Malik Accademy Provides you AIOU Course Code 5614-2 Solved Assignment Autumn 2021. So keep Visiting Malik Accademy for More Assignments.
ANS 01
یہ اسائیمنٹ مائیکرو سافٹ ورڈ یا پی-ڈی-ایف فارمیٹ میں حاصل
کرنے کیلئے اس نمبر پر واٹس ایپ کریں-03038507371
وادیٔ کہسار میں غرق شفق ہے سحاب
لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب
سادہ و پرسوز ہے دخترِ دہقاں کا گیت
کشتیِ دل کے لیے سیل ہے عہدِ شباب
آبِ روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالمِ نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکشِ انقلاب
صورتِ شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
- ساتویں بند میں علامہ اقبالؒ اس حسرت کا دل فگار اظہار کرتے ہیں کہ ایسے حالات کیوں پیدا ہوئے کہ آج مسجدِ قرطبہ کی فضاوں میں اذان نہیں گونج رہی۔آخر اس عشق ِ بلا خیز کا قافلہءِ جاں گداز کہاں رہ گیا جو اس فضا کو آ کر پھر گل نور کر دے۔مسلمانوں کی دینی اصلاح کے ذمہ دار کہاں پڑاو کیے ہوئے ہیں۔کیا ان کی فکر میں وہ روحانی تڑپ ہے جو امۃ کی رگ و پے میں زندگی کی لہر دوڑا دے۔کیا انقلاب کا مطلب تعمیر کے بجائے تخریب ہے۔تخریب کبھی بھی دین کی مطمحِ نظر نہیں ہو سکتا۔انقلاب جِلا دینے کا نہیں۔تخریبی رویے حرفِ غلط ہوتے ہیں ۔مٹتے چلے جاتے ہیں۔آخر فرانس کے انقلاب نے اہلِ مغرب کو کیا دیا۔گروہی تعصب میں مبتلا کیا۔اس کے علاوہ ان انقلابات کی کیا فتوحات ہیں۔کیا جذوی اور سفلی مقاصد کے حصول کے لیے عملِ تجدید تعمیرِ جہاں کا باعث بن سکتا ہے۔ہر گز نہیں۔البتہ اگر روحِ اسلام بیدار ہو جائے تو عالمِ انسانی میں سکھ اور چین کا سماں پیدا ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے روحِ اسلام سے سرشار جمعیت کی ضرورت ہے۔جذبِ باہم درکار ہے۔ربط و یگانگت کی احیتاج ہے۔اگر روحِ اسلامی اپنی اصل شکل میں بیدار ہو گئی ۔ظَھَرَ الفساد فی ا لبرِ و البحر کی صورت ختم ہو سکتی ہے۔زمین سونا اگل سکتی ہے اور آسمان سے خوانِ نعمت و رحمت نازل ہو سکتے ہیں۔
- آٹھویں اور آخری بند میں علامہ اقبالؒ روحِ اسلام کے خوشگوار اثرات کا اشارہ دیتے ہیں اور آفتابِ اسلام کی پرنور شعاوں سے عالمِ ارضی میں کیا رونق برپا ہو سکتی ہے۔اس کا نقشہ کھینچتے ہیں۔آپؒ آبِ روانِ کبیر کے کنارے چشمِ تصور سے اُس عالمِ نو کا خوشگوار اور دلکشا و روح افزا منظر دیکھ رہے ہیں جو گو ابھی پردہءِ تقدیر میں پنہاں ہے لیکن بندہءِ مومن اور مردِ عشق کی تدبیر اور حکمتِ کار سے عالمِ رنگ و بو میں منصہءِ شہود پر رونما ہو سکتا ہے۔آپؒ مغربیوں کو انتباہ کر رہے ہیں کہ ہوس گری اور حرص گیری سے کچھ حاصل نہیں۔میری نواوں اور افکار کی گرمی سے یہ خانہءِ حرص و ہوا تحلیل ہو سکتا ہے اور وہ بقعہءِ نور برپا ہو سکتا ہے جو صرف اسوہءِ حسنہ کے حسن سامانیوں میں پنہاں ہے ۔آپؒ فرماتے ہیں۔اے جوانوں مرگِ غفلت سے نکل آو اور جدوجہد و ابتلا کی کشمکش سے دوچار ہو جاو۔روحِ امم کو حرارتِ انقلاب سے زندہ کرو وگرنہ قصہءِ پارینہ بن جاو گے۔تصحیح ِ عمل اور عملِ پیہم سے تم دستِ قضا میں شمشیر کی صورت کارگر ہو سکتے ہو۔
خونِ جگر کی آمیزش سے جان ِ مشرق انگڑائی لے گی۔تن مردہ میں زندگی کی رُمق پیدا ہو گی،نقش ونغمہ پھر سے سیرابیءِ نگاہ اور زیبِ گلو بن سکتے ہیں۔بس خونِ جگر کی ضرورت ہے جو میری نواوں کے زور سے نشونما پا سکتے ہے اگر جمعیت ِ خاطر اور ربطِ باہم میسر ہو
’’ یہ نظم صرف اقبال ہی کا شاہ کار نہیں بلکہ ساری اردو شاعری کا شاہ کار ہے۔ اردو شاعری میں اس نظم کے سوا کچھ بھی نہ ہوتا تو بھی ہماری شاعری دنیا کی صف اول کی شاعری میں ایک ممتاز مقام حاصل کر سکتی تھی۔ ’’ مسجد قرطبہ‘‘ شعریت‘ رومانیت‘ حقیقت پسندی‘ رمزیت ‘ اور ایمائیت کا ایک ایسا حسین امتزاج ہے کہ ہماری ساری اردو شاعری روزِ اوّل سے آج تک اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
’’مجھے اپنی زندگی میں ۲۸۲۹۲۰ مربع فٹ کے رقبے میں بنی ہوئی اس عظیم الشان مسجد کو دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا اور تصو ّرمیں اس مسجد کے جلال و جمال کا اندازہ کرنا آسان بھی نہیں ہے… اگر مجھے کبھی ہسپانیہ کی اس مسجد کو دیکھنے کا موقع ملے ۳؎ تو شاید میںاس وقت بھی یہ فیصلہ نہ کر سکوں کہ ہسپانیہ کی مسجد قرطبہ زیادہ جلیل و جمیل ہے یا بالِ جبریل کی ’’مسجد قرطبہ۔‘‘ (نگار پاکستان‘ اقبال نمبر۱۹۶۲ئ: ص ۱۷۔۱۸)
اقبال کی اس بے مثال فنی تخلیق کی داد‘ اردو کے بیشتر نام ور نقادوں نے دی ہے‘ مثلاً: مولانا صلاح الدین احمد لکھتے ہیں:’’شاعر نے یہ نغمے غرناطہ کی عطر بیز فضاؤں اور وادی الکبیر کی کیف انگیز ہواؤں میں خود ڈوب کر لکھے ہیں۔’’ مسجد قرطبہ‘‘ اقبال کی پختہ تر شاعر ی میں ایک امتیازی مقام رکھتی ہے اور اس کے بعض مقامات یقیناً دنیا کی عظیم ترین شاعری شمار کیے جا سکتے ہیں ‘‘۔ ( تصوّراتِ اقبال: ص ۳۲۳)
ممتاز نقاد اور دانش ورسلیم احمد لکھتے ہیں:’’ اقبال کی مسجد قرطبہ ایک ہندی کی طرف سے عرب مسلمانوں کے لیے عقیدت اور محبت کے ان جذبات کی تخلیق ہے جو ہندی مسلمانوں کے دل کو عربوں کے لیے ہمیشہ آغوش عاشق کی طرح کشادہ رکھتے ہیں… [اسے ] ابدیت کی تاریخ میں ایک معجزۂ فن کا اضافہ ‘‘قرار دیا جا سکتا ہے۔ ( اقبال ایک شاعر: ص۱۰۰‘ ۱۰۵)
مولوی شمس تبریز خان رقم طراز ہیں :اس نظم کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے آفاق اور دائرہ ٔ تخیل بہت ہمہ گیر اور محیط اور اس کا Canvasبہت وسیع اور اس کے پس منظر کا تاریخی شعور بہت طویل و عریض ہے اور تقریباً فتح اندلس سے لے کر زمانۂ حال تک کے تاریخی حوادث و انقلاب اور فکر و فلسفے کے اہم تحریکات کا ذکر آگیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اقبالؔکا نظریۂ حیات و کائنات‘ ان کا فلسفۂ خودی ‘ مرد مومن کا تخیل ‘ ایمان و عشق کے بارے میں واضح تصو ّرات ‘ ان کا فلسفۂ تاریخ ‘ ان کا نظریۂ شعر و ادب‘ فنون لطیفہ کے بارے میں ان کا طرز عمل ‘ زندگی کے تخلیقی و تحریکی عناصر اور ان کے علاوہ بہت سے واضح نظریات اس نظم میں آگئے ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسجد قرطبہ کے آئینے میں، ہم اقبال کی ہشت پہلو شخصیت کے خدو خال دیکھ سکتے ہیں اور ان سے مل سکتے ہیں‘‘۔ (نقوش اقبال: ص ۱۸۳- ۱۸۴)
حواشی
۱۔ ۱۶ ویں صدی میں کلیسا ایک ایسا ادارہ بن چکا تھا جو مذہب کے نام پر ہر طرح کی جائز و ناجائز کارروائیاں کرنے کا عادی تھا۔ کلیسا عقل کا دشمن تھا اور کسی شخص کو اجازت نہیں تھی کہ وہ پوپ کی کسی بات پر اعتراض کر سکے۔ حتیٰ کہ پوپ نے نجات کے ایسے پروانے جاری کیے جو قیمتاً فروخت کیے جاتے تھے اور جن کے متعلق پوپ کا اعلان تھا کہ انھیں خریدنے والا جنتی ہوگا۔ یہ ایک طرح کی برہمنیت تھی جس کے خلاف سب سے پہلے جرمنی کے ایک عالم اور پادری ڈاکٹر مارٹن لوتھر نے علم احتجاج بلندکیا۔ عوام کے دلوں میں پاپائیت کے خلاف پہلے ہی نفرت موجود تھی‘ چنانچہ لوتھر کی تحریک بہت مقبول ہوئی اور پوپ کے مخالفین کا ایک مستقل فرقہ بن گیا جو پروٹسٹنٹ کہلانے لگے۔ عیسائی دنیا میں ان کی اکثریت ہے ۔پوپ کے پیروکار کیتھولک کہلاتے ہیں۔
۲۔ مسولینی ۱۸۸۳ء میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوا۔ بڑے ہو کر اس نے اٹلی کی ترقی و عروج کے لیے ۱۹۱۹ء میں ایک تحریک چلائی جسے فاشزم کا نام دیا گیا ۔ فاشسٹ قومی مفاد کے لیے ہر قسم کی فوجی کارروائیوں ‘تشدّداور قو ّت کے استعمال پر یقین رکھتے تھے۔ مسولینی پہلے اٹلی کا وزیر اعظم بنا پھر آمر مطلق۔اس کی تحریک کے بہت سے منفی پہلو بھی تھے مگر اقبال فاشزم کی انقلابی روح سے متاثر تھے‘ جس کا اظہار انھوں نے بال جبریل کی نظم ’’مسولینی‘‘ میں کیا ہے۔ ۱۹۰۵ء میں یورپ جاتے ہوئے انھوں نے اٹلی کی انقلابی تحریک کو خراج عقیدت پیش کیا:
ہرے رہو وطنِ مازنی کے میدانو!
جہاز پر سے تمھیں سلام کرتے ہیں
مسولینی نے دوسر ی جنگِ عظیم میں ہٹلر کا ساتھ دیا مگر شکست کھا کر ۱۹۴۵ء میں خود کشی کرلی۔
۳۔ پروفیسر جگن ناتھ آزاد کو بعد ازاں ’’مسجد قرطبہ‘‘ اوراندلس میں مسلم دورِ حکمرانی کے دوسرے آثار دیکھنے کا متعدد بار موقع ملا۔
ANS 02
پہلا بند اس طرح ہے:
قلب و نظر کی زندگی، دشت میں صبح کا سماں
چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں
حسن ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂ وجود
دل کے لیے ہزارسود، ایک نگاہ کا زیاں
سرخ کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحاب شب
کوہ اضم کو دے گیا رنگ برنگ طیلساں
گرد سے پاک ہے ہوا، برگ نخیل دھل گئے
ریگ نواح کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں
آگ بجھی ہوئی ادھر، ٹوٹی ہوئی طناب ادھر
کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں
آئی صدائے جبرئیل تیرا مقام ہے یہی
اہل فراق کے لیے عیش دوام ہے یہی
روضۂ پاک رسول کریم کی زیارت کی اقبالؔ کو بڑی تمنا تھی لیکن ان کی یہ تمنا پوری نہ ہو سکی لہذا اس نظم کی تخلیق اسی محرومی کے سبب ہوئی یعنی یہ ایک عاشق رسول کے جذبات فراق کی آئینہ دار ہے-
شاعر (اقبالؔ) تصوراتی طور پر روضۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گامزن ہے۔ وہ جب مدینہ امینہ کے نزدیک کوہ اضم (مدینہ منور کے نواح میں ایک پہاڑی کا نام ہے) کے مقام پر پہنچتا ہے تو گزر گاہ محبوب کے قدرتی حسن سے از حد متاثر ہوتا ہے-صبح کا سہانا سماں ہے، چشمۂ آفتاب سے نور کی ندیاں رواں دواں ہیں، ازل کا سارا حسن نگاہوں کے سامنے ہے، شب کا سحاب سرخ اور پتلی بدلیاں چھوڑ گیا ہے، رات کی بارش سے ہوا گرد و غبار سے پاک و صاف ہوگئی ہے، درختوں کے پتے دھل کر نکھر گئے ہیں، نواح کاظمہ (کاظمہ- مدینہ شریف کے اسماء میں ایک نام ہے) کی ریگ ریشم کی طرح نرم ہے- سبحان اللہ! ان مناظر میں وہی حسن جلوہ نما ہے جو تخلیق کائنات کے وقت ظاہر ہوا تھا جس سے پردۂ وجود چاک ہوجاتا ہے لیکن اس حسن ازل کو دیکھنے کے لیے ظاہری آنکھ بند کرنی پڑتی ہے-
ایسے میں شاعر کو ایک مقام نظر آتا ہے جہاں بجھی ہوئی آگ اور ٹوٹی ہوئی طناب بتاتی ہیں کہ اور بھی قافلے اسی راستے لے قصر محبوب (مدینہ امینہ) کی طرف گئے ہیں۔ اتنے میں شاعر کوصدائے جبریل سنائی دیتی
ہے ؎
اہل فراق کے لیے عیش دوام ہے یہی
شاعر جسے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر اپنا درد دل بیان کرنا تھا، صدائے جبریل سن کر وہیں رک جاتا ہے لیکن کیفیات قلبی زبان حال سے ظاہر ہوتی ہیں ؎
کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لیے مئے حیات
کہنہ ہے بزم کائنات، تازہ ہیں میرے واردات
یہاں شاعر ملت اسلامیہ کے زوال، بے علمی و بے عملی اور جذبۂ جہاد سے محرومی کا گلہ کرتا ہے ؎
کیا نہیں اور غزنوی کار گہ حیا ت میں
بیٹھے ہیں کب سے منتظر اہل حرم کے سومنات
ذکر عرب کے لو زمیں، فکر عجم کے ساز میں
نے عربی مشاہدات، نے عجمی تخیلات
قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں
گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوائے دجلہ و فرات
یہاں شاعر (اقبالؔ) نے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو انقلابؔ اور جہادؔ کے استعارہ کے طور پر پیش کیا ہے- وہ اظہار تاسف کرتا ہے کہ آج پوری امت مسلمہ میں کوئی حسین نہیں ہے جو غلبۂ اسلام کی خاطر خود کو قربان کردے-
شاعر کے نزدیک ملت اسلامیہ کے زوال، بے علمی و بے عملی وغیرہ امراض کا سبب عشق سے محرومی ہے کیوںکہ یہ عشق راہبر بھی ہے اور قوت بھی اور یہ عشق نہ ہو تو عقل و دل و نگاہ بتکدۂ تصورات ہیں ؎
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدۂ تصورات
عشق ایک ایسا معشوق ہے جو مختلف مظاہر میں جلوہ گر ہوتا ہے چنانچہ معرکۂ وجود یعنی روح و بدن کے معرکہ میں صدق خلیل (سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا بیٹے کو قربان کردینے کا جذبہ اور نار نمرود میں کود کر رضائے الٰہی کا عملی نمونہ پیش کرنا بھی عشق ہے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کا امتحان صبر و رضا میں یعنی ملت اسلامیہ کی سرخروئی اور بقاء کے لیے خود کو اور اپنے کنبے کو قربان کردینا بھی عشق ہے، بدر و حنین کا معرکۂ جہاد بھی عشق ہی کی جلوہ گری ہے-
اس کے بعد تیسرا بند شروع ہوتا ہے:
آیۂ کائنات کا معنی دیر یاب تو
نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ وبو!
جلوتیان مدرسہ، کور نگاہ و مردہ ذوق
خلو تیان میکدہ کم طلبی وتہی کدو!
میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ
میری تمام سر گزشت کھوئے ہوئوں کی جستجو !
باد صبا کی موج سے نشو ونمائے خار وخس
میرے نفس کی موج سے نشوونمائے آرزو!
خون ودل وجگر سے ہے میری نواکی پرورش
ہے رگ سازمیں رواں صاحب ساز کا لہو !
شاعر معرکۂ بدروحنین سے خواجہ بدروحنین صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رب قدیر نے سب سے پہلے خلق فرمایا تھا لیکن بعثت میں آپ تمام انبیاء ومرسلین کے آخر میں تشریف لائے-گویا آپ ’’آیہ کائنات کا معنی دیریاب ‘‘ہیں۔چونکہ یہ کائنات آپ ہی کے وسیلے سے اور آپ ہی کی خاطر خلق فرمائی گئی ہے لہذا اول سے ابد تک رنگ وبو کا ہر قافلہ آپ ہی کا متلاشی ہے۔ اس کے بعد شاعر علماء وصوفیہ کی کور نظری ،مردہ ذوقی اور روحانی فقدان کا شکوہ کرتا ہے – وہ ان خرابیوں کے سدباب کے لیے اسلاف کرام کے نقوش قدم پر چلنے کی تلقین کرتا ہے اور ’’کھوئے ہوئوں کی جستجو‘‘کو اپنی شاعری کا نصب العین قرار دیتا ہے-شاعر یہ بھی کہتا ہے کہ باد صباچلنے سے خار وخس کی نشوونما ہوتی ہے، میری نوا کی پرورش دل وجگر کے لہو سے ہوئی ہے اور میری ساز کے رگ رگ میں صاحب ساز کا لہو رواں دواں ہے- یہ شعر :
فرصت کشمکش مدہ ایں دل بیقرار را
یک دو شکن زیادہ کن گیسوئے تابدار را
اس بند کا ٹیپ کا شعر ہے- یہ’’ زبور عجم ‘‘کی ایک غزل کا مطلع ہے- اس کے بعد چوتھے بند کا آغاز ہوتا ہے -اس مطلع کے بارے میں پروفیسر یوسف سلیم چشتی لکھتے ہیں:’’یہ مطلع ہے اس غزل کا جو انہوں نے نعت میں لکھی ہے‘‘-
(شرح بال جبریل ص۵۵۳،عشرت پبلشنگ ہائوس،لا ہور)
در اصل اس نظم ’’ذوق وشوق ‘‘کے لیے ’’زبور عجم‘‘کی نعتیہ غزل کے مطلع کا انتخاب اس کے نعتیہ ہونے کا ایک واضح ثبوت ہے-
اب چوتھا بند شروع ہوتا ہے یعنی:
لوح بھی تو ، قلم بھی تو ،تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
یہ چوتھا بند ایک شاہکا ر نعت ہے جس کا ہر ہر شعر عشق وعقیدت میں ڈوبا ہواہے- اس میں حضور جان نور صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست خطاب ہے-
اس بند کے مزید اشعار ملاحظہ کیجئے :
عالم آب وخاک میں تیرے ظہورسے فروغ
ذرہ ریگ کو دیا تونے طلوع آفتاب
شوکت سنجر وسلیم تیرے جلال کی نمود
فقر جنید وبا یزید تیرا جمال بے نقاب
شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب میرا سجود بھی حجاب!
تیری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے
عقل و غیاب و جستجو ، عشق و حضور و اضطراب
تیرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے
طبع زمانہ تازہ کر جلوۂ بے حجاب سے
اقبالؔ نے حضور صلی اللہ علی وسلم کو ’’لوح و قلم‘‘ کہا ہے اور ان کے وجود مبارک کو ’’الکتاب‘‘ بتایا ہے۔ یہاں ’’لوح بھی تو قلم بھی تو‘‘ وغیرہ سے مراد ہے کہ لوح و قلم وغیرہ سب آپ ہی کے نور سے خلق کیے گئے ہیں اور ان سب پر آپ ہی کا اختیار ہے- آپ ہی ’’اصل تکوین عالم‘‘ بھی ہیں اور ’’سرور کائنات‘‘ بھی!
حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اوصاف اور ان کی عظمت شان بیان کرتے ہوئے اقبالؔ نے ان کی سیرت مبارکہ کا بہت ہی جامع بیان پیش کیا ہے- وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’الکتاب‘‘ کہتے ہیں اور یہ وہ بلاغت ہے جو شاعری کی جان ہے۔ اس میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اس قول کی تلمیح ہے جس میں انہوں نے حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ’’خلق‘‘ کو ’’قرآن مجید ‘‘ قرار دیا تھا-
اقبالؔ حضور نبی لولاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ایجاد عالم کا مادہ اور باعث قرار دیتے ہوئے وضاحت کرتے ہیں کہ یہ ’’آبگینہ رنگ گنبد‘‘ آپ کے محیط میں حباب کی مانند ہے اور ’’عالم آب و خاک‘‘ میں آپ ہی کے ظہور سے فروغ ہے-اس کے بعد اقبالؔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کا ذکر کرتے ہیں کہ آپ نے ’’ذرہ ریگ‘‘ یعنی عرب کی بے مایہ قوم کو عظمت عطا کی ، انہیں اسلام اور معرفت خداوندی کا اجالا بخش کر تابناک کردیا- سلاطین اسلامیہ کی شوکت و سطوت اور اولیاء و اصفیاء کی ولایت و فقر کا جلال و جمال آپ ہی کی بخشش ہے۔ وہ سنجر وسلم یعنی خواجہ معین الدین سنجری اور شیخ سلیم الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہما کی ولایت کا جلال ہو یا حضرت جنید بغدادی اور حضرت بایزید بسطامی قدس سرھما کے فقر کا جمال ہو-
محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی عبادت کا محرک ہے اور صرف عبادت ہی نہیں بلکہ حقیقۃً رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہی عین ایمان ہے-اقبالؔ نے یہاں سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت سے خالی نماز کو’’حجاب محض‘‘ بتایا ہے- اقبالؔ کہتے کہ یہ سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی نگہ ناز کا اعجاز ہے کہ عقل و عشق اور ان کے فروعات کو ان کی مرادیں حاصل ہوگئیں-
بند کے آخر میں رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم سے استمداد کی گئی ہے کہ یہ جہان آفتاب کی گردش کے باوجود بھی تیرہ و تار ہے اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان نظر کے بغیر منور ہو بھی نہیں سکتا لہٰذا اے حاضر و ناضر رسول! ’’زمانے کے مزاج کو اپنے بے حجاب جلوے سے تازگی بخٰشیے۔‘‘ اس سلسلے میں اقبال ؔ نے اپنے عقیدہ کا اظہار بھی کیا ہے۔ ۱۴جنوری ۱۹۳۲ کے خط میں وہ نیاز الدین خاں کو لکھتے ہیں: ’’میرا عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور اس زمانے کے لوگ بھی ان کی صحبت سے اسی طرح مستفیض ہوسکتے ہیں جس طرح صحابہ ہوا کرتے تھے لیکن اس قسم کے عقائد کا اظہار بھی اکثر دماغوں کو ناگوار ہوگا، اس واسطے خاموش رہتا ہوں‘‘-(مکاتب اقبالؔ بنام خان نیاز الدین خاں، خط نمبر ۵۴، ص۱۶۰، مرتبہ اقبالؔ اکادمی، لاہور ۱۹۸۶ء)
آخری بند اس طرح ہے:
تیری نظر میں ہیں تمام میرے گزشتہ روز و شب
مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم تخیل بے رطب
تازہ مرے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا
عشق تمام مصطفی، عقل تمام بولہب
گاہ بحیلہ می برد، گاہ بزور می کشد
عشق کی ابتدا عجب، عشق کی انتہا عجب
عالم سوز و سازمیں وصل سے بڑھ کر ہے فراق
وصل میں مرگ آرزو! ہجر میں لذت طلب
عین وصال میں مجھے حوصلۂ نظر نہ تھا
گرچہ بہا نہ جور ہی میری نگاہ بے ادب
گرمی آرزو فراق! شورش ہائے ہو فراق
موج کی جستجو فراق، قطرہ کی آبرو فراق
اس بند میں علم و عقل کی نارسائی اور عشق کے فیوض و برکات کا ذکر ہے- اس بند کے مصرع: ’’عشق تمام مصطفی، عقل تمام بولہب‘‘ میں اقبالؔ نے عشق کو اسلام کا اور عقل کو کفر کا استعارہ بنایا ہے- بیشک عشق تمام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور عشق مصطفی ہی ایمان ہے اور مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جان جہان اور رحمتوں کی جان ہیں-
وصال و فراق کے فلسفہ پر اقبالؔ نے اس شعر میں روشنی ڈالی ہے:
عین وصال میں مجھے حوصلۂ نظر نہ تھا
گرچہ بہانہ جو رہی مری نگاہ بے ادب!
اس شعر کی اصل یہ ہے کہ اقبالؔ مدینہ منورہ حاضر ہونا چاہتے تھے، سفر سامان بھی تیار تھا لیکن وہ جا نہ سکے۔ اس کا جواب فقیر سید وحید الدین صاحب، اقبالؔ کی زبانی یوں پیش کرتے ہیں:
’’والد مرحوم نے اثنائے گفتگو میں کہا: اقبالؔ تم یورپ ہو آئے، مصر اور فلسطین کی بھی سیر کی، کیا اچھا ہوتا کہ واپسی پر روضۂ اطہر کی زیارت سے بھی آنکھیں نورانی کرلیتے؟ یہ سنتے ہی ڈاکٹر صاحب کی حالت دگر گوں ہوگئی یعنی چہرے پر زردی چھاگئی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ چند لمحہ تک یہی کیفیت رہی پھر کہنے لگے: فقیر کس منہ سے روضۂ اطہر پر حاضر ہوتا-‘‘(وحید الدین سید فقیر: روزگار فقیر جلد اول ص:۳۷)
’’مجھے حوصلۂ نظر نہ تھا‘‘ کی یہی توجیہہ درست بھی ہے-
اقبالؔ دراصل ایک بہت ہی با حیا و باغیرت اور با ادب عاشق رسول تھے اور وہ روضۂ حبیب کی تمنائے شدید رکھتے ہوئے بھی ایک تو مشیت ایزدی کہ جا نہ سکے، دوسرے یہ کہ اپنی بے عملی کے ساتھ سرکار ابد قرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے روبرو جاتے ہوئے شرم آتی تھی۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر ہیں اور اس عظیم و جلیل اور مقدس و باوقار آقا اور حبیب کے روبرو دعوائے عشق کرتے ہوئے بھی اپنی کوتاہیوں اور بے عملی کے ساتھ کس طرح حاضر ہوتے اور اسی لیے وہ اس فراق کو لذت طلب قرار دیتے ہوئے اس کی مزید صفات گناتے ہیں کہ
گرمی آرزو فراق ، شورش ہائے ہو فراق
ANS 03
نظم ابلیس کی مجلس شوری علامہ اقبال نے اپنے وفات سے دو سال قبل ۱۹۳۶ء میں لکھی تھی۔ جس وقت یہ نظم لکھی گئی اس وقت یورپ کی استعماری طاقتیں اپنی استعماریت کے دوام کے لیے اور اپنی نو آبادیاتی نظام کو وسعت دینے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہولناک جنگ کی تیاریوں میں مصروف تھیں۔ مسلم دنیا کی حالت ابتر تھی ۔اکثر مسلم ممالک استعماری طاقتوں کے خونیں پنجہ میں قید تھے۔ بعض ممالک بظاہر آزاد تھے لیکن ذہنی اور تہذیبی طور پر وہ مغرب کے مقابلے میں احساس کمتری کا شکار تھے۔ غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے نماز،روزہ،حج اور جہاد جیسی اسلامی عبادت روح وجذبے سے خالی ہوکر ایک ظاہر نمود ونمائش کی چیزیں بن گئی تھیں۔
نظم ابلیس کی مجلس شوری کا فکری جائزہ:دنیا کے مختلف نظاموں کی طرح ابلیسیت کو بھی ایک مستقل نظام کا درجہ حاصل ہے۔ اس نظام فکر کے تمام سوتے ابلیس کی ذات سے پھوٹتے ہیں۔ نظم “ابلیس کی مجلس شوری” دراصل ابلیسی پارلیمنٹ کے ایک اجلاس کی روداد پر مشتمل ہے۔ جس میں ابلیسی نظام کو درپیش مسائل اور چیلنجوں پر بحث کی جاتی ہے اور دنیا کی سیاسی وتہذیبی صورت حال خاص طور پر مسلمان معاشرے کی موجودہ کیفیت زیر بحث آتی ہے۔ فکری لحاظ سے اس نظم کی موضوعات درج ذیل ہیں:
ابلیس کے کارنامے: شیطانی مجلس شوری کی ابتدا ابلیس کی افتتاحی خطاب سے ہوتی ہے۔ جہاں اس کا ادعائی لہجہ بہت نمایا ں ہے۔ گستاخی کے پاداش میں بارگاہ خداوندی سے مردود قرار دینے کے بعد ابلیس کو دنیا میں ضلالت اور گمراہی کے فروغ کی مہلت ملی تھی۔ جس میں اس نے عہد کیا تھا کہ سب لوگوں کو بہکا کر رہوں گا۔ کرشمہ ساحری انجام دینے میں ابلیس امپیریلسٹ حکمرانوں کے ایجنٹ کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ دنیا پر سرمایہ داری کا ظالمانہ نظام مسلط کرنے میں بھی ابلیس کا ہاتھ ہے۔افتتاحی تقریر کے آخری دو اشعار میں ابلیس یہ چیلنج دے رہا کہ ابلیسی نظام کے نخل کہن کو دنیا میں کوئی طاقت بھی سرنگوں نہیں کرسکتی ۔
نومیدی، آرزو کی موت:جس طرح آرزو نشاط فکر وفن کی ایک علامت ہے اس طرح نومیدی بھی فکر وفن کے تکرار کی علامت ہے ۔روز ازل سے انسان کو رجائیت عطا کی گئی تھی جبکہ ابلیس کو قنوطیت ملی تھی لیکن اب قنوطی رجائی کو قنوطی بنارہا ہے۔ رحمت خداوندی سے مایوس شیطان کے لیے انسان اور خدا کے آخری پیغام کے حامل انسان کے اندر شرار آرزو کی تابانی سب سے زیادہ پریشانی کی بات ہے۔ یہی وہ شرار آرزو اور رحمت خداوندی کی تمنا اور اس وابستہ اطاعت الہی کا جذبہ ہے جس نے ہر دور میں ابلیس کو شکست دی ہے اور ابلیسی نظام کے تاروپود بکھیر دیے ہیں۔چنانچہ ابلیس اپنی اصل حریف کی طاقت کو اچھی چرح پہچانتا ہے اور اس کی خصوصیت سے بھی واقف ہے لہذا جب وہ دیکھتا ہے کہ شرار آرزو سے شعلے کی طرح روشن ہوکر اشک سحر گاہی سے وضو کرنے والے ابھی باقی ہے تو پکار اٹھا ہے۔
جانتا ہے جس پہ روشن باطن ایام ہے
مزدکیت فتنہ فردا نہیں اسلام ہے
امت مسلمہ کا نوحہ:صدیوں کی سیاسی غلامی نے مسلمانوں کی آزاد فطرت کا گلا گھونٹ کر انہیں فرنگیوں کا ذہنی غلام بنادیاہے۔ مسلمان بظاہر تو عبادتیں کرتے ہیں مگر یہ صرف ریاکاری کی حد تک عبادتیں ہیں ان کے اندر روح ختم ہوچکی ہے۔
کند ہوکر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام
ہے جہاد اس دور میں مرد مسلماں پر حرام
مجلس شوری کے آخری اشعار میں اقبال کا اشارہ سرسید اور مولوی چراغ علی وغیرہ کے تصور تنسیخ جہاد کی طرف ہے جسے بعد میں کمال اتاترک اور آج کل بعض روشن خیال حکمران فروغ دے رہے ہیں۔ جذبہ جہاد کے فقدان کی وجہ سے آج مسلمان ہر جگہ مارکھارہے ہیں۔ جہاد کے بغیر اسلام ایک انقلابی نظریے کی بجائے رہبانیت بن کر رہ جاتا ہے۔ علامہ نے غیر اسلامی تصوف کو ایک افیون قرار دیا اور علم الکلام کو بھی قوالی کی طرح کا ایک قسم کا نشہ قرار دیا۔ آخری شعر میں ابلیس کے پہلے مشیر کا طنزیہ لہجہ باور کرانا چاہتا ہے کہ تصور جہاد کی تنسیخ،اسلام ابلیسیت کے مقابلےمیں اپنی پسپائی کااعتراف کررہا ہے۔
جمہوریت: اس نظم میں اقبال نے مختلف طرز ہائے حکومت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ جس سے ان کے دنیا میں رائج حکومتی نظام کے متعلق نقطہ نظر کی وضاحت ہوتی ہے۔ اقبال مغرب کے جمہوری نظام کو ملوکیت کا ایک پردہ سمجھتا ہے اس لیے کہ مغرب کے جمہوری نظام میں بظاہر اخوت وحریت ومساوات کا جو بھی دعوی ہو یہ عوام الناس کے مقابلے میں محض چند ہوشیار ظالموں کی ہلاکت خیز چنگیزی ہے بلکہ اس سے بھی بد ترہے۔ بقول اقبال
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہر روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر
اشتراکیت: تیسر امشیر پارلیمنٹ کی توجہ اشتراکیت کی اس تحریک کی طرف مبذول کراتا ہے جو کارل مارکس کے نظریات وافکار کے ذریعے دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔چوتھے مشیر کا خیال ہے مسولین کی فسطائی تحریک اشتراکیت کا توڑ ثابت ہوسکتی ہے۔ ابلیس اشتراکیت کو مزدکیت کہہ کر جتانا چاہتا ہے کہ یہ کوئی فتنہ نہیں۔ دورقدیم میں بھی ایران کے مرزدک کے ہاتھوں ایک انقلاب رونما ہوا اور چند دن اپنی بہار دکھا کر ختم ہوگیا۔ اقبال اشتراکیت کو تخریب اور فتنہ وفساد کہتا ہے ۔پھر وہ ابلیس کی زبانی مشیروں کے سوالات اور ان کے ذہنی خدشات کا جواب دیتا ہے اور انہیں بتاتا ہے کہ ابلیسی نظام کے لیے حقیقی خطرہ کیا ہے اور اس خطرے سے نبردآزما ہونے کے لیے مستقل میں ابلیسی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے۔
اسلام: مشیروں کو اشتراکیت کی طرف سے اطمینان دلانے کے بعد ابلیس اصل خطرے کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ خطرہ اسلام ہے۔ اسلام ہی ابلیسی نظام کا حقیقی مدمقابل بن سکتا ہے۔ ابلیس وضاحت کرتا ہے کہ مسلمان تعلیمات قرآنی سے دور ہوکر سرمایہ پرستی کو اپنا دین قرار دے چکتے ہیں اور ان کے مذہبی رہنما اسلام کی روحانی قوت سے تہی دامن ہے۔ تاہم تمام تر غلط اندیشوں اور کجرویوں کے باوجود ان کے اندر ایمان کی چنگاری موجود ہے۔
ابلیس کی حکمت عملی:ابلیس زندگی کے ایسے مسائل کی نشاندہی کرتا ہے جس میں امت مسلمہ کو بآسانی الجھایا جاسکتا ہے۔ جیسے آسمانوں پر حضرت عیسیؑ زنہ ہے یا نہیں اگر زندہ ہے تو ان کی زندگی کی کیا کیفیت ہو گی۔ عیسیؑ نزول فرمائیں گے یا دنیا میں کوئی شخص پیدا ہوگا جس کے اندر عیسیؑ کی صفات موجود ہوگی۔ قرآن پاک کے الفاظ حادث ہیں یا قدیم ۔وغیرہ۔ان کے علاوہ ابلیس اپنے مشیروں کو تاکید کرتا ہے کہ مسلمان کو خیالی شعر وادب اوار عجمی تصوف کی طرف رغبت دلاو تاکہ زندگی کا عملی پہلو اس کی نگاہوں سے اوجھل رہے اور اس کے کردار وافعال میں کوئی مثبت تبدیلی پیدا نہ ہو۔
فنی جائزہ
نظم ابلیس کی مجلس شوریٰ آٹھ بندوں پر مشتمل ہے۔ بحر کانام بحر رمل مثمن مخذوف ہے۔ بحر کے ارکان فاعلاتن،فاعلاتن،فاعلاتن،فاعلن ہیں۔
تمثیلی وکرداری نظم: اس تمثیلی نظم کی تشکیل و تعمیر میں چھ کرداروں نے حصہ لیا ہے۔ ایک ابلیس ہے اور باقی اس کے پانچ مشیر ہیں۔ اس لیے نظم کا لب ولہجہ یکساں نہیں۔ابلیس کی گفتگو میں خودنمائی،خود پرستی اور غرور وتکبر اور بڑی حدتک جوش موجود ہے۔ وہ اپنے کارناموں کو میں کی تکرار سے زیادہ وزنی اور اپنے مشیروں کی نظر میں لائق تحسین بناتا ہے۔
ڈرامائیت:ڈرامائیت کے تمام عناصر کے باوصف اس نظم کو ڈرامائی نظم کہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس میں علامہ اقبال نے بعض افکار ونظریات کو موثر طریقے سے پیش کرنے کے لیے ڈرامائی وسیلوں سے کام لیا ہے۔ ان میں ابلیس اور اس کے پانچ مشیروں کے کردار، ان کرداروں کا مکالمہ،مجلس شوری کا اسٹیج اور ایک مخصوص فضا وہ ڈرامائی عناصر ہیں جن سے نظم ایک خوبصورت تمثیل کی صورت میں تشکیل پاتی ہے۔ اس ڈرامائیت نے نظم کی تاثیر اور معنویت کو بڑھادیا ہے۔
ملٹن کا اثر اور شیطان کا کردار:اقبال کا یہ تصور ابلیس ملٹن کے تصور شیطان سے بہت مختلف ہے۔ اقبال کے ابلیس میں جہاں اس کی متکبرانہ شان وشوکت، طاقتوری اور رنگینی ہے وہاں اس کا قوت شر ہونا بھی واضح ہے اور اس کی قوت کا انسان کے مقابلے میں استعمال کیاجانا بھی معلوم ہے جبکہ ملٹن کا شیطان خدا کا حریف بننے کی کوشش کرتا ہے اور ملکوتی قوتوں کے مقابلے میں اپنی شہ زوری دکھاتا ہے۔ اقبال کا تصور حقیقی،مستند اور متوازن ہے جبکہ ملٹن کی تصویر فرضی،ناقابل اعتبار اور غیر معتدل ہے۔
ANS 04
(۱) ابتدائیہ:
اقبال ایسے بلند پایہ شاعر اور مفکرِ اسلام ہیں کہ باکل میر تقی میر کی طرح ان پر بھی ان ہی کا شعر اور اس کی حقیقت صادق آتی ہے ۔آپ نے جذب میں ڈوب کر فرمایا۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
حضرت علامہ اقبال سیالکوٹ میں میں ایک کشمیری خاندان میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام نور محمد اور والدہ کا نام امام بی بی تھا ۔والدین کی مذہب پرستی نے اقبال ؒ کے دل میں ایمان کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا ۔ اور بعد میں مولوی میر حسن کی صحبت نے مزید چار چاند لگا دئے ۔ گریجویشن کے بعد فلسفیانہ رخ سر تھا مس آرنلڈ کی خاص تربیت کی وجہ سے میسر آیا ۔ حضرتِ علامہ اقبال کی شخصیت سے متاثر ہوکر ڈاکٹر انورسدید کچھ یوں فرماتے ہیں۔
’’ اقبال مجموعی طور پر ایک مینارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں ، ان سے اکتسابِ فیض کرنے اور ان سے متاثر ہونے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے ۔ انہونے اپنے فکر و نظر سے برِ صغیر میں پورے ایک عہد کو متاثر کیا ۔ چنانچہ انہیں بجا طور پر بیسویں صدی کا مجدد اور عہد آفرین شاعر تسلیم کیا گیا ہے۔‘‘
اٹھائے کچھ ورق لالے نے ،کچھ نرگس نے ،کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
آپ نے گلشنِ شعر و ادب کی روش روِش پر ایسے گل بوٹے کھلائے ہیں کہ جن کی بھینی بھینی خوشبو تا قیامت حضرتِ انسان کے قلوب و دہن کو فرحت بخشتی رہے گی۔ شاید اس قبولِ عام کا احساس خود حضرتِ علامہ اقبالؒ کو بھی نہیں تھا ۔اسی لیے عالمِ بے خودی میں بہہ کر گویا ہوئے۔
اِقبال بھی اِقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں مسخر نہیں واللہ نہیں ہے
محاسنِ کلام:
حضرت ِ علامہ اقبال اپنے افکار و محسوسات کو حروف کی مالا میں پروتے گئے جس کی بدولت ان کا کلام مجموعہ ہائے خصوصیات بن گیا۔ آپ کے چند محاسنِ کلام درج ذیل ہیں :.
(۲)اقبال کا انوکھا اور اچھوتا اندازِ بیان:
حضرتِ علامہ اقبال کا کل کلام خوبصورت اندازِ بیان کی دلیل ہے ۔ آپ نے نظم کیلئے بھی غزل کا نرم ، شیریں اور حسین لہجہ اختیار کیا ۔ اپنے اس کلام کی خوبی کے بابت آپ خود فرماتے ہیں۔
اشعارملاحظہ ہو۔
اندازِ بیاں گرچہ شوخ نہیں ہے شاید
پھر بھی اتر جائے ترے دل میں میری بات
نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
دنیائے شعر و ادب میں آپ تمام اساتذہ سے جدا ،منفرد اور نمایاں مقام رکھتے ہیں۔آپ سے پہلے شاعری ایک ہی راستے پر گامزن تھی اور شعراء کے پاس چند گنے چنے فرسودہ موضوعات ہی تھے ، جن پر ہی لب کشائی و جامہ پُرسائی ہو رہی تھی ۔آپ کی شاعری ایونِ ادب میں ایک نئی پر وقار اور با مقصد آواز ہے ۔آپ کا لہجہ ،موضوعات ،اور اندازِ بیان یکسر نرالہ اور نیا ہے ۔
(۳) اقبا ل کی شاعری کے ادوار اور ان کی اہمیت :
سر عبد القادر نے بانگِ درا کے دیباچے میں آپ کی شاعری کو واضح طور پر تین ادوار میں تقسیم کیا ہے ۔
پہلا دور داغ دہلوی کی شوخی اور فکرِ غالب سے آراستہ و پیراستہ ہے ۔
اشعار ملاحظہ ہوں:
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعده کرتے ہوئے عار کیا تھی
٭
موت یہ میری نہیں اجل کی موت ہے
کیوں ڈروں اس سے کہ مر کر پھر نہیں مرنا مجھے
(۴) فطری شاعر:
علامہ اقبال کا ظہور بیسویں صدی کے اردو ادب کا ایک اہم واقعہ ہے ۔اقبال کو شعر کہنے کا عطیہ اللہ عزوجل کی خوص عنایت کے طفیل عطا ہوا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ ابتدائی تعلیم کے زمانے میں ہی آپ نے اساتذہ کے رنگ میں اشعار کہے ۔نمونہ ملاحظہ ہو:
موتی سمجھ کر شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے
آپ نے خود ہی اپنے لیے ایک منفرد راستے کا تعیُن کیا اور پہلی مرتبہ فلسفیانہ خیالات کو اپنی غزل کے سانچے میں ڈھالااور اپنی غزل میں قومی، اسلامی، نفسیاتی، اَخلاقی، سیاسی، تہذیبی اور سماجی موضوعات ۔ داخل کیے۔نمونۂ کلام ملاحظہ ہو۔
فردِ قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
٭
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
اسی کیفیت کو محسوس کرتے ہوئے — ڈاکٹر سید عابد حسین کچھ یو گویا ہوئے۔
’’ اِقبال کی شاعری آبِ حیات کا خزانہ ہے جس سے زندگی اور زندہ دلی کے چشمے اُبلتے ہیں۔‘‘
آپ نے امسلمانوں کے ساتھ ساتھ انسانیت کو بھی اپنی شاعری کے ذریعے سوچ ،سمجھ اور پرکھ کا ایک منفرد اپیغام دیا جو ، آج بھی جاری و ساری ہے جس سے آج کا مفکر خوب فیضیاب ہو رہا ہے۔
(۵) صاحبِ پیغام شاعر:
مولانا حالی نے جس شاعری کا آغاز کیا تھا اِقبالؔ اُسی شاعری کا نقطۂ کمال ہیں ۔
وہ نقیبِ زندگی تھا نعرۂ جبرئیل ؑ تھا
بے حسی کی رات میں احساس کی قِندیل تھا
اقبالؔ اردو ادب کے وہ پہلے شاعر ہیں جو مفکر بھی ہیں اور صاحبِ پیغام بھی۔اسی لئے وہ وجدانی کیفیت میں پکار اُٹھتے ہیں۔
میری نوائے پریشانی کو شاعری نہ سمجھ
کہ میں ہو ں محرم راز درونِ مسیحانہ
آل احمد سرور اپنے نپے تُلے انداز میں فرماتے ہیں۔
” اقبال ؔ نے سب سے پہلے اردو شاعری کو زندگی کے مسائل سے آشکار کیا ۔حالیؔ ،اکبرؔ اور چکبستؔ کا کلام نقشِ اوّل ہے اور حضرتِ اقبال کا کلام نقشِ ثانی۔”
(۶) فلسفۂ خودی
اقبال کے تمام کلام میں اُن کا فلسفۂ خودی غالب ہے ۔ اقبال سے پہلے “خودی ” کے معانی غرور ،تکبر اور عز و ناز کے لیے جاتے تھے،لیکن اقبال نے پہلی مرتبہ اُسے ایک فصیح و بلیغ مفہوم عطا کیا ۔اقبال نے خودی کے معنیٰ “قرب” کے لیے ہیں ۔خودی یقین کی گہرائی ہے ،سوزِ حیات ہے ،ذوقِ تخلیق ہے ،خود آگاہی ہے ،عبادت ہے ۔اسی لیے اقبال تربیتِ خودی کو تعلیم کا پہلا زینہ قرار دیتے ہیں۔ جو نوجوان اس سے نا آشنا ہے اس کی تربیت نا مکمل اور زندگی بے کار ہے ۔
اسی لیے آپ خود سرشاری کی کیفیت میں فرماتے ہیں:
اشعار ملاحظہ ہوں ۔
خودی کو کر بُلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رِضا کیا ہے
٭
تعلیم کے تیزاب میں ڈال کر اُس کی خودی کو
ہو جائے مُلائم تو جدھر چاہے اُدھر پھیر
(۷) عہد آفرین شاعر:
اقبال کی شاعری ایک مسلسل سفر ہے ،ایک مسلسل تجرِبہ ہے ،اِن تجربات کی بھٹی میں تپ کر ہی وہ کُندن تیار ہوا ہے جس کی دمک نے ایک بار پھر اُن شاہراہوں پر اُجالا پھیلا دیا ،جو دھندلکوں میں چھپ کر نظروں سے پوشیدہ ہو چکیں تھیں ۔ اقبال ہی اردو کے وہ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے ایک عہد پیدا کیا ہے اور اپنے عہد کے ذہن کو ترقی کی سمتوں سے روشناس کرایا ہے ۔اسی کیفیت سے سرشار ہو کر آل احمد سرور فرماتے ہیں۔
” یہ اقبال ہی کا فیضان تھا کہ جامُن والیوں کے نغمے گانے والے اور خود کو شاعرِ شباب کہنے والے شاعر جوش ملیح آبادی شاعرِ انقلاب بن گئے اور جامن والیون کی جگہ خاک اور خون اور انقلاب کے نغمہ سُرا ہو گئے۔”
اشعار ملاحظہ ہوں۔
اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخ اُمراء کے در و دیوار کو ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو مُیَسّر نہ ہو روٹی
اُس کھیت کے ہر خوشۂ ندم کو جلا دو
(۸) مُنظّم نظامِ فِکر۔
اقبال کے یہاں ایک منظم نظامِ فکر اور فلسفۂ زندگی موجود ہے ۔خودی ،یقین ، عشق اور عملِ پیہم اُن کے فلسفے کے سب سے نمایاں اور بنیادی عناصر ہیں ۔آپ نے اپنے اشعار میں دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے والے کو فَقر کا پرتو کہا ہے اور اللہ عزوجل کے احکام پر چلنے والوں کو مومن بتایا ہے ۔ بلندیوں پر اُڑنے والے پرندے کو “شاہین ” کہا ہے ۔یہاں آپ کی مراد مسلم نوجوان ہیں ۔
اشعار ملاحظہ ہوں ۔
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے زورِ بازو کا
نِگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
٭
اے طائرِ لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
٭
پلٹنا ، جھپٹنا ، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
(۹) ناقدین کی آراء۔:
مختلف تنقید نگاروں نے اقبال کی شاعری پر تبصرہ کیا اور ان کی عظمت کا اعتراف کیا۔
اقبال کی شاعرانہ عظمت بجا سہی، لیکن وہ خود شاعری کی نسبت اپنے تصورات کو زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔ اقبال نے اپنے دَور کے سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی پس منظر میں عالمی منظر نامے کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
تمام ’شاعرانِ اثبات‘،مثلاً دانتے، ملٹن اور گوئٹے کی طرح اقبال بھی محض مجرد فکر کے حامل نہیں ہیں، انھی کی طرح وہ بھی گرد و پیش کی معاشرتی دنیا کے معاملات میں بڑے انہماک سے شامل تھے
(فیض احمد فیض )
’’ اقبال مجموعی طور پر ایک مینارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں ، ان سے اکتسابِ فیض کرنے اور ان سے متاثر ہونے والوں کا حلقہ بہت وسیع ہے ۔ انہونے اپنے فکر و نظر سے برِ صغیر میں پورے ایک عہد کو متاثر کیا ۔ چنانچہ انہیں بجا طور پر بیسویں صدی کا مجدد اور عہد آفرین شاعر تسلیم کیا گیا ہے۔‘‘ (ڈاکٹر انور سدید)۔
اقبال اُن معدودے چند شعرا میں سے ہیں، جو محض جذباتی خلوص کے بل پر ایک فلسفیانہ پیغام کو شاعری کی سطح تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔دوسری جانب وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگرچہ اقبال فلسفی، مفکر،قومی راہبر اور مبلغ بھی تھے، لیکن جس نے ان کے پیغام کو اصل قوت اور دلوں میں گھر کر جانے کی صلاحیت بخشی، وہ ان کی شاعری ہی تھی ۔
( فیض احمد فیض)۔
” یہ اقبال ہی کا فیضان تھا کہ جامُن والیوں کے نغمے گانے والے اور خود کو شاعرِ شباب کہنے والے شاعر جوش ملیح آبادی شاعرِ انقلاب بن گئے اور جامن والیون کی جگہ خاک اور خون اور انقلاب کے نغمہ سُرا ہو گئے۔”
۔(آل احمد سرور)۔
(۱۰) تبصرہ کچھ میری اپنی رائے میں:
مذکورہ بالا اشعار و خصوصیات کی روشنی میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ حضرت علامہ اقبال ؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے قوم کو انقلابی سوچ کے ساتھ ساتھ فکری طور پر بھی استحکام بخشا اور اسی مساعی کے نتیجے میں آج مستحکم پاکستان ساری دنیا میں اپنی ضو فشانیاں بکھیر رہا ہے۔گویا اسے مسللمانوں کی حیاتِ ثانیہ ‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے ۔
اس ضمن میں فیض احمد فیض کی رائے بڑی مستحکم نظر آتی ہے وہ اقبال کی شاعرانہ اکملیت کی بابت فرماتے ہیں :
’’غرض اقبالؒ کے کلام سے شاعر کی جو تصویر نمایاں ہوتی ہے اُس میں فِراق نصیب عاشق کا سوز و ساز اور حسرت ہے ۔بادشاہ کا سا غرور ،گداز کا سا حِلم ،صوفی کا سا استغناء ، بھائی کی سی محبت اور ندیم کی سی مورت ۔‘‘
الغرض اقبال کی شاعری میں ایک ایسا تنوع ہے جو آج کی نوجوان نسل کو کچھ کر گزرنے کا حؤصلہ بخشتا ہے ۔ساتھ ساتھ ایک کامل مسلمان اور سلجھا ہوا دانشور بھی عطاکرتا ہے ۔
آپ کی شاعری میں فکر و فلسفے کا ایسا گہرا رچاؤ ہے کہ جب ان کے کلام کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس اعتبار سے بھی ایک بہت عظیم شاعر ہیں ۔
بلا شبہ آپ کے کلام میں روانی بھی ہے اور متانت بھی ،برجستگی بھی ہے اور شائستگی بھی ،ندرتِ خیال بھی ہے اور جذبات کی مصوری بھی۔آپ کی شاعری میں صنائع و بدائع کا بڑا چنیدہ انتظام و انصرام موجود ہے ۔اسی خصوصیت کی بناء پر آپ کا کلام ایک مومن کیلیے چنگاری کا اثر رکھتا ہے ۔
لہٰذا اسی کیفیت سے متاثر ہوکر اقبال ؒ کے شاعرانہ کمالات کے بارے میں ہم بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبد الحق کی اس رائے سے متفق ہیں کہ :
’’ اقبال برِ صغیر ہی کے نہیں ،بنی نوع انسان کی لازوال تہذیب کے ایک بر گزیدہ مفکر اور شاعر کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔”
آپ نے کیا خوب فرمایا :
یقینِ محکم ، عملِ پیہم ،محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں