآن کہتے ہیں۔
علوم فی القرآن :
قاضی ابو بکر بن عربی(۱)نے ”قانون التَاویل“ میں قرآن سے ماخوذ علوم کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے
(۱) توحید
(۲) تذکیر
(۳) احکام
اس کتاب میں مخلوقات سے آگاہی۔ اسماء صفات اور خالق سے آشنائی کو علم توحید قرار دیا گیاہے۔ بہشت کا وعدہ اور دوزخ کی وعید کو علم تزکیراورتمام مباح امور، یعنی شرعی احکام اور اُن کے نفع و نقصانات کے بیان کو علم احکام محسوب کیا گیا ہے۔ کتاب میں علم توحید کے لئے اس آیت کو بطور مثال پیش کیا گیاہے ” وَاِلٰہُکم اِلٰہ وَّاحِد’‘” (۱)اس میں توحیدِذات افعال اور صفات پوشیدہ ہیںعلم تذکیر کے لئے ” وَ ذَ کّرِ’ فَانِّ الذِّکریٰ تنفع المومنین“ کی مثال دی گئی ہے اور تیسرے علم لئے ”وَاَنٍ اَحْکُمْ بینھم“کو شاہد کے طور پر لایا گیا ہے۔ مصنف کہتے ہیں کہ فاتحتہ الکتاب کو اسی لئے ”امّ الکتاب” کہا جاتاہے کہ اس میں تینوں اقسام توحید،تذکیر،اور احکام کا ذکر موجود ہے۔
مثلاًسورہ کی ابتدا سے لے کر یوم الّدین تک توحید ہے” اِیّاکَ نَعبدُ وَایاکَ نَسْتَعِین“ عبودیت اور احکام میں اطاعت سے متعلق ہے۔
” اِھدِناَالصِّراطَ المُستَقیِم”سے لیکر آخر تک میں تذکیر کا ذکر ہے۔
اَبُوالْحَکَمْ اِبْنِ برّجان (۲) ” ارشاد“ میں تحریر کرتے ہیںسارا قرآن تین علوم پر مشتمل ہے اسماء اللہ اور اسکی صفات کا علم،نبّوت اور اس کے استدلال و براھین کا علم، علم تکلیف (شرعی احکامات)
محمد بن جریر طبری کہتے ہیں:
قرآن تین علوم پر مشتمل ہے توحید،اخبار اور دیانات اسی لئے پیغمبر خدا نے فرمایا ہے ” قُل ھُواَاللہُ اَحَدْ” قرآن کے برابر ہے چونکہ یہ سورت سراسر توحید ہے۔
عُلوم الِقُرآن
کلی طور پر وہ علوم جو آیات کے فہم و ادراک کے اور کلام خدا کے معانی کو سمجھنے کے لئے،قرآن سے پہلے مقدمةً سیکھے جاتے ہیں اُنہیں علوم قرآن کہتے ہیںاس تحریر میں ہمار ا مقصود یہی علوم اور منابع ہیں کیونکہ قرآن پیغمبر اسلام کا ایک ابدی معجزہ ہے جو درج ذیل موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے ہےاخبار، قصص،حِکم، موعظہ،وعدہ،وعید،امر،نہی،تنذیر،تہذیب قلوب، تسکین نفوس، ارشاد، مطالعہ فطرت، وسیع کائنات میں غوروفکر۔
قرآن مجید فصیح عربی زبان میں نازل کیاگیا ہے
” وَانِّہٰ لَتنزیلُ رَبّ العالِمین نَزَلَ بِہِ الرُّوحُ الاَمینً وعَلیٰ قَلْبِکَ لِتَکُونَ مِنَ الُمنْذِرینَ بلِسٰانٍ عَرَ بیٍ مُّبِین”
تحقیق یہ قرآن عالمین کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے جبرئیل کے توسط سے اسے تمہارے قلب پر نازل کیا گیاتاکہ تم اس کے مواعظ اور حکمتوں کو لوگوں کے لئے بیان کرو۔ یہ قرآن فصیح عربی زبان میں ہے۔
لیکن جیسا کہ عربی زبان کا طریقہ ہے قرآن بھی حقیقت و مجاز، تصریح اور کنایہ ایجازو تشبیہ و تمثیل اور امثال سے پُرہےمعارف قرآن کے طالب مجبور ہیں کہ وہ بلاغت و فصاحت کے علوم کو اچھی طرح سیکھیں کیونکہ الہی کلام کے اعجاز سے آگاہی متعلقہ امور سے مکمل واقفیت کے بغیرہرگز ممکن نہیں ہے ؟ہرگز نہیںمعرفت قرآن کے مقدمات سے آگاہی جس قدر زیادہ ہوگیکلام الہی کی روح اور گہرائی سے آگاہی بھی اسی قدر زیادہ ہو گی۔
قرآن کریم میں آیات متشابہ موجود ہیں جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:
” ھُوَالَّذی اَنزَلَ علیک اَلکِتَاب منہ آیَات’‘ محُّکَمٰاتٌ ھُنَّ اُمُّ ا’لکِتَاب وَاُخَرُمُتَشٰابِہاٰت فَاَمّااَّلَذِین فِی قُلُوبِہم زیغُ فَیَتَّبعُونَ مَاتَشَابَہ منہُ اَبْتغَاءَ الفِتَنة وَابتغاءَ تاوِیلہ وَماَیعلم ُ تَاوِیلَہ اِلاَاللہ وَالَّراسَخونَ فیِ العلم یَقُولُون آمَنّابِہ کُلّ مِن عندرَبّناٰ وَماَیَذَّکَّرُ اِلاّاُو لُوالاَلباٰب”
(وہی خدا ہے کہ جس نے تم پر کتاب نازل کی اس کتاب میں بعض آیات محکم ہیں جو کہ کتاب خداکی دیگر آیات کے لئے اصل اور مرجع کی حیثیت رکھتی ہیںبعض متشابہ ہیں پس جن کے دل باطل کی طرف مائل ہیں وہ متشابہ کے پیچھے جاتے ہیں تاکہ اس میں تاویل کر کے شُبہ اور فتنہ وفساد پیدا کریںحالانکہ انکی تاویل سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم سب محکم اور متشابہ پر جو ہمارے رب کی طرف سے نازل شدہ ہے ایمان لائے ہیں اور سوائے صاحبان عقل کے کوئی بھی اس حقیقت کو نہیں جانتا۔
قرآنی معارف کے طالِب حضرات کو چاہیے کہ وہ مشکلات کے وقت پیغمبر خدا اور آلِ رسول کی طرف رجوع کریں قرآن کی لغات اور معانی سے متعلق اُن سے سوال کریں
حضرت عمرنے ایک دفعہ منبر پر کھڑے ہو کر آیت ” وَفاَ کِہَةً وَاَباًّ” کی تلاوت کی اور کہا فاکِہَة کو جانتا ہوں لیکن نہیں جانتا کہ اَبّاًَُّ سے کیا مراد ہے ؟۔
بزرگ صحابی اور حبرالامةابن عباس فرماتے ہیں کہ میں فاطرالسموات کا مطلب نہیں جانتا تھا ایک دفعہ دو عرب جھگڑتے ہوئے میرے پاس آئےوہ ایک کنویں سے متعلق جھگڑ رہے تھے اُن میں سے ایک نے کہا”افطرتھا” یعنی ابتدیتھایعنی سب سے پہلے میں نے کنواں کھودا ہے اس وقت میں اس کے معانی سے آگاہ ہوا۔
یہ نہیں کہا جاسکتا کہ دوسرے افراد مخصوصاً غیر عرب لوگوں کو تفسیر کی اور معانی ومطالب سمجھنے کی ضرورت نہیں ہےایسے علوم شناخت قرآن کے لئے ضروری ہیںجب مقدماتی علوم سے انسان اچھی طرح آگاہ اور باخبر ہو جائے تو وہ قرآن کے اندر پوشیدہ علوم کی بھی کماحقہ معرفت حاصل کرسکتا ہے۔