Malik Accademy Provides you AIOU Course Code 5612-2 Solved Assignment Autumn 2021 So keep Visiting Malik Accademy for More Assignments.
ANS 01
تصوف کا لفظ روحانیت، ترکِ دنیا اور اللہ سے قربت کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ کچھ کو اس سے اتفاق ہے اور کچھ کو اختلاف۔ جو لوگ اسے شریعت کے مطابق سمجھتے ہیں وہ اس سے اتفاق رکھتے ہیں لیکن کچھ لوگوں کے نزدیک یہ بدعت ہے وہ اسکی تکفیر کرتے ہیں۔ دراصل مسئلہ صرف توقیر اور تکفیر کا ہے۔ اوراسی لیے مغرب میں تصوف کو متنازع موضوع سمجھا جاتا ہے۔ ایک فرانسیسی اسلامی سکالر کے مطابق تصوف، اسلام کو خود میں داخل کر لینے کا نام ہے۔ لوئی ماسینوس کے مطابق تلاوتِ قرآن اور مراقبہ سے تصوف پیدا ہوا یعنی قرآن کے الفاظ میں چھپے معنی تلاش کرنا تصوف ہے۔ تصوف کے آغاز کے بارے میں کچھ نظریہ دان زندگی کو تین پہلوؤںمیں تقسیم کرتے ہیں یعنی جسمانی، عقلی، روحانی اور یہ تیسرا پہلو ہی ہے کہ جس پر اختصاص حاصل کرنے والے کو صوفی کہا جاتا ہے۔ خلفاء راشدین کے بعد مسلم حکمرانوں کی حالت اچھی نہ رہی تب علماء نے سادہ گزر بسر پر زور دینا شروع کیا اور خاص طور پر نو مسلمین کو سمجھایا۔ ان علماء میں حسن البصری اور ابو ہاشم شامل تھے۔ یہ علماء دنیا داری سے دور رہتے تھے۔ بعد میں آنے والوں نے سب سے پہلے ابو ہاشم کو صوفی کا لقب دیا۔
ایک عام مسلمان اور صوفی میں فرق ایمان اور معرفت کا ہے، جس طرح ایمان فقط مان لینے کا نام ہے وہ چاہے اللہ کی ذات و صفات ہوں یادیگر حقائق لیکن ایک صوفی و عارف جس بات کو مانتا ہے اسے قلب کی نگاہ سے دیکھتا ہے، پھر اسے مشاہدہ سے اطمنانِ قلب نصیب ہوتا ہے اور اس کا ایمان معرفت میں بدل جاتا ہے۔
صوفی تصوف کی نگاہ میں وہ شخص ہے جو’’فانی ز خویش وبائی بحق ‘ ‘ہو۔ اپنی قومیتِ ذاتیہ سے فانی اور حق تعالی کی قومیت سے باقی ہو۔ جنید اور تستری کا قول ہے صوفیا وہ لوگ ہیں جو قائم بحق ہیں اس طرح کہ انہیں خدا اور رسول کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ کہا گیا ہے کہ تصوف کا اول علم ہے، اوسط عمل ہے اور اس کا آخر موہبتِ من اللہ۔ جنید فرماتے ہیں تصوف ترکِ اختیار ہے۔ شبلی کا قول ہے کہ تصوف ’’حفظِ حواس اورمراعاتِ انفاس‘‘ کا نام ہے۔ صوفی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ’’صوفی وہ ہے جوکدورت سے پاک، فکر سے حلو، خلق سے کٹ کے حق سے متصل ہو گیا ہو، جس کے نزدیک سونا اور ڈھیلا، ریشم اور بال سب برابر ہیں۔‘‘ ابو الحسن کا قول ہے کہ تصوف تمام حظوظِ نفسانی کا چھوڑنا ہے۔
تصوف میں عشق کو وہی مقام حاصل ہے جو جسم میں روح کو۔ دراصل تصوف عشقِ الہی کی انتہا کا نام ہے۔ عشق وہ بیہوشی ہے کہ اس کا گرفتار تب تک ہوش میں نہیں آتا جب تک محبوب کو دیکھ نہ لے۔ اور جب محبوب کا شہود حاصل ہو جائے تو ایک نئی بیہوشی طاری ہو جاتی ہے جس کا بیان ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح صوفی کو ظاہری نگاہ سے پہچاننا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ عشقِ الہی کا گرفتار ہوتا ہے۔ ازلی حقیقت بس ایک ہے اور وہ ہے اللہ کی ذات جو ازل سے ہے اور ہمیشہ رہے گی، جس کی نہ انتہا ہے نہ ابتدا۔ باقی اس دنیا کی تمام چیزیں چند لمحوں کی مہمان ہیں۔ اس لیے جنہیں عرفان ِالہی حاصل ہو جاتا ہے انہیں اس دنیا کی طلب نہیں رہتی۔ وہ اندر دھنش کے رنگوں سے مسحور نہیں ہوتے وہی تصوف کا مقام حاصل کرتے ہیں۔
شاعری میں تصوف کو بہت زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے۔ صوفیا کبھی بھی اپنا علم بلا واسطہ ظاہر نہیں کرتے لیکن بہت سے صوفیا نے شاعری کے ذریعے اللہ کی ذات، قرآن کے معنی اور اللہ سے اپنے عشق کو بیان کیا ہے۔ صوفیا نے اپنی بات کو شاعری کی شکل میں اس لیے بھی بیان کیا کہ اس طرح بات بدلتی نہیں ہے کیونکہ شعر کو ہمیشہ لفظ بہ لفظ نقل کیا جاتا ہے۔ ادب جتنا اپنے نفس کو صورت پزیر کرنے میں کامیاب ہوتا ہے اتنا ہی اعلی متصور ہوتا ہے۔ صوفی جب اپنے نفس مین جھانک کر آگہی کو اشعار کا روپ دیتا ہے تو تخلیق کے عمل سے گزر کر ایسا کرپاتا ہے۔ صوفی کا اپنی زندگی کے ساتھ ایسا رشتہ ہوتا ہے کہ وہ زندگی کی گہماگہمی شامل بھی ہوتا ہے اور خارج بھی، یہی حال شاعر کا ہوتا ہے اس لیے صوفی کے لیے یہ آسان ہوتا ہے کہ وہ اپنے خیالات کو شعر کی شکل دے کر اپنا مدعا بیان کرے۔ شاعری پر بھی تصوف کا بہت گہرا اثر پڑا۔ شاعری نے تصوف کی تعلیمات میں رازداری کی لہر سے ہی ’’اخفائے راز‘‘ کا گُر اور رمزیت سیکھی۔ بہت سے شعراء ایسے گزرے ہیں جنہیں عموماََصوفی نہیں سمجھا جاتا تھالیکن انہوں نے صوفیانہ شاعری کی، دراصل وہ خدا کی ذات سے معرفت حاصل کر چکے تھا لیکن جیسا کہ صوفی کی تعریف میں کہا جاتا ہے کہ اُسے عام آنکھ نہیں پہچان سکتی۔ تصوف میں جناب غوث الاعظم کا بہت اونچا مقام ہے، انہوں نے شاعری کی صورت میں اپنے علم کو بیان کیا۔ آپکا ایک شعر ہے:
؎ وقتِ تجلی خدا د ر رقص آمدہ کوہِ طور
اندر دل سنگینِ سنگ از پیدا شد طرب
یعنی تجلیِ خدا کے وقت کوہِ طور پر رقص کی کیفیت طاری ہو گئی اور یوں سخت دل پتھر کے اندر بھی طرب اور مستی پیدا ہو گئی۔ یہ اثر تھا جلوہِ حق کی کیفیت کا۔
اسی طرح اکبر الہ آبادی کی شاعری میں بھی تصوف کی جھلک ملتی ہے:
؎ بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے
تُو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
اکبر نے خدا کی ذات میں موجود ایک راز کا ذکر کیا ہے کہ اللہ کو دل والے پہچان سکتے ہیں لیکن عام آنکھ نہیں پہچان سکتی۔ اس شعر سے یہ لگتا ہے کہ اکبر کو بھی اللہ کی ذات کو جاننے کا موقع اللہ کی طرف سے دیا گیااور اکبر نے یہ جانا کہ اللہ کو جاننا بہت مشکل ہے اور پھر اسے دل میں رکھا جاتا ہے زبان پر نہیں لایا جا سکتا۔
بہرام جی کی شاعری میں بھی تصوف کے ذرات ملتے ہیں، ٓپ کا ایک شعر ہے:
؎ یار کو ہم نے برملا دیکھا
آشکار کہیں چھپا دیکھا
صوفیا کہ دو گروہ ہیں ایک وہ جو وحدت الوجود کا قائل ہے اور دوسرا وحدت الشہود کا۔ زیادہ صوفیا کا جھکاؤ وحدت الوجود کی طرف رہا، جن صوفیا نے شاعری کی اُن میں مومن خاں مومن کے علاوہ سب ہی کسی نہ کسی ہد تک وحدت الوجود کے قائل تھا، صرف مومن نے اس نظریہ کی سختی سے تردید کی۔ مومن کہتے ہیں:
؎ مومن ہےؔ اگرچہ سب اسی کا یہ ظہور
توحید وجودی کا نہ کرنا مذکور
یعنی کہ بنائے ہیں خدا نے بندے
بندے کو خدا بنائے کس کا مقصود
جب کہ خوجہ میر درد جنہیں تصوف کا سب سے بڑا اردو شاعر گردانا جاتا ہے دوسرے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں:
؎ جگ میں آ کر اِدھر اُدھر دیکھا
تُو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
بہت سے صوفی شعراء دونوں نظریات کو صحیح مانتے ہیں جیسا کہ سید جلال الدین توفیق لکھتے ہیں:
؎ جدھر دیکھو انہی کا ظاہر و باطن میں ہے جلوہ
کبھی وہ دل میں رہتے ہیں کبھی چشمِ تماشا میں
ان تمام شعراء میں مرزا اسد اللہ خاں غالب کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ حالی ؔکہتے ہیں: ’’لٹریری قابلیت کے لحاظ سے مرزا(غالب) جیسا جامع حثیت آدمی فیضی ؔاور خسروؔ کے بعد آج تک نہیں آیا۔ ‘‘ غالب کے کلام میں فلسفہ، حکمت، تصوف اورفکر سب کچھ ملتا ہے۔ غالب کی شخصیت ہمہ گیر تھی۔ شاعروں کی محفل میں سندِصدارت پر نظر آتے، صوفیوں کی صحبت میں شاہدو مشہود کے راز بیان کرتے، مذہب کے حقائق کو اشعار میں بیان کرنے میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔ اور انہیں اس بات کا دراک بھی تھا آپ فرماتے ہیں:
؎ بر آورید گر ایں جابو سخند انے
غریبِ شہر سخن ہائے گفتنی دارد
یعنی اگر شہر میں کوئی سخن ور ہے تو اسے میرے سامنے لاؤ کیونکہ مجھے بھی کچھ کہنا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’میں شاعر بننے پر آمادہ نہ تھا لیکن فنِ شاعری نے مجھ سے خود استدعا کی کہ مجھے اپنا لیجیے‘‘۔ کسی قدیم شاعر کی زمیں یا خیال پر شعر لکھا جاتا تو فرماتے کی میں نے توارد نہیں کی بلکہ اس شاعر نے ازل میں ہی میری متاع چرا لی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ غالب زمانے کی نہ قدری سے تنگ آ کر قنوتیت پسند بن گئے تھے، آخر ایک وقت ایسا آ گیا کہ آپ کو زمیں و آسمان بھی جام و اژگوں نظر آتے تھے پھر بات یہاں تک پہنچی کی خدا اور عشق کی بات کرتے ہوے بھی بادہ و ساغر کہے بغیر نہ رہے۔
اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ عمر خیامؔ، حافظؔ اور غالبؔ مئے معرفت سے سرشار ہیں لیکن تینوں شراب نوشی میں اتنے مشہور ہوئے کہ عام لوگ انہیں صوفی نہیں بلکہ مئے خوار ہی سمجھتے ہیں۔ اسی لیے ان کے بہت سے اشعار جن میں تصوف کو گوندھا گیا ہے لوگوں نے محمل قرار دیا۔ جبکہ غالب حضرت کالے صاحبؒ جیسے بڑے بزرگ کے مکان میں رہتے رہے اور ان سے سیکھتے رہے۔ حالیؔ لکھتے ہیں کہ ’’علمِ تصوف میں جس کی نسبت کہا گیا ہے کہ ’برائے شرگفتن خوب است‘ اس سے مرزا غالب کو خاص نسبت تھی۔ ‘‘آزادؔلکھتے ہیں’’ غالب مولانا فخرالدین دہلوی کے خاندان کے بیعت تھے‘‘۔ لیکن اس سب کے باوجود غالب کو خالص صوفی شاعر نہیں کہا جا سکتا، وہ معرفت رکھتے تھے لیکن شاعری میں تصوف کم جگہ پر دیکھنے کو ملتا ہے، اسکی دو وجوہات تھیں ایک تو فارسی شاعری میں تصوف کواہمیت حاصل تھی اس لیے غالب تصوف کی طرف ٖ مائل ہوئے دوسرا طبیعت بھی غم و الم اور بغاوت کی طرف مائل تھی۔ لیکن جب جب آپ نے شاعری میں صوفیانہ انداز اختیار کیا آپ نے کمال درجے تک عشق اور خدا کی ذات کو بیان کیا۔ غالب نے اس شعر میں خدا کی خدائی کی حقیقت کو چند لفظوں میں بیان کرنے کی سعی کی ہے جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے:
؎ نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
غالب بھی واحدت الوجود کے ماننے والے تھے، انکا کہنا تھا سب کچھ خدا کی ذات کا حصہ ہے انسان، جن، کائنات، مئہ، پتھر سب خدا کی ذات کا حصہ ہیں، اور وہ اسی بات پر ایمان رکھتے ہوئے کہتے ہیں:
؎ جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا! کیا ہے؟
غالب خدا کے ایک ہونے پر اپنے یقین کو بھی صوفیانہ انداز میں بیان کرتے ہیں، اور ایسے خوب بیان کرتے ہیں کہ کوئی کافر بھی سنے تو پکار اٹھے کہ ہاں خدا ایک ہے۔ غالب کہتے ہیں:
؎ اُسے کون دیکھ سکتا ہے یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی، توکہیں دوچار ہوتا
غالب کے دیوان کا آغازاس شعر سے ہوتا ہے:
؎ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِتصویر کا
بعض ناقدروں نے اس شعر کو کیفِ شراب کا ماحاصل سمجھ کر بے معنی قرار دیا جب کہ اگر صرف استعارہ’ کاغذی پیرہن‘ کو سمجھ لیا جائے تو شعر سمجھ آ سکتا ہے۔ ایران میں دادخواہ کاغذی پیرہن پہن کر بادشاہ کے سامنے فریاد پیش کرتے تھے، غالب کہہ رہے ہیں کہ ہر پیرہن کاغذی دکھائی دیتا ہے تو بادشاہ کون ہے؟ در اصل اس شعر مین بھی غالب وحدت الوجود کا ذکر کر رہے ہیں۔
صوفی کی یک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ بے خود ہوتا ہے، بے نیاز ہوتا ہے، غالب چونکہ باقائدہ یا خالص صوفی نہ تھا اس لئے وہ بے خودی کی کیفیت محسوس کرنے کے لیے مئہ نوشی کرتے، ان کے لیے یہ خدا کی ذات سے رابطے کا ذریعہ تھا۔ غالب ہر وقت اس کیفیت میں رہنا چاہتے تھے اور اپنے ایک شعر میں اس بات کا ذکر یوں کرتے ہیں:
؎ مئے سے غرض نشاط ہے، کس رو سیاہ کو
یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
غالب خود اعتراف کر تے ہیں کہ وہ عرفان رکھتے ہیں، وہ اپنی شاعری میں کئی بار اس بات کا ذکر کرتے پائے جاتے ہیں کہ وہ علم اور فقر کے حامل ہیں۔ جیسا کہ اس شعر میں غالب اسی بات کو بیان کر رہے ہیں:
؎ غالبؔ! ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغولِ حق ہوں بندگئی بوترابؑ میں
غالب بہت بڑے خدا پرست اور حق شناس تھے، انہوں نے خدا کو دیکھا، جانا، اپنی فکر کے مطابق سمجھا اور پھر اپنے اشعار میں اپنے سننے، پڑھنے والوں کو بھی ان حقیقتوں سے روشناس کروایا۔ غالب خدا کو اپنے اردگرد پاتے ہیں وہ کہتے ہیں:
؎ ذرے ذرے میں ہے خدائی دیکھو
ہر بت میں شانِ کبریائی دیکھو
اعدا د تمام مختلف ہیں باہم
ہر ایک میں ہے مگر اکائی دیکھو
غالب خدا کی ذات کو ہر شے پہ حاوی پاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے ہر شے کو ہر ہر پہلو سے دیکھا، پرکھا اور سوچا لیکن آخر میں نتیجہ ایک ہی نکلا وہ سب خدا کی ذات تھی ہر جانب اللہ، اللہ اور بس اللہ کا نور ہے۔
ANS 02
جہاں زندگی کے رموز و نکات ، تہذیب و ثقافت سے منسلک ہیں لیکن ادب کسی وقت یا دور کا پابند نہیں ہوتا تاہم اس کا عکس ادب میں ضرور نظر آتا ہے ۔ وہیں چند تخلیق کار اپنے وقت کے ممتاز و ممیز ہوتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ بھی قرار پاتے ہیں ان میں سے ایک عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ (1796-1869ء ) بھی ہیں ۔
غالبؔ کے عہد میں ہندوستان کی غیر مستحکم حکومت مغلیہ کا شیرازہ بکھر رہا تھا جس میں ہند ایرانی اثرات سے مملو تمدن آخری سانسیں لے رہا تھا ۔ دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی کی عملداری بڑھتی جارہی تھی گویا زندگی اور تمدنی انقلاب کے نئے نئے تقاضوں سے ہندوستانی عوام نبرد آزما تھے ۔ ان مایوس کن حالات میں غالبؔ نے اپنے کلام میں تخیل کی بلندی اور اپنے منفرد اور اچھوتے طرز بیان سے اردو کو ایک نئی قسم کی شاعری اور فلسفہ حیات سے روشناس کروایا ، دراصل غالب کی شاعری کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے متعدد بار غائر مطالعہ کے بعد ہی سمجھ میں آتی ہے اور مرزا غالبؔ کا کلام دنیائے ادب کی وحدت کا جزو لاینفک بن گیا ہے عمومی طور پر غالبؔ ایک مشکل پسند اور فکری شاعر سمجھے جاتے ہیں آپ بھی دیکھ لیجئے :
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
ہو گرمئی نشاط تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیب گلشن ناآفریدہ ہوں
دام شنیدن ، گرمئی نشاط تصور اور گلشن ناآفریدہ جیسے نامانوس تراکیب کی بابت غالبؔ کی شاعری مشکل سمجھی گئی ۔ اس طرح نادر تشبیہات اور حشر خیز خیالات کو عہد غالبؔ میں اسی زمرہ میں رکھا گیا تھا ۔
تھا میں گلدشتہ احباب کی بندش کی گیاہ
متفرق ہوئے میرے رفقاء میرے بعد
الغرض غالبؔ کی شاعری کے تجزیہ نگاروں نے غالبؔ کی مشکل پسندی اور ان کے خیالات کی انفرادیت کو ان کی خوش پرستی ، انفرادیت پسندی سے تعبیر کیا جاتا رہا ، لیکن یہ مشکل پسندی دراصل جذبات و احساسات کی تہہ داری ہے ۔ ان کے گرد و پیش کے خیالات ، جبر و اختیار ، واقعات کی کشاکش اور ان کی زندگی کی تلخیاں انہیں فلسفہ زندگی کی جمالیات اور معیارات کا دوسرے ہم عصر شعراء سے الگ الگ شناخت عطا کی جو مشکل پسندی (Thinking poetry) ہے جو غور و فکر کرنے والے ادب کی بنیاد گزار بنی ہے ۔ غالبؔ کی ایک اور فکری عنصر تصوف کو ملاحظہ فرمایئے :
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ میں ہوتا تو کیا ہوتا
مندرجہ بالا شعر عبارت کی دشوار ترکیب ، استعارات کی پیچیدگی ، نقطہ نظر ، فلسفہ ادب اور زاویہ نگاہ کی دین ہے ۔ اسی لئے تو وہ خود کہتے ہیں:
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور
غالبؔ نے اپنی شاعری کو فکری اور فلسفیانہ رنگ روپ دیا ہے ۔ گویا تہذیب و ثقافت کی ایک طویل ارتقائی سفر کو اپنی شاعری میں سمودیا ہے ۔ شاعری بنیادی طور پر جذبات پر مبنی ہوتی ہے لیکن غالبؔ کی شاعری میں خیالات اور جذبات کے ساتھ فکر بھی رواں دواں نظر آتی ہے ۔ اس فکری عنصر نے متعدد نتائج پیدا کئے ہیں ۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہوگئیں
غالبؔ کے مطابق لالہ و گل اور کیسی کیسی حسین و جمیل صورتیں پویند خاک ہوئیں جو اپنے وقت میں بے نظیر تھیں یہ تصور غالبؔ کی فکری حقیقت نگاری سے عبارت ہے :
دل میں شوق وصل دیار یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
سیاہ خانے کو روشن و منور کرنے والی شمع سحر ہونے تک جلتی رہتی ہے ۔ خدا معلوم اس وقفہ میں اس پر کیا گذرتی ہوگی ایک اور خیال میں غالبؔ محبوبہ کے ہونٹوں کی تصویرکشی اس طرح کرتے ہیں۔
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کے رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
غالبؔ اس شعر میں محبوب کی گالیوں کو میٹھی بولی سے تعبیر کررہے ہیں مزید محبوب کی بے وفائی سے متعلق کہتے ہیں ۔
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
بہرحال غالبؔ کا دور سیاسی لحاظ سے ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار تھا لہذا اس پرآشوب زمانہ کی تلخ و پریشان کن حالات ان کی اقتصادی زندگی کو تہس نہس کررکھا تھا ،غالبؔ کی چیختی زندگی کی تصاویر ان کی شاعری میں محسوس ہوتی ہے ۔
نقش فریادی ہے کس شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
کرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت غالبؔ
تم کو بہ مہری یارانِ وطن یاد نہیں
شکوہ سنجی کی طبیعت غالبؔ کی ہرگز نہیں تھی لیکن ہم عصروں کی چشمک ، زمانہ کی ناقدر دانی ، حکومت کا زوال ، وظیفہ کی مسدودی نے غالبؔ کی زندگی کو بدمزہ کردیا ۔ انسانی نفسیاتی کا تقاضہ بھی یہی ہیکہ انسان جن حالات کا شکار ہوتا ہے اس کے اثرات اس کی شخصیت پر ظاہر ہوتے لگتے ہیں
غالبؔ کا جو عملی فلسفہ حیات رہا ہے اس میں غم روزگار بھی شامل ہے ۔ بے روزگاری زندگی کے لئے ایک ناسور کی طرح تکلیف دہ شئے ہے جس سے غالبؔ دوچار تھے ، زندگی کی اسی ویرانی کو دو مختلف مضامین میں دیکھئے:
اُؑگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالبؔ
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کر گھر یاد آیا
غالبؔ کے اشعار میں زندگی کی شکست و ریخت کے فکری و حقیقی عناصر کے ساتھ ان میں حاوی عنصر ان کا فلسفیانہ انداز بیان ہے اس تاثر کو انہوں نے ظاہری اور باطنی معانی میں مخفی رکھا تاکہ قاری اپنی بساط اور مشاہدے کے مطابق الفاظ اور معانی کی تہہ کھولتا چلا جائے :
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے
گر خامشی سے فائدہ اخضائے حال ہے
خوش ہوں کہ مری بات سمجھنا محال ہے
وقت زندگی کے فیصلے صادر کرتا ہے اس حقیقت کو غالبؔ اپنی شاعری میں ندرت فکر اور جدت بیان کے ساتھ اور موضوعات کی انفرادیت ، روزمرہ اور محاورہ کے استعمال اور منفرد مفکرانہ طریقہ اظہار کی بابت غالبؔ کی شاعری سمجھنے اور سمجھانے کی چیز بن گئی ہے :
بیان کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی
شب مدہو جو پنبہ رکھدیں دیواروں کے روزن میں
میرے خیال میں غالبؔ کے کلام کا مطالعہ اسلوب اور فکر کی بنیاد پر کیا جانا چاہئے مشکل اور آسان کا تصور محض بے جا ہے ۔ آپ کا تصور احساسات ، جذبات اور تجربات کا ردعمل ہے ۔ اسی لئے غالبؔ کی شاعری کی فہم مشاہدات اور حقائق کا فہم کا تقاضہ کرتی ہے
ANS 03
مرزا غالب اردو کے ایک شاہکار شاعر مانے جاتے ہیں ان کا شمار اردو ادب کے ایسے بڑے شعراء میں ہوتا ہے جن کی شہرت و عظمت رہتی دنیا تک آفاق کی بلندیوں پر رہے گا ان کی اس شہرت کا راز صرف ان کا حسن و بیان ہی نہیں ہے بلکہ وہ زندگی میں پیش ہونے والے انسانی حقائق اور اس کی نفسیات کو بھی بہت گہرائی سے سمجھتے ہیں اور پھر اسے اپنے حسن اور بیان کے ذریعہ لوگوں کے سامنے پیش کردیتے ہیں غالب نہ کہ اردو بلکہ فارسی کے بھی شاعر تھے اور ان کو اپنی فارسی وانی پر بڑا ہی ناز تھا مرزا غالب ایک زبردست فلسفی اور اعلی پایہ درجے کے فنکار بھی تھے ان کے یہاں خیالات میں تازگی اور شگفتگی اور مضمون کا تنوع پایا جاتا ہے اور انہوں نے اپنی اسی فکر کے بدولت نرم و نازک جذبات میں ڈوب کر انسان کے غموں کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا انہوں نے زمانے کے مختلف نشیب و فراز دیکھے اور اپنی زندگی کے انہیں تجربات کو اپنے اشعار کا جامہ پہنا کر زمانے کے سامنے رکھا…….
مرزا اسد اللہ خاں غالب 27 دسمبر 1797 کو آگرہ میں مرزا عبد اللہ بیگ کے یہاں پیدا ہوئے 1802 میں مرزا غالب کے والد عبد اللہ بیگ خاں راج گڑھ کی جنگ میں گولی لگنے سے اللہ کو پیارے ہوگیے اور 13 سال کی عمر میں ہی نواب بخش خاں معروف کی گیارہ سالہ صاحبزادی امراؤ بیگم سے مرزا غالب کی شادی ہوگئ… 1813 مزا غالب دہلی منتقل ہوگیے اور ان کی زندگی کا بیشتر حصہ دہلی میں ہی گزرا جہاں انہوں نے اجڑتی ہوئی دلی کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا اور دوسری طرف اپنے کلکتہ کے سفر نے انہیں سائنس کے کرشموں اور نئی تہذیب کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع دیا اور نئے نئے راستوں پر گامزن ہوگئے.. مرزا غالب کے کلام میں جو فکرو فلسفہ، انسانی دوستی، اخوت و محبت کے تجربات پائے جاتے ہیں وہ ان کے کچھ اشعار میں اس طرح دیکھے جا سکتے ہیں
قطرہ میں دجلہ دیکھائی نہ دے اور جزو میں کُل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدہ بینا
*نہ ہوا*
*ہستی کہ مت فریب میں آجا یو اسد*
*عالم تمام حلقہ دامِ خیال ہے*
*سبزہ گل کہاں سے آئے ہیں*
*ابر کیا چیز یے ہوا کیا ہے*
*جب کہ تجھ بن نہیں کوئی* *موجود*
*پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے*
غالب نے ہمیشہ ایک الگ پہ راہ اختیار کی وہ چاہے ادب ہو یا کہ زندگی…. تو اس طرح وہ اپنی شاعری میں بھی وہ منفرد ہی رہے اور اسی منفرد انداز کی شاعری کرکے اپنی ایک الگ پہچان بنائ.. غالب نے فارسی اور دونوں میں طبع آزمائی کی اور دیگر اصناف سخن میں بھی کہیں پیچھے نظر نہیں آئے وہ چاہے قصیدہ ہو، مثنوی، نعت، تاریخ، خطوط، غزل وغیرہ…… سب میں ہی ان کا جلوہ دیکھنے کو ملتا ہے اردو شاعری ہو یا کہ اردو نثر غالب کا مقام دونوں ہی جگہ بہت بلند رہا ابتدا میں غالب کا پورا رجحان فارسی کی طرف ہی رہا اور انہیں اپنے فارسی شاعری پر بڑا ناز بھی تھا جیسے کہ اس شعر میں کہہ رہے ہیں
*فارسی دیکھو جو چاہو نقش ہائے رنگ رنگ*
*چھوڑو اردو کو کہ یہ ہے بے رنگ میرا کلام*
لیکن انہیں جو عالمی شہرت ملی وہ اپنی اردو شاعری کی بدولت ہی حاصل ہوئی غالب اپنے فارسی کلام سے اس قدر شغف رکھتے تھے اور ہمیشہ یہی چاہتے تھے کہ ان کو ان کے فارسی کلام کی بدولت ہی جانا جائے اور اسی سے ان کو شہرت ملے اور ان کی قابلیت کا اندازہ ان کے فارسی کلام سے کیا جائے… لیکن ایسا نہیں ہے تو ان کو اس بات کا بے حد افسوس تھا کہ لوگ فارسی کلام سے اس قدر بیگانہ ہیں کہ ان کے کلام کی قدر کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے لیکن جس اردو زبان کو وی اس قابل نہیں سمجھتے تھے کہ اس میں اعلی شاعری تخلیق ہوسکے اسی اردو زبان نے ان کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا.. غالب اپنی اردو شاعری صرف اپنے احباب کی فرمائش پر ہی کہہ دیا کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے ابتدائی کلام پر فارسی کا غلبہ ہے…..مرزا غالب نے بیدل کی روش کو اختیار کیا یعنی جو طرز فارسی شاعری میں بیدل نے ایجاد کی اس کو اردو شاعری میں غالب نے اپنایا وہ خود ہی اپنے اس شعر میں اس بات کو اعتراف بھی کررہے ہیں….
*طرزِ بیدل میں ریختہ لکھنا*
*اسد اللہ خاں قیامت ہے*
غالب کا ابتدائی کلام پیچیدہ ہونے کی یہی وجہ رہی کہ مشکل پسندی ان کی فطرت میں شامل تھی اسی لیے ان کا ابتدائی کلام اتنی شہرت نہیں حاصل کرسکا اور اپنی اس مشکل پسندی کا ان کو خود احساس بھی تھا تب ہی تو اپنے اس شعر میں اپنی اس بات کو کچھ اس طرح کہہ رہے ہیں…
*گر خامشی ہے فائدہ اخفائی حال ہے*
*خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے*
غالب کے ارے میں عبادت بریلوی لکھتے ہیں……..
*غالب زبان اور لہجے کے چابک دستِ فنکار ہیں اردو روز مرّہ اور محاورے کو اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ ان کی سادگی دل میں اتر جاتی ہے*
عبد الرحمن بجنوری لکھتے ہیں….
*ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں وید مقدس اور دیوان غالب*
آل احمد سرور کہتے ہیں……
*غالب سے پہلے اردو شاعری دل والوں کی دنیا تھی*
“شعر فہمی اور کتاب فہمی میں ایک متثنی آدمی تھے کیسا ہی مشکل مضمون ہو وہ ایک سرسری نظر میں اس کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے”.. (یادگار غالب از حالی)
“لٹریری قابلیت کے لحاظ سے مرزا جیسا جامع حیثیت آدمی خسرو اور فیض کے بعد آج تک ہندوستان کی خاک سے نہیں اٹھا.. ( یادگار غالب از حالی)
عبد الرحمن بجنوری ایک جگہ اور لکھتے ہیں……
*دونوں (غالب اور گوئٹے)اقلیم سخن کے شہنشاہ ہیں تہذیب و تمدن، تعلیم و تربیت، فطرت گوئ کوئی زندگی کا ایسا پہلو نہیں جس پر دونوں کا اثر کا اثر نہ پڑا ہو*……… *شاعری کا دونوں پر خاتمہ ہوگیا*
اور اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مرزا غالب کی حیثیت اردو شاعری میں ایک درخشاں ستارے کی سی ہے انہوں نے اردو شاعری میں اپنے ہنر کے بدولت ایک نئی ہی روح پھونک دی اور نئے نئے موضوعات بخشے کہ اردو شاعری ایک انقلاب برپا کردیا…. غالب انسانی زندگی میں پیش آنے والے مسائل اور معاملات کا گہرا شعور رکھتے تھے اور زندگی کے اہم پہلوؤں پر غور و فکر کرتے ہیں اور انسان کو اس کی عظمت کا بھرپور احساس دلاتے ہیں اور ان کو اپنے پیروں پر کھڑا رہنے کا درس دیتے ہیں کائنات کی صداقتیں جو ان کی اپنی ذات میں منکشف ہوئیں انہیں وہ بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ شعری لباس پہناتے چلے گیے غالب اپنے فکری سفر میں وحدت الوجود کے نظریہ کے قائل ہوجاتے ہیں اور بے اختیار ازلی و ابدی وجودیت کی گواہی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں اس شعر میں اس کی مثال بہت اچھے سے دیکھی جاسکتی ہے….
*نہ تھا کچھ تو خدا تھا نہ ہوتا تو خدا ہوتا*
*ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا*
ایک جگہ اس تصور کی شکل اس طرح بیان کرتے نظر آتے ہیں…
*اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہیں*
*حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب کا*
مرزا غالب نے اپنی زندگی فلسفیانہ موشگافیوں میں ہی صرف کردی ایک طرف غالب کو امام و جنوں بھی کہا جاسکتا ہے تو دوسری طرف ان کی دھڑکنوں میں زلف و رخسار کی چاہتیں بھی نظر آتی ہیں وہ محبتوں کے جذبات میں سرشار رہے یہ شعر اس کی اچھی تصویر کشی کررہا ہے کہ……
*مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس*
*زلف سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے*
اور اسی طرح اس شعر میں مرزا غالب کسی پری زاد کی یادوں میں کھوتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں اور دل میں یہ خواہش رکھتے ہیں کہ…
*جی ڈھونڈتا یے پھر وہی فرصت کے رات دن*
*بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے*
اور غالب کے یہ چند اشعار ان کی محبت اور چھبن ایک بالکل نئے ہی انداز میں پیش کرتے نظر آرہے ہیں،،،،،،
**پھر جگر کھودنے لگا ناخن*
*آمد فصل لالہ زاری ہے*
*ہورہا ہے جہان میں اندھیر*
*زلف کی پھر سرشتہ داری ہے*
*دل ہوائے خرام ناز سے پھر*
*محشرستان بے قراری ہے*
*پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں*
*پھر وہی زندگی ہماری ہے*
پر عمومی طور مرزا غالب کی شاعری ایک مشکل پسندی اور فکری شاعری ہی سمجھی جاتی ہے ان اشعار میں دیکھ لیججے…
*آگئی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے*
*مدعا عنقا یے اپنی عالمِ تقریر کا*
*ہوگر مئ نشاط تصور سے نغمہ سنج*
*میں عندلیب گلشن نا آفریدہ ہوں*
گلشن ناآفریدہ ،دام شنیدن، گرمئ نشاط تصور جیسے تراکیب کی بابت غالب کی شاعری کو مشکل سمجھا گیا لیکن غالب کی شاعری میں خیالات اور جذبات کے ساتھ فکر بھی رواں دواں نظر آتی ہے جیسا کی ان اشعار دے اندازہ لگایا جاسکتا ہے..
*سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں*
*خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہوگئیں*
غالب کہتے ہیں کہ کیسی کیسی حسین و جمیل صورتیں بھی پابند خاک ہوگئیں ہیں جو اپنے وقت میں بے نظیر ہوا کرتی تھیں…. اسی طرح کچھ ایسے اشعار پیش خدمت ہیں جس میں فکری حقیقت نگاری ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے….
*دل میں شوق وصل دیار یار تک باقی نہیں*
*آگ ایسی اس گھر میں لگی کہ جو تھا جل گیا*
*غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج*
*شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک*
اور ایک جگہ اپنے محبوب کے ہونٹوں کی تصویر کشی کچھ اس طرح کرتے دیکھے جاسکتے ہیں..
*کتنے شیریں ہیں تیرے لب کے رقیب*
*گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہوا*
غالب اپنے اس شعر میں محبوب کی گالیوں تک کو میٹھی بولیوں سے تشبیہ دے رہے ہیں اوت اب محبوب کی بے وفائی کو کیسے اس شعر میں بیان کررہے ہیں..
*یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں*
*غمزہ و عشوہ ادا کیا ہے*
مرزا غالب پر شہر آشوب زمانہ کی تلخیاں کو بہت قریب سے دیکھا جاسکتا ہے جس نے ان کی زندگی پر بہت اثرات معین کیے جو ان کی شاعری میں چیختی زندگی کی تصاویر دیکھاتی ہیں…
*نقش فریادی ہے کس شوخیء تحریر کا*
*کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا*
انسان کی نفسیات کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ انسان جن حالات کا شکار ہو اس کے اثرات اس کی شخصیت میں بھی نظر آنے لگتے ہیں غالب کے ان اشعار سے کچھ ایسا ہی جھلک رہا ہے…
*کیا وہ نمرود کی خدائی تھی*
*بندگی سے میرا بھلا نہ ہوا*
*زندگی اپنی جب اس دور سے گزری غالب*
*ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے*
ANS 04
غالبؔ نے اردو غزل گوئی میں اپنا الگ مقام بنایا وہ دوسروں کی راہ پر چلنے سے کتراتے تھے۔ ابتداء میں فارسی میں شاعری کرتے رہے۔ بعد میں اردو شاعری کی۔ غالب کا اردو دیوان مختصر ہے۔ لیکن اسے عالمی طور پر مقبولیت حاصل ہوئی۔ موضوعات اور انداز بیان میں جدت‘ شوخی ‘ظرافت اور دیگر زبان و بیان کی خوبیاں انہیں اردو کا ایک منفرد شاعر بناتی ہیں۔ غالب ؔ نے بغیر القاب و آداب استعمال کئے آپسی گفتگو کی طرح خط لکھے جو بہت مشہور ہوئے۔ مجموعی طورپر غالب نے اردو شاعری کو نئی فکر عطا کی اور آج بھی ان کی شاعری سے نئے مفاہیم تلاش کئے جارہے ہیں۔ غالبؔ کا انتقال دہلی میں ہوا اور وہ درگاہ حضرت نظام الدین محبوب الٰہی کے احاطہ میں دفن ہیں۔
غالبؔ کی شاعری کی خصوصیات:
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
غالب کے بارے میں عبادت بریلوی لکھتے ہیں، ’’غالب زبان اور لہجے کے چابک دست فنکار ہیں۔ اردو روزمرہ اور محاورے کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس کی سادگی دل میں اتر جاتی ہے۔‘‘عبدالرحمن بجنوری لکھتے ہیں کہ، ’’ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں ’’وید مقدس‘‘ اور ’’دیوان غالب‘‘۔‘‘
اردو شاعری میں مرزا غالب کی حیثیت ایک ررخشاں ستارے کی سی ہے۔ انہوں نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اسے نئے نئے موضوعات بخشے اور اس میں ایک انقلابی لہر دوڑا دی۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات جا بجا ملتے ہیں۔ غالب ایک فلسفی ذہن کے مالک تھے۔ انہوں نے زندگی کو اپنے طور پر سمجھنے کی بھر پور کوشش کی اور ان کے تخیل کی بلندی اور شوخی فکرکا راز اس میں ہے کہ وہ انسانی زندگیکے نشیب و فراز کوشدت سے محسوس کرتے ہیں۔
غالب انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ اس کے بنیادی معاملات و مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں۔ اس کی ان گنت گتھیوں کو سلجھا دیتے ہیں۔ انسان کو اس کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں اس کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھاتے ہیں۔ اور نظام کائنات میں اس کونئے آسمانوں پر اڑاتے ہیں۔ غالب کی شاعری اس اعتبار سے بہت بلند ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ ان کی شاعر ی کے انہیں عناصر نے اْن کو عظمت سے ہمکنار کیا ہے۔ لیکن جس طرح ان کی شاعری میں ان سب کا اظہار و ابلاغ ہوا ہے۔ وہ بھی اس کو عظیم بنانے میں برابر کے شریک ہیں۔ غالب کی شاعری کا اثرحواس پر شدت سے ہوتا ہے وہ ان میں غیر شعوری طور پرایک ارتعاش کی سی کیفیت پیدا کرتی ہے اور اسی ارتعاش کی وجہ سے اس کے پڑھنے اور سننے والے کے ذہن پر اس قسم کی تصویریں ابھرتی ہیں۔ ان کے موضوع میں جووسعتیں اور گہرائیاں ہیں اس کا عکس ان کے اظہار و ابلاغ میں بھی نظرآتا ہے۔ ان گنت عناصر کے امتزاج سے اس کی تشکیل ہوتی ہے۔
- غالب کی شاعری کی ایک نمایاں خصوصیت ان کا منطقی اور استدلالی انداز بیان ہے بقول پروفیسر اسلوب احمد انصاری: ’’یعنی غالب صرف جذبات کا تجزیہ ہی نہیں کرتے بلکہ ان میں باہمی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ محبت ان کے لیے کوئی ایسا جذبہ نہیں جو فطری طریقے سے دلکش محاکات میں ڈھل جائے۔ بلکہ یہ ایک گرم تیز رو ہے جو پوری شخصیت کے اندر انقلاب پیدا کردیتی ہے۔ غالب صرف اشاروں سے کام نہیں لیتے بلکہ اپنے نرم و لطیف، احساسات و کیفیات کا تجزیہ کرتے اور ان پر استدلال کرتے ہیں۔ ‘‘
غالب کے اس اندازِبیان کو سمجھنے کے لیے یہ اشعار ملاحظہ ہوں کہ استدلال کا یہ انداز کس طرح شاعر کے جذبات و احساسات کی معنویت میں اضافہ کرتا ہے۔
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
قول محال کا استعمال:غالب نے قول محال کے استعمال سے بھی اپنی شاعری میں حسن و خوبی پیدا کی ہے۔ قول محال سے مراد یہ ہے کہ کسی حقیقت کا اظہار اسطرح کیا جائے کہ بظاہر مفہوم عام رائے کے الٹ معلوم ہو مگر غور کریں تو صحیح مفہوم واضح ہو۔ قول محال دراصل ایک طرف ذہنی ریاضت ہے۔ اس سے ایک طرف اگر شاعر کی قوت ِفکر کا انحصار ہوتا ہے تو دوسر ی طرف قار ی کو بھی ذہن و دماغ پر زور دینا پڑتا ہے۔ اس سے شاعر لطیف حقائق کی طرف اشارہ ہی نہیں کرتا بلکہ حیرت و استعجاب کی خوبصورت کیفیات بھی پیدا کرتا ہے۔ اس سلسلے میں غالب کے اشعار دیکھیں :
ملنا تیر اگر نہیں آساں تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
تشکک پسندی:
غالب کی شاعری میں تشکک پسندی کا پہلو بہت اہم ہے۔ جو بحیثیت مجموعی غالب کی شاعری کے رگ و پے میں سرایت کئے ہوئے ہے۔ اس کی ایک وجہ غالب کا فلسفیانہ مزاج ہے۔جبکہ دوسری وجہ غالب کاماحول ہے۔غالب نے جس دور میں آنکھ کھولی وہ ایک ہنگامی دور تھا۔ ایک طرف پرانی تہذیب مٹ رہی تھی اور اس کی جگہ جدید تہذیب اور تعلیم اپنی جڑیں مضبوط کررہی تھی۔ یوں انتشار اور آویزش کے اس دور میں اْن کی تشکک پسندی کو مزید تقویت ملی۔
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کر یں گے کہ خدا رکھتے تھے
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھاہے
معانی دار پہلو:حالی نے بڑے زور و شور کے ساتھ غالب کی شاعری کی اس خصوصیت کا ذکر کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس میں معانی کی مختلف سطحیں موجود ہیں۔ غالب کے بہت سے اشعار ایسے ہیں۔ جن کی فلسفیانہ، سیاسی اور شخصی تفسیر ہم کر بیک وقت کر سکتے ہیں۔ ایسے اشعار ان ترشے ہوئے ہیروں کی مانند ہیں جن کی آب وتاب اور خیرگی سے ہر زاویہ نگاہ سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک غالب کی کئی شرحیں لکھی جا چکی ہیں اور لکھی جا رہی ہیں۔
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
رمز و ایمائیت:
غالب نے اپنی شاعری میں رمز و ایمائیت سے بھی حسن پیدا کیا ہے۔ انہوں نے زندگی کی بڑی بڑی حقیقتوں اور گہرے مطالب کو رمز و ایما کے پیرائے میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ انہوں نے اردو غزل کی روایت میں تصوف نے جو رمز و ایمائیت پیدا کی اسے اپنے لیے شمع راہ بنایا۔ یوں انہوں نے سیاسی او ر تہذیبی، معاشرتی موضوعات کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا اور انفرادی رنگ کے پردے میں اجتماعی تجربات کی ترجمانی کی۔ اس طرح سے رمزیت اور ایمائیت کا رنگ ان کی شاعری پر غالب نظرآتا ہے۔
دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ تو پیغام زبانی اور ہے
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
لطافت خیال اور نکتہ آفرینی:
غالب کی شاعری میں نکتہ آفرینی پائی جاتی ہے غالب عام روش سے ہٹ کر چلنا پسند کرتے تھے۔ شاعری میں بھی الگ روش پر چلنا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے لفظی سے زیادہ معنو ی نکتہ آفرینی پر زور دیا۔ اس طرح وہ مومن سے ممتاز اور برتر ہیں۔ ان کی نکتہ آفرینی سلاست، گہرائی اور معنویت سے پر ہے۔ اس میدان میں غالب نے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے اس کی وضاحت اْن کے درج ذیل اشعار سے ہوتی ہے۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
زندگی کی محرومیاں:
غالب کی ذاتی بھی تلخیوں اور محرمیوں کی زنجیر ہے۔ بچپن میں باپ کی موت، چچا کی پرورش، اْن کی شفقت سے محرومی، تیرہ سال کی ناپختہ عمر میں شادی کا بندھن، بیوی کے مزاج کا شدید اختلاف، قرضوں کا بوجھ۔ ان سب نے غالب کو زمانے کی قدرشناسی کا شاکی بنا دیا۔
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے
طنز و مزاح شوخی وظرافت:شوخی و ظرافت غالب کی شخصیت کا خاصہ ہے۔عملی زندگی میں وہ خوش باش انسان تھے۔ اسی لیے حالی انھیں حیوان ِ ظریف کہتے ہیں۔ انتہائی کٹھن حالات میں بھی وہ زندہ دلی کا دامن نہیں چھوڑتے۔انہیں زمانے نے نجانے کتنے دکھ دیئے لیکن غالب پھر بھی ہنسے جاتے ہیں۔ ان کی ظرافت میں محض شوخی ہی کام نہیں کر رہی، جس طرح غالب کی شخصیت پہلو دار شخصیت ہے اسی طرح غالب کی ظرافت کی بھی متعدد سطحیں ہیں۔ ان کی شاعری میں طنز و طرافت کے اعلی نمونے ملتے ہیں۔ غالب کے کچھ طنزیہ اشعار ملاحظہ ہوں :
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
زندہ دلی اور خوش طبعی:
غالب کی شاعر ی میں طنز یہ اشعار کے ساتھ ساتھ شوخی اور خوشدلی کا پہلو بھی بڑا نمایاں ہے۔ چنانچہ ان کے ہاں ایسے اشعار بھی بہت ہیں جنہیں خالص مزاح کا نمونہ کہا جاسکتا ہے۔ اصل میں غالب زندگی کی چھوٹی چھوٹی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتے تھے۔ اگرچہ وہ زندگی کی تلخیوں سے آگاہہیں لیکن انہیں زندگی سے والہانہ لگائو بھی ہے۔ غالب ایک فلسفی شاعر تھے۔ انہوں نے زندگی کو سمجھنے کی کوشش کی اور پھر اپنے انکشافات کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کر دیا۔ غالب کے کچھ مزاح سے پھرپور اشعار ملاحظہ ہوں :
در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا
جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا
کہاں مے خانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
فارسی زبان کے اثرات: غالب کو فارسی زبان پر بڑا عبور حاصل تھا۔ اس لیے ان کی شاعری میں فارسی زبان کے اثرات زیادہ ہیں۔ خود فارسی شاعری کے بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ اور فارسی کو اردو سے زیادہ اہمیت دیتے تھے۔چنانچہ فارسی زبان کے اثر سے ان کی زبان میں شیرینی حلاوت اور شگفتگی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ انہوں نے فارسی الفاظ استعمال کرکے اور ان کی ترکیبیں تراش کر نہ صرف اردو زبان کے دامن کو وسیع کیا بلکہ اپنی شاعری میں بھی ایک نکھار اور رعنائی پیدا کر لی۔یہ اشعار ملاحظہ ہوں :
یا د تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں لیکن
اب نقش و نگار ِ طاق نسیاں ہوگئیں
بس ہجوم ناامیدی خاک میں مل جائے گی
یہ جو اک لذت ہماری سعی لاحاصل میں ہے
سادہ انداز بیان:مشکل الفا ظ و تراکیب کے ساتھ ساتھ غالب کے ہاں آسان زبان بھی موجود ہے۔غالب نے پیچیدہ مسائل کے اظہار میں عموماً فارسی ترکیبوں سے کام لیا ہے اور سنجیدہ مضامین کے لیے الفاظ کا انتخاب بھی اسی مناسبت سے کیا ہے۔ لیکن سیدھے سادے اور ہلکے پھلکے مضامین کو غالب نے فارسی کا سہار ا لیے بغیر رواں دواں اور سلیس اردو میں پیش کیا ہے۔ زبان کی سادگی ان اشعار کی معنوی قدرو قیمت پر کوئی بڑا اثر نہیں ڈالتی بلکہ ان کے حسن میں اضافہ کرتی ہے۔ کیونکہ یہ سادگی شعری تجربے سے ہم آہنگ ہے۔ اس سلسلے میں یہ اشعار ملاحظہ ہوں :
میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
جدت ادا:غالب ذہنی اور طبعی اعتبار سے انفرادیت پسند تھے۔ کسی کی تقلید کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ وبائے عام میں بھی مرنا نہیں چاہتے تھے۔ غالب کی یہی جدت ادا ان کی شاعری میں نئے نئے گھل کھلاتی ہے۔ مرزا سے پہلے تمام شعراء کا طریقہ شعر گوئی یہ رہا کہ وہ قدیم خیالات میں کچھ ترمیم کرکے پیش کر دیتے تھے۔ لیکن غالب کے ہاں ایسا نہیں۔ اْن کی جدت طبع اور انفرادیت پسندی ہمیشہ نئے نئے خیال ڈھونڈ نے پر مجبور کرتی رہی۔ چنانچہ اْن کی شاعری میں ہمیں رنگا رنگی اور بوقلمونی محسوس ہوتی ہے۔ اگر کبھی مرزا نے کسی قدیم خیال کو ادا بھی کیا ہے تو اس انداز میں کہ شانِ استادی کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
تصوف:غالب کوئی باقاعدہ صوفی شاعر نہ تھے اور نہ اْن کو تصوف سے دلچسپی تھی لیکن پھر بھی ان کی شاعری میں بعض مقامات پر تصوف کے عناصر ملتے ہیں جس کی بنیادی وجہ فارسی شاعری میں تصوف کی روایت کی موجودگی ہے اس کے علاوہ اس دور کے حالات بھی تصوف کے لیے خاصطور پر سازگار تھے۔ طبیعتیں بھی غم و الم اور فرار کی طرف مائل تھیں۔ لیکن غالب نے تصوف کو محض رسمی طور پر ہی قبول کیا۔
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیاہوتا
غالب کا تصور عشق
غالب کے ہاں حسن و عشق کے تصورات اگرچہ وہی ہیں جو صدیوں سے اردو اور فارسی شاعری میں اظہار پاتے رہے ہیں۔ تاہم غالب کی فطری جدت پسندی نے ان کو صرف انہی موضوعات تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے ذاتی تجربات و محسوسات کی روشنی میں حسن و عشق کے بارے میں انہوں نے اپنی انفرادیت قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
ANS 05
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
تِرے وعدے پر جِئے ہم، تو یہ جان، جُھوٹ جانا
کہ خوشی سے مرنہ جاتے، اگراعتبار ہوتا
تِری نازُکی سے جانا کہ بندھا تھا عہدِ بُودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا، اگراستوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نِیمکش کو
یہ خلِش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہےکہ، بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہوکہ، پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا
غم اگرچہ جاں گُسل ہے، پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے، شبِ غم بُری بلا ہے
مجھے کیا بُرا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا
ہوئے مرکے ہم جو رُسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بُو بھی ہوتی توکہیں دوچار ہوتا
یہ مسائلِ تصّوف، یہ ترا بیان، غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا
يعني ہم نے جو يہ کہا کہ فقط وعدہ وصل سن کے ہم مرنے سے بچ گئے تو ہم نے جھوٹ جانا دوسرا احتمال يہ ہے کہ تيرا وعدہ سن کر جو ہم جيے تو اس کا يہ سبب تھا کہ ہم نے اُسے جھوٹا وعدہ خيال کيا اور جان منادي ہے -’ جو ‘ کا واۆوزنسےساقطہوگيااوريہدرستہےبلکہفصيحہےليکناُسکےساقطہوجانےسےدوجسميںپيداہو گئيں اور عيب تنافر پيدا ہو گيا ليکن خوبي مضمون کہ ايسي باتوں کا کوئي خيال نہيں کرتا – تير نيم کش وہ جسے چھوڑتے وقت کمان دار نے کمان کو پورا نہ کھينچا ہو اور اسي سبب سے وہ پار نہ ہوسکا -يعني جس طرح دل ميں غم چھپا ہوا ہے اگر اسي طرح شرار بن کر پتھر ميں يہ پوشيدہ ہوتا تو اُس ميں سے بھي لہو ٹپکتا ، حاصل يہ کہ غم کا اثر يہ ہے کہ دل و جگر لہو کر ديتا ہے ، پتھر کا جگر بھي ہو تو وہ بھي لہو ہو جائے -’ کيا ہے ‘ ميں ضمير مستقر ہے مرجع اس کا شبِ غم ہے جو دوسرے جملہ ميں ہے کہ اگر اس شعر ميں اضمار قبل الذکر اور ضمير کو ستتر نہ ليں بلکہ ’ ہے ‘ کا فاعل شبِ غم کو کہيں تو لطف سجع جاتا ہے تاہم خوبي اس شعر کي حدِ تحسين سے باہر ہے -اس مقطع کي شرح لکھنا ضرور نہيں بہت صاف ہے ليکن يہاں يہ نکتہ ضرور سمجھنا چاہئے کہ خبر سے انشاء ميں زيادہ مزہ ہوتا ہے پہلا مصرع اگر اس طرح ہوتا کہ غالب تيري زبان سے اسرارِ تصوف نکلتے ہيں الخ تو يہ شعر جملہ خبريہ ہوتا ، مصنف کي شوقي طبع نے خبر کے پہلو کو چھوڑکر اسي مضمون کو تعجب کے پيرائے ميں ادا کيا اور اب يہ شعر سارا جملہ انشائيہ ہے –