Malik Accademy Provides you AIOU Course Code 5613-1 Solved Assignment Autumn 2021. So keep Visiting Malik Accademy for More Assignments.
ANS 01
حضرت علامہ اقبالؒ کی مایہ ناز اردو تصنیف”بال جبریل “کی ترتیب و تکمیل مئی 1934ءمیں ہوئی۔ آپ کا خیال تھا کہ یہ کتاب اور لیکچروں کا ترجمہ سید نذیر نیازی کی وساطت سے جامعہ ملیہ دہلی کی طرف سے شائع ہو ۔ اس بات کے محرک سید نذیر نیاز ہی تھے، چنانچہ آپ نے 24 مئی 1934ءکو سید صاحب کی خدمت میں ایک خط ارسال کیا ،تاکہ وہ دونوں کتابوں کے لئے شرائط طے کر لیں۔ آپ نے تحریر فرمایا:”میرے خیال میں فی الحال مجموعہ نظم اور ترجمہ لیکچرز کے لئے شرائط طے کر لیں ۔ جب ہم اپنا کام بطور ایک فرم کے شروع کریں گے اس وقت دیگر شرائط طے ہوں گی۔فی الحال جو کام درپیش ہے ،اس حد تک محدود رہنا چاہیے۔ مجموعہ نظم میری رائے میں پانچ ہزار چھپنا چاہیے“….یہ امر قابل ذکر ہے کہ ”بال جبریل“کاپہلا نام ”نشان منزل“رکھا گیا بعد میں ”بال جبریل“طے ہوا ۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے ستمبر 1905ءمیں اعلیٰ تعلیم (فلسفہ قانون اور تحقیقات علم) کے لئے گورنمنٹ کالج لاہور سے تین سال کی رخصت حاصل کی اور پھر ولایت کا
سفر اختیار کیا:
چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے
شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو
”بال جبریل“ کے حوالے سے علامہ اقبالؒنے یورپ میں اس زمانے (1905ءتا1908ئ) میں جو تعلیم حاصل کی اور فرنگی اساتذہ سے کسب فیض کیا اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مجھے وہ درس فرنگ آج یاد آتے ہیں
کہاں حضور کی لذت کہاں حجاب دلیل
حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ مَیں نے فرنگی اساتذہ سے کسب فیض کیا، اس وقت وہ تعلیم بڑی دلآویزاور دلکش لگتی تھی ۔ اساتذہ مختلف النوع نظریات کا تعارف کراتے اور ان کے خلاف براہین اور دلائل دیتے تھے ۔یوں مَیں سمجھتا تھا کہ مَیں نے اعلیٰ درجے کا علم حاصل کر لیا ہے ،لیکن آج جب وجدانی علم سے مجھے آگاہی ہوئی ہے جو براہین و دلائل کی بجائے اشیاءکی حقیقت نمایاں طور پر واضح کر دیتا ہے تو مجھ پر فرنگی اساتذہ کی تدریس اور اہل فکر و نظر کے درس میں نمایاں فرق واضح طور پر نظر آجاتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ وہ علم دلائل پر مبنی تھا، اس کے باوجود حقیقت نمایاں ہونے کی بجائے پنہاں رہ جاتی تھی، مگر اہل فکر و نظر کی توجہ اور رہنمائی سے حقیقت رو ز روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے….حضرت علامہ اقبالؒ اپنے آباﺅاجدادجواسلامکےدائرےمیںداخلہونے (اسلامقبولکرنےکےبعدہجرتکرکےسیالکوٹمیںآبستےتھے،انسےنسبتجوڑتےاوراپناآبائیتعلقظاہرکرتےہوئےفرماتےہیں:
کافر ہندی ہوں مَیں ، دیکھ میرا ذوق و شوق
دل میں صلوٰة و درد،لب پہ صلوة و درود
مطلب یہ ہے کہ ایک تعلق تو آپ کا کشمیر ی برہنموں سے ہے جو آپ کے آباﺅاجدادتھےاورآپکینسلسےہیں۔اسلامکیروشنتعلیماتآپکےرگوپےمیںاسقدررچپسگئیںکہصلوٰةودرودہروقتآپکےدلمیںموجزن اور زبان پر جاری و ساری رہتا تھا، لیکن دوسری جانب آپ نے یورپ جا کر تحصیل علوم کی خاطر علم و دانش وہاں کے اساتذہ سے سیکھا تو آپ کے عقائد ونظریات میں آمیزش پیدا ہو گئی۔ آپ نے بال جبریل میں اس حقیقت کی نشاندہی مندرجہ ذیل شعر میں کی جس میں سرور کائنات، سرکار دو عالم، رحمت العالمین ،خاتم النبین حضور اکرم ﷺ سے چارہ سازی کرنے کی التجاءکی گئی ہے۔ فرماتے ہیں:
تو اے مولائے یثربآپ میری چارہ سازی کر
میری دانش ہے افرنگی، مرا ایماں ہے زُنّاری
مندرجہ بالا شعر میں حضرت علامہ اقبالؒ تاجدار مدینہ،سرور سینہ، شیع المذنبین حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی بارگاہوں میں التجا اور درخواست کرتے ہیں کہ آپ ﷺ میرے امراض کا مداوا اور علاج فرمائیں ۔ مَیں نے علم و دانش یورپ کے اساتذہ سے سیکھے ہیں، جبکہ میرا نسبتی اور خاندانی تعلق ہندوستان کے برہمنوں سے ہے۔ بنا بریں میرے ایمان و ایقان میں مغربی افکار و نظریات اور ہندوعقائد و نظریات کی آمیزش آگئی ہے ،ان عقائد و نظریات نے مجھے بیمار کر دیا ہے۔ اس بیماری کا علاج حکیموں اور دانشوروں کے پاس نہیں، صرف آپ ﷺ کے پاس ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آنحضورﷺ کے اسوئہ حسنہ اور آپ کی شرع مبارکہ میں ہے جو احادیث مطہرہ کی صورت میں محفوظ اور مامون ہیں۔ بنا بریں میری آنحضرت ﷺ سے التجا ہے کہ وہ خود ہی میرے امراض کا علاج فرمائیں۔یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ حضرت علامہ اقبال ؒ کے نزدیک ”میری دانش “ اور ”مرا ایمان “ سے مدعاو مطلب اور مراد عصر جدید اور عصر حاضر کے مسلمانوں کی دانش اور ایمان ہے۔جن پر مغربی افکار و نظریات اور ہندو عقائد کی گہری چھاپ اور اثرات ہیں۔ مغربی اور یورپی تہذیب و تمدن کے حوالے سے تو حضرت علامہ اقبالؒ نے بہت کچھ قلمبند فرمایا ہے، اسی سے ملتا جلتا بال جبریل کا حسب ذیل شعر ملاحظہ ہو،فرماتے ہیں:
مجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ بظاہرمیں تو آزادی ہے، باطن میں گرفتاری
ہم نے حضرت علامہ اقبالؒ کے مذکورہ بالا شعر سے پہلے جو نہایت خوبصورت ، دلآویز اورمعنی خیز شعر پیش کیا ہے جس میں بقول حضرت علامہ مغربی نظریات اور ہندو عقائد کی آمیزش ہے، اسی شعر سے ملتے جلتے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیے۔ مغربی فلسفے اور مغربی علوم اور ہندو عقائد پر غوروفکر کیجیے، حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
کوئی دیکھے تو میری نے نوازی
نفس ہندی، مقام نغمہ تازی!
نگہ آلودہ انداز افرنگ!
طبیعت ، غزنوی ، قسمت ایازی
حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں، جب کوئی گہرائی اور گیرائی میں جا کر میرے خیالات، افکار اور نظریات کے سر چشموں پر غور و فکر کرے گا تو حیران و ششدر رہ جائے گا ،کیونکہ مَیں پیدائشی طور پر تو ہندی ،یعنی برہمن زادہ ہوں، لیکن اپنے کلام میں جو خیالات پیش کرتا ہوں وہ عربی اور اسلامی ہیں۔ میرا انداز نظر و فکر مغربی فلسفے پر مبنی ہے، کیونکہ مَیں نے مغربی علوم کی تعلیم حاصل کی ہے ،اگرچہ میرا مزاج غزنوی، یعنی ”شاہانہ“ہے ،لیکن تقدید نے مجھے ”غلام“ بنایا ہے ،یعنی میری پیدائش ہندوستان جیسے غلام ملک میں ہوئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے :
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
پیشتر ازیںہم نے بال جبریل (غزلیات کے حوالے سے جو شعر پیش کیا ہے ،اس کے پہلے مصرعے میں حضرت علامہ اقبالؒ نے فرمایا ہے:
تو اے مولائے یثربآپمری چارہ سازی کر
اس ضمن میں ہم ایک نہایت ایمان افروز، روح پرور اور دلآویزاقتباس پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتے ہیں، جس کی اس گئے گزرے زمانے میں اتنی ضرورت ہے ،جتنی اس سے پہلے تھی، بلکہ اس کی جس قدر تبلیغ، اشاعت اور ترویج کی جائے کم ہے۔ حضرت علامہ اقبالؒ کا یہ ایمان اور ایقان ہے:آپ کو رسول رسالت مآب ﷺ سے والہانہ عشق تھا جو آپ کے رگ و پے میں سمایا ہوا تھا ،اس کا اظہار آپ نے نہایت عقید ت اور محبت کے ساتھ کیا ہے اور عقید ت و شیفتگی کے پھول موتیوں کی طرح آپ کے کلام میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔حضرت علامہ اقبالؒ نے نیاز الدین خان کے نام اپنے مکتوب میں، جو انہوں نے 14 اکتوبر 1923 ءکو تحریر کیا، فرمایا:”نبی کریم ﷺ کی ”زیارت“مبارک ہو۔ اس زمانے میں یہ بڑی سعادت ہے۔ قرآن کریم کثرت سے پڑھنا چاہیے، تاکہ قلب محمدیﷺ نسبت“پیدا کرے، خلوص دل کے ساتھ محض قرآت کافی ہے۔
میرا عقیدہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ ”زندہ “ہیں اور اس زمانے کے لوگ بھی اسی طرح مستفیض ہو سکتے ہیں جس طرح صحابہ کرام ؓ ہوا کرتے تھے“۔ ایک سچے اور پکے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ علامہ اقبالؒ ایک سچے اور پکے عاشق قرآن اور عاشق رسول ﷺ بھی تھے اور آپ کی شاعری کا سب سے بڑا وصف یہی ہے کہ آپ نے ان دونوں بنیادی مآخذ قرآن کریم اور احادیث نبوی ﷺ سے جو کچھ حاصل کیا، اسے اپنی اردو اور فارسی شاعر کے علاوہ اپنے تمام خطبات، مضامین و مقالات ، تحریر و بیانات اور مکاتیب و پیغام میں پیش کر دیا جن سے اہل دانش اور اہل اصحافب فکر و نظر استفادہ کرتے رہتے ہیں۔ ایک سچا اور پکا مسلمان وہ ہے جو قرآن مجید فرقان حمید کا علم حاصل کرے ،پھر اس کی ترویج و اشاعت کرے ۔ اس ضمن میں علامہ اقبالؒ کس مقام پرفائز تھے ،ان کی اپنی زبانی سنئے اور اپنی گراں قدر رائے کا اظہار فرمائیے۔ آپ رقمطراز ہیں:”یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے کہ اس نے قرآن شریف کا یہ مخفی علم مجھ کو عطا کیا ہے ۔ مَیں نے 15سال تک قرآن مجید پڑھا ہے اور بعض آیات اور سورتوں پر مہینوں، بلکہ برسوں غور کیا ہے“۔
حضرت علامہ اقبالؒ قرآن مجید فرقان حمید کو دل و جان سے چاہتے تھے اور ان کا ایمان تھا کہ اسی میں ”توشہ آخرت “ اور ”زاد راہ“ تلاش کرنا چاہیے۔ ہم سب مسلمانوں کو انہوں نے یہی دعوت دی ہے۔ آ پ فرماتے ہیں:”دنیا کی حیثیت ایک سرائے کی ہے اور ہم سب مسافر ہیں ۔ مسلمانوں کے لئے جائے پناہ صرف قرآن کریم ہے، اسی میں توشہ آخرت اور زاد راہ تلاش کرنا چاہیے۔زمانے کے ساتھ ساتھ ضرور چلنا چاہیے ،لیکن اپنے دامن کو اس کے بد اثرات سے آلودہ نہ ہونے دو ۔ مَیں اس گھر کو صد ہزار تحسین کے قابل سمجھتا ہوںجس گھر سے علی الصباح قرآن کریم کی تلاوت کی آواز آتی ہو۔ کلام پاک کا صرف مطالعہ ہی نہ کیا جائے ،بلکہ اس کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
قرآن کریم نے علامہ اقبال ؒ کی زندگی میں کیا انقلاب پیدا کیا۔ مولانا سید ابو الااعلیٰ مودودی نے ان کے قیام یورپ کا تجزیہ بڑے دلکش اور حسین انداز میں کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
”سب جانتے ہیں کہ اقبالؒ نے یہی مغربی تعلیم حاصل کی تھی ،جو ہمارے نوجوان انگریزی یونیورسٹیوں میں حاصل کرتے ہیں۔یہی تاریخ،یہی ادب، یہی اقتصادیات، یہی سیاسیات، یہی قانون،یہی فلسفہ انہوں نے پڑھا تھا اور ان فنون میں بھی وہ مبتدی نہیں تھے ،بلکہ منہتی فارغ التحصیل تھے۔ خصوصاً فلسفے میں تو ان کو ”امامت“ کا مرتبہ حاصل تھا، جس کا اعتراف موجود ہ دور کے اکابر فلسفہ تک کر چکے ہیں۔
جس شراب کے دو چار گھونٹ پی کر بہت سے لوگ بہکنے لگتے ہیں، یہ مرحوم اس کے سمندر پئے بیٹھا تھا، پھر مغرب اور اس کی تہذیب کو بھی اس نے محض ساحل پر سے نہیں دیکھا تھا ،جس طرح ہمارے ننانوے فیصد نوجوان دیکھتے ہیں ،بلکہ وہ اس دریا میں غوطہ لگا کر تہہ تک اتر چکا تھا اور ان سب مرحلوں سے گزر اتھا ،جن میں پہنچ کر ہماری قوم کے ہزاروں نوجوان اپنے دین و ایمان،اپنے تہذیب و تمدن اور اپنے قومی اخلاق کے مبادی تک سے برگشتہ ہو جاتے ہیں ،حتیٰ کہ اپنی قومی زبان کے قابل تک نہیں رہتے، لیکن اس کے باوجود اس شخص کا حال کیا تھا؟ مغربی تعلیم ، تہذیب کے سمندروں میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا ”مسلمان “تھا ،اس کے منجدھارمیں پہنچ کر اس سے زیادہ ”مسلمان“پایا گیا۔ اس کی گہرائیوں میں جتنا اترتا گیا، اتنا ہی زیادہ ”مسلمان“ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اس کی تہہ میں پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ ”قرآن“ میں گم ہو چکا ہے اور ”قرآن “سے الگ اس کا کوئی فکر و جود باقی نہ رہا۔ وہ جو کچھ سوچتا تھا ”قرآن کے دماغ “ سے سوچتا تھا، جو کچھ دیکھتا تھا ”قرآن کی نظر“سے دیکھتا تھا۔ ”حقیقت اور قرآن“اس کی نظر میں شے واحد تھے اور اس شے واحد میں وہ اس طرح ”فنا “ہو گیا تھا کہ اس دور کے علمائے دین میں بھی مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو ”فنائیت فی القرآن“میں اس ”امام فلسفہ“اور اس ایم ۔ اے ، پی ایچ ڈی ، بار ایٹ لاءسے لگاکھاتا ہو“۔
ANS 02
بانگ درا کا مطلب اگر معانی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو لفظی معانی گھنٹے (بڑی گھنٹی) کی آواز ہے۔ اگر تشریحی لحاظ سے دیکھا جائے تو اس کے معانی گھنٹے وغیرہ کی آواز جو قافلے کی روانگی سے پہلے مسافروں کوہوشیارکرنے کے لیے بجایا جاتا ہے، اس گھنٹے کی آواز جو قافلےکے ساتھ بجتا رہتا ہے تاکہ بھولے بھٹکے مسافروں کی رہنمائی ہوجائے۔شاید اسی لیے اقبال نے اپنے اس مجموعے کا نام بھی بانگ درا رکھا۔ جس سے مراد مسلمانوں کو روحانی اور شعوری طور پر بیدار کرنے کے لیے کی گئی شاعری ہے۔ اور یہی ایسا مجموعہ ہے جو سب سے طویل عرصہ میں لکھا گیا ہے۔
اقبال کی شخصیت کے بارے میں کچھ کہنا بھی گویا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، اور اُردو بولنے والوں کے لیے نعمتِ عظمی ہے کہ اقبال سا شاعر اُنہیں نصیب ہُوا جس نے اپنے ندرت کلام اور افکار سے دُنیا بھر میں شہرت پائی اور اُمتِ مسلمہ کے عروج کے گیت گائے اور زوال کے اسباب کو شعروں میں نہ صرف بیان کیا بلکہ اُسے دوبارہ عروج میں بدلنے کے تصورات فراہم کیے۔۔ آج میرا موضوع کچھ ایسا ہے جس کے بارے میں کچھ بیان کرنے کےلیے ایسے تو میں خود کو اہل نہیں سمجھتا لیکن اس کے الفاظ کو خود پر قرض بھی سمجھتا ہوں، اور اس قرض کی ادائیگی کی جانب یہ ادنی’ سی کوشش ہے۔
اقبال نے لفظ ’بانگ درا‘ کیوں استعمال کیا؟
یہ لفظ اس دور میں استعمال ہوتاتھا جب قافلوں میں سفر ہوتے تھے، سب سے پہلے اونٹ کے گلے میں ایک گھنٹی بندھی ہوتی تھی۔ جب تک قافلہ رواں دواں رہتا تب تک گھنٹی بجتی رہتی اور جب کہیں قیام کرنا ہوتا تو سب سے پہلے اونٹ کو روک دیا جاتا۔ قافلہ دوبارہ روانہ کرنے کے لیے سب سے پہلے اونٹ کو دوبارہ چلایا جاتا اور بکھرے ہوئے لوگ اس گھنٹی کی آواز سن کر جوق در جوق واپس قافلے میں شامل ہوتے اور قافلہ رواں دواں ہو جاتا۔ اقبال بھی اپنے مشہور ‘ترانہ ملّی’ میں پہلے ہمارے آقا حضرت محممدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو سالار بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ :
سالارِ کارواں ہے میرِ حجازؐ اپنا
اس نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا
اور پھر فرماتے ہیں:
اقبال کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
اقبال نے ان دو اشعار میں قرآن کی آیت کا مفہوم بیان کیا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں مت پڑو۔
اقبال نے امّت کے نوجوانوں کو دوبارہ یہی ‘بانگ درا’ سنا کر اکٹھا کرنے کی کوشش کی کہ آؤ دوبارہ ایک ہو جائیں اور صفت سیل رواں چلیں اور ایک بار پھر اسی عروج پر واپس چلیں، جہاں خدا ہم سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہےاور اس خودی کے مقام پر پہنچنے کے لیے اقبال نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سر دارا
اقبال نوجوانوں کے سامنے اسلاف کی مثال رکھتے ہیں، تدبر اور کھوج کے لیے ان پر زور دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ تم ایسی قوم کے فرد ہو جس نے پوری دنیا کو بہترین نظام دیا۔ آج بھی اس نظام کی جڑیں باقی ہیں، تمہیں فقط ایک بار اس زرخیز مٹی کو نرم کرنا ہے۔ اس کام کے لیے اقبال نے نوجوانوں کو شاہین بننے کا درس دیا۔
علامہ اقبال کے پورے فکری نظام اور اس میں ہونے والی اردو و فارسی شاعری میں شاہین ایک بنیادی اور مرکزی کردار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی وجہ شاہین کی درویشانہ خصوصیات ہیں۔ اقبال ہی کے الفاظ میں:
کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
بیاباں کی خلوت سے خوش آتی ہے مجھ کو
ازل سے ہے فطرت میری راہبانہ
اقبال کے مرد کہستانی اور بندہ صحرائی میں بھی شاہین کی ہی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اسی نظم کے آخر میں ٫کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ، بھی اسی درویشی کو ظاہر کرتا ہے کہ زندگی فقط زندہ رہنے کا نام نہیں۔ اقبال نے بارہا اس بات کو دہرایا ہے کہ نوجوان دنیا کی بھول بھلیوں میں گم ہونے کے بجائے یکجا ہوکر اس قافلے کو دوبارہ رواں دواں کریں اور بانگ درا کو سنیں۔ امت کے اس بکھرے ہوئے قافلے کو دوبارہ یکجا کرنا مشکل کام ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔
پھر نوجوانوں کو تن آسانی کے بجائے مشکل کوشی کی ترغیب اور صاف صاف الفاظ میں فضائے بدر پیدا کرنے کی ترغیب دی کہ خدا معجزات سے بھی اس وقت نوازتا ہے جب انسان کوشش کرتاہے۔ اس لیے نوجوانوں کا کام فقط جدوجہد کرنا ہے، جہد مسلسل کرنا ہے۔ طوفانوں سے ٹکرائیں اور عزم و استقلال کو قائم رکھیں تو وہ آپ کو مزید بلندیوں پر لے جائے گا :
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پر دم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ افتاد
پھر یہ پیغام کہ
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دِلّی نہ بخارا
جس سمت بھی چل صفت سیل رواں چل
وادی یہ ہماری ہے، وہ صحرا بھی ہمارا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہُنَر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا
محروم رہا دولتِ دریا سے وہ غوّاص
کرتا نہیں جو صُحبتِ ساحل سے کنارا
دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملّت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا
دنیا کو ہے پھر معرکۂ رُوح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درِندوں کو اُبھارا
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا
اِبلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
تقدیرِ اُمَم کیا ہے، کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا
اخلاصِ عمل مانگ نیا گانِ کُہن سے
’شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را!‘
آج میں جب مسلمانوں کے زوال کے بارے میں سوچ رہا تھا میرے ذہن میں صلاح الدین اور اقبال دونوں جمع تھے اور میری عقل اس بات کو تسلیم نہیں کر رہی تھی کہ ہم اتنا پیچھے کیوں رہ گئے؟ ہمارے اس زوال کا سبب اقبال نے جو بیاں کیا وہ کچھ یوں تھا کہ ہم نے خودی اور مردِ درویش کی مشکل زندگی چھوڑ کر تن آسانی کی زندگی کو اپنانا شروع کر دیا اسلاف کی میراث کو بھول گئے تو
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
اس میراث کو دوبارہ پانے کے لیے جس کا نام خودی ہے، اقبال ہمیں شاہیں بننے کا درس دیتے ہیں۔ شاہیں فقط ایک پرندہ ہی نہیں مکمل زندگی کا نام ہے۔
شاہیں کی زندگی میں نہایت اہم پہلو تربیت ہوتاہے جو کہ اس وقت دنیا فانی سے ناپید ہو رہی ہے اقبال اسی تربیت کا ذکر کرتے ہیں شاہیں جب پیدا ہوتا ہے تو اس کی تربیت کے لیے اس کو شاہینوں کے درویش اور بزرگ استاد کے پاس بھیجا جاتا ہے جو اس کو تربیت دیتا ہے اور وہ تمام اصول سیکھاتا ہے جو مرد درویش کا خاصہ ہوتے ہیں اقبال نوجوانوں کو بھی یہی نصیحت کرتے ہیں:
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کر
کہتے ہیں کہ شیشے کو بنا سکتے ہیں خارا
بوڑھے بزرگ جو اہل علم ہوں اہل نظر ہوں، امام برحق ہوں، اقبال ان سے علم حاصل کرنے کا کہتے ہیں کہ کسی ایسے نایاب جوہری کو تلاش کرو جو تمہیں اس طرح تراشے کہ تم اس کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت بن جاؤ ورنہ اگر تم اس معاشرے کے ایسے شکست خودرہ لوگوں کے پاس جاؤ گے جو زندگی میں فقط پیٹ کی خاطر زندہ ہیں تو وہ تمہیں بھی اپنی طرح کا بنا ڈالیں گے اقبال یہی کہتے ہیں:
وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیاہے رہ رسم شاہبازی
اقبال نے پھر مکتب و مدرسہ پر فرمایا کہ
شکایت ہے ہے مجھے یارب خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
آج ہم جس بھی ادارے کا رخ کریں ہمیں شکست خودرہ استاد جو فقط پیٹ کی خاطر اس مقدس پیشے کو اپنائے ہوئے ہیں، وہ کیا جانیں کہ ہیرا کیسے تراشہ جاتاہے؟ ان کو معلوم نہیں کہ کیسے کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا کرنا ہے؟ وہ فقط اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو کا نعرہ لگاتےنظر آئیں گے یا یورپ کی مشینوں کا سہارا بن جائیں گے۔ اقبال نے ہمیں یہی کہا :
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
اقبال کی حق شناس آنکھ اس چیز کی غمازی کرتی ہے کہ ہم نے اپنی حدود کو محدود کر لیا اور ہم بھول گئے کہ ہمارا جہاں کون سا ہے؟ ہم اس قوم سے تھے جس نے “تاج سر دارا” کو قدموں تلے روند دیا تھا۔ ہم نے اپنے پیٹ کو ملحو ظ خاطر رکھا اور ہم اپنی زندگی کے مقاصد سے ناآشنا ہوتے چلے گئے ہم نے میراث جسے اقبال خودی کا نام دیتے ہیں وہ گنوا دی تو ہم زوال کی پستیوں میں جا گرے۔
ہم نے علم و عمل کی جگہ جب سے ایک کاغذ کے ٹکڑے کو دی جب سے علم فق نوکری کا حصول بن کر رہ گیا تو اللہ نے ہم سے ہماری پہچان بھی چھین لی اور ہمیں محکوم قوموں میں شامل کر دیا۔ اقبال ضرب کلیم میں ہمارے مکتب کی کم نگاہی پر نالاں نظر آتے ہیں:
اقبال! یہاں نام نہ لے علم خودی کا
موزوں نہیں مکتب کے لیے ایسے مقالات
اقبالی دور اندیش آنکھوں نے مکتب کے حال احوال دیکھ لیے تھے کہ یہاں شاہینوں کو کرگس بنایا جا رہاہے اور اسی پر اقبال نے فرمایا تھا کہ مکتب کے جواں کو کیا خبر کہ خودی کیا چیز ہے کسی مدرسہ یا مکتب میں علم خودی کو پڑھایا ہی نہیں گیا بلکہ آج بھی کسی ادارے نے بھی اس ضروری موضوع کو شامل نصاب نہیں کیا اس سے اگلے شعر میں اقبال فرماتے ہیں:
بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے
پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات
ان فریب خودرہ شاہینوں ان کو کیا معلوم کہ ان کی زندگی کیا تھی ان کو بتا نے کی ضرورت نہیں کہ یہ کس غلط راہ پر دھکیل دیے گئے ہیں۔ اقبال ہی نہیں اس پر اکبر آلہ آبادی بھی فرماتے ہیں:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
تمام دوراندیش آنکھیں اس فرسودہ نظام تعلیم کی کوتاہیاں دیکھ چکی تھیں اور ان کو اپنے الفاظ میں بیان فرما گئیں۔ اگلی نظم میں اقبال نے دوبارہ اسی موضوع کو جاری رکھا :
زندگی کچھ اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
زندگی سوز جگر ہے علم ہے سوز دماغ
علم میں دولت بھی ہے قدرت بھی لذت بھی
ایک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ
اہل دانش عام ہیں کمیاب ہیں اہل نظر
کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایا غ
شیخ مکتب کے طریقوں سے کشادہ دل کہاں
کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ
اقبال اس میں علم اور عمل کو علیحدہ کرتے ہیں علم ہونے کے باوجود آپ کی زندگی اگر تڑپ سے خالی ہے تو آپ کے علم کا کوئی فائدہ نہیں جو آپ کو کچھ کرنے پر مجبور نہ کرے۔ بے شک آپ علم سے دولت اقتدار اور دنیا کی بے شمار چیزیں حاصل کر سکتے ہیں لیکن، آ پ اس سے اپنا سراغ حاصل نہیں کر سکتے، اپنی حقیقت اپنی معرفت کو نہیں جان سکتے کیونکہ یہاں اہل علم بہت زیادہ ہیں لیکن اہل نظر بہت کم ہیں اور اس میں کوئی بڑی بات نہیں کہ اہل نظر کی کمیابی نے تمہیں کوئی ایسا استاد ایسا جوہری نہیں دیا جو تمہیں تمہارے ہنر کو جان کر تمہیں اس کے مطابق زندگی گزارنے کے اصول بتا سکے۔ آج کل کی تعلیم کا میعاراس قابل نہیں کہ وہ خودی کو نوجوانوں میں بیدا ر کر سکے اس نظام تعلیم سے خودی کی بیداری کی امید ایسے کی جاسکتی ہے جیسے دیا سائی سے بجلی کے بلب کے روشن ہونے کی امید کرنا۔
اقبال کے اشعار کے ساتھ اگر نطام تعلیم کے معیار کو دیکھا جائے تو کتابیں بھی کم پڑ جائیں۔ اس وسیع موضوع کو اک ہی تحریر میں پرونا ممکن نہیں ہمیں فقط عالم جانباز کی میراث کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ایک بار پھر اسی مقام کی ضرورت ہے جس کے بارے میں اقبال فرماتے ہیں:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اور
لا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقی
ہاتھ آ جائے میرا مقام اے ساقی
اقبال نے امت کے نوجوانوں سے امیدیں وابستہ رکھیں اور بارہا ہمیں تن آسانی چھوڑ کر امت کے لیے کھڑے ہونے کی تلقین فرماتے۔ اقبال نے نوجوانوں کو شاہین کی درویشانہ خصوصیات اپنانے کا درس دیا تو کہیں ہمیں ہمارے اسلاف کے کارناموں کا ذکرکر کے ہمیں تدبر، غور وفکر اور خودی میں ڈوب جانے کا مشورہ دیا۔ اقبال بے شک ایک عظیم مفکر تھے، ان کی شاعری پڑھ کر کسی بھی باذوق انسان پر وجدان کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ علامہ نے اپنی ایک مشہور زمانہ نظم “خطاب بہ نوجوانان اسلام” میں ہمیں اسلاف کے کارناموں کا ذکر کر کے جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ فرماتے ہیں:
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارہ
اقبال نے پہلے مصرع میں قرآن کی آیت أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ کا ترجمہ کیا اور تدبر کرنے کی دعوت دی اور ساتھ میں فرمایا کہ تمہارا ماضی ایک آسمان کی مانند ہے اور تم اپنے آسمان سے بے خبر ٹوٹے ہوئے تارے ہو۔ جس کے ساتھ ہی اگلے شعر میں فرماتے ہیں:
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا س نے پاؤں میں تاج سردارا
اقبال اس شعر میں مسلمانوں کی عظیم کامیابی کا ذکر کرتے ہیں کہ تمہیں اس قوم نے اپنے آغوش میں پالا جس قوم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہبری میں اپناسفر شروع کیا اورپھر ایک وقت ایسا آیا کہ ایران کی ایک عظیم ساسانی سلطنت کو شکست دے کر تاج سر دارا کو اپنے پیروں تلے روند ڈالا تھا۔ تاج سر دارا اقبال نے ساسانی سلطنت کو کہا ہے جو ایران کی چوتھی اور فارسی کی دوسری سلطنت تھی جس نے 400 سال سے زیادہ ایران پر اپنا رعب و دبدبہ قائم رکھا۔ ساسانی سلطنت موجودہ ایران، عراق، آرمینیا، افغانستان، ترکی اور شام کے مشرقی حصوں، پاکستان، قفقاز، وسط ایشیا اور عرب پر محیط تھی۔ خسرو ثانی کے دور میں مصر، اردن، فلسطین اور لبنان بھی سلطنت میں شامل ہوگئے۔ مسلمانوں نے اس سلطنت کو شکست دی اور خلافت اسلامیہ میں شامل کردیا، جس کے بعد مسلمانوں کی تہذیب نے فروغ پایا اور اس تہذیب نے جس تہذیب میں پانی پینے سے لے کر کپڑے پہننے تک ضرورت زندگی سے اختتام زندگی تک ہر اصول موجود تھا، جس کو اقبال نے کچھ یوں بیاں فرمایا :
تمدّن آفریں خلّاق آئینِ جہاں داری
وہ صحرائے عرب یعنی شتر بانوں کا گہوارا
اقبال کے مطابق صرف مسلمانوں نے ہی نہیں بلکہ دوسری اقوام نے بھی اسی تہذیب و تمدن کو اپنایا اور اسی نظام حکومت سے اپنے نظام کا موازنہ کیا اور آج تک اپنے اصولوں کو انہی بنیادوں پرسنوارتے آرہے ہیں۔ یہ سب اسی عرب کے صحرا سے اونٹ پالنے والے بدوؤں سے اللہ نے نکالااور پوری دنیا کو اس کے تابع کر دیا اور اقبال اس سے اگلے شعر میں مسلمانوں کی اس درویشانہ خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں کہ آدھی سے زیادہ دنیا پر حکومت کرنے کے باوجود فقر پر فخر کیا جاتا تھا۔
سماں الفقر و فخری کا رہا شانِ امارت میں
باب و رنگ و خال وخط چہ حاجت روئے زیبا را
اقبال نے پورے اسلاف کی تاریخ ہمارے سامنے اس نظم میں بیاں کر دی ہے۔ فرماتے ہیں کہ مسلمان ضرورت مند ڈھونڈتے تھے کس کو زکٰوۃ دیں اور کوئی ضرورت مند نہیں میسر آتا تھا کیوں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ :
دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مر جائے گا تو قیامت کے دن مجھ سے سوال ہوگا۔
اسی کو اپنے شعر میں اقبال کچھ یوں ڈھالتے ہیں:
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
پھر اقبال نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہیں اور فرماتے ہیں
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے؟
جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا
یعنی کہ اے نوجوانانِ مسلم!
تو اس دور کا تصور کرنے سے قاصر ہے، اقبال فرماتے ہیں کہ میں تجھے کیا کہوں کہ صحرا میں رہنے والوں نے دنیا فتح کی اور پھر دنیا کو ایک بہترین نظام حکومت دیا، دنیا کی حفاظت کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام سے اس جہاں کو آراستہ کیا مگر اقبال کہتے ہیں کہ میں تمہارے سامنے اس مکمل دور کی خوبیوں کے انبار لگا دوں مگر تم ابھی عشق کی اس بلندی تک نہیں پہنچے۔ فرماتے ہیں:
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیّل سے فزوں تر ہے وہ نظارا
اقبال اسی نظم میں آگے اس گمشدہ میراث کا ذکر کرتے ہیں
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریّا سے زمیں پرآسمان نے ہم کو دے مارا
اس شعر میں اقبال نے امت کے ان پستیوں میں گرنے کا ذکر کیا جس کی گہرائیوں میں ہم اس وقت موجود ہیں۔ ۔ پھر آخر میں اقبال کہتے ہیں:
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتاہے سیپارہ
مسلمانوں کی کتابوں کو کبھی جلا دیا گیا، کبھی دجلہ و فرات میں بہا دیا گیا اور جتنی اٹھا کے لے جا سکے۔ اٹھا لے گئے/ وہ نایاب کتابیں جو مسلمان محققین نے لکھی تھیں، مسلمان سائنس دانوں نے لکھی تھیں۔
یونانی اپنے علم پر بہت ناز کرتے تھے جب مسلمان اپنے علم کو لے کر وہاں پہنچے تو ان کی آنکھیں کھلیں۔ وہ ایک روشن دور کا آغاز تھا یورپ کے سب سے بڑے کتب خانے (لائبریری ) میں فقط پانچ ہزار کتابیں تھی جبکہ مسلمانوں کے کتب خانوں میں لاکھوں کتابیں ہوا کرتی تھیں۔ بابائے کیمیا نے سو سے زیادہ کتابیں لکھیں ان کی کتابوں کا لاطینی میں ترجمہ ہوا کسی نے ان کا نام لکھنا گوارا نہیں کیا۔ بوعلی سینا، محمد بن الزکریا الرازی اور وہ تمام بڑے نامور سائنس دان جنہوں نے قرآن اور سائنس کو اکٹھا کیا اور امت کو ایک مقام دیا، آج ان کی کتابیں جب یورپ میں دیکھنے کو ملتی ہیں تو دل پارہ پارہ ہو جاتا ہے اور جلتے پر تیل کا کام کرنے کوہم خود ہیں جو کہ وہ سب بھول کر انجانے راستے پر غیروں کے ہم سفر بنے کھڑے ہیں۔ اقبال نے اس نظم میں نوجوانوں کو یہی کہا ہے کہ اے نوجوانو! آؤ اسی رستے کی جانب جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ذکر کیا ہے، آؤ دوبارہ صفت سیل رواں چلیں اور اسی بلندی پر دوبارہ پہنچیں جہاں خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔
اقبال کی فکر خودی کے بارے میں اگر بیان کرنا شروع کردیں تو شائد الفاظ کم پڑ جائیں اور سیاہی ساتھ نا دے پائے، اقبال ایک ایسا آفتاب تھے کہ آج بھی کتنے ہی چاند ان کی اس روشنی کو رفلیکٹ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ANS 03
یعنی فن مصوری دراصل خاموش شاعری، اور شاعری ایک بولتی ہوئی مصوری ہے۔ شاعری دراصل ایک خداداد صلاحیت ہے۔ جس کی مدد سے شاعر اپنے تصورات کو ایک دلکش انداز میں پیش کرتا ہے۔ شاعری ایک رویے کا نام ہے۔ ہر شعر کہنے والا شائد شاعر نہ ہو اور بہت سے ایسے حساس اور دکھی انسانیت کا دل میں غم رکھنے والے لوگ شعر کہے بغیر بھی دراصل شاعر ہوتے ہیں۔ شاعر کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ مختصر الفاظ میں بہت بڑی بات کہہ دیتا ہے۔ مثلاً
علامہ اقبال کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اُس میں ہے آفاق
علامہ اقبال پچھلی صدی کے نہیں بلکہ انسانی تاریخ کے ایک بہت بڑے مفکر اور شاعر تھے۔ اُن کی عظمت کا اصل راز اس بات میں تھا کہ وہ عاشق رسول ص تھے۔ اُن کے کلام کی اصلی بنیاد قرآن کریم کی ہدایات اور نبی کریم ص کے فرمودات تھے۔
قول اور فعل کے تضادات کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ختم کرنے کے لیے علامہ اقبال فرماتے ہیں:
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے علاوہ، انگلینڈ اور جرمنی کے مختلف اداروں میں بھی تعلیم حاصل کی۔ اُن کو اُردو، فارسی، عربی اور انگلش زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔ اُن کی فارسی شاعری، اُردو شاعری سے بھی زیادہ گہری اور پُر اثر ہے۔ کئی لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جس نے علامہ اقبال کی فارسی شاعری کو نہیں پڑھا یا سمجھا وہ علامہ اقبال کی عظمت سے مکمل آشنا نہیں۔
علامہ اقبال صحیح معنوں میں اسلامی نظام کے حامی تھے، اور اُن کے خیال میں مذہب کے بغیر سلطنت کا تصور مکمل نہیں۔1907ء میں انہوں نے کہا تھا کہ انگریز قوم چرچ کو ریاست سے الگ کر کے غلطی کر رہی ہے۔ پھر 1931ء میں انہوں نے فرمایا کہ اگر مغرب بیسویں صدی کی ابتداء میں ایسا نہ کرتا تو شائد پہل جنگ عظیم جس میں لاکھوں انسانی جانیں تلف ہوئیں، شائد نہ لڑی جاتی، چونکہ مذہب کو ریاست سے الگ کر کے مغرب نے اخلاقیات کو خدا حافظ کہہ دیا، اس لیے اپنے معاشی مفادات اور توسیع پسندانہ پالیسی کو اپناتے ہوئے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں کئی ملین یہودیوں سمیت لاکھوں بے گناہ لوگوں کو تہ تیغ کر دیا۔
علامہ اقبال نے جوان نسل کے حوصلے بلند کرنے کے لیے فرمایا:
تو راہ نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلٰی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
پھر انہوں نے مسلمانوں کو اپنی محنت سے اپنا جہاں پیدا کرنے کی تلقین فرمائی اور کہا کہ محنت اور دل لگی سے دنیا کی ہر چیز کو حاصل کی جا سکتا ہے۔ جس کے لیے ہم اپنی دنیا کو اپنے ایمان، اعتقاد، تصورات اور اعمال سے خود پیدا کرتے ہیں۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں:
وہی جہاں ہے ترا جسے تو کرے پیدا
یہ سنگ دخشت نہیں جو تیری نگاہ میں ہیں
پھر علامہ اقبال نے انکساری کا درس بھی دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ زندگی میں شاہین یا عقاب تو ضرور بنیں، لیکن ہاتھوں سے افلاک کا دامن بالکل جدا نہ ہونے دیں۔ علامہ اقبال کہتے ہیں:
مانند سحر صحنِ گلستان میں قدم رکھ
آئے تہ پا گوہر شبنم تو نہ ٹوٹے
ہو کوہ دبیایاں سے ہم آغوش و لیکن
ہاتھوں سے ترے دامن افلاک نہ چھوٹے
علامہ اقبال نے بار بار یہ کہا کہ یہ زندگی اور موجودہ جہاں دائمی نہیں۔ اس لیے مومن کو اپنی دائمی زندگی کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔ چونکہ یہ زندگی تو ایک پل میں پانی کے بلبلے کی طرح فوراً ختم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ:
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کی میری ابتداء کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہاء کیا ہے
علامہ اقبال فرماتے تھے کہ انسان کی عظمت کا راز امارت یا توانگری میں پنہاں نہیں اور نہ ہی انسان کی افضلیت کے معیار کا اصلی پیمانہ اُس کے بڑے عہدے، عالی شان محل، بے پناہ جائیدادیں یا قیمتی پرائیویٹ جہاز اور کاریں ہیں۔ اصل بات تو فقیری اور قلندری ہے، جو روحانیت کا درس دیتی ہے اور یہ رتبہ تقویٰ اور کردار کی بلندی سے حاصل ہوتا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں:
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنا تو ہر ایک انسان کا فرض ہے۔ لیکن غفوروالرحیم کا یہ فرمان بھی ہے کہ ’’بندوں کے حقوق اللہ کے حقوق سے بھی زیادہ اہم ہیں‘‘ اور اسی چیز کو علامہ اقبال نے بڑی خوبصورتی سے ان الفاظ میں ادا کیا ہے:
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو، خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
آج کے دور میں پاکستان جس بدترین لعنت کا شکار ہے وہ رشوت خوری کی قابل نفرت اور مہلک مرض ہے۔ کہیں بھی کوئی کام رشوت کے بغیر کروانا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ یہ لعنت ایک پٹواری، پولیس کے سپاہی اور کسٹم کے سٹاف ممبر سے لے کر پاکستان کے سب سے بڑے عہدوں تک کینسر کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ رزق حلال ہی انسان کی دائمی زندگی میں اُس کی نجات کا باعث بنے گا۔ اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں کوزے کے اندر سمندر بند کر دیا ہے۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں:
اے طائر لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
بدقسمتی یہ ہے کہ اس دنیا کے اندر مال حرام کھانے والے، دوسرے کو دھوکہ دینے والے اور سرکاری خزانے کو لوٹنے والے، یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہر لحاظ سے کامیاب حکمرانی کر رہے ہیں۔ یہ نہ جانتے ہوئے کہ جس کو وہ اپنی کامیابی سمجھتے ہیں، اللہ کی نگاہ میں وہ اُن کا نہایت ناپسندیدہ فعل بھی ہو سکتا ہے۔ ایک فرانسیسی دانشور نے کہا تھا:
“You will have to wait until the evening to see how splendid the day has been”
اور اسی چیز کو علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں یوں ادا کیا ہے:
ممکن ہے کہ تو جس کو سمجھتا ہے بہاراں
اوروں کی نگاہوں میں وہ موسم ہو خزاں کا
علامہ اقبال یہ بھی فرماتے ہیں کہ ’’ہماری عارضی زندگی اور موجودہ دنیا دکھ اور غم سے عبارت ہے اور اس زندگی میں اللہ کے پاکیزہ، بااُصول اور باکردار بندے اپنی صاف گوئی، نیک نیتی اور حق پرستی کی وجہ سے جو تکلیفیں اُٹھاتے ہیں، اُن کو اللہ تعالٰی دائمی زندگی میں بہت زیادہ اپنے کرم اور رحم سے نوازتے ہیں۔ اسی لیے علامہ اقبال نے انسان کے دل کو آئینے سے تشبیح دیتے ہوئے فرمایا:
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
یا پھر اعلٰی کردار اور ایمان کی متاع کے حوالے سے وہ فرماتے ہیں:
بس یہی ہے ساقی متاع فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
ہم کئی دفعہ سوچتے ہیں کہ جن ممالک کے پاس تیل اور گیس کے کنویں نہیں یا جن افراد کے پاس زر اور دولت نہیں۔ وہ زوال پذیر ہو جاتے ہیں۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے۔ اُنہوں نے فرمایا:
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں
گر جہاں میں مرا جوہر آشکار ہوا
قلندری سے ہوا ہے تونگری سے نہیں
علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا، یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال کو اپنے لیے مشعل راہ مانتے تھے۔ اُنہوں نے علامہ کے خواب کو تعبیر میں بدل دیا۔ ابھی ہمیں اپنے پاکستان کی حفاظت کرنی ہے، جو ہم انشاء اللہ ضرور کریں گے، لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ ہمیں علامہ اقبال کے کلام کو نہ صرف سمجھنا ہو گا بلکہ اُن کے افکار کو عملی جامہ پہنانا ہو گا۔ علامہ اقبال بغیر کسی شک کے ایک بہت بڑے مدبر، عظیم شاعر، بہترین سیاستدان، دور رس سوچ والےStatesman اور سب سے بڑھ کے ایک اعلٰی ترین انسان تھے
ANS 04
اقبال کے کلام میں عشق بہت اہمیت کا حامل تصور ہے۔اقبال نے عشق کو وسیع معنوں میں استعمال کیا ہے۔ ان کے نزدیک یہ وہ پاکیزہ اور طاقتور جذبہ ہے جو انسان کو عظمت عطا کرتا ہے اور اسے اعلیٰ مقاصد کے حصول کی طرف مائل کرتا ہے۔ ان کے نزدیک عشق گرمی حیات کا موجب ہے اور اس سے کائنات میں رونق ہے۔ یہ ایک عالمگیر اور بیکراں جذبہ ہے۔
اسلم انصاری لکھتے ہیں:
’’خودی کے تصور کے بعد اقبال کی شاعری کا سب سے اہم تصور عشق ہے جس کی بے تابی و اضطراب ، سوزوگداز اور خلاقی انسان کو اپنی ذات کی وسعتوں اور زندگی کے برتر مقاصد سے آشنا کرتی ہے۔‘‘
اقبال کے نزدیک ہست و بود کی علت غائی عشق ہے۔ اسی سے نوائے زندگی میں زیرو بم ہے اور مٹی کی تصویروں میں اسی سے سوز دمبدم نظر آتا ہے۔
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم
عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دم بدم
اقبال کے لیے کائنات کی پیہم خلاقانہ آشکارائی عشق کی بدولت ہے۔ یہ ایک ایسا داعیہ روح ہے جس کی بدولت کائنات ہر لخطہ ارتقا پذیر ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق ایک ایسی قوت محرکہ (Driving force)کی حیثیت رکھتا ہے جو انسان کو منزل کے حصول کے لیے گامزن کرتا ہے اور اسے مقاصد آفرینی پر اکساتا ہے۔ یہ قوت محرکہ کاروان وجود کو ہر لخطہ نئی آن و شان سے ترقی کرنے کی لذت سے آشنا کرتی ہے۔ عشق انسان میں یہ یقین پیدا کرتا ہے کہ اس عالم زمان و مکاں سے ماورا بھی کئی جہاں ہیں۔ اقبال نے عشق کو عین وجود قرار دیا ہے۔اقبال کے خیال میں عشق ایک ایسا جذبہ ہے جو تمام کائنات میں کارفرما ہے۔ ان کے خیال میں محبت ہی کی بدولت کائنات میں زندگی کا ظہور عمل میں آیا۔
بانگِ درا کی ایک نظم ’’محبت‘‘ میں اقبال نے اسی خیال کو پیش کیا ہے۔ اس نظم میں موجود تصورِ عشق کے بارے میں ڈاکٹر عبدالمغنی یوں رقمطراز ہیں۔
’’یہ حُسن و عشق دونوں کا آفاقی تصور ہے جس میں نہ زوال کا سوال ہے نہ فراق و وصال کی کش مکش کا ، اس کا وصال بھی ایک فراق ہے اور فراق ایک وصال۔ اس تصور پر مبنی نہ تو حُسن کو زوال ہے نہ عشق کو، نہ تو یہ حُسن محدود ہے نہ عشق‘‘
اقبال کے خیال میں کائنات کے ذرے ذرے میں عشق کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کا اثر ہر شے سے ہویدا ہے۔ اقبال نے عشق کو حیات عالم کا آئین کہہ کر اس کی اہمیت واضح کی ہے:
عشق آئین حیات عالم است
امتزاج سالمات عالم است
اقبال کے خیال میں جب تک عشق نہ تھا اس گلستاں (دنیا) کا گل لالہ تمنا نہ ررکھتا تھا۔ یہاں کی نرگس طناز چشم نظارہ سے محروم تھی۔ یہ جہاں مے کشوں کی ہاوہو سے خالی تھا۔ مینا میں شراب تو تھی مگر کوئی پینے والا نہ تھا۔ برق سینا کو شوق کی بے زبانی کا شکوہ تھا کیونکہ وادی ایمن میں کوئی ارنیکہنے والا نہ تھا۔ عشق کی بدولت ہی ہست و بود کے تمام ہنگامے ہیں ورنہ کائنات کی اس بزم خموشاں میں کوئی شور و غوغا نہ تھا۔ زبورِ عجم کی ایک غزل میں اقبال نے اسی خیال کو نہایت دلکش پیرایے میں بیان کیا ہے۔
عشق از فریاد ما ہنگامہ ہا تعمیر کرد
ورنہ ایں بزم خموشاں ہیچ غوغاے نداشت
اقبال کے نزدیک عشق سوزومستی اور تڑپ کا نام ہے۔ اسی جذبے کی وجہ سے انسان کا ملیت حاصل کرتا ہے۔ بقول ڈاکٹر وزیر آغا :’’ان (اقبال )کے نزدیک عشق سوز و تب و تاب جاودانہ کے سوا کچھ اور نہیں۔ نیز عشق کا یہ سوز اور تڑپ’’مرد مومن‘‘ ہی میں اپنی انتہا کو پہنچتی ہے گویا مردِ مومن ہی کائنات کی تڑپ کا نمائندہ ہے ‘‘۔
اقبال کے خیال میں جذبہ عشق مادیت سے بے نیاز ہے۔ یہ فقیری اور شہنشاہی میں امتیاز روا نہیں رکھتا۔ یہ میدان کار زار میں کبھی زرہ پوش آتا ہے اور کبھی سازو سامان کے بغیر بھی معرکہ حق و باطل جاری رکھتا ہے۔ اقبال کی شاعری میں عشق مجازی سے زیادہ عشق حقیقی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ان کے خیال میں عشق کے بہت سے روپ ہیں ۔ عشق ان کے نزدیک دم جبرئیل بھی ہے اور دل مصطفیٰ بھی۔ یہ خدا کا رسول بھی ہے اور خدا کا کلام بھی۔یہ صہبائے خام بھی ہے اور کاس الکرام بھی۔ یہ فقیہہ حرم بھی ہے اور امیر جنود بھی۔ یہ کسی ایک مقام پر قناعت نہیں کرتا، اس کے ہزاروں مقامات ہیں۔
عشق دم جبرئیل، عشق دل مصطفیٰ
عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام
عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک
عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاس الکرام
عشق فقیہہ حرم، عشق امیر جنود
عشق ہے ابن السبیل، اس کے ہزاروں مقام
یہاں دراصل اقبال نے جذبہ عشق کی کونیاتی (Cosmological)، وجودیاتی (Ontological) اور غایتی (Teleological) معنویت کو اجاگر کیا ۔ ان کے نزدیک عشق کا مآخذ ع منبع انائے لامحدود (Infinite Ego) ہے ۔ ہیگل نے جدلیاتی عمل کو سراسر تعقلاتی بتایا ہے جب کہ اقبال کے نزدیک یہ اعجاز عشق ہے۔ خودی جو کہ اقبال کے فلسفے میں مرکزی تصور کی حیثیت رکھتی ہے دراصل عشق ہی کی ایک وجودی صور ت ہے ۔ یہ پوری کائنات میں ایک روح کی طرح سرایت کیے ہوئے ہے ۔
اقبال کے نزدیک عشق اگر مصلحت اندیش ہو تو خام ہے۔ عشق انسان کو بے خطر آتشِ نمرود میں کود جانے کا درس دیتا ہے۔ مصلحت اندیشی عقل محض کی صفت ہے جو حالات سے سمجھوتہ کرنے اور ہر حال میں مفاد کو پیش نظر رکھنے کا نام ہے۔ جبکہ عشق حالات کے مطابق ڈھلنے کی بجائے حالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ عقل محض عشق کے تقاضوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ عشق کی ایک گراں قدر صفت اس کا جذبہ قربانی ہے۔ یہ اگر ضرورت پڑے تو مفاد پرستی اور وقتی فائدے کو تیاگ دینے کا نام ہے۔
پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
اقبال کے خیال میں عقل انسان کو ظن و تخمین کی فضا سے باہر نکلنے نہیں دیتی۔ یہ اس جست (Leap)سے محروم رکھتی ہے جو عشق کا طرہ امتیاز ہے۔ یہ جست انسان کو فوراًمنزل مقصود تک پہنچنے میںمدد دیتی ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق جس آہ جگر گداز اور آئین جہانتابی کا حامل ہے عقل اس سے محروم ہے۔
عقلے کہ جہاں سوزد، یک جلوہ بیباکش
از عشق بیاموزد، آئین جہاں تابی
اقبال عشق کو عقل پر اس لیے ترجیح دیتے ہیں کیونکہ عقل اسباب و وجوہ کے چکر میںپڑی رہتی ہے جبکہ عشق میدان عمل میں اپنے جوہر دکھاتا ہے۔عشق قوتِ بازو پربھروسا کرتا ہے جبکہ عقل مکار ہے۔عقل کا سرمایہ خوف اور شک ہے جبکہ عشق اور یقین لازم و ملزوم ہیں۔ عقل کی تعمیر میں ویرانی مضمر ہے جبکہ عشق کی ویرانی میں تعمیر چھپی ہوئی ہے۔ عقل دنیا میںہوا کی طرح ارزاں ہے جبکہ عشق گراں مایہ ہے۔ عقل مفاد پرست ہے جبکہ عشق آزمائش پر یقین رکھتا ہے۔ عشق کا دارومدار اللہ کے فضل و کرم پر ہے۔ عقل کہتی ہے کہ خوش رہو ، آباد رہو، جبکہ عشق کہتا ہے کہ اللہ کا بندہ بنو اور غیر اللہ کی غلامی سے آزادہو جاؤ۔
عقل در پیچاک اسباب و علل
عشق چوگان باز میدان عمل
اقبال کے نزدیک خرد کے ذریعے عشق کی راہ طے کرنا ایسا ہی ہے جیسے چراغ لے کر آفتاب ڈھونڈنا۔ اقبال کہتے ہیں کہ عقل بھی اگرچہ آستاں یعنی حقیقت کی منزل سے دور نہیں مگر اس کی قسمت میں حضوری کی لذت نہیں ۔اقبال نے عشق کو عقل کامرشد کہا ہے۔ ان کے خیال میں عشق حقیقی کے بغیر مذہب بھی صرف تصورات کا ایک بتکدہ بن کر رہ جاتا ہے۔
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدہ تصورات
اقبال کے نزدیک عقل ذوق نگاہ تو رکھتی ہے یعنی خوب و ناخوب میں امتیاز کر سکتی ہے مگر یہ اس جرات رندانہ سے محروم ہے جو عشق کا اثاثہ ہے۔ اقبال عشق کو عقل سے برتر خیال کرتے ہیں۔ اس کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر یوسف حسین خان کے بقول:
’’اقبال عشق کو عقل کے مقابلے میں فضیلت دیتا ہے۔ اس واسطے کہ اس سے حقائق اشیاء کا مکمل علم اور بصیرت حاصل ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ انسانی زندگی میں جتنا اس کا اثر ہے، عقل کا اثر اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ زندگی کا ہنگامہ اس سے ہے۔ اگر دل بھی عقل کی طرح فرزانہ ہوتا تو جینے کا لطف باقی نہ رہتا ‘‘۔
اقبال کے نزدیک عشق کا جذبہ لا محدود وسعت کا حامل ہے اور اس کی کوئی انتہا نہیں۔ یہ زمانی اور مکانی ابعاد (Dimensions)سے ماورا ہے یعنی یہ لازمانی اور لا مکانی ہے۔ یہ ماہ و سال اور دیرو زود یعنی زماں اور نزد و دور یعنی مکاں کو خاطر میں نہیں لاتا۔
می نداند عشق سال و ماہ را
دیر و زود و نزد و دورِ راہ را
یہ بھی پڑھیں: اقبال ؒ کے آخری دو سال – میر افسر امان
اقبال کے خیال میں عشق وقت کی رفتار پر غالب آتا ہے۔ زمانے کی تیز رفتاری عشق پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ عشق کا تعلق پیمائشی وقت سے نہیںبلکہ وقت کے ایسے سلسلے سے ہے جسے ہم کوئی نام نہیں دے سکتے۔
تندو سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود ایک سیل ہے،سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیںجن کا نہیں کوئی نام
اقبال کہتے ہیں کہ مجھے عشق پر ناز ہے کیونکہ اس کے وجود کو مٹ جانے کا غم نہیں کیونکہ یہ زمان و مکان کی زناری سے بچا ہوا ہے۔
عشق را نازم کہ بودش را غم نابودنے
کفر او زنار دار حاضر و موجودنے
اقبال عشق کی وسعت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
ایں گنبد مینائی، ایں پستی و بالائی
در شد بدل عشق، با ایں ہمہ پہنائی
اقبال کے نزدیک محبت کا مقصد جسمانی اور حسیاتی حظ حاصل کرنا نہیں بلکہ روح کا ترفع ہے۔ان کا جذبہ عشق ماورائی ارفعیت (Transcendental Sublimity)سے مملو ہے جو بہت کم شعرا کے حصے میں آئی ہے ۔لہذا ان کی شاعری میں ایسے عناصر نہ ہونے کے برابر ہیں جو جسمانی یا جنسی ہوس (Lust)کی نشاندہی کرتے ہوں۔ حتی کہ ان کے ہاں روایتی محبوب کا تصو ربھی ناپید ہے۔ ان کے ہاں محبوب کے اعضاء اور جسمانی خدوخال کاذکرنہیں ملتا ۔ وہ جسمانی خوبصورتی کی بجائے روحانی خوبصورتی (Spiritual Beauty) پر یقین رکھتے ہیں ۔ ان کا نظریہ عشق پاکیزہ تصورات و احساسات کا حامل ہے۔ ان کے نزدیک جسمانی خوبصورتی (Physical beauty)فنا ہو جانے والی ہے۔ ان کی شاعری جنسیت اور ہوس پرستی سے پاک ہے۔ وہ عشق اور ہوسنا کی میں یوں فرق کرتے ہیں۔
؎در عشق و ہوسناکی دانی کہ تفاوت چیست
آں تیشہ فرہادے، ایں حیلہ پرویزے
عشق طینت میں فرومایہ نہیں مثل ہوس
پر شہباز سے ممکن نہیں پرواز مگس
اقبال نے عشق کے سفر میں عیشِ منزل کو حرام قرار دیا ہے۔اقبال کہتے ہیں کہ عشق کی رمز ارباب ہوس سے نہیںکہنی چاہیے کیونکہ یہ شعلے کی تب و تاب خس سے کہنے کے مترادف ہے۔
رمزِ عشق تو بہ ارباب ہوس نتوان گفت
سخن ازتاب و تب شعلہ بہ خس نتواں گفت
اقبال کا عشق آبرومندانہ جذبات و احساسات کا حامل ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہوس انسان کو بے توقیر کر دیتی ہے ۔وہ کوچہ جاناں سے بھی ٓعزت وآبروکے ساتھ ا وراپنا دامن صاف بچا کر لے جانے کو مقدم سمجھتے ہیںڈاکٹر عبدالمغنی کے بقول :’’بلاشبہ اقبال کا عشق ہوس نہیں، ان کی محبت لذت کے لیے نہیں اور وہ نہ تو کوئے بتاں میں آوارگی پسند کرتے ہیں اور نہ کسی کے کوچے سے بے آبرو ہو کر نکلنے پر فخر کرتے ہیں ‘‘۔اقبال عشق کی آبرو مندی چاہتے ہیں اسی لیے وہ اس کے لیے عقل خداداد کی پیروی کو ضروری گردانتے ہیں :
عشق اب پیروی عقل خداداد کرے
آبرو کوچہ جاناں میں نہ برباد کرے
اقبال کی شاعری میں عشقِ مجازی کی کیفیات کا بیان بہت کم ہے۔ بانگ درا کی شاعری میں کہیں کہیں یہ کیفیات نظر آتی ہیں۔وہ عشق کو زیادہ تر تجریدی رنگ میں پیش کرتے ہیں اور مجازی عشق اور اس کے جنسی پہلوؤں سے گریز کی شعوری کوشش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں۔’’اکثر صوفیا اور حکما کی طرح اقبال کی زندگی میں بھی عشق مجازی کی کمی محسوس ہوتی ہے ان کی عالم شباب کی شاعری میں کہیں کہیں اس کا ثبوت ملتا ہے۔ مگر یہ آتی جاتی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ ان کا یہ شبابی عشق مصری کی مکھی کی طرح ہے، شہد کی مکھی نہیں جس کے پائوں اس میں دھنس جائیں ‘‘۔ؔاقبال کا عشق اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں اسے معشوق کی طلب نہیں رہتی بلکہ عشق بذات خود مقصود بن کر رہ جاتا ہے۔ اقبال نے اردو کی عشقیہ شاعری کونئی ماورائیت سے آشنا کیا ہے۔ ان سے پہلے کی اردو عشقیہ شاعری میں وہ ترفع اور علویت نظر نہیں آتی جو اقبال کی پر عظمت اور ماورائیت کی حامل شاعری میں پائی جاتی ہے۔ عشقیہ شاعری کے لیے ضروری نہیں کہ وہ روایتی وصل و ہجر پر مشتمل کیفیات کی شاعری ہو۔ اس حوالے سے فراق گور کھپوری لکھتے ہیں :’’عشقیہ شاعری کی داستان محض عارض و کاکل ،قرب و دوری، جوروکرم، وصل و ہجر، ذکر غم یا ذکر محبوب تک محدود رہے یہ ضروری نہیں بلکہ پر عظمت عشقیہ شاعری نسبتوں کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ بلند پایہ عشقیہ شاعری محض عشقیہ شاعری نہیں ہوتی‘‘۔