Apna Business PK

Malik Accademy Provides you AIOU Course Code 5613-2 Solved Assignment Autumn 2021 So keep Visiting Malik Accademy for More Assignments.

ANS 01

 اقبال نے مرد مومن کا تصور کہاں سے اخذ کیا؟اس حوالے سے مختلف آرا ءملتی ہیں ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی اساس خالصتاً اسلامی تعلیمات پر ہے اور اس سلسلہ میں اقبال نے ابن مشکویہ اور عبدالکریم الجیلی جیسے اسلامی مفکرین سے بھی استفادہ کیا ہے۔ ایک گروہ اس تصور کو مغربی فلسفی نیٹشے کے فوق البشر کا عکس بتاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال نے خیال قدیم یونانی فلاسفرز سے حاصل کیا ہے۔ اور کچھ اسے مولانا روم کی دین قرار دیتے ہیں۔ اس لئے ان تمام مختلف اور متضاد آراءکے پیش نظر ضروری ہے کہ مرد مومن کے متعلق بات کرنے سے قبل ان افکار کا جائزہ لیا جائے جو مشرق اور مغرب میں اقبال سے قبل اس سلسلہ میں موجود تھے۔ ….”ابن م±شکویہ“

”انسان کامل یا مرد مومن کی زندگی، جو آئین الہٰی کے مطابق ہوتی ہے ، فطرت کی عام زندگی میں شریک ہوتی ہے اور اشیاءکی حقیقت کا راز اس کی ذات پر منکشف ہو جاتاہے۔ اس منزل پر پہنچ کر انسان کامل غرض کی حدود سے نکل کر جوہر کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کی آنکھ خدا کی آنکھ ، اس کا کلام خدا کا کلام اور اس کی زندگی خدا کی زندگی بن جاتی ہے۔یہی وہ نکتہ ہے جہاں انسانیت اور الہٰیت ایک ہو جاتی ہیں اور

اس کا نتیجہ انسانِ ربانی کی پیدائش ہے۔“    ”عبدالکریم الجیلی“

نیٹشے مشہور جرمن فلسفی ہے جس نے اپنی کئی کتابوں میں فوق البشر انسان کے تصور کو پیش کیا ہے۔ نیٹشے اوائل عمری میں خدا کا منکر تھا۔ بعد میں اسے ایسے انسان کی تلاش کی لگن ہوگئی جو سپر مین ، فوق البشر یا مرد برتر کہلا سکے۔اس بارے میں وہ کہتا ہے۔” فوق البشر وہ اعلی فرد ہوگا جو طبقہ اشرافیہ سے ظہور کرے گا اور جو معمولی انسانوں کے درمیان میں خطرات کو جھیلتے ہوئے ابھرے گا اور سب پر چھا جائے گا۔

نیٹشے نسلی برتری کا زبردست حامی ہے اور مخصوص نسل کو محفوظ رکھنے اور خصوصی تربیت و برداخت پر خاص زور دیتاہے۔ فوق البشر کیلئے مروجہ اخلاقیات کو وہ زہر سمجھتا ہے۔ اور اس اسے غلامانہ اخلاق سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ اور ا±سے خیر و شر کے معیار سے ماورا خیال کرتا ہے۔ اور اسکے مقاصد کے پیش نظر ہر قسم کی جنگ کو جائز قرار دیتا ہے۔ بقول پروفیسر عزیز احمد ”نیٹشے کے فوق البشر کی تین خصوصیات ہیں۔ قوت فراست اور تکبر“

اقبال کے کلام میں مرد مومن کی صفات اور خصوصیات کو کافی تفصیل سے پیش کیا گیا ہے اور ان صفات کا بار بار تذکر ہ اس صورت سے کیا گیا ہے۔ کہ اسکی شخصیت اور کردار کے تمام پہلو پوری وضاحت سے سامنے آجاتے ہیں۔ یہ مرد مومن وہی ہے جس نے اپنی خودی کی پوری طرح تربیت و تشکیل کی ہے اور تربیت اور استحکامِ خودی کے تینوں مراحل ضبط نفس، اطاعت الہٰی،اور نیابت الہٰی طے کرنے کے بعد اشرف المخلوقات اور خلیفتہ اللہ فی الارض ہونے کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ اسکے کردار اور شخصیت کی اہم خصوصیات کلام اقبال کی روشنی میں مندرجہ ذیل ہیں۔

اقبال کا مرد مومن حیات و کائنات کے قوانین کا اسیر نہیں بلکہ حیات و کائنات کو اسیر کرنے والا ہے۔ قرآن مجید نے انسانوں کو تسخیر کائنات کی تعلیم دی ہے اور مرد مومن عناصر فطرت کو قبضے میں لے کر انکی باگ اپنی مرضی کے مطابق موڑتاہے۔ وہ وقت کا شکار نہیں بلکہ وقت اس کے قبضہ میں ہوتا ہے۔

جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی

مری کلام پہ حجت ہے نکتہ لولاک

مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر

ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر

گویا کافرکا کمال صرف مادہ کی تسخیر ہے لیکن مردمومن مادی تسخیر کو اپنا مقصود قرار نہیں دیتا بلکہ اپنے باطن سے نئے جہانو ں کی تخلیق بھی کرتا ہے۔ وہ زمان و مکان کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ عرفانِ خودی کے باعث اسے وہ قوت حاصل ہو جاتی ہے جس سے حیات و کائنات کے اسرار و رموز اس پر منکشف ہوتے ہیں اور اسکی ذات جدت و انکشاف اور ایجاد و تسخیر کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔ وہ اپنے عمل سے تجدید حیات کرتاہے۔ اسکی تخلیق دوسروں کیلئے شمع ہدایت بنتی ہے۔

بقول ڈاکٹر یوسف حسین خان، ”اپنے نفس میں فطرت کی تمام قوتوں کو مرتکز کرنے سے مرد مومن میں تسخیر عناصر کی غیر معمولی صلاحیتیں پیداہو جاتی ہیں جن کے باعث وہ اپنے آپ کو نےابت الہٰی کا اہل ثابت کرتا ہے اور اسکی نظر افراد کے افکار میں زلزلہ ڈال دیتی ہے۔ اور اقوام کی تقدیر میں انقلاب پیدا کر دیتی ہے۔

بندہ مومن کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی تمام تر کوششوں کو عشق کے تابع رکھے۔ نہ صرف خودی کا استحکام عشق کا مرہون ِ منت ہے بلکہ تسخیر ذات اور تسخیر کائنات کیلئے بھی عشق ضروری ہے اور عشق کیا ہے ؟ اعلیٰ ترین نصب العین کیلئے سچی لگن ، مقصد آفرینی کا سر چشمہ، یہ جذبہ انسان کو ہمیشہ آگے بڑھنے اور اپنی آرزﺅںکوپوراکرنے کیلئے سر گرم عمل رکھتا ہے۔ یہ جذبہ مرد مومن کو خدا اور اسکے رسول کیساتھ گہری محبت کی بدولت عطا ہوتا ہے۔ اسی کے ذریعہ سے اسکے اعمال صالح اور پاکیزہ ہو جاتے ہیں اسے دل و نگاہ کی مسلمانی حاصل ہوتی ہے اور کردار میں پختگی آجاتی ہے

ANS 02

اقبال اور اس کی شاعری و فکر کا محور ہی فلسفہ خودی پر قائم ہے اور چوں کہ خودی پر مغربی علماء نے بھی کافی بحث کی ہے تو اقبال کو پڑھنے والوں نے کبھی اسے برگساں , کبھی ہیگل تو کبھی نطشے سے جوڑ دیا . حالاں کہ ایک حد تک اقبال بہت سے مغربی فلسفیوں سے متاثر تھا مگر نطشے کو اقبال نے بہت پسند کیا . رومی اور نطشے کا اثر اقبال پر بہت دیر تک رہا . اور ہر عالم پر اس کے پیش رو کا اثر ہوتا ہے جیسے خود نطشے واگنر اور شوپنہار کے اثر میں رہا . شوپنہار سے تو اتنا متاثر رہا کہ اس کو اپنا مرشد بنا لیا .

اقبال نطشے کی بے باکانہ سوچ اور عیسائیت پر اس کے پہ در پے حملوں سے بہت متاثر تھا اور اس کے فلسفہ میں موجود دلیری اور بے نیازی اور شجاعت سے بہت متاثر تھا .

نطشے کے علم و فلسفہ کا محور ” فوق البشر ” سپر ہیومن تھا . جو بقول نطشے اب تک پیدا نہیں ہوا اسے پیدا ہونا ہے اور اس کی پیدائش کے لیے معاشرے کو اعلی ترین علم حاصل کرنا چاہیے اور جلد از جلد فوق البشر کو پیدا کرنا چاہیے . جسے جلد از جلد خدائی منصب پر پہنچ کر دوسروں کی رہنمائی کرنی ہے . کیونکہ خدا فوت ہوچکا ہے . ( اسی خیال کو ہٹلر نے عملی جامہ پہننانے کی کوشش کی اور جرمنی کو قوموں کا رہنما قرار دیا ) .

اقبال کہتے ہیں خودی خود آگہی ہے , یہ غرور تکبر نہیں اور خود آگاہ شخص بے نیاز و جرت مند ہوتا ہے . اقبال خود آگہی کو اولین مدارج پر فائز کرتے ہیں . وہ کہتے ہیں کہ انسان کو سب سے پہلے اپنے آپ کو تلاش کرنا چاہیے , جب وہ خود کو تلاش کرے گا تو وہ خدا تک بھی ہہنچ جائے گا . کیونکہ انسان اس چراغ کا ایک شمع ہے . خودی انسان کو خدا کی طرف سے عطا کی گئی اس منزل تک پہنچائے گا جو خدا نے انسان کو دیا ہے . اور اس کا اولین شرط ایمان و اطاعت باللہ ہے . جب کہ نطشے کے فوق البشر میں سب کچھ فطرت پر چل رہا ہے . وہاں خدا اور اطاعت کا سرے سے وجود نہیں .

اقبال کے خودی کا نمونہ آدم , اور پیمبر آخرزماں ہے جبکہ نطشے کا فوق البشر ماورائی ہے .

ہربرٹ ریڈ نے اقبال اور نطشے کے مابین فرق کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے

’’ نطشے کی اساس اشراف کی جھوٹی معاشرت پہ استوار ہے جب کہ میری دانست میں اقبال کا تصور زیادہ پائدار بنیادوں پہ مستحکم ہے” ۔

نطشے ایک خاص طبقہ وجود میں لانا چاہ رہے ہیں جب کہ اقبال کی خودی کا نمونہ ہر کوئی ہوسکتا ہے .

اقبال ارتقائے خودی میں عشق کو اہم ترین ہتھیار گردانتے ہیں اور عشق سراپا بے خودی ہے ,تو خودی کا عروج بے خودی میں مضمر ہے جب کہ نطشے مکمل بے خودی کے خلاف ہیں . وہ عقل ہی کو پاسبان سمجھتے ہیں . وہ بے خطر آتش نمرود میں کودنے کو حماقت سمجھتے ہیں جب کہ اقبال اسے مرد مومن کا خاصا . نطشے کے ہاں قاٸریغالبودلبریمغلوبلیکناقبالکامردمومنفولادبھیہےاوروقتضرورتبریشمکیطرحنرم بھی . نطشے مساوات , کمزوروں سے ہمدردی کے منافی ہیں جبکہ اقبال مساوات کے قائل .

اقبال کہتے ہیں کہ میں نے فلسفہ خودی کو سورہ الحشر کے آیت :

وَ لَا تَکُوۡنُوۡاکَالَّذِیۡنَنَسُوااللّٰہَفَاَنۡسٰہُمۡاَنۡفُسَہُمۡؕاُولٰٓئِکَہُمُالۡفٰسِقُوۡنَ﴿۱۹﴾

اے لوگوں ! ان لوگوں کی مانند نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انھیں ان کی خودی سے غافل کردیا . یہی لوگ ہیں جو فاسق ہیں .

یہاں گویا اللہ نے خودی کو اپنی پہچان کا کلیہ قرار دیا اور اقبال نے اسی آیات کی ترجمانی کی , کیونکہ اقبال نطشے سے زیادہ قرآن سے بے انتہا متاثر تھے اور اس کے کلام میں بھی جابجا مرد مومن کی تکمیل کو بھی قرآن پہ عمل کا نتیجہ قرار دیا ہے .

ایک اور جگہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” جس نے اپنے نفس کو پیچان لیا اس نے اپنے رب کو ہہچان لیا .

اقبال نے فلسفہ کے تاریک سوالوں کا جواب کتاب مبین میں ڈھونڈا اور نطشے نے اپنے تہیں خالق الکتاب کو مار دیا .

اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں
تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے .

وادی وادی پھرنے والوں کو رسل , نطشے , برگساں و فلاطون کے ساتھ ساتھ ان کے خالق کو بھی پڑھنا چاہیے . یقیناً تمام عقدے حل ہوں گے .

ANS 03

علامہ اقبال کے تبلیغی کلام میں دو چیزیں پہلو بہ پہلو ملتی ہیں، ایک تہذیب جدید پر مخالفانہ تنقید اور اس کے مقابلے میں اسلامی نظریہ حیات کی تعلیم۔

کم و بیش تین سو سال سے ایشیا مسلسل زوال پذیر رہا اور فرنگ میں فکر و عمل کی جدوجہد ترقی کرتی گئی، اسلامی دنیا میں تاتاری غارت گری کے بعد علوم و فنون نے ترقی کا کوئی قدم نہ اٹھایا، تصوف اور صوفیانہ یا متصوفانہ شاعری میں صاحبان کمال پیدا ہوتے رہے لیکن علمی ترقی بالکل رک گئی۔ مسلمانوں میں آخری بڑا مفکر ابن خلدون ہے جس کا زمانہ چودہویں صدی عیسویں ہے۔ سیاست میں تو خلافت راشدہ کے بعد ہی ملوکیت اور مطلق العنانی شروع ہو گئی تھی، لیکن فقہ چودہویں صدی تک آزادانہ تفکر سے حالات کے تغیرات کے ساتھ ایک معتدل توافق پیدا کرتی رہی، اس کے بعد سے ائمہ مجتہدین بھی ناپیدا ہو گئے، تحقیق ختم ہو گئی اور تقلید کا دور دورہ شروع ہوا۔ اس وقت سے لے کر آج تک راسخ العقیدہ مسلمان اسی یقین پر قائم ہیں کہ تفقہ فی الدین میں اجتہاد کا دروازہ بند ہو گیا ہے۔ اسلامی فقہ میں چونکہ دین اور دنیاوی معاملات میں کوئی حد فاصل نہیں ہے اور زندگی ہر شعبہ بالواسطہ یا بلا واسطہ اسلامی عقائد کے زیر نگیں ہے اس لیے تحقیق و اجتہاد کا دروازہ بند ہونے کے یہی معنی تھے کہ اصول اور فروع دونوں میں اب کسی کو نئے سرے سے سوچنے کی ضرورت نہیں۔ اسلاف کی کہی ہوئی باتوں کی فقط توضیح و تشریح اور حاشیہ نویسی علماء دین کا وظیفہ حیات بن گیا۔ حکومتوں میں استبداد اور مطلق العنان سلطانی کی وجہ سے سیاسی زندگی کی اصلاح کے لیے نہ افکار پیدا ہو سکتے تھے اور نہ کوئی انقلاب ممکن تھا، اس لیے مسلمانوں نے یہی شیوہ اختیار کر لیا کہ :

رموز مملکت خویش خسرواں دانند

گداے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش

سیاسی غلامی کا اثر انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو پر پڑتا ہے، سیاسی استبداد کے ساتھ ساتھ دینی استبداد کا پیدا ہونا لازمی تھا، مطلق العنان حکومتوں کو اسی میں اپنا استحکام نظر آتا ہے کہ عوام و خواص جامد اور مقلد رہیں اور تقلید و اطاعت کو اپنا شیوہ بنا لیں۔ ارباب سیاست ہر جگہ اور ہمیشہ اس میں کوشاں رہے بینکہ دین کو اپنے استبداد کا آلہ کار بنائیں۔ اس لیے دور استبداد میں علماء سو کی کثرت نظر آتی ہے جو حکمرانوں کی ہم زبانی کی بدولت فتویٰ فروشی سے اقتدار میں حصہ دار بن جاتے ہیں صرف یہی نہیں ہوتاکہ:

ہر کہ شمشیر زند سکہ بنامش خوانند

بلکہ ہر کامیاب تیغ زن کا خطبہ بھی مساجد کے ممبروں پر پڑھنا لازم ہو جاتا ہے، ہر فاتح خواہ وہ فاسق و فاجر ہی ہو ظل اللہ بن جاتا ہے اور اگر اکبر کی طرح اپنے مجتہد اعظم ہونے کا فتویٰ طلب کرے تو سب علماء اس مضر پر دستخط کر دیتے ہیں۔ الا ماشاء اللہ پھر کم ہی کوئی خدا کا آزاد بندہ ایسا دکھائی دیتا ہے جو سلطان جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرأت کر سکے۔

مسلمانوں کے سلطانی ادوار میں ملت اسلامیہ کی جب یہ حالت تھی اس زمانے میں مغرب کی عیسوی دنیا کا حال اس سے بدتر تھا۔ اسلام اس قدر انقلاب آفریں اور فلاح کوش تحریک تھی کہ کوئی چھ صدیوں تک مسلمان اسلام سے بہت کچھ گریز کرنے کے باوجود اقوام عالم میں پیش پیش رہے۔ اسلامی زاویہ نگاہ کا جو قلیل حصہ بھی حیات اجتماعی میں باقی رہا گیا، اتنا حصہ بھی ملت اسلامیہ کو اپنی تمام کوتاہیوں کے باوجود معاصرانہ زندگی میں دوسروں سے کچھ قدم آگے ہی رکھتا تھا۔ اسلام کی پہلی چھد صدیاں علوم و فنون اور تہذیب و تمدن میں تاریخ انسانی کا ایک روشن باب ہیں، یہ زمانہ فرنگ میں مغربی تہذیب و تمدن کے جمود و زوال کا زمانہ ہے اور اس دور کو خود اہل فرنگ ’’ازمنہ مظلمہ‘‘ یعنی تاریکی کا دور کہتے ہیں۔ یونانی تہذیب و تمدن طلوع عیسائیت سے قبل ہی زوال پذیر تھا لیکن عیسائیت کے غلبے کے بعد اس کی تمام شان و شوکت و نحوست و ادبار میں بدل گئی، کلیسا کے استبداد نے تحقیق اور آزادی فکر کا خاتمہ کر دیا علوم و فنون کا چرچا ختم ہو گیا اور مسلمانوں کے مقابلے میں یورپ کی سیاسی قوت بھی اس قدر ضعیف پذیر ہوئی کہ یورپ کے تمام ملوک اپنے عساکر جمع کر کے بھی فلسطین میں ایک مسلمان مجاہد سلطان کے مقابلے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ مغربی فرنگ میں اندلس پر مسلمان قابض ہو گئے جہاں انہوں نے ایک عظیم الشان تہذیب و تمدن پیدا کیا، جو تمام فرنگ کے لیے قابل رشک تھا اور علوم و فنون کے فرنگی شائق یہیں سے کسب فیض کرتے تھے۔ اندلس میں عربوں کے زوال پر فرنگ خوشیاں منا رہا تھا کہ عثمانی ترک یورپ کے مشرق میں داخل ہو گئے اور قسطنطنیہ کی فتح سے مشرقی روما کی باز نطینی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ سولھویں بلکہ سترھویں صدی تک یورپ مسلمانوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو بے بس پاتا تھا، ترکوں کہ جہانگیری اور جہاں داری سیاسی حیثیت سے شان دار تھی، لیکن ان کے دور عروج میں مسلمانوں نے علوم و فنون میں ترقی کا کوئی قدم نہ اٹھایا۔ مذہب میں جمود اور استبداد بدستور قائم رہا اور فقہ میں اجتہاد کا دروازہ بند رہا۔ تو ترکوں کی عسکری قوت کو ابھی زوال نہ آیا تھا کہ مغرب میں بیداری شروع ہوئی ۔ مغرب کی اس بیداری کی ابتداء کو نشاۃ ثانیہ کہتے ہیں کیونکہ مردہ یورپ میں نئی زندگی کے آثار پیدا ہوئے، ان کی طویل شب تاریک کے بعد افق پر روشنی کی کرنیں دکھائی دینے لگیں۔ مغرب کے مورخ اس کا سبب زیادہ تر یہ بتاتے ہیں کہ مشرقی یورپ پر ترکوں کے قابض ہو جانے کی وجہ سے یونانی اور رومانی علوم و فنون کے ماہرین ہجرت کر کے اطالیہ اور مغربی فرنگ میں پھیل گئے، یونانی علوم کے ساتھ یونانی آزاد خیالی اور حکیمانہ تفکر بھی ساتھ آیا اور فنون لطیفہ کے اچھے نمونے بھی فن کاروں کے لیے سرمایہ حیات بنے۔ یونانی اور روحانی تہذیب، عیسوی رہبانی تہذیب کے مقابلے میں اس دنیا اور اس کی نعمتوں سے نفور نہ تھی،د نیاوی زندگی میں جمال پسندی اور عظمت پسندی اس کا شیوہ تھا اور مذہبی عقائد کے معاملے میں ہر گروہ کو کامل آزادی تھی۔ نشاۃ ثانیہ میں زندگی کے متعلق یہ تمام زاویہ نگاہ عود کر آیا۔ کلیسا کا اثر و رسوخ ابھی بہت کچھ باقی تھا لیکن فرنگ میں ذوق حیات کی ایک لہر دوڑنے لگی، زمانہ حال میں مغرب کے بعض مورخین نے فراخدلی سے اور آزادانہ تحقیق سے اس کا اقرار کیا ہے کہ فرنگ کی نشاۃ ثانیہ میں اسلامی علوم و فنون اور تہذیب و تمدن کا ایک موثر حصہ ہے۔ یورپ نے اس بیداری کے آغاز میں پہلے یہ کیا کہ علوم و فنون میں عربی کتابوں کے ترجمے لاطینی زبان میں کیے اور ایک عرصے تک یہی ترجمے مغرب کا علمی سرمایہ تھے۔ یونانی علوم کو بہت کچھ مسلمانوں نے محفوظ کیا تھا اور جا بجا اپنے اجتہاد سے ان میں اضافہ کیا تھا۔ یونانیوں کی بہت سی اصلی کتابیں جو اب ناپید ہیں فقط عربی حکماء کی تصانیف میں ان کا کھوج ملتا ہے۔ فقط یونانیوں کی کتابیں یا ان کے عربی ترجمے ہی اس نشاۃ ثانیہ میں نئی زندگی کے محرک نہیں ہوئے بلکہ مسلمانوں سے مغرب نے اس چیز کو بھی حاصل کیا جسے طبعی اور تجربی علم یا سائنس کہتے ہیں۔

مسلمانوں نے علوم و فنون کا مدار مشاہدے اور تجربے پر رکھا تھا او ریہ بات یونانیوں کے ہاں الشاذ کالمعدوم تھی۔ یونانیوں کا عقیدہ تھا کہ حقائق عالم محسوسات سے حاصل نہیں ہوتے، ان کا مستقل وجودہ عالم عقلی میں ہے اس لیے خالی تعقل کی ترقی اور منطقی وجود استدلال سے انسان حقیقت رس ہو سکتا ہے۔ ریاضیات جو طبیعیات کی اساس ہے، یونانیوں میں بہت ترقی یافتہ نہ تھی، مسلمان ریاضیات کے بعض اہم شعبوں کے موجد ہیں۔ الجبرا (جبر و مقابلہ) مسلمانوں کی ایجاد ہے۔ یونانیوں اور مغربیوں کے ہاں ارتھمیٹک ابتدائی صورتوں سے آگے نہ بڑھ سکتی تھی، صفر کا علم نہ تھا جس کی بدولت اکائی، دہائی، سینکڑہ ہزار سے لے کر لامتناہی تک رقم لکھ سکتے ہیں۔ اس ایجاد کا سہرا اصل میں ہندوؤں کے سر ہے، مسلمانوں نے اس کو ہندوؤں سے حاصل کر کے مغرب کو سکھایا۔ جس کی بدولت ہر قسم کی جمع تفریق اور تقسیم آسان ہو گئی۔ اہل مغرب اس کو عربی رقم کہتے ہیں لیکن ہندسہ دراصل ہندسے آیا ہے۔ سارٹون نے جو سائنس کی مبسوط تاریخ لکھی ہے اس میں ریاضیات اور تجربی سائنس میں مسلمانوں کے کارناموں کی اچھی طرح داد دی ہے۔ مغرب کو عصر حاضر میں جو عروج اور قوت حاصل ہوئی وہ زیادہ تر تجربی سائنس کی رہین منت ہے جس کی ابتداء مسلمانوں نے کی، لیکن ابتدائی منازل طے کرنے کے بعد مسلمانوں کی ترقی رک گئی اور علوم کی مشعل فرنگ کے ہاتھ میں آ گئی۔ اس کے متعلق اقبال نے کہا ہے:

بجھ کے بزم ملت بیضا پریشاں کر گئی

اور دیا تہذیب حاضر کا فروزاں کر گئی

اب اگر کوئی یہ پوچھے کہ مسلمانوں کے ہاں تمام عالم اسلامی میں کیوں چراغ بجھ گئے اور بجھے بھی ایسے کہ بقول میر:

شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے

دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

تہذیبوں کی پیدائش اور ان کے عروج و زوال کے اسباب کا مسئلہ اس قدر پیچیدہ ہے کہ زمانہ حال میں فلسفہ تاریخ کے بڑے بڑے اکابر مفکر اسپنگلر، ٹائن بی وغیرہ منقاد نظریات پیش کرتے ہیں۔ کوئی نظریہ اس کا تسلی بخش جواب نہیں دیتا کہ بعض ادوار میں یک بیک کسی قوم میں ایک غیر معمولی زندگی پیدا ہو جاتی ہے، ہر شعبے میں غیر معمولی عبقری ابھرتے آتے ہیں، جمال اور عظمت و قوت میں روز افزوں اضافہ ہوتا ہے لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ان پر پہلے خفتگی طاری ہوتی ہے اور پھر موت۔ ایک تہذیب ابھی مرنے نہیں پاتی کہ کسی جگہ غیر متوقع طور پر نئی زندگی پیدا ہوتی ہے اور ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اسپنگلر کی عالمانہ کتاب زوال مغرب میں یہی نظریہ متا ہے کہ ملتیں بھی نباتی یا حیوانی وجود کی طرح پیدا ہوتی ہیں اور طفولیت و شباب و شیب کے ادوار سے گزرتی ہیں اور آخر میں مر جاتی ہیں۔ ان کی پیدائش میں جو ایک خاص قسم کی زندگی ان کے اندر سے ابھرتی ہے، اس کے اسباب و علل عقل کی گرفت سے باہر ہیں۔ یہ ایک سر حیات اور لاینحل عقیدہ ہے لیکن جن ادوار سے وہ گزرتی ہیں ان کی کیفیات مخصوص قوانین کے ماتحت ظہور میں آتی ہیں۔ اسپنگلر تاریخ میں ایک خاص قسم کے جبر کا قائل ہے۔ ہر دور میں علوم و فنون کا ایک خاص انداز ہوتا ہے، معاشرت میں جو تغیرات ہوتے ہیں وہ بھی لگے بندھے قوانین کے ماتحت ہوتے ہیں۔ بے انتہا تبحر علمی سے اس نے تمام بڑی بڑی گذشتہ تہذیبوں کا جائزہ لیا ہے اور آخر میں یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مغربی تہذیب نشوونما کے تمام منازل طے کر کے اب زوال پذیر ہے اور عنقریب یہ بھی اسی طرح مٹ جائے گی جس طرح یونان و روما اور مصر و باطل کی تہذیبیں سپرد فنا ہوئیں۔ اسپنگلر کو پڑھ کر بعض اوقات یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وہی بات نہیں جو قرآن حکیم نے بھی کہی کہ امتوں کے لیے بھی اسی طرح اجل ہے جس طرح افراد کے لیے ہے اور جب اجل کا وقت آن پہنچتا ہے تو پھر اس میں تعجیل و تاخیر نہیں ہو سکتی:

ولکل امتہ اجل۔ فاذا جاء اجلہم لا یستاخرون ساعتہ ولا یستقدمون

لیکن جب علامہ اقبال کے سامنے یہ خیال پیش کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ درست ہے کہ امتوں کے لیے اجل تو ہے لیکن اہل مغرب نے جو یہ خیال پھیلا دیا ہے کہ کوئی امت دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتی یہ غلط ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ یہ خیال زوال یافتہ مشرقی اقوام کو مایوس کرنے کے لیے ان کے ذہنوں میں ڈالا گیا ہے۔ اسلام تو ساری دنیا کے مر کر دوبارہ زندہ ہونے کا قائل ہے، وہ امتوں کی حیات ثانی کا کیسے منکر ہو سکتا ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ خزاں میں درختوں پر موت طاری ہو گئی ہے لیکن بہار میں وہ پھر نئے برگ و بار پیدا کرتے ہیں۔ مٹی زرخیز ہونے کے باوجود نمی کی کمی سے مردہ دکھائی دیتی ہے، لیکن آبیاری کے بعد اس میں سے زندگی ابھر آتی ہے۔ اسی خیال کے ماتحت وہ ملت اسلامیہ کے متعلق فرما گئے ہیں:

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

اقبال کے ہاں مغربی تہذیب کے متعلق زیادہ تر مخالفانہ تنقید ہی ملتی ہے اور یہ مخالفت اس کی رگ و پے میں اس قدر رچی ہوئی ہے کہ اپنی اکثر نظموں میں جا و بے جا ضرور اس پر ایک ضرب رسید کر دیتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ اثر ہوتا ہے کہ اقبال کو مغربی تہذیب میں خوبی کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا، اس کے اندر اور باہر فساد ہی فساد دکھائی دیتا ہے، گویا یہ تمام کارخانہ ابلیس کی تجلی ہے۔ بعض نظمیں تو خالص اسی مضمون کی ہیں۔ اپنی غزلوں میں بھی حکمت و عرفان، تصوف اور ذوق و شوق کے اشعار کہتے کہتے یوں ہی ایک آدھ ضرب مغرب کو رسید کر دیتے ہیں۔ بال جبریل کی اکثر غزلیں بہت ولولہ انگیز ہیں، اکثر اشعار میں حکمت اور عشق کی دلکش آمیزش ہے لیکن اچھے اشعار کہتے کہتے ایک شعر میں فرنگ کے متعلق غصے اور بے زاری کا اظہار کر دیتے ہیں اور پڑھنے والے صاحب ذوق انسان کو دھکا سا لگتا ہے کہ فرنگ عیوب سے لبریز سہی لیکن یہاں اس کا ذکر نہ ہی کیا جاتا تو اچھا ہوتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصفا آب رواں کا لب جو بیٹھے لطف اٹھا رہے تھے کہ اس میں یک بیک ایک مردہ جانور کی لاش بھی تیرتی ہوئی سامنے آ گئی۔ اگر کہیں ملا کو برا کہتا ہے جو تہذیب فرنگ کی طرح اقبال کے طعن و طنز کے تیروں کا ایک مستقل ہدف ہے تو اس کے ساتھ ہی فرنگ کو بھی لپیٹ لیتا ہے حالانکہ غزل کے باقی اشعار نہایت حکیمانہ اور عارفانہ ہوتے ہیں۔ مثلاً غزل کا مطلع ہے:

اک دانش نورانی اک دانش برہانی

ہے دانش برہانی حیرت کی فراوانی

باقی اشعار بھی اسی طرح کے بلند پایہ ہیں لیکن چلتے چلتے ایک یہ شعر بھی فرما دیا جس میں خواہ مخواہ اپنے آپ کو بھی متہم کیا ہے:

مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی

اس دور کے ملا ہیں کیوں ننگ مسلمانی

مگر فرنگ میں جو ظاہری پاکیزگی اور حسن و جمال ہے اقبال اس کا منکر نہیں۔ تمدن فرنگ کے اس پہلو کو جو اس کو ایشیا کی گندگی سے ممتاز کرتا ہے، اقبال بھی قابل رشک سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ مشرق میں بھی جنت ارضی کے نمونے نظر آئیں:

فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا

افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند

اسی غزل کے ایک شعر میں پھر تہذیب جدید ارو ملائے پر بیک وقت ایک تازیانہ رسید کیا ہے:

کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق

نے ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند

افغانستان کے سفر میں حکیم سنائی غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مقدس کی زیارت نصیب ہوئی اور اس عارف و حکیم کے پر تو فیض سے بہت اچھے اشعار اقبال کی زبان سے نکلے ہیں۔ مشرق کی جھوٹی روحانیت سے بیزاری ظاہر کی ہے لیکن فرنگ کو یہاں بھی نہیں بھولے:

یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے

گلیم بوذر و دلق اویس و چادر زہرا؟

بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے

یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق ہے صہبا

پھر ایک شعر میں تہذیب حاضر کے متعلق وہ بات کہتے ہیں جسے انہوں نے اور جگہوں پر بھی دہرایا ہے کہ تہذیب حاضر نے بہت سے جھوٹے معبودوں کا خاتمہ کیا ہے۔ نفی کا یہ پہلو ضروری تھا لیکن اس کے بعد اثبات حقیقت کی طرف اس کا قدم نہیں اٹھ سکا اس لیے اس کی فطرت میں ایک واویلا پیدا ہو رہا ہے:

لبالب شیشہ تہذیب حاضر ہے مئے لا سے

مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ الا

دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے

بہت نیچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا

اور کئی غزلوں میں بھی یہی کیفیت ہے کہ بات کچھ بھی ہو رہی ہو لیکن ضرب لگانے کے لیے فرنگ کا ذکر کرنا لازمی ہے:

علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا

تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں

یہ غزل کس قدر عرفانی اور لا مکانی ہے جس کے شروع کے دو اشعار یہ ہیں:

تو ابھی رہگزر میں ہے قید مقام سے گزر

مصر و حجاز سے گزر پارس و شام سے گزر

جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے

حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزار

ایسی اونچی باتیں کہتے ہوئے پھر یک بیک فرنگ کی طرف پلٹتے ہیں:

گرچہ ہے دلکشا بہت حسن فرنگ کی بہار

طائرک بلند بال دانہ و دام سے گزر

بال جبریل میں ساتویں غزل ایسی ہے جس سے روح وجد کرنے لگتی ہے، نصف غزل میں بڑے موثر انداز میں اپنے من میں غوطہ لگانے کی تلقین کی ہے جو تمام اسرار الٰہیہ کا خزینہ ہے۔ من اور تن کے مقابلے کے یہ اشعار اقبال کے شاہکاروں میں سے ہیں:

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن

من کی دنیا؟ من کی دنیا سوز و مستی جذب و شوق

تن کی دنیا؟ تن کی دنیا سود و سودا مکر و فن

من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں

تن کی دولت چھاؤ ہے، آتا ہے دھن جاتا ہے دھن

مقطع میں خود داری کی ایسی تلقین ہے جو دل میں گھر کر جاتی ہے:

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات

تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن

لیکن ایسی عرفانی غزل میں بھی مقطع سے پہلے فرنگ پر ایک ٹھوکر مارنا لازمی سمجھتے ہیں، خواہ اس شکریے کے ساتھ ہی سہی کہ خدا کا شکر ہے کہ کم از کم من کی دنیا میں تو افرنگی کا راج نہیں:

من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج

من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن

افرنگی کا راج کچھ ختم ہو گیا اور باقی جاں بلب ہے، آئندہ نسلوں کے لیے افرنگی کا راج تاریخ کا ایک قصہ پارینہ بن جائے گا۔ اس زمانے میں اس شعر سے کون لطف اٹھائے گا؟ پچاس یا سوس سال کے بعد غالباً اس وجد آور غزل کو گانے والے اس شعر کو ساقط کر دیں گے لیکن غلبہ افرنگ نے بے چارے اقبال کو اس قدر بے زار کر رکھا ہے کہ وہ ایسی غزل میں بھی اس کے ذکر سے باز نہیں آ سکتا۔

بال جبریل کی اور غزلوں میں سے اس مضمون کے بعض اور اشعار یہاں یکجا درج کیے جاتے ہیں۔ مختلف اشعار سے اس کا کسی قدر اندازہ ہو سکتا ہے کہ اقبال تہذیب فرنگی کے کس کس پہلو کو قابل اعتراض سمجھتا ہے:

وہ آنکھ کہ ہے سرمہ افرنگ سے روشن

پرکار و سخن ساز ہے مناک نہیں ہے

یہ حوریان فرنگی دل و نظر کا حجاب

بہشت مغربیاں جلوہ ہاے پا برکاب

دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا

مہ و ستارہ بیں بحر وجود میں گرداب

تو اے مولاے یثرب آپ میری چارہ سازی کر

مری فطرت ہے افرنگی مرا ایماں ہے زناری

سوال مے نہ کروں ساقی فرنگ سے میں

کہ یہ طریقہ رندان پاک باز نہیں

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ

سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

برا نہ مان ذرا آزما کے دیکھ اسے

فرنگ دل کی خرابی خرد کی معموری

جسے کساد سمجھتے ہیں تاجران فرنگ

وہ شے متاع ہنر کے سوا کچھ اور نہیں

مے خانہ یورپ کے دستور نرالے ہیں

لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر

اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ

ٹوٹا ہے ایشیا میں سحر فرنگیانہ

حکیم نطشہ کے متعلق:

اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں

تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے

نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے

کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی براقی

تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم

گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوب کلیم

ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام

واے تمناے خام! وائے تمناے خام

عذاب دانش حاضر سے با خبر ہوں میں

کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل

مجھے وہ درس فرنگ آج یاد آتے ہیں

کہاں حضور کی لذت کہاں حجاب دلیل

پیر میخانہ یہ کہتا ہے کہ ایوان فرنگ

سست بنیاد بھی ہے آئینہ دیوار بھی ہے

ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک

اگرچہ مغربیوں کا جنوں بھی تھا چالاک

یا عقل کی روباہی یا عشق ید اللھی

یا حیلہ افرنگی یا حملہ ترکانہ

خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے

فرنگ رہگزر سیل بے پناہ میں ہے

یہ مدرسہ، یہ جواں، یہ سرور و رعنائی

انہیں کے دم سے ہے میخانہ فرنگ آباد

نئی تہذیب تکلف کے سوا کچھ بھی نہیں

چہرہ روشن ہو تو کیا حاجت گلگونہ فروش

سرور و سوز میں ناپائدار ہے درد

مئے فرنگ کا تہ جرعہ بھی نہیں نا صاف

سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہم جوار اپنا

ستارے بن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب

رہ و رسم حرم نا محرمانہ

کلیسا کی ادا سوداگرانہ

یقیں مثل خلیل آتش نشینی

یقیں اللہ مستی خود گزینی

سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار

غلامی سے بتر ہے بے یقینی

کوئی دیکھے تو میری نے نوازی

نفس ہندی مقام نغمہ تازی

نگہ آلودۂ انداز افرنگ

طبیعت غزنوی قسمت ایازی

اشتراکیت نے مغربی تہذیب و تمدن کے خلاف جو بغاوت کی اس کے وجودہ زیادہ تر وہی ہیں جن سے اقبال بھی متفق ہے۔ لینن نے خدا کے حضور میں اس تہذیب کا جو خاکہ کھینچا ہے اس میں اقبال لینن سے ہم نوا ہے:

مشرق کے خداوند سفیدان فرنگی

مغرب کے خداوند درخشندہ فلزات

یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے

حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات

رعنائی تعمیر میں، رونق میں صفا میں

گرہوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات

ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے

سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات

یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت

پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات

بیکاری و عریانی و میخواری و افلاس

کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات؟

وہ قوم کہ فیاض سماوی سے ہو محروم

حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت

احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر

تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات

میخانے کی بنیاد میں آیا ہے تزلزل

بیٹھے ہیں اسی فکر میں پیران خرابات

چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سر شام

یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندۂ مزور کے اوقات

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ

دنیا ہے تری منتظر روز مکافات

است نے مذہب سے پیچھا چھڑایا

چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیری

ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی

ہوس کی امیری ہوس کی وزیری

ہوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی

ہوئی چشم تہذیب کی نا بصیری

ترے صوفے افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی

لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں

کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی

ہوا اس طرح فاش راز فرنگ

کہ حیرت میں ہے شیشہ باز فرنگ

پرانی سیاست گری خوار ہے

زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے

گیا دور سرمایہ داری گیا

تماشا دکھا کر مداری گیا

وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو

اسی کی بیتاب بجلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ

جہان نو ہو رہا ہے پیدا وہ عالم پیر مر رہا ہے

جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ

زہر اب ہے اس قوم کے حق میں مئے افرنگ

جس قوم کے بچے نہیں خود دار و ہنر مند

اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں

سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر

جاں لاغر و تن فربہ و ملبوس بدن زیب

دل نزع کی حالت میں خرد پختہ و چالاک

ناپاک جسے کہتی تھی مشرق کی شریعت

مغرب کے فقیہوں کا یہ فتویٰ ہے کہ ہے پاک

تاک میں بیٹھے ہیں مدت سے یہودی سود خوار

جن کی روباہی کے آگے ہیچ ہے زور پلنگ

خود بخود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح

دیکھئے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ

یہ اشعار فقط بال جبریل کی غزلوں اور نظموں میں سے چنے گئے ہیں۔ اقبال کے کلام کے اور مجموعوں میں بھی مغرب کی تہذیب اور نظریہ حیات پر مخالفانہ مگر حکیمانہ تنقید ملتی ہے۔ یہ مضمون اقبال کے محوری افکار میں سے ہے۔ اگر تمام اعتراضات کا استقراء کیا جائے تو مفصلہ ذیل نکات حاصل ہوتے ہیں:

مغربی تہذیب جس سے مرا زیادہ تر وہ تہذیب و تمدن ہے جو گزشتہ تین سو سال میں پیدا ہوا، زیادہ تر عقلیت، مادیت یا نیچریت کی پیداوار ہے۔ لیکن عقلیت جو اپنے کمال اور کلیت میں بھی پوری طرح حقیقت رس نہیں ہو سکتی اسے مغرب نے اور زیادہ محدود و محصور کر دیا۔ اس نے فقط مادی فطرت کے مظاہر کا مشاہدہ اور مطالعہ کیا اور اس کے قوانین کا ادراک کرنے کے بعد اس کو زیادہ تر مادی اور جسمانی اغراض کے لیے مسخر کیا۔ اس تسخیر نے مغرب کو مادی حیثیت سے غیر معمولی طاقت بخشی۔ اس اقتدار اور تسخیر سے سرشار ہو کر ا س نے علمی اور عملی طور پر نظریہ حیات قائم کر لیا کہ عالم مادی یا عالم محسوسات ہی حیثیت کلی ہے، حاضر کے باہر غائب کوئی چیز نہیں، یہاں تک کہ انسان اپنی روح ہی کے وجود سے منکر ہو گیا۔ اس کا نتیجہ وہی ہوا جو عارف رومی کے ارشادات میں ملتا ہے۔ علم ایک بے طرف قوت ہے۔ وہ حکمت روحانی اور عشق الٰہی کے ساتھ یار جان ہو سکتا ہے لیکن خالی علم و ہنر سے وہ زیر کی پیدا ہوتی ہے جو ابلیس کی صفت ہے:

می شناسد ہر کہ از سر محرم است

زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است

علم را برتن زنی مارے شود

علم را یرجاں زنی یارے شود

عشق سے معرا ہو کر تسخیر فطرت ایک قسم کی جادوگری ہے۔ جادو گر بھی غیر معمولی مادی اور نفسی قوتوں پر قابوپا کر ان کو فساد و تخریب میں استعمال کرتا ہے۔ مغرب میں طبعی سائنس نے جو قوتیں پیدا کیں انہوں نے ظاہری قوت اور شان و شوکت تو بہت پیدا کر دی لیکن انسانیت کے اصلی جوہر کو نقصان پہنچایا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان قوتوں کی مالک اقوام نے ایک طرف ان اقوام کو مغلوب کر لیا جو ان رموز تسخیر سے آشنا نہ تھیں اور دوسری طرف یہ جنات اپنی قوت کے بل بوتے پر آپس میں اس طرح ٹکرائے کہ تمام عالم انسانی میں زلرلہ آ گیا اور خود اس سائنس کا پیدا کردہ تمدن پاش پاش ہو گیا۔ اس طبعی سائنس کی ترقی نے ایسا سامان پیدا کیا کہ ہر ذرے میں جو محشر پنہاں تھا وہ نمودار ہو گیا۔ مغرب کا انسان وہی کچھ بن گیا جس کے متعلق مرزا غالب فرما گئے کہ:

قیامت می دمد از پردۂ خاکے کہ انساں شد

اس عالم گیر علم کے ساتھ عالم گیر محبت پیدا نہ ہوئی، یہ علم رفتہ رفتہ عشق اور روحانیت سے ایسا بیگانہ ہوا کہ نہ صرف نوع انسان بلکہ تمام کرۂ ارض جماد و نبات و حیوانات سمیت معرض خطر میں پڑ گیا۔

انہیں آثار کو دیکھ کر اقبال نے قیام فرنگ کے دوران ہی میں یہ پیش گوئی کی تھی:

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی

ہو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہو گا

جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا اور فرنگ روحانیت کی طرف لوٹتا نظر نہ آیا تو اقبال تیس برس تک اس پیش گوئی کو دہراتا چلا گیا کہ مجھے فرنگ رہگزر سیل بے پناہ کی زد میں آتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس کا تمدن سست بنیاد ہے اور اس کی دیواریں شیشے کی ہیں جو ایک دھماکے سے چکنا چور ہو جائیں گی۔ عقل بے عشق کی معموری دل کی خرابی میں اضافہ کرتی گئی، غیب کی منکر دانش حاضر انسان کے لیے عذاب بن گئی، محسوسات کے ادراک کے لیے آنکھیں روشن ہوتی گئیں لیکن درد انسان سے نمناک نہ ہوئیں اس تہذیب کی تجلی نے آنکھوں کو خیرہ اور دل کو اندھا کر دیا، بجلی کے چراغوں کی روشنی کو نور حیات سمجھ لیا گیا غیب اور مرئی عالم کا منکر ہونے کی وجہ سے فرنگ اس کوشش میں پڑ گیا کہ اسی دنیا کو جنت بنایا جائے اور اس چند روزہ زندگی میں اسی میں عیش کیا جائے۔ وہ اس سے غافل رہا کہ اس فردوس کی تعمیر میں خرابی کی مضمر صورتیں بھی اپنا پنہاں مگر موثر عمل کر رہی ہیں۔ جس فکر گستاخ نے فطرت کی طاقتوں کو عریاں کیا وہ اس سے بے خبر رہا کہ اس سے پیدا کردہ بجلیاں خود اس گلشن اور آشیانے کو راکھ کا ڈھیر بنا دیں گی اور دنیا جہنم کے کنارے تک پہنچ جائے گی۔

طبعی سائنس کی ترقی اور صنعت میں اس کے اطلاق نے مصنوعات کے عظیم الشان کارخانے بنائے جو بے درد سرمایہ اندوزوں کے ہاتھ میں آگئے، کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور ایک دوسری قسم کی غلامی میں آزادی اور خود داری سے محروم ہو گئے۔ صناعوں کی انفرادی جدت اور صناعی ختم ہو گئی۔ کارخانے کا ہر مزدور ایک بے پناہ مشین کا پرزہ بن گیا، اس کی انسانی انفرادیت رفتہ رفتہ سوخت ہوتی گئی۔ پہلے زمانے میں ممالک حکومت کرنے کے لیے فتح کیے جاتے تھے، اب کمزور اقوام پر ہر قسم کی یورش تجارت سے نفع اندوزی کی خاطر ہونے لگی کہ کمزور اقوام کو خام پیداوار کی غلامانہ مشقت میں لگایا جائے اور پھر مصنوعات کو انہیں کے ہاتھوں گراں قیمت میں فروخت کیا جائے۔ خود سرمایہ داروں میں گلا کاٹ مقابلہ اور مسابقت شروع ہو گئی جس کی وجہ سے ایسی دو عظیم جنگیں ہوئیں جن کے سامنے چنگیز، ہلاکو، تیمور اور نپولین کی ترکتاز بازیچہ اطفال معلوم ہوتی ہے۔ یہ جنگیں اس ظالمانہ سرمایہ داری کی پیداوار تھیں جس کو طبعی سائنس سے فروغ حاصل ہوا تھا۔ انسان کی ا پنی تسخیر فطرت کا ساتھ نہ دے سکی۔ الف لیلہٰ کی کہانی کا لوٹے میں مقید دیوآزاد ہو کر فضا میں پھیل گیا اور اسے دوبارہ لوٹے میں بند کرنے کا سحر ہاتھ نہ آیا۔

مغرب کے دین سے بیگانہ ہونے کے دو بڑے اسباب تھے، ایک سبب تو کلیسا کا استبداد تھا، جس نے ہزار سال سے زائد عرصے تک انسانوں کا دینی اور دنیاوی نظریہ حیات غلط کر دیا تھا۔ یہ استبداد کسی قدر یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے دور میں ٹوٹا لیکن اس پر ایک کاری ضرب لوتھر کی پروٹسٹنٹزم (احتجاج) نے لگائی۔ اس کے بعد اسی اصلاح کے اندر سے ایک نئی آفت پیدا ہوئی اور نئے فرقے کچھ قدیم کلیسا کے خلاف اور کچھ آپس میں ایسے متعصبانہ انداز میں دست و گریبان ہوئے کہ طویل مذہبی جنگوں نے تمام یورپ کو تباہ کر ڈالا۔ یہ تباہی اتنی شدید تھی کہ اس کے خلاف زور شور کا رد عمل ہوا اور امن کی یہی صورت نظر آئی کہ دین کو سیاست سے الگ کر دیا جائے کیوں کہ سب سے زیادہ دینی عقائد کا اختلاف ہی عقل و صلح کا دشمن ہے۔ یورپ دین کے متعلق اسی نتیجے پر پہنچا جسے حالی نے اس شعر میں بیان کیا ہے:

فساد مذہب نے ہیں جو ڈالے نہیں وہ تا حشر مٹنے والے

یہ جنگ وہ ہے کہ صلح میں بھی یونہی ٹھنی کی ٹھنی رہے گی

دین سے اس بیزاری کے ساتھ ساتھ طبعی سائنس ترقی کرتی گئی، یہ ترقی نا ممکن تھی جب تک کہ بر خود غلط حامیان دین سے چھٹکارا حاصل نہ ہو جو تمام طبیعیات اور فلکیات کو بائبل کی کسوٹی پر پرکھتے تھے اور جن کا عقیدہ یہ تھا کہ انسان کو فقط روحانیت، الٰہیات اور اخلاقیات ہی از روئے وحی حاصل نہیں ہوئے بلکہ تمام طبعی علوم کے متعلق بھی وہی باتیں قابل یقین ہیں جو صحیفہ آسمانی میںد رج ہیں۔ سائنس کا ہر انکشاف قدم قدم پر اس جامد دین سے ٹکراتا تھا، جب اس قسم کے مذہب کو سائنس سے ٹکرایاگیا تو کلیسا کا جبر اوراس کی تلوار بھی مفکرین کا رخ حقائق کی طرف سے نہ پھیر سکیں ۔ سرگزشت آدم میں اقبال کہتا ہے :

ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں

سکھایا مسئلہ گردش زمیں میں نے

دین کی ایک تخریبی اور جامد صورت کو مغرب نے عین دین سمجھ لیا ہے علم کی روشنی میں جب وہ عقائد باطل ثابت ہوئے تو سائنس کی پیدا کردہ تہذیب نے دین ہی سے منہ پھیر لیا‘ حکومتیں غیر دینی اور سیکولر ہو گئیں مغرب اگر بودے دین کو چھوڑ کر دین کی حقیقت کی طرف آ جاتا تو خارجی فطرت کی تسخیر اور علوم و فنون میں اس کی غیر معمولی ترقی انسانیت کے غیر معمولی ارتقا کا باعث ہوتی لیکن مذہب کے بودا ہونے کی وجہ سے مغرب ظاہر کی روشنی کے باوجود باطن کو منور نہ کر سکا۔ سیاست نے دین سے معرا ہو کر ماکیاویلی کا ابلیسانہ مذہب اختیار کر لیا:

آن فلارنساوی باطل پرست

سرمہ او دیدہ مردم شکست

مغرب کے خلاف اقبال نے اس قدر تکرار کے ساتھ لکھا ہے کہ پڑھنے والا اس مغالطے میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اقبال بڑا مشرق پرست ہے۔ جامد ملا اور رجعت پسند ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال نہ مشرق پرست ہے اور نہ مغرب پرست اور نہ وہ عقل کا ایسا مخالف ہے کہ اسے دین و دنیا کے لیے بے کار سمجھے۔ وہ اہل مشرق کے جمود ان کی پستی اور دین نما بے دینی سے کچھ کم بیزار نہیں۔ اقبال اسے سے بخوبی واقف ہے کہ گزشتہ تین صدیوں میں جن کے متعلق وہ کہتاہے کہ:

تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند

جب مشرق اور جامد اور غافل اور خفتہ رہا مغرب میں طرح طرح کی حرکت پیدا ہوئی اور ا س کی ہر حرکت میں کچھ نہ کچھ برکت بھی تھی۔ نشاۃ ثانیہ سے لے کر آج تک یورپ میں طرح طرح کی ہلچل ہوئی اور رنگا رنگ کے انقلابات ظہور میں آئے۔ ہر انقلاب زندگی کے جمود اور استبداد کو بتدریج توڑتا گیا۔ دیکھیے اقبال جب اپنی ملت کے لیے انقلاب زندگی کے جمود اور استبداد کو بتدریج توڑتا گیا۔ دیکھیے اقبال جب اپنی ملت کے لیے انقلاب کا آرزو مند ہوتا ہے تو پہلے یورپ کے انقلابات پر نظر ڈالتا ہے۔ جن کی بدولت مغرب زندگی کے اسلوب بدلتا گیا اور فکر و عمل کی آزادی کی طرف قدم بڑھاتا گیا۔ لوتھر کی تحریک سے لے کر جس نے کلیسا پر ضرب لگائی انقلاب فرانس سے گزرتا ہوا مسولینی تک کی حرکت کا ذکر کرتا ہے اسی سلسلے میں روس کے زلزلے کا ذکر بھی ہو سکتاتھا لیکن وہ یہاں چھوٹ گیا ہے۔ اور جگہ کا کافی جائزہ لیا ہے اور اس کی داد دی ہے  کہ اس اشتراکی اتحادی نے بھی بڑے بڑے بت توڑے ہیں۔ ہر قسم کا انقلاب اسی جذبے اور اسی قوت کی بدولت ہوتا ہے جسے اقبال عشق کہتا ہے۔ اس کے نزدیک یورپ کی یہ تمام تحریکیں بھی عشق ہی کی بلا خیزی کا نتیجہ تھیںَ جن کی وجہ سے فکر انسان اور روح انسان استبداد کے طوق و زنجیر توڑتی چلی گئی۔

اقبال کا نظریہ حیات ارتقائی ہے اور یہ ارتقا انسان کو مسلسل زنجیر فطرت سے حاصل ہوتا ہے اس کے نزدیک زندگی مسلسل جدوجہد اور تخلیق کا نام ہے۔ فطرت کے جبر پر قابو پا کر خودی کی استواری اس کی تلقین کا اہم جزو ہے  کائنات انفس و آفاق پر مشتمل ہے۔ اور اقبال اس کو غلط اندیشی اور غلط روی قرار نہیں دے سکتا۔ اس کو صرف یہ شکایت ہے کہ اس یک طرفہ تسخیر نے اسنان کی روحانی زندگی کا توازن بگاڑ دیا ہے۔

حقیقت ازروئے قرآن بھی ظاہر ہے اور باطن بھی ظاہر و باطن ایک حقیقت کے دو پہلو ہیں اقبال نے یہ فلسفہ قرآن سے اخذ کیا ہے جو اس کائنات کو باطل نہیں سمجھتا اور حقیقت مطلقہ کی بابت ھو الظاہر و ھو الباطن کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن مظاہر فطرت کے سللس مطالعے اور اس کی کثرت کو ایک وحدت کی طرف راجع کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اپنے انگریزی خطبات اور اس کی کثرت کو اس نے وضاحت سے لکھا ہے کہ طبیعی اور تجربی سائنس مسلمانوں کی پیداوار ہے۔ جسے یورپ نے اولاً مسلمانوں سے حاصل کیا ہے اور اس کے بعد مسلمانوں کی خفتگی کی صدیوں میں اس کو بے انتہا ترقی دی۔ پہلے ہی خطبے میں کہا ہے کہ زمانہ حال میں مسلمانوں کے تفکر کا رخ مغرب کی طرف ہے اور میرے نزدیک یہ میلان خوش آئند ہے۔ کیوں کہ یہ انداز فکر یورپ نے خود مسلمانوں سے حاصل کیا ہے ۔ اقبال مغرب سے یہ نہیں چاہتا کہ وہ علم و ہنر میں اپنی تمام ترقیوں کو ؤحرف غلط کی طرح مٹا کر کسی قدیم روش پر آ  جائے۔ جب کہ انسان مظاہر فطرت اور اس کی قوتوں کے مقابلے میں اپنے آ پ کو بے بس پاتا تھا۔ یورپ کے علم و ہنر نے ظاہری ززندگی میں صفائی پیدا کی ہے اور مشرق بدستور گندا ہے۔ اس نے بے شمار امراض کا علاج ڈھونڈا ہے مگر مشرق کی ارواح کی طرح اس کے ابدان میں بھی ضعیف اور طرح طرح کے امراض کے شکار ہیں۔ فرنگ کے ہر قریے کو فردوس کی مانند دیکھ کر اس کا جی یہ چاہتا ہے کہ ہماری بستیاں بھی جنت کا نمونہ بن جائیں۔۔ یورپ کے کافروں کو وہ اپنے مسلمانوں سے زیادہ عملاً اسلام کا پابند سمجھتا ہے۔ اور یورپ کو اس زندگی کو جو نعمتیں حاصل ہوئی ہیں ان کو وہ اس اسلام کا اجراء  شمار کرتا ہے جو ان کی زندگیوں کے بعض پہلوئوں میں پایا جاتا ہے:

مسلم آئیں ہوا کافرتو ملے حور و قصور

فارسی میںایک جگہ وضاحت سے کہتا ہے ک فرنگ رقص دختراں کا نام نہیں اس کی طاقت کا سرچشمہ اس کے علوم و فنون ہیں۔ مشرقی انسان عام طور پر جب جدید تہذیب کا گرویدہ ہوتا ہے تو مغرب کے ظواہر کی نقالی کرتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ:

چلا جب چال کوا ہنس کی اس کا چلن بگڑا

یورپ نے پہلے علم و ہنر سے فراواں سامان حیات پیدا کیا اور پھر وہ فراوانی اس کی رہائش اور خورد و نوش میں جلوہ افروز ہوئی۔ مشرق کا مفلس بغیر کچھ کیے دولت مند قوتوں کی نقالی کر کے اپنے تئیں اس کا مثیل سمجھنے لگتا ہے۔

مشرق صدیوںسے سیاسی استبداد میں آسودہ رسوائی رہا ہے لیکن مغرب میں انسانی حقوق اور مساوات کی جدوجہد نے جمہوریت کے تجربے کرنے شروع کیے۔ ابتدا میں ان جمہوریتوں میں بھی انسان کو مساوات حاصل نہ ہوئی۔ جس کی وہ توقع کرتا تھا اور بقول اقبال دیو استبداد ہی جمہوری قبا میںرقصاں رہا لیکن بقول عارف رومی:

کوشش بے ہودہ بہ از خفتگی

یہ نیم کامیاب کوششیں انگلستان میں اس انداز کی سوشلزم تک پہنچ گئیں جو اقبال کے نظریہ حیات کے مطابق اسام سے بہت قریب ہیں۔ اقبال کو مغرب کی تمام کوششوں میں کچھ نہ کچھ خلل نظر آتا ہے۔ خود مغرب کے مفکریں اور مصلحیں بھی ان خرابیوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اقبال نے جو تنقید مغرب پر کی ہے اس سے کہیں زیادہ مغربی مفکرین نے اپنے عیوب گنوائے اور ان کے علاج تجویز کیے ہیں۔

اقبال اس کا آرزو مند ہے کہ مغرب نے گزشتہ تین سو سال می سائنس اور علم و ہنر کی جو ترقی ک ہے مسلمان بھی اس سے بہرہ انداز ہوں لیکن دنیا کو سنوارنے میں وہ اپنی خودی اور اپنے خداسے غافل نہ ہو جائیں:

ست دنیا از خدا غافل شدن

نے قماش و نقرہ و فرزند و زن

مغربی مادیت اور حاضر پرستی کی معراج روسی اشتراکیت میں نظر آتی ہے۔ لیکن ابال اس کا بھی مداح ہے کہ اس نے سلبی کام بہت اچھا کیا ہے ۔ اور اس نے کلیسا اور سرمایہ داری اور امتیاز رنگ و نسل اور تفوق طبقات کے بہت سے جھوٹے معبودوں کا قلع قمع کر دیا ہے۔ توحید کے کلمے میں لا الہ جز و ثانی الا اللہ سے پہلے اورمقدم ہے۔ مغرب نے عام طور پر اور روسی اشتراکیت نے خاص طور پر لا الہ کا کام بخوبی انجام دیا ہے۔ لیکن مغرب اس لا الہ کے دریا میں سے ابھی تک الا اللہ کے موتی نہیںنکال سکا۔ اس کے مقابلے میں مشرق کو ابھی بہت کچھبت شکنی کرنی ہے۔ مغرب نے اپنے دینی جمود کو بہت کچھ رفع کر لیا اوربقول اقبال وہاں فکر کی کشتی نازک رواں ہو گئی لیکن لوتھر کی طرح کوئی تحریک ابھی مسلمانوںمیںپیدا نہیں ہوئی جو ان کو جامد ملائیت اجتہاد دشمن تفقہ اور ٹیکس وصول کرنے والے پیروں سے نجات دلوا سکے۔ ترکوں نے ملائیتت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہا تو تحقیقی کی بجائے مغرب کی اندھی تقلید کو اپنا شعار بنا لیا ۔ ترکوں کے بعض لیڈر اس کے مدعی ہیں کہ ہم اسلام کے پروٹسٹنٹ ہیں لیکن ان کا یہ ادعا غلط ہے ۔ لوھتر نے کلیسا کے خلاف بغاوت اس بنا پر کی کہ عیسائیوں نے مسیح اور اس کی انجیل پر ایمانداری اور آزادی سے غور کرنے کی بجائے ارباب کلیسا کے پاس اپنا ذہن اور اپنا ضمیر بیچ رکھا ہے۔ لیکن توکوں نے جو ش تقلید فرنگ میں فقہ کے معاملے میں قراان ہی کو بالائے طاق رکھ دیا۔ رضا شاہ نے مجتہدین ایران سے چھٹکارا حاصل کر کے ایرانیوں کو ایک ترقی پسند اور مہذب ملت بنانا چاہا تو وہ بھی مصطفی کمال کی طرح مغرب کے ظواہر کی تقلید میںپڑ گیا۔ اور یہ کوشش نہیں کہ اسلای اساس پر ایک تہذیب تعمیر کرے۔ جو شرق وغرب کی موجودہ تہذیبوں پر فائق ہو:

نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں ںمود اس کی

کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

اقبال مغرب کے عیوب کے ساتھ ساتھ اس کی خوبیوں سے بھی بخوبی واقف اوراان کا مداح تھا‘ وہ چاہتا تھا کہ مسلمان وہ خوبیاں اپنے اندر پیدا کر لیں علم مومن کا گم شدہ مال ہے علم جہاںسے بھی ملے فرنگ میں ہو یا چین میں مسلمان کو اسی طرف لپکنا چاہیے جس طرح انسان بازیافتہ گم شدہ مال کی طرف لپکتا ہے ۔ اقبال نے محڈود عقلیت اور مادیت کے خلاف بہت کچھ لکھاہے۔ کیوں کہ انسان اس کے اندر محصور ہو کر رہ جائے تو اس کا اصلی جوہر گم ہو جاتا ہے۔ لیکن اقبال اس سے بھی آگاہ ہے کہ عقل اور مادی زندگی سے روگردانی کر کے خالی روحانیت میں کوشش کرنا بھی لاحاصل ہے۔ خدا نے جس حکتم کو خیر کثیر کہا ہے اس میں ظاہر اور باطن دونوں کا عرفان شامل ہے۔ اقبال کو شکایت ہے کہ مغر ب مادی ترقی میں بے طرح الجھ گیا ہے اور عقل طبیعی پر اتنا بھروسہ کرنے لگا کہ روح انسانی کے غیر متناہی امکانات اس کی نظر سے اوجھل ہو گئے۔ عقل طبیعی نے عقل ایمانی کی طرف رہبری نہ کی۔

مغر ب اور مشرق کی تہذیبوں اور ان کے انداز حیات کا موازنہ اور مقابلہ کرنے کے لیے یہ بات ضروری معلوم ہو جاتی ہے کہ اقبال کے کلام پر نظر ڈال کر دیکھا جائے تو عام طور پر مستشرق سے متعلق اور مشرق میں خاص طور پر ملت اسلامیہ کی موجودہ صورت حالت کے متعلق اس مبصر کی کیا رائے ہیے۔ اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اقبال نہ مشرق کا مداح ۃے اورنہ مغرب کا ستائش کرنے والا محقق اور مبلغ ہے ۔ جو انسانی زندگی مین توازن پیدا کر سکتا ہے۔ اس لیے وہ جانبداری سے کام نہیں لے سکتا۔ ہر طرفدار آدمی جادہ صداقت سے ہٹ جاتاہے۔ اسلام اور ملت اسلامیہ کے عشق کے باوجود بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اسی عشق کی وجہ سے وہ کسی عیب کو صواب نہیںسمجھ سکتا۔ مرض کی حقیقت سے آنکھیں بند کر نے والا مریض یا طبیب نہ صحیح تشخیص کر سکتا ہے  اورنہ موثر علاج تجویز کر سکتا ہے۔ چونکہ زندہ اسلام کی ایک معین تصویر اس کی چشم باطن کے سامنے ہے وہ حیات المسلمین کے ہر پہلو کو بغور سے دیکھ کر اس تصویر سے مقابلہ کر کے دیکھتا ہے کہ کہاں کہاں وہ صورت دگرگوں ہو گئی ہے۔ جس طرح توحیدی مذاہب میں بھی رفتہ رفتہ خدا کا تصور کیا سے کیا ہو جااتاہے۔ اسی طرح تعلیمات اور شعائر کی بھی نہ صرف صورت بدل جاتی ہے بلکہ صورت کے ساتھ ساتھ ہی معنی بھی متغیر ہو جاتے ہیں۔ عرفی نے اس بارے میں حکیمانہ رباعی کہی ہے:

حرم جویاں درے را می پرستند

فقیہاں دفترے را می پرستند

برافگن پردہ تا معلوم گردو

کہ یاراں دیگرے را می پرستند

اسی مضمون سے ملتا جلتا ایک اور دوسرا شعر ہے:

آنانکہ حسن روے تو تفسیر می کنند

خواب ندیدہ را ہمہ تعبیر می کنند

اقبال محی املت بھی ہے اور محٰ الدین بھی۔ اسے اپنی ملت کی حالت ہر جگہ اور ہر پہلو میں ناگفتہ بہ معلوم ہوتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ شرق و غرب دونوں میں دین مسخ ہو گیا ہے۔ وہ ایک صحیح نظریہ حیات پر اپنی ملت کا بھی احیا کرتا ہے اور تمام نوع انسان کا ارتقاء بھی ؤجو اس کے عقیدے کا ایک اساسی عنصر ہے۔ اسی صورت میں ممکن ہے کہ قدامت پرستی اور تقلید کی راہوں سے ہٹ کر انسان تحقیق اور حریت سے اپنی خودی استوار کرے۔ ملت اسلامیہ کے ماضی خصوصاً آغاز اسلام کا نقشہ اس کی روح میں اہتراز پیدا کرتا ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ روح اسلام نئے نئے قالب اختیار کرے اور زندگی کی تخلیقی اور جدت آفرین قوتوں سے نئے مظاہر اور نئے عوالم ظہور میں آئیں۔ وہ فردا کو دوش کے آئینے میں دیکھتا ہے۔ لیکن حیات انفرادی یا حیات اجتماعی کی صورتوں میں اعادے اور تکرار کا قائل ہے۔ کل یوم ہو فی شان کی قرآنی تعلیم کے مطابق صوفیہ کا عقیدہ او رتجربہ ہے کہ تجلی میں تکرار نہیں۔ حیات ازلی کے لامتناہی مضمرات ہمیشہ امکان سے وجود میں آتے رہتے ہیں۔ اقبال میں مددانہ انداز ہے اور وہ زندگی کے ہر پہلو میں تجدید کا آرزو مند ہے۔ لیکن اصلی تجدید  وہ ہے جس میں روح خود ارتقاء کے لیے مناسب قالب اختیار کرے محض جدت آفرینی زندگی کا ثبوت نہیں بقو ل عارف رومی:

قالب از ما ہست شد نے ما ازو

بادہ از مامست شد نے ما ازو

اقبال نے مغرب میں حقیقت حیات سے جو بیگانگی دیکھی وہی محرومی اس کو مشرق میں بھی اور ملت اسلامیہ میں بھی نظر آئی ہے۔ جہاں قیس اس کے لیے پیدا نہیں ہو رہے کہ صحرا میں وسعت نہیں اور محمل لیلیٰ نہیں یعنی دل اور دماغ کے سامنے کو ئی مقصود اور نصب العین نہیں جو قلب کو گرما سکے اور روح کو تڑپا سکے۔ ظاہری خول اور چھلکے نظر آتے ہیں جن کے اندر مغز نابود ہے تیر ترکش کے اندر نہیں یا ہیں تو نیم کش ہیں کیوں کہ صیاد کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ کس ہدف کی طرف ان کو چلایا جائے۔ دینی زندگی کے کچھ ظواہر ہیں جو بے گوہر صدف ہیں۔ منہ سے توحید کا کلمہ پڑھنے والے طرح طرح کی بت گری اور بت پرستی میں مبتلا ہیں۔ دیر کے نقش و نگار میں کھؤوئے ہوئے خدا اور خودی سے غافل ہو گئے ہیں۔ جب ملت اسلامیہ کی اپنی یہ حالت ہے تو یہ ملت مغربیوں کی بے دینی پر کس منہ سے معترض ہو سکتی ہے۔ ملا اور صوفی اور سیاسی رہنما اور دولت میں مست افراد سب کا یہی حال ہے۔ مغربیوںنے کم از کم وہ کچھ تو کر دکھایا ہے جو خرد کے بس کی چیز تھی۔ مشرق میں تو روحانیت کے ساتھ عقلیت کا بھی فقدان ہے۔ مغرب کو تو اپن اصلاح کے لیے فقط اپنی عقلیت اور مادیت کی ترقی یافتہ صورتوں کو روحانیت کے زیر نگین لانا ہے لیکن مشرق کو اپنے باطن کے ساتھ ظاہر کرنے کی درستی کا کام بھی کرنا ہے۔ زندگی کی دوڑ میں مشرق مغرب سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ مغرب کو جتنی اصلاح کی ضرورت ہے اس سے درجہا زیادہ مشرق اورم لت اسلامیہ اس کی محتاج ہے جس کے عوام و خواص کا یہ حال ہے:

میر سپاہ نا سزا لشکریاں شکستہ صف

آہ! وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف

تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں

ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف

عشق بتاں سے ہاتھ اٹھا اپنی خودی میں ڈوب جا

نقش و نگار دیر میں خون جگر نہ کر تلف

مشرق و مغرب دونوںمیں سے کسی کی صفت قابل ترجیح دکھائی نہیں دیتی توکہہ اٹھتاہے کہ ان دونوں تہذیبوں کی قیمت دو جو کے برابر بھی نہیں:

بگذر از خاور و افسونی افرنگ مشو

کہ نیرزد بجوے ایں ہمہ دیرینہ و نو

بہت دیکھے ہین میں نے مشرق و مغرب کے میخانے

یہاں ساقی نہیں ہے وہاں بے ذوق ہے صہبا

مغرب نے غیب کی طرف سے آنکھیں بند کر کے عالم حاضر میں تو کچھ عیش و تنعم پیدا کر لیا ہے اس کی کوتاہی یہ ہے کہ ربنا اتنا فی الدنیا حسنتہ وفی الاخرۃ حسنتہ میں پہلے جزو کی تکمیل میں دوسرے حصے سے غافل ہو گیا ہوں۔ لیکن نصف کام تو اس نے مشرق سے بہت بہتر کر ڈالا ہے۔ گو اس کے عرفان حقیقت میں یہ خامی باقی ہے کہ وہ اسی عالم کے عیش کو اپنے لیے اور آئندہ نسلوں کے لے عیش تمام سمجھ کر اس کے دوام کے لیے کوشاں ہے:

ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام

وائے تمنائے خام وائے تمنائے خام!

مشرق مدت سے فرنگ کے سیل بے پناہ میں بہہ رہا ہے۔ اب اقبال کی پیش گوئی ہے:

خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے

فرنگ رہگزر سیل بے پناہ میں ہے

چلو قصہ تمام ہوا۔ ہم تو ڈوبے صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ اقبال چاہتا ہے کہ یہ دونوں ڈوب کر پھر ایک تازہ اندا ز حیات میں ابھریں جس میں زندگی کے تمام طاہری  اور باطنی قوتیں نشوونما پا سکیں۔

اس موضوع پرایک بات قابل توضیح باقی ہے کہ اقبال کے دل میںفرنگ کے خلاف ایسا شدید جذبہ کیوں ہے جو سینکڑوں غزلوں نظموں قطعوں اور رباعیوں میں بار بار ابھرتا ہے۔ اس کا سمجھنا کچھ زیادہ دشوار نہیں۔ اس مخالفانہ جذبے کی ایک وجہ سیاسی ہے۔ غلبہ فرنگ نے ایشیا اور افریقہ کی تمام اقوام کہن کو جو کسی زمانے میں مذاہب اور تہذیب و تمد ن کا گہوارہ تھیں مغلوب کر لیا ہے ان اقوام میں پہلے سے انحطاط موجود ھتا جس کی ذمہ دار مغربی اقوام نہ تھیں۔ علوم و فنون مردہ ہو چکے تھے۔ اور مطلق العنان حکومتوں کی وجہ سے رعایا میں اپنے حقوق و فرائض کا کوئی احساس نہتھا۔ نہ دینی جذبہ ایسا قوی تھا کہ جو ملتوں کو متحد کر کے آمادہ ایثا ر کر سکے۔ اورنہ وہ قوم پرستی اور ملت پرستی تھی جس نے مغرب میں دین کی جگہ لے کر مغربی اقوام میں اتحاد اور قوت پیدا کر دی تھی۔ ہر جگہ جمود اور استبداد کا دور دورہ تھا۔ جب تک مغرب کی یورش ان اقوام پر نہیںہوئی تب تک حیات اجتماعی کے پرانے ڈھانچے قائم تھے۔ اگرچہ ان میں ایسی استواری نہ تھی کہ منظم اور قوی اقوام کا مقابلہ کر سکیں۔ علم و ہنر نے جو نئی قوتیں پیداکی تھیں ان کا یہاں فقدان تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مشرق کی ایسی اقوام مٹھی بھر فرنگیوں کی حکمت اور قوت سے مفتوح و مغلوب ہو گئیں۔ ہندوستان کے تیس کروڑ انسانوں نے ایک لاکھ سے کم انگریزوں کی غلامی قبول کر لی ۔ انگریوں کی اجتماعی معاشی اور علمی زندگی ان تمام اقوام پر فائق تھی۔ اچھے دل و دماغ کے افراد ان اقوام میں بھی خال خال موجود تھے۔ لیکن اجتماعی زندگی بحیثیت مجموعی نہایت ضعیف اور غیر منظم تھی۔ اس تفاوت کی وجہ سے ہندوستان میں انگریزوں کی فوقیت کا سکہ دلوں پر بیٹھ گیا۔ ملک میں جو مصلحین پیدا ہوئے وہ بھی انگریزوں کی سیاسی قوت سے زیادہ ان کی تہذیب اور علوم و فنون سے مغلوب بلکہ مرعوب تھے۔ مسلمانوں میں احیائے ملت اور اصلاح قوم کا خیال سب سے پہلے سر سید احمد خان کے دل میں پیدا ہو ا تھا۔

وہ ملت کا دلدادہ اور اسلام کا شیدائی تھا۔ لیکن ان حالات میں مسلمانوں کے احیا کی صورت اس کی سمجھ میں بھی آئی کہ انگریزوں سے علم و فنون حاصل کیے جائیں اور ان کی تہذیب میں سے ان عناصڑ کو اپنایا جائے جو اسلام کے منافی نہیںہیں بلکہ حقیقت میں اسلامی زندگی کا تقاضا ہیں۔ سرسید وار اس کے رفقا محسن الملک‘ چراغ علی‘ حالی‘ شبلی ‘ نذیر احمد‘ مولوی ذکاء اللہ وغیرہ سرسید سے اس معاملے میں متفق تھے۔ وہ اپنی تحریروں میںجا بجا اپنی تہذیب کی پرستی اور فرماویگی اور مغربی تہذیب کے جمال و کمال کا بے دریغ اقرار کرتے ہیں۔ ان کی نیتیں نیک تھیں وہ ملت کے حقیقی خیر خواہ تھے اور بہت حد تک ان کایہ خیا ل درست تھا کہ مشرق کو جمود اور پستی سے نکالنے کے لیے مغربی افکار اورطریقوں کی ضرورت ہے۔ وہ ان چیروں کو اسلام کے منافی نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ یہ عقیدہ رکھتے تھ کہ ملت اسلامیہ جب زندہ اور ترقی پذیر تھی  تو اس میں یہی صفات پائے جاتے تھے۔ ان میں سے بعض برکات حکومت انگلشیہ کے راگ گاتے تھے۔ اور بعض ایسے تھے کہ جو شعوری اور غیر شعوری طور پر مغربی انداز تفکر سے علم و ادب میں نئی روح پھونکنا چاہتے تھے یہ لوگ اسلامی تعلیمات اسلامی علم و ادب اور اسلامی تاریخ کے عالم اور ادیب تھے اور غلامانہ ذہنیت کے مالک نہ تھے لیکن ایک ترقی یافتہ تہذیب و تمدن کی خوبیوں کے منکر نہ ہو سکتے تھ۔ یہ زمانہ مسلمانوں کی ملی خودی کو زور شور سے پیش کرنے کا عہد نہ تھا۔ چنانچہ اقبالنے بھی اسی دور میں علی گڑھ میں کالج کے طلبا کو جو پیغام بھیجا تھا اس میں آخر میں یہ نصیحت تھی:

بادہ ہے نیم رس ابھی شوق ہے نارسا ابھی

رہنے دو خم کے سر پرتم خشت کلیسیا ابھی

سید احمد خان اسی دور میںراہی ملک بقا ہوئے لیکن ان کے رفقا جو بعد میں تادیر زندہ رہے ان میں غلبہ فرنگ کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا۔ حالی اور شبلی آخر ایام میںانگریزوں کی حکومت سے بے زار ہونے لگے اس کے کئی وجو ہ تھے۔ ایک وجہ یہ ھتی کہ انگریزی تعلیم نے جدید تعلیم یافتہ طبقے میں وطنیت اورآزادی کے جذبے کی تربیت کی اور میکالے کی وہ پیش گوئی پوری ہونے لگی کہ انگریزی تعلیم کی بدولت ہندوستان میں ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ نئے تعلیم یافتہ لوگوں کے رنگ تو کالے اور سانولے ہوں گے لیکن وہ اپنی ذہنیت میں انگریز ہوں گے۔ اور اپنے ملک کی سیاست اور معاشرت میں ویسے ہی آزاد اداروں کا تقاضا کریں گے جو انگلستان نے اپنے ارتقا میں پیدا کیے ہیںَ سید احمد خان کا مقصد علی الاعلان ایسے ہی مسلمان پیدا کرنا تھا جو ذہنیت میں انگریز ہوں مگر پکے مسلمان بھی ہوں۔ ایک پوچھنے والے نے سید صااحب سے یہ دریافت کیاکہ آپ طلبا کی تعلیم و تربیت کس انداز کی چاہتے ہیں تو انہوںنے جواب دیا کہ میں اس کالج میں سے انگریز مسلمان پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ مسلمانوں کی ترقی صدیوں سے رکی ہوئی تھی۔ چودھویں صدی کے بعد سے مسلمانوں نے علوم و فنون میں کوئی اضافہ نہ کیا تھا دینی علوم بھی جامد اور فرسودہ ہو گئے تھے اور ان میں نئے حالات سے توافق کی صلاحیت مفقود تھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ فقط مغربیوں کے ہاں مل سکتی تھی۔ تعلیم کے شائع جو کچھ تعلیم ہندوستان میں مل سکتی تھی اسے ناکافی سمجھ کر براہ راست علم کی پیاس بجھانے کے لیے یور چلے جاتے تھے۔ سید احمد خان خود اپنے دونوں بیٹوں کو اپنے ہمراہ انگلستان لے گئے جن میں سے ایک کی زندگی نے وفا نہ کی اور دوسرا سید محمود ایک یگانہ روز گار  بن گیا۔ جو بڑے بڑے فرنگی علما کاہم پلہ تھا۔ خو دعلامہ اقبال فلسفے کی اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے اور جاتے ہوئے کہتے گئے کہ:

چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے

شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو

ANS 04

مولانا جلال الدین رومی کہتے ہیں کہ ایک بہت بڑی سماجی غلطی اور شعوری جرم جو عام طور پر کیا جاتا ہے جس سے ملا اپنی دوکانداری چلانے اور ظالم حکمران اپنا ستحصال جاری رکھنے کے لیے  عوامی ذہنوں کو زہر آلود کرتے ہیں وہ  ہے کہ مذہب اور ثقافت کو ایک ہی شے تصور کیا جا تا ہے یا کرایا جاتا ہے اسی وجہ سے بہت سے عام لوگ مذہب اور ثقافت میں فرق نہ کرنے اور نہ سمجھنے کی وجہ سے تذبذب کا شکار ہو کر کئی قسم کے ناگہانی خوف وہراس میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور زندگی کو زندگی کی طرح گزارنے کی بجائے زندگی کو مشکل امتحان تصور کر کے زندگی میں ہی موت کے بھیانک عذاب کا شکار ضرور ہو جاتے ہیں۔ یہ مذہب کو چھوڑنا ثقافتی بے حرمتی سمجھتے ہیں اور مذہب سے چمٹے رہنا ثقافتی ورثہ خیال کرتے ہیں ۔ جبکہ مذہب اور ثقافت آپس میں متضاد ہی نہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کی ضد بھی ہیں اور ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں ۔ مذہب اور ثقافت کو سمجھنے کے لیے پہلے ان کی تعریف کرنا ضروری ہے ۔

آسان الفاظ میں ثقافت انسانوں کے کسی گروہ کا کسی خاص علاقے میں مشترکہ طور پر مخصوض ماحول کے مطابق رسم ورواج اور ضرورتوں کے تحت ایک زبان، لباس،اقدار کے حوالے سے زندگی گزرنا کہلاتاہے جو انسانی محنت کی ہیت و کیفیت یا زرائع پیداوار کے تعلقات کی نوعیت کے گرد گھومتی ہے ۔ اور یہ رسم ورواج  اور انسانی تہذیب سماجی ارتقار کے دروان ا پنے موسم ، ماحول اور آلات پیداوار سے جنم پذیر ہوتے ہیں جس سے اس میں مسلسل تبدیلی کا عمل جاری رہتا اور تہذیب وتمدن پروان چڑھتا ہے ۔ رسم رواج یہاں کے لوگوں کی زندگی کا احساس بن جاتے ہیں۔ثقافت کا براہ راست تعلق زمین اور ٹھوس مادی حالات سے ہے جبکہ مذاہب کا تعلق آسمانوں اور غیر مادی حالات سے جوڑا ہوتاہے ۔ثقافت زمین سے اگتی ہے لیکن مذہب آسمان سے ٹپکتا ہے ۔ ثقافت انسانی تاریخی ورثہ ہے جبکہ مذہب کوئی انسانی ورثہ نہیں اور نہ ہی یہ اس کو مانتا ہے بلکہ تمام مذاہب ہر تاریخی تہذیب و تمدن اور ثقافت کی نفی کرتے ہیں اور اپنی اعلی و بتر حاکمیت کا بازور طاقت تقاضہ کرتے ہیں جس سے ان میں ناقابل حل لڑائی اور تضاد موجود ہے ۔

 ثقافت کسی جبر کو نہیں مانتی بلکہ اس کی انکاری ہے ۔ ثقافت کے نفاذ کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ انسان اسی کے تحت زندگی گزار رہے ہوتے ہیں جبکہ مذاہب انسانوں اور معاشرے سے نہیں ہوتے اس لیے انکو اپنے نفاذ کی ضرورت ہوتی ہے جس سے مذہب میں جبر کا عنصر آنا غیر منطقی نہیں ہے ۔ مذاہب کی جبریت اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ مذہب تمام دنیا کے لیے ایک ہی ہے اور ایک جیسا ہی ہوتا ہے یعنی مذہب تمام  انسانی تاریخی ثقافت اور تہذیبی ورثے کو ورند کر ہی ممکن ہے کیونکہ اس میں کسی تبدیلی  اور تغیر کی کوئی  گنجائش ممکن نہیں ہوتی جبکہ ثقافتیں مختلف اور علاقائی ہوتی ہیں جن میں مسلسل ارتقائی عمل جاری رہتا ہے جس سے یہ سماج میں تعمیرو ترقی کا باعث بنتی ہیں جبکہ مذاہب اس کے الٹ سماج کو ماضی میں دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مذہب کو نہ مانے سے آخرت میں  اذیت ناک اور خوفناک سزائیں ملتی ہیں اور اس پر عمل کرنے سے جنت   یعنی مذاہب کی بنیاد خوف اور لالچ ہے جبکہ ثقافت رضاکارانہ ہے جس کو نامانے کی کوئی سزا نہیں ہے جبکہ ثقافتی اقدار حقیقی خوشی اور مسرت کا ذریعہ ہیں ۔ثقافت انسانی شعور اور اسکے رویوں کی اعکاس ہے ۔ جبکہ مذہب اس سے لاتعلق ہے ۔ مذہبی خود بننا پڑتا ہے لیکن ثقافتی بننا نہیں پڑتا کیونکہ ہر انسان میں ا پنے سماج کا ثقافتی رنگ بڑی مضبوطی سے موجود ہوتا ہے ۔ مثلا برصغیر میں رنگین یا شوخ و چنچل شلوار قمیض، دھوتی کرتہ یا عورتوں کا دوپٹہ کو ئی مذہبی لباس نہیں ہے بلکہ ثقافتی لباس ہے جو انڈو پاک میں مسلم ، ہندو ، عیسائی اور سکھ تمام مذاہب کے لوگ پہنتے ہیں خواک ، میوزک ، گیت ، رہن سہن ، شادی بیاہ کی رسم ورواج ، وغیرہ مذہبی نہیں ہیں بلکہ علاقائی ثقافتی ہیں ۔ جب کہ پاکستان میں عرب ثقافت کو اسلامی ثقافت خیال کیا جاتا ہے اور اسکو اپنانے کی خود ساختہ بے ڈھنگی  کوشیشیں  بھی کی جاتیں ہیں جو بالکل غلط ہے کیونکہ عرب میں پیٹ کا رقص ، گھوڑ سواری یا اونتوں کی ریس وغیرہ وہاں کی ثقافتی روایات کا حصہ ہیں جو یقیناًاسلام میں ممنوع ہیں ۔ اس لیے ثقافت ایک علاقائی فطری عمل کا نام ہے جبکہ مذاہب مصنوعی ، سطحی اور غیر سماجی نظرایات کی غمازی کرتے ہیں ۔

تہذیب و ثقافت انسانی سماجی ارتقا کا تسلسل ہے جبکہ مذاہب ارتقا کی مذمت ہی نہیں کرتے بلکہ اس کے خلاف شدید مذاحمت بھی کرتے ہیں ۔ رسم وراج ، اقدار ، لباس ،رنگ ، زبان ، موسیقی اورگیت زندگی کا احساس ہے جبکہ مذاہب انسانی احساسات سے عاری ہیں جس میں خوشی سے زیادہ غم ہے یہ صرف احکامات اور اسکی سختی سے تکمیل کا نام ہے یعنی جزا اور سزا کا جس میں فوقیت سزا کو ہی حاصل ہے اس لیے ہر مذہب میں زیادہ ہنسنا اور کھیل گود کو اچھا نہیں سمجھا    جاتا  جو انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے  بہت مضر ہے  کیونکہ ہنسنا کھلنا   نہ  صرف انسانی جبلت ہے بلکہ اس کی ذہنی اور جسمانی نشو نما کے لیے اشد ضروری ہے  ۔

 ثقافت تغیر پذیر ہے جبکہ مذاہب حتمی اور مستقل کہلاتے ہیں اس کے باوجود کے سماجی تبدیلیاں  انکی شکلیں بدلتی رہتی ہیں کیونکہ تمام مذاہب جو زمانہ قدیم میں تھے وہ آج بالکل اسی طرح موجود نہیں ہیں جس طرح ماضی میں تھے اور نہ ہی یہ اس طرح قائم  رہ سکتے ہیں ۔ آج چودہ ہزار سے زائد احادیث کو ضعیف یا کمزور کہہ کر اس لیے  در کر دیا گیا ہے کہ یہ آج قابل عمل نہیں ہیں اور موجودہ حالات سے مطابقت نہیں رکھتیں جبکہ یہی کھبی مقدس اور  عظیم تھیں  ۔

 قران پاک کے کئی مختلف ترجمے بازار میں موجود ہیں کیونکہ عربی زبان کے ہر لفظ کے کم ازکم بارہ معنی ہیں اور ہر فرقہ دوسرے کے ترجمے کو نہیں مانتا ۔ بائبل ، گرو گرانتھ ، تور ایت یا دوسری مذہبی کتابوں بھی تبدیل ہو چکی ہیں اور آج اپنی اصلی حالت میں موجودہ  نہیں ہیں( جبکہ انکی یکسانیت کا جھوٹا اور غیر منطقی ڈھنڈورہ  پیٹا جاتا ہے )اور  ٹوٹ پھوٹ کا یہ عمل آئندہ بھی مذاہب میں  جاری رہے گا۔ جبکہ تمام مذاہب کو بظاہر ٹھوس اور آخیری کہا ضرور جاتا ہے ۔تہذیبیں اور ثقافتیں کھبی آخیری اور مکمل نہیں ہوتیں جبکہ مذاہب ہمیشہ  مکمل اور آخیری کہلاتے ہیں ۔ مذاہب غیر لچکدار جبکہ رسم ورواج لچکدار ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ۔

تمام مذاہب پر سماجی حالات کابہت گہرا اثر ہوتا ہے ۔خوشحال اور پرسکون معاشروں میں جنونیت ، کٹر پن ، انتہا پسندی  کی بجائے آزاد خیالی، اور ترقی پسندی کا رجحان نمایاں ہو تا ہے ۔جبکہ انتشار زدہ اور معاشی بدحال ممالک میں تنگ نظری، خون اور وحشت مذاہب میں اپنا مسکن بنا لیتی ہے ۔ پاکستان اور غریب ممالک  میں مذہبی درندگی اس کی ایک بڑی واضح مثال ہے ۔ جبکہ یورپی اور ترقی یافتہ ممالک کے مسلمان پاکستان جیسے پسماندہ اور انتہائی رجعتی انتہا پسند نہیں ہیں کیونکہ جدید اور خوشحال سماجی حالات شعور کو متاثر کرتے ہیں جس سے ذہنوں میں وسیع ظرفی  نمایاں ہوتی ہے ۔ اسی طرح امیر مذہبی اور غریب مذہبی لوگوں میں بھی  بہت فرق پایا جاتا ہے مذہب بے شک ایک ہی ہو لیکن اس پر عمل درآمد اور لگاو ماحول اور معاشرہ بدل دیتا ہے ۔

 ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جب پاکستانی سماج آج کی نسبت کہیں بہتر تھا تب مذہبی جنونیت اتنی درندہ صفت اور خونی نہیں تھی جتنی آج ہو چکی ہے ۔ جس کی بڑی وجہ سرمایہ داری اور سامراجیت کا استحصال قائم رکھنے اور اسکے خلاف عوامی تحریکوں کی مذاحمت کو تباہ کرنے کے لیے مذاہب میں مقامی اور عالمی سرمایہ کاری اور کالی دولت  سے چلنے والے بڑے منافع بخش کاروبار ہیں ۔ ایک طرف خوفناک طبقاتی تفریق ہے تو دوسری طرف عوامی مایوسی سے جنم لینے والے رجعتی سماجی حالات ہیں جو انقلابی پارٹی اور قیادت کی عدم موجودگی میں عوام کو اپنی طبقاتی جدوجہد کے راستوں سے بھٹکا رہے ہیں اس سے مزدور تحریک میں ایک سکوت کی کیفیت ہے جس سے ملائیت کی موجودہ قتل گری کا تماشا قائم ہے ۔ فطرت کا یہ مسند قانون ہے کہ حالات کھبی ایک سے نہیں رہتے انکو لازم بدلنا ہو تا ہے اور پاکستان کے یہ بدتر حالات بھی بدلیں گئے جس کا فیصلہ کن رخ عوام کو ہی متعین کرنا ہو گا ۔

پاکستان کوئی ایک ملک نہیں بلکہ کئی مختلف زبانوں ، ثقافتوں اور تہذیبوں کا دل کش اور خوبصورت گوارہ ہے جس کو سرمایہ داری کی آمریت  اور اس کے مالیاتی استحصال نے کچل کر خاکستر دیا ہے ۔ پیارومحبت اور موسیقی و رقص کی جگہ نفرتیں اور خانہ جنگیوں نے لے لی ہے۔ سرمایہ داروں ، جاگیر داروں ، وڈیروں ، فوجی جرنیلوں اور سرداروں کے حکمران طبقے نے اپنے بینک بیلنس میں اضافے ، جاگیروں میں بڑھوتری ، مالیاتی غلبہ اور اقتدار کی ہوص نے پاکستان میں تہذیب و تمدن اور  ثقافت کی تعمیرو ترقی کے تمام راستوں کو بند کر دیا ہے اور بھوک ننگ افلاس کو پروان چڑھایا ۔  ان حالات میں انسانی زندگی کو قائم رکھنا ہی ممکن نہیں رہا ۔ اور ان حالات میں تہذیب وثقافت کہاں پنپ یا زندہ رہ سکتی تھی ۔

پاکستان کے عوام اور محنت کش طبقے ان ابتر سماجی حالات کی تبدیلی کے لیے کئی بار سیاسی میدان میں اترا لیکن انکی روائتی پارٹیوں اور قیادتوں نے ان سے مسلسل غداری کی اور اسی سرمایہ کے جبر کو مختلف طریقوں سے جاری رکھا کھبی جمہوریت اور کھبی آمریت کی شکل میں کھبی مسلم لیگوں اور کھبی پیپلزپارٹی  کی شکل میں عوام نے تمام موجودہ پارٹیوں کی قیادتوں کو آزما لیا اور سب نے انکو ماسوائے مایوسی اور نا امیدی  کے کچھ نہیں دیا اور جو دیا وہ ذلت اور رسوائی ہے جو بیناد پرستی کا خمیر ہے۔  پاکستان میں آج کے خون ریز حالات کا کوئی اور نہیں بلکہ موجودہ نظام اور اسکے حکمران ذمہ دار ہیں جومختلف نقاب اوڑھ کر اوربھس بدل کر آتے جاتے رہتے ہیں لیکن کوئی ایک بھی بنیادی سماجی تبدیلی نہیں ہوتی اور ان روائتی پارٹیوں اور قیادتوں کی موجودگی میں ہو بھی نہیں سکتی کیونکہ یہ چہروں کی تبدیلی ہی حقیقی عوامی اور سماجی تبدیلی میں بڑی روکاوٹ ہے

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Services

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی  کی   حل شدہ اسائنمنٹس۔ پی ڈی ایف۔ ورڈ فائل۔ ہاتھ سے لکھی ہوئی، لیسن پلین، فائنل لیسن پلین، پریکٹس رپورٹ، ٹیچنگ پریکٹس، حل شدہ تھیسس، حل شدہ ریسرچ پراجیکٹس انتہائی مناسب ریٹ پر گھر بیٹھے منگوانے کے لیے  واٹس ایپ پر رابطہ کریں۔ اس کے علاوہ داخلہ بھجوانے ،فیس جمع کروانے ،بکس منگوانے ،آن لائن ورکشاپس،اسائنمنٹ ایل ایم ایس پر اپلوڈ کروانے کے لیے رابطہ کریں۔

WhatsApp:03038507371

Recent Posts

To Get All AIOU Assignments Contact Us On WhatsApp​

error: Content is protected ! click on any one google Ads to copy meterial
Open chat
Hello!
How Can I Help You

Adblock Detected

Please Turn Off AD Bloker