Malik Accademy Provides you AIOU Course Code 5612-1 Solved Assignment Autumn 2021. So keep Visiting Malik Accademy for More Assignments.
ANS 01
مرزا غالب کا نام اسد اللہ بیگ خاں تھا۔ باپ کا نام عبداللہ بیگ تھا ۔ آپ دسمبر 1797ء میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالب بچپن ہی میں یتیم ہو گئے تھے ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی لیکن آٹھ سال کی عمر میں ان کے چچا بھی فوت ہو گئے۔ نواب احمد بخش خاں نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا۔ 1810ء میں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھائی مرزا الہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراءبیگم سے ہو گئی شادی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔
شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ گئے اور مقروض ہو گئے۔ اس دوران میں انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ور قرض کا بوجھ مزید بڑھنے لگا۔ آخر مالی پریشانیوں سے مجبور ہو کر غالب نے قلعہ کی ملازمت اختیار کر لی اور 1850ء میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر الملک نظام جنگ کا خطاب عطا فرمایا اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کر دیا اور 50 روپے ماہور مرزا کا وظیفہ مقرر ہوا۔
غدر کے بعد مرزا کی سرکاری پنشن بھی بند ہو گئی ۔ چنانچہ انقلاب 1857ء کے بعد مرزا نے نواب یوسف علی خاں والی رامپور کو امداد کے لیے لکھا انہوں نے سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا جو مرزا کو تادم حیات ملتا رہا۔ کثرت شراب نوشی کی بدولت ان کی صحت بالکل تباہ ہو گئی مرنے سے پہلے بے ہوشی طاری رہی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869ء کو انتقال فرمایا۔
سرسید نے 1855 میں اکبر اعظم کے زمانے کی مشہور تصنیف ’’آئین اکبری‘‘ کی تصحیح کرکے اسے دوبارہ شائع کیا۔ مرزا غالب نے اس پر فارسی میں ایک منظوم تقریظ (تعارف) لکھی ۔ اس میں انہو ں نے سر سید کو سمجھایا کہ ’’مردہ پرورن مبارک کارِنیست‘‘ یعنی مردہ پرستی اچھا شغل نہیں بلکہ انہیں انگریزوں سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح فطرت کی طاقتوں کو مسخرکرکے اپنے اجداد سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ انہوں نے اس پوری تقریظ میں انگریزوں کی ثقافت کی تعریف میں کچھ نہیں کہا بلکہ ان کی سائنسی دریافتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مختلف مثالوں سے یہ بتایا ہے کہ یہی ان کی ترقی کا راز ہے۔ غالب نے ایک ایسے پہلو سے مسلمانوں کی رہنمائی کی تھی ، جو اگر مسلمان اختیار کرلیتے تو آج دنیا کی عظیم ترین قوتوں میں ان کا شمار ہوتا۔مگر بدقسمتی سے لوگوں نے شاعری میں ان کے کمالات اور نثر پر ان کے احسانات کو تو لیا ،مگر قومی معاملات میں ان کی رہنمائی کو نظر انداز کردیا۔
دہلی کے جن نامور لوگوں کی تقریظیں آثارالصنادید کے آخر میں درج ہیں انہوں نے آئینِ اکبری پر بھی نظم یا نثر میں تقریظیں لکھی تھیں مگر آئین کے آخر میں صرف مولانا صہبائی کی تقریظ چھپی ہے ۔ مرزا غالب کی تقریظ جو ایک چھوٹی سی فارسی مثنوی ہے وہ کلیاتِ غالب میں موجود ہے مگر آئینِ اکبری میں سرسید نے اس کو قصدا ً نہیں چھپوایا۔ اس تقریظ میں مرزا نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ابوالفضل کی کتاب اس قابل نہ تھی کہ اس کی تصحیح میں اس قدر کوشش کی جائے۔
سر سید کہتے تھے کہ
“جب میں مرادآباد میں تھا، اس وقت مرزا صاحب، نواب یوسف علی خاں مرحوم سے ملنے کو رام پور گئے تھے۔ ان کے جانے کی تو مجھے خبر نہیں ہوئی مگر جب دلی کو واپس جاتے تھے ، میں نے سنا کہ وہ مرادآباد میں سرائے میں آکر ٹھہرے ہیں ۔ میں فوراً سرائے میں پہنچا اور مرزا صاحب کو مع اسباب اور تمام ہم راہیوں کے اپنے مکان پر لے آیا۔”
ظاہرا جب سے کہ سر سید نے تقریظ کے چھاپنے سے انکار کیا تھا وہ مرزا سے اور مرزا ان سے نہیں ملے تھے اور دونوں کو حجاب دامن گیر ہو گیا تھا اور اسی لئے مرزا نے مرادآباد میں آنے کی ان کو اطلاع نہیں دی تھی۔ الغرض جب مرزا سرائے سے سرسید کے مکان پر پہنچے اور پالکی سے اُترے تو ایک بوتل ان کےساتھ تھی انہوں نے اس کو مکان میں لا کر ایسے موقع پر رکھ دیا جہاں ہر ایک آتے جاتے کی نگاہ پڑتی تھی ۔ سر سید نے کسی وقت اس کو وہاں سے اُٹھا کر اسباب کی کوٹھڑی میں رکھ دیا ۔ مرزا نے جب بوتل کو وہاں نہ پایا توبہت گھبرائے، سرسید نے کہا:
” آپ خاطر جمع رکھئے ، میں نے اس کو بہت احتیاط سے رکھ دیا ہے۔”
مرزا صاحب نے کہا، ” بھئی مجھے دکھا دو ، تم نے کہاں رکھی ہے؟” انہوں نے کوٹھڑی میں لے جا کر بوتل دکھا دی ۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے بوتل اُٹھا کر دیکھی اور مسکرا کر کہنے لگے کہ، ” بھئی ! اس میں تو کچھ خیانت ہوئی ہے۔ سچ بتاؤ، کس نے پی ہے، شاید اسی لئے تم نے کوٹھڑی میں لا کر رکھی تھی، حافظ نے سچ کہا ہے: واعظاں کایں جلوہ در محراب و منبر میکنند چوں بخلوت میروند آں کارِ دیگر میکنند سرسید ہنس کے چُپ ہورہے اور اس طرح وہ رکاوٹ جو کئی برس سے چلی آتی تھی، رفع ہوگئی ، میرزا دو ایک دن وہاں ٹھہر کر دلی چلے آئے
ANS 02
غالبؔ نے اردو غزل گوئی میں اپنا الگ مقام بنایا وہ دوسروں کی راہ پر چلنے سے کتراتے تھے۔ ابتداء میں فارسی میں شاعری کرتے رہے۔ بعد میں اردو شاعری کی۔ غالب کا اردو دیوان مختصر ہے۔ لیکن اسے عالمی طور پر مقبولیت حاصل ہوئی۔ موضوعات اور انداز بیان میں جدت‘ شوخی ‘ظرافت اور دیگر زبان و بیان کی خوبیاں انہیں اردو کا ایک منفرد شاعر بناتی ہیں۔ غالب ؔ نے بغیر القاب و آداب استعمال کئے آپسی گفتگو کی طرح خط لکھے جو بہت مشہور ہوئے۔ مجموعی طورپر غالب نے اردو شاعری کو نئی فکر عطا کی اور آج بھی ان کی شاعری سے نئے مفاہیم تلاش کئے جارہے ہیں۔ غالبؔ کا انتقال دہلی میں ہوا اور وہ درگاہ حضرت نظام الدین محبوب الٰہی کے احاطہ میں دفن ہیں۔
غالبؔ کی شاعری کی خصوصیات:
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
غالب کے بارے میں عبادت بریلوی لکھتے ہیں، ’’غالب زبان اور لہجے کے چابک دست فنکار ہیں۔ اردو روزمرہ اور محاورے کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس کی سادگی دل میں اتر جاتی ہے۔‘‘عبدالرحمن بجنوری لکھتے ہیں کہ، ’’ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں ’’وید مقدس‘‘ اور ’’دیوان غالب‘‘۔‘‘
اردو شاعری میں مرزا غالب کی حیثیت ایک ررخشاں ستارے کی سی ہے۔ انہوں نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اسے نئے نئے موضوعات بخشے اور اس میں ایک انقلابی لہر دوڑا دی۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات جا بجا ملتے ہیں۔ غالب ایک فلسفی ذہن کے مالک تھے۔ انہوں نے زندگی کو اپنے طور پر سمجھنے کی بھر پور کوشش کی اور ان کے تخیل کی بلندی اور شوخی فکرکا راز اس میں ہے کہ وہ انسانی زندگیکے نشیب و فراز کوشدت سے محسوس کرتے ہیں۔
غالب انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ اس کے بنیادی معاملات و مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں۔ اس کی ان گنت گتھیوں کو سلجھا دیتے ہیں۔ انسان کو اس کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں اس کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھاتے ہیں۔ اور نظام کائنات میں اس کونئے آسمانوں پر اڑاتے ہیں۔ غالب کی شاعری اس اعتبار سے بہت بلند ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ ان کی شاعر ی کے انہیں عناصر نے اْن کو عظمت سے ہمکنار کیا ہے۔ لیکن جس طرح ان کی شاعری میں ان سب کا اظہار و ابلاغ ہوا ہے۔ وہ بھی اس کو عظیم بنانے میں برابر کے شریک ہیں۔ غالب کی شاعری کا اثرحواس پر شدت سے ہوتا ہے وہ ان میں غیر شعوری طور پرایک ارتعاش کی سی کیفیت پیدا کرتی ہے اور اسی ارتعاش کی وجہ سے اس کے پڑھنے اور سننے والے کے ذہن پر اس قسم کی تصویریں ابھرتی ہیں۔ ان کے موضوع میں جووسعتیں اور گہرائیاں ہیں اس کا عکس ان کے اظہار و ابلاغ میں بھی نظرآتا ہے۔ ان گنت عناصر کے امتزاج سے اس کی تشکیل ہوتی ہے۔
- غالب کی شاعری کی ایک نمایاں خصوصیت ان کا منطقی اور استدلالی انداز بیان ہے بقول پروفیسر اسلوب احمد انصاری: ’’یعنی غالب صرف جذبات کا تجزیہ ہی نہیں کرتے بلکہ ان میں باہمی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ محبت ان کے لیے کوئی ایسا جذبہ نہیں جو فطری طریقے سے دلکش محاکات میں ڈھل جائے۔ بلکہ یہ ایک گرم تیز رو ہے جو پوری شخصیت کے اندر انقلاب پیدا کردیتی ہے۔ غالب صرف اشاروں سے کام نہیں لیتے بلکہ اپنے نرم و لطیف، احساسات و کیفیات کا تجزیہ کرتے اور ان پر استدلال کرتے ہیں۔ ‘‘
غالب کے اس اندازِبیان کو سمجھنے کے لیے یہ اشعار ملاحظہ ہوں کہ استدلال کا یہ انداز کس طرح شاعر کے جذبات و احساسات کی معنویت میں اضافہ کرتا ہے۔
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
قول محال کا استعمال:غالب نے قول محال کے استعمال سے بھی اپنی شاعری میں حسن و خوبی پیدا کی ہے۔ قول محال سے مراد یہ ہے کہ کسی حقیقت کا اظہار اسطرح کیا جائے کہ بظاہر مفہوم عام رائے کے الٹ معلوم ہو مگر غور کریں تو صحیح مفہوم واضح ہو۔ قول محال دراصل ایک طرف ذہنی ریاضت ہے۔ اس سے ایک طرف اگر شاعر کی قوت ِفکر کا انحصار ہوتا ہے تو دوسر ی طرف قار ی کو بھی ذہن و دماغ پر زور دینا پڑتا ہے۔ اس سے شاعر لطیف حقائق کی طرف اشارہ ہی نہیں کرتا بلکہ حیرت و استعجاب کی خوبصورت کیفیات بھی پیدا کرتا ہے۔ اس سلسلے میں غالب کے اشعار دیکھیں :
ملنا تیر اگر نہیں آساں تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
تشکک پسندی:
غالب کی شاعری میں تشکک پسندی کا پہلو بہت اہم ہے۔ جو بحیثیت مجموعی غالب کی شاعری کے رگ و پے میں سرایت کئے ہوئے ہے۔ اس کی ایک وجہ غالب کا فلسفیانہ مزاج ہے۔جبکہ دوسری وجہ غالب کاماحول ہے۔غالب نے جس دور میں آنکھ کھولی وہ ایک ہنگامی دور تھا۔ ایک طرف پرانی تہذیب مٹ رہی تھی اور اس کی جگہ جدید تہذیب اور تعلیم اپنی جڑیں مضبوط کررہی تھی۔ یوں انتشار اور آویزش کے اس دور میں اْن کی تشکک پسندی کو مزید تقویت ملی۔
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کر یں گے کہ خدا رکھتے تھے
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھاہے
معانی دار پہلو:حالی نے بڑے زور و شور کے ساتھ غالب کی شاعری کی اس خصوصیت کا ذکر کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس میں معانی کی مختلف سطحیں موجود ہیں۔ غالب کے بہت سے اشعار ایسے ہیں۔ جن کی فلسفیانہ، سیاسی اور شخصی تفسیر ہم کر بیک وقت کر سکتے ہیں۔ ایسے اشعار ان ترشے ہوئے ہیروں کی مانند ہیں جن کی آب وتاب اور خیرگی سے ہر زاویہ نگاہ سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک غالب کی کئی شرحیں لکھی جا چکی ہیں اور لکھی جا رہی ہیں۔
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
رمز و ایمائیت:
غالب نے اپنی شاعری میں رمز و ایمائیت سے بھی حسن پیدا کیا ہے۔ انہوں نے زندگی کی بڑی بڑی حقیقتوں اور گہرے مطالب کو رمز و ایما کے پیرائے میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ انہوں نے اردو غزل کی روایت میں تصوف نے جو رمز و ایمائیت پیدا کی اسے اپنے لیے شمع راہ بنایا۔ یوں انہوں نے سیاسی او ر تہذیبی، معاشرتی موضوعات کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا اور انفرادی رنگ کے پردے میں اجتماعی تجربات کی ترجمانی کی۔ اس طرح سے رمزیت اور ایمائیت کا رنگ ان کی شاعری پر غالب نظرآتا ہے۔
دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ تو پیغام زبانی اور ہے
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
لطافت خیال اور نکتہ آفرینی:
غالب کی شاعری میں نکتہ آفرینی پائی جاتی ہے غالب عام روش سے ہٹ کر چلنا پسند کرتے تھے۔ شاعری میں بھی الگ روش پر چلنا پسند کرتے تھے۔ انہوں نے لفظی سے زیادہ معنو ی نکتہ آفرینی پر زور دیا۔ اس طرح وہ مومن سے ممتاز اور برتر ہیں۔ ان کی نکتہ آفرینی سلاست، گہرائی اور معنویت سے پر ہے۔ اس میدان میں غالب نے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے اس کی وضاحت اْن کے درج ذیل اشعار سے ہوتی ہے۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
زندگی کی محرومیاں:
غالب کی ذاتی بھی تلخیوں اور محرمیوں کی زنجیر ہے۔ بچپن میں باپ کی موت، چچا کی پرورش، اْن کی شفقت سے محرومی، تیرہ سال کی ناپختہ عمر میں شادی کا بندھن، بیوی کے مزاج کا شدید اختلاف، قرضوں کا بوجھ۔ ان سب نے غالب کو زمانے کی قدرشناسی کا شاکی بنا دیا۔
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے
طنز و مزاح شوخی وظرافت:شوخی و ظرافت غالب کی شخصیت کا خاصہ ہے۔عملی زندگی میں وہ خوش باش انسان تھے۔ اسی لیے حالی انھیں حیوان ِ ظریف کہتے ہیں۔ انتہائی کٹھن حالات میں بھی وہ زندہ دلی کا دامن نہیں چھوڑتے۔انہیں زمانے نے نجانے کتنے دکھ دیئے لیکن غالب پھر بھی ہنسے جاتے ہیں۔ ان کی ظرافت میں محض شوخی ہی کام نہیں کر رہی، جس طرح غالب کی شخصیت پہلو دار شخصیت ہے اسی طرح غالب کی ظرافت کی بھی متعدد سطحیں ہیں۔ ان کی شاعری میں طنز و طرافت کے اعلی نمونے ملتے ہیں۔ غالب کے کچھ طنزیہ اشعار ملاحظہ ہوں :
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
زندہ دلی اور خوش طبعی:
غالب کی شاعر ی میں طنز یہ اشعار کے ساتھ ساتھ شوخی اور خوشدلی کا پہلو بھی بڑا نمایاں ہے۔ چنانچہ ان کے ہاں ایسے اشعار بھی بہت ہیں جنہیں خالص مزاح کا نمونہ کہا جاسکتا ہے۔ اصل میں غالب زندگی کی چھوٹی چھوٹی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتے تھے۔ اگرچہ وہ زندگی کی تلخیوں سے آگاہہیں لیکن انہیں زندگی سے والہانہ لگائو بھی ہے۔ غالب ایک فلسفی شاعر تھے۔ انہوں نے زندگی کو سمجھنے کی کوشش کی اور پھر اپنے انکشافات کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کر دیا۔ غالب کے کچھ مزاح سے پھرپور اشعار ملاحظہ ہوں :
در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا
جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا
کہاں مے خانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
فارسی زبان کے اثرات: غالب کو فارسی زبان پر بڑا عبور حاصل تھا۔ اس لیے ان کی شاعری میں فارسی زبان کے اثرات زیادہ ہیں۔ خود فارسی شاعری کے بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ اور فارسی کو اردو سے زیادہ اہمیت دیتے تھے۔چنانچہ فارسی زبان کے اثر سے ان کی زبان میں شیرینی حلاوت اور شگفتگی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ انہوں نے فارسی الفاظ استعمال کرکے اور ان کی ترکیبیں تراش کر نہ صرف اردو زبان کے دامن کو وسیع کیا بلکہ اپنی شاعری میں بھی ایک نکھار اور رعنائی پیدا کر لی۔یہ اشعار ملاحظہ ہوں :
یا د تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں لیکن
اب نقش و نگار ِ طاق نسیاں ہوگئیں
بس ہجوم ناامیدی خاک میں مل جائے گی
یہ جو اک لذت ہماری سعی لاحاصل میں ہے
سادہ انداز بیان:مشکل الفا ظ و تراکیب کے ساتھ ساتھ غالب کے ہاں آسان زبان بھی موجود ہے۔غالب نے پیچیدہ مسائل کے اظہار میں عموماً فارسی ترکیبوں سے کام لیا ہے اور سنجیدہ مضامین کے لیے الفاظ کا انتخاب بھی اسی مناسبت سے کیا ہے۔ لیکن سیدھے سادے اور ہلکے پھلکے مضامین کو غالب نے فارسی کا سہار ا لیے بغیر رواں دواں اور سلیس اردو میں پیش کیا ہے۔ زبان کی سادگی ان اشعار کی معنوی قدرو قیمت پر کوئی بڑا اثر نہیں ڈالتی بلکہ ان کے حسن میں اضافہ کرتی ہے۔ کیونکہ یہ سادگی شعری تجربے سے ہم آہنگ ہے۔ اس سلسلے میں یہ اشعار ملاحظہ ہوں :
میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
جدت ادا:غالب ذہنی اور طبعی اعتبار سے انفرادیت پسند تھے۔ کسی کی تقلید کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ وبائے عام میں بھی مرنا نہیں چاہتے تھے۔ غالب کی یہی جدت ادا ان کی شاعری میں نئے نئے گھل کھلاتی ہے۔ مرزا سے پہلے تمام شعراءکاطریقہشعرگوئییہرہاکہوہقدیمخیالاتمیںکچھترمیمکرکےپیشکردیتےتھے۔لیکنغالبکےہاںایسانہیں۔اْنکیجدتطبعاورانفرادیتپسندیہمیشہ نئے نئے خیال ڈھونڈ نے پر مجبور کرتی رہی۔ چنانچہ اْن کی شاعری میں ہمیں رنگا رنگی اور بوقلمونی محسوس ہوتی ہے۔ اگر کبھی مرزا نے کسی قدیم خیال کو ادا بھی کیا ہے تو اس انداز میں کہ شانِ استادی کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
تصوف:غالب کوئی باقاعدہ صوفی شاعر نہ تھے اور نہ اْن کو تصوف سے دلچسپی تھی لیکن پھر بھی ان کی شاعری میں بعض مقامات پر تصوف کے عناصر ملتے ہیں جس کی بنیادی وجہ فارسی شاعری میں تصوف کی روایت کی موجودگی ہے اس کے علاوہ اس دور کے حالات بھی تصوف کے لیے خاصطور پر سازگار تھے۔ طبیعتیں بھی غم و الم اور فرار کی طرف مائل تھیں۔ لیکن غالب نے تصوف کو محض رسمی طور پر ہی قبول کیا۔
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیاہوتا
غالب کا تصور عشق
غالب کے ہاں حسن و عشق کے تصورات اگرچہ وہی ہیں جو صدیوں سے اردو اور فارسی شاعری میں اظہار پاتے رہے ہیں۔ تاہم غالب کی فطری جدت پسندی نے ان کو صرف انہی موضوعات تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے ذاتی تجربات و محسوسات کی روشنی میں حسن و عشق کے بارے میں انہوں نے اپنی انفرادیت قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
ANS 03
یہ ایک مسلّمہ امر ہے کہ انیسویں صدی میں اردو ادب بلکہ اردو شاعری میں سب سے نمایاں نام مرزا غالب? کا ہے جبکہ اٹھارویں صدی میں میر تقی میر کا زیادہ چرچہ تھا اور بیسویں صدی میں علامہ اقبا ل کا۔ در اصل غالب کی عظمت کا راز صرف ان کا طرزِ بیان اور خوبی اظہار ہی نہیں ہے بلکہ ان کااصل کمال یہ ہے کہ وہ ز ندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عوام کے لئے بیان کردیتے تھے۔غالب جس پر آشوب دور میں پیدا ہوئے تھے اس میں انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوئے اور انگریز قوم کو ملک پر اقتدار قائم کرتے ہوئے دیکھا۔غالباً یہی پس منظر ہے جس نے ان کی نظر میں گہرائی اور فکر میں وسعت پیدا کی جس کا عکس ان کی شاعری میں ابھرتا نظر آتا ہے۔ مرزا غالب نے ویسے شاعری کی مختلف اصاف میں طبع آزمائی کی تھی لیکن غزل گوئی میں ان
کو امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ انہوں نے نہ صرف اردو بلکہ فارسی زبان میں بھی شاعری کی ہے۔ یعنی وہ ان دونوں زبانوں پر یکساں دسترس رکھتے تھے ۔ابتدائی دور میں ان کے اردو کلام میں مشکل پسندی تھی اور فارسیت کا غلبہ تھا لیکن جب وہ مشکل پسندی سے دست بردار ہوئے اور فارسی زدہ اسلوب کو انہوں نے خیر باد کہی تو ان کی غزلوں میں اس نوع کے اشعار اپنی بہار دکھانے لگے:
ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
مذکورہ بالا اشعار سے غالب کے انداز بیان کا اندازہ ہوتاہے کہ وہ کسی بھی مضمون کو بھی بڑی خوبصورتی سے پیش کردیتے تھے یہاں تک کہ پامال مضامین بھی ان کے مخصوص اندازِ تحریر سے خوبصورت معلوم ہونے لگتے ہیں۔ علاوہ بریں غالب نے اپنی غزلوں میں انسانی زندگی کے مختلف پہلو اور جذبات کی بوقلمونیاں پیش کی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔
کوئی امید بر نہیں آتی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
مزید براں کائنات اور مناظرِ قدرت کے حسن اور محبوب کی خوبصورتی پر غالب نے غائرانہ نظر ڈالی ہے۔ پھر رمز یہ اور طنزیہ انداز میں انہوں نے اپنی غزلوں میں جو جمالیاتی حسن پیدا کیا ہے وہ ان کی تخلیقی ہنرمندی کی دلیل ہے۔ قدرتی مناظر کاذکر کرتے وقت غالب کے یہاں تصوف کا پہلو ابھرتا ہے اور محبوبِ مجازی کا ذکر اپنی مثال آپ ہے۔ ذیل میں چند اشعار بطورِ مثال پیشِ خدمت ہیں:
جب وہ جمالِ دل فروز صورتِ مہرِ نیم روز آپ ہی ہو نظارہ سوز پردہ میں مْنہ چھپائے کیوں
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیا ں اپنا بن گیا رقیب آخر تھا جو راز داں اپنا
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
چاہتے ہیں خوب رویوں کو اسد آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے
اسے کون دیکھ سکتا ہے کہ یگانہ ہیوہ یکتہ جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
دہر جز جلوہء یکتائی معشوق نہیں ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ عشق ایک آفاقی موضوع ہے اور اس موضوع کو تمام تر زبانوں کے شعرا نے اپنے اپنے انداز میں پرکھا، برتا اور باندھا ہے۔ اردو شاعری میں عشق سے متعلق ا اتنا بڑا سرمایہ موجود ہے کہ اس پر پوری پوری کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ غالب کی شاعری میں عشق و محبت کا جذبہ اپنی مختلف صورتوں میں جلوہ افروز ہے۔ کہیں پہ وہ شوخی سے کام لیتے ہیں تو کہیں وہ نفسیاتی پہلووں کو اجگر کرتے ہیں اور اس امر سے یہ پتہ چلتا ہے کہ غالب شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات کے نباض بھی ہیں۔کبھی وہ دوسرے عاشقوں پر طنز کرتے ہیں اور کبھی اپنے جذبہ عشق اور دیوانگی کو بلند مقام عطا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر :
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا درد کی دوا پائی، دردِ بے دوا پایا
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی میری وحشت میری شہرت ہی سہی
غم اگرچہ جاں گْسل ہے، پہ بچیں کہاں کہ دل ہے غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں، جس کافر پہ دم نکلے
آئے ہے بیکسی عشق پہ رونا غالب کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میر ے بعد
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
کلام غا لب کے مطالعہ سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کبھی وہ فرہاد تو کبھی قیس کو عشق کے مضمون کے درمیان لے ا?تے ہیں۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ یہ دونوں کردار اپنی دیوانگی شوق اور اپنے جذبہ ق کی انتہا کے لئے مشہور ہیں۔ چند اشعار دیکھیے جن سے دیوانگی اورعشق کے کئی رنگ واضح ہوتے ہیں:
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد اآیا
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمارِ رسوم و قیود تھا
یہ واضح رہے کہ مرزا غالب کو حیوانِ ظریف کہا گیا ہے کیونکہ ان کے یہاں160شوخی و ظرافت بہ درجہ اتم موجود ہے۔ طنز و ظرافت کے لئے ذہانت اور فطانت درکار ہے۔ 160مرزا غالب کی ذہنی ساخت اور میلان طبع اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ کس قدر ذہین و فطین انسان تھے۔ جس زندہ دلی اور خوش طبعی سے غالب کا شعری آہنگ شوخی و ظرافت کے لہجہ میں تشکیل ہوتا ہے وہ لائقِ داد ہے۔ انہوں نے نہ صرف دوسروں پر طنز کیا ہے بلکہ اپنے آپ پر بھی طنز کیا ہے۔ یہ بھی غور کیا گیا ہے کہ ان کے کلام میں انہوں نے انسانوں کے ساتھ ساتھ خدا اور فرشتوں کو بھی اپنے طنز و تمسخر کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ اشعارچند دیکھیے:
ان پری زادوں سے لیں گے ہم خلد میں انتقام قدرتِ حق سے یہی حوریں، اگر واں ہوگئی
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا؟
مسجد کے زیرِ سایہ اک گھر بنا لیا ہے یہ بندہ کمینہ ہم سایہ خدا ہے
عشق نے غالب نکما کر دیا ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
یہ بات بھی دعوتِ فکر دیتی ہے کہ مرزا غالب کی شاعر ی میں گہرے فکریو فلسفے کی کارفرمائی ہے۔یہ درست ہے کہ غالب کے یہاں اقبال کی طرح کوئی منظم فلسفہ اور باضابطہ کوئی فکری نظام نہیں پایا جاتا ہے لیکن پھر بھی غالب کے پورے کلام پر فکر و فلسفے کی گہری چھاپ ضرور ملتی ہے۔ وہ پوری کائنات اور انسانی دنیا کو غور سے اور سوالیہ اندازمیں دیکھتے ہیں۔ آئیے کچھ اشعار دیکھتے ہیں جن میں غالب کی گہری فکر اور تخیل کے نقوش ابھرتے ہیں:
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جْز مرگ علاج شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟ غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟ ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے؟
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ غالب نے اردو غزل کی روایتی طرز اظہار کو خیر باد کہہ کر اپنا نیا اندازِ بیان پیدا کیا ہے۔ ان کے یہاں استعاروں اور تشبیہوں کا برمحل اور برجستہ استعمال ملتا ہے۔ انہیں صنائع و بدائع پر دسترس حاصل ہے۔ زبان و بیان میں توانائی کے ساتھ روانی، برجستگی، سلاست اور سادگی کے ساتھ کبھی کبھی مشکل پسندی اور فکرو تصوف کے ساتھ طنز و ظرافت کی آمیزش ان کی انفرادیت کا ثبوت ہے۔ غالب کی غزلوں میں مضامین کا تنوع ، زورِ بیان اور دلکش زبان، سادہ و مشکل الفاظ کا التزام ، روایت و جدت کا حسین امتزاج ، انسانی جذبات ، مشاہدات اور تجربات کی خوبصورت پیش کش ، زندگی کے نشیب و فراز نیزغم و نشاط کے دونوں پہلو بلا تصنع اور صنائع و بدائع کا اہتمام اس قدر پر کیف انداز میں ملتا ہے کہ کسی دوسرے شاعر کے یہاں ناپید ہے۔ یہی سبب ہے کہ غالب کے کئے اشعار زبان زدِ خلائق ہو گئے اور آج تک لوگوں کے دلوں کو مسحور کرتے ہیں۔ چند اشعار پر یہ مضمون اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئیے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
اْگ رہا ہے درو دیوار سے سبزہ غالب ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
جانتا ہوں ثواب طاعت وزہد پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ANS 04
جہاں زندگی کے رموز و نکات ، تہذیب و ثقافت سے منسلک ہیں لیکن ادب کسی وقت یا دور کا پابند نہیں ہوتا تاہم اس کا عکس ادب میں ضرور نظر آتا ہے ۔ وہیں چند تخلیق کار اپنے وقت کے ممتاز و ممیز ہوتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ بھی قرار پاتے ہیں ان میں سے ایک عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ (1796-1869ء ) بھی ہیں ۔
غالبؔ کے عہد میں ہندوستان کی غیر مستحکم حکومت مغلیہ کا شیرازہ بکھر رہا تھا جس میں ہند ایرانی اثرات سے مملو تمدن آخری سانسیں لے رہا تھا ۔ دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی کی عملداری بڑھتی جارہی تھی گویا زندگی اور تمدنی انقلاب کے نئے نئے تقاضوں سے ہندوستانی عوام نبرد آزما تھے ۔ ان مایوس کن حالات میں غالبؔ نے اپنے کلام میں تخیل کی بلندی اور اپنے منفرد اور اچھوتے طرز بیان سے اردو کو ایک نئی قسم کی شاعری اور فلسفہ حیات سے روشناس کروایا ، دراصل غالب کی شاعری کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے متعدد بار غائر مطالعہ کے بعد ہی سمجھ میں آتی ہے اور مرزا غالبؔ کا کلام دنیائے ادب کی وحدت کا جزو لاینفک بن گیا ہے عمومی طور پر غالبؔ ایک مشکل پسند اور فکری شاعر سمجھے جاتے ہیں آپ بھی دیکھ لیجئے :
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
ہو گرمئی نشاط تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیب گلشن ناآفریدہ ہوں
دام شنیدن ، گرمئی نشاط تصور اور گلشن ناآفریدہ جیسے نامانوس تراکیب کی بابت غالبؔ کی شاعری مشکل سمجھی گئی ۔ اس طرح نادر تشبیہات اور حشر خیز خیالات کو عہد غالبؔ میں اسی زمرہ میں رکھا گیا تھا ۔
تھا میں گلدشتہ احباب کی بندش کی گیاہ
متفرق ہوئے میرے رفقاء میرے بعد
الغرض غالبؔ کی شاعری کے تجزیہ نگاروں نے غالبؔ کی مشکل پسندی اور ان کے خیالات کی انفرادیت کو ان کی خوش پرستی ، انفرادیت پسندی سے تعبیر کیا جاتا رہا ، لیکن یہ مشکل پسندی دراصل جذبات و احساسات کی تہہ داری ہے ۔ ان کے گرد و پیش کے خیالات ، جبر و اختیار ، واقعات کی کشاکش اور ان کی زندگی کی تلخیاں انہیں فلسفہ زندگی کی جمالیات اور معیارات کا دوسرے ہم عصر شعراء سے الگ الگ شناخت عطا کی جو مشکل پسندی (Thinking poetry) ہے جو غور و فکر کرنے والے ادب کی بنیاد گزار بنی ہے ۔ غالبؔ کی ایک اور فکری عنصر تصوف کو ملاحظہ فرمایئے :
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ میں ہوتا تو کیا ہوتا
مندرجہ بالا شعر عبارت کی دشوار ترکیب ، استعارات کی پیچیدگی ، نقطہ نظر ، فلسفہ ادب اور زاویہ نگاہ کی دین ہے ۔ اسی لئے تو وہ خود کہتے ہیں:
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور
غالبؔ نے اپنی شاعری کو فکری اور فلسفیانہ رنگ روپ دیا ہے ۔ گویا تہذیب و ثقافت کی ایک طویل ارتقائی سفر کو اپنی شاعری میں سمودیا ہے ۔ شاعری بنیادی طور پر جذبات پر مبنی ہوتی ہے لیکن غالبؔ کی شاعری میں خیالات اور جذبات کے ساتھ فکر بھی رواں دواں نظر آتی ہے ۔ اس فکری عنصر نے متعدد نتائج پیدا کئے ہیں ۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہوگئیں
غالبؔ کے مطابق لالہ و گل اور کیسی کیسی حسین و جمیل صورتیں پویند خاک ہوئیں جو اپنے وقت میں بے نظیر تھیں یہ تصور غالبؔ کی فکری حقیقت نگاری سے عبارت ہے :
دل میں شوق وصل دیار یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
سیاہ خانے کو روشن و منور کرنے والی شمع سحر ہونے تک جلتی رہتی ہے ۔ خدا معلوم اس وقفہ میں اس پر کیا گذرتی ہوگی ایک اور خیال میں غالبؔ محبوبہ کے ہونٹوں کی تصویرکشی اس طرح کرتے ہیں۔
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کے رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
غالبؔ اس شعر میں محبوب کی گالیوں کو میٹھی بولی سے تعبیر کررہے ہیں مزید محبوب کی بے وفائی سے متعلق کہتے ہیں ۔
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
بہرحال غالبؔ کا دور سیاسی لحاظ سے ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار تھا لہذا اس پرآشوب زمانہ کی تلخ و پریشان کن حالات ان کی اقتصادی زندگی کو تہس نہس کررکھا تھا ،غالبؔ کی چیختی زندگی کی تصاویر ان کی شاعری میں محسوس ہوتی ہے ۔
نقش فریادی ہے کس شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
کرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت غالبؔ
تم کو بہ مہری یارانِ وطن یاد نہیں
شکوہ سنجی کی طبیعت غالبؔ کی ہرگز نہیں تھی لیکن ہم عصروں کی چشمک ، زمانہ کی ناقدر دانی ، حکومت کا زوال ، وظیفہ کی مسدودی نے غالبؔ کی زندگی کو بدمزہ کردیا ۔ انسانی نفسیاتی کا تقاضہ بھی یہی ہیکہ انسان جن حالات کا شکار ہوتا ہے اس کے اثرات اس کی شخصیت پر ظاہر ہوتے لگتے ہیں ۔
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی سے مرا بھلا نہ ہوا
زندگی اپنی جب اس شکل میں گذری غالبؔ
ہم بھی کیا یاد کریں گے خدا رکھتے تھے
غالبؔ کا جو عملی فلسفہ حیات رہا ہے اس میں غم روزگار بھی شامل ہے ۔ بے روزگاری زندگی کے لئے ایک ناسور کی طرح تکلیف دہ شئے ہے جس سے غالبؔ دوچار تھے ، زندگی کی اسی ویرانی کو دو مختلف مضامین میں دیکھئے:
اُؑگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالبؔ
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کر گھر یاد آیا
غالبؔ کے اشعار میں زندگی کی شکست و ریخت کے فکری و حقیقی عناصر کے ساتھ ان میں حاوی عنصر ان کا فلسفیانہ انداز بیان ہے اس تاثر کو انہوں نے ظاہری اور باطنی معانی میں مخفی رکھا تاکہ قاری اپنی بساط اور مشاہدے کے مطابق الفاظ اور معانی کی تہہ کھولتا چلا جائے :
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے
گر خامشی سے فائدہ اخضائے حال ہے
خوش ہوں کہ مری بات سمجھنا محال ہے
وقت زندگی کے فیصلے صادر کرتا ہے اس حقیقت کو غالبؔ اپنی شاعری میں ندرت فکر اور جدت بیان کے ساتھ اور موضوعات کی انفرادیت ، روزمرہ اور محاورہ کے استعمال اور منفرد مفکرانہ طریقہ اظہار کی بابت غالبؔ کی شاعری سمجھنے اور سمجھانے کی چیز بن گئی ہے :
بیان کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی
شب مدہو جو پنبہ رکھدیں دیواروں کے روزن میں
میرے خیال میں غالبؔ کے کلام کا مطالعہ اسلوب اور فکر کی بنیاد پر کیا جانا چاہئے مشکل اور آسان کا تصور محض بے جا ہے ۔ آپ کا تصور احساسات ، جذبات اور تجربات کا ردعمل ہے ۔ اسی لئے غالبؔ کی شاعری کی فہم مشاہدات اور حقائق کا فہم کا تقاضہ کرتی ہے
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تری زلفیں جس کے شانوں پر پریشاں ہوگئیں
جہاں غالب نے اپنی شاعری میں قاری کے لئے نامانوس ، اجنبی تشبیہات اور استعارات ، غیر مرئی اشیا کو مرئی اشیا کی حیثیت سے پیش کیا ہے وہیں نشتریت ، کثیر المعانی خیالات ، ایجاد وابداع ، فکر و تصوف ، تصورات کی ندرت ، دقیق مطالب ، تراکیب ، مضامین ، الفاظ کی بندش، معنی آفرینی ، شوخی تحریر اسلوب ، فلسفہ حیات ۔ غرض یہ کہ غالبؔ کے بیشتر تاثرات ذاتی تجربات اور عینی مشاہدات کی بنیاد پر مبنی محسوس ہوتے ہیں جس میں صداقت کی تہہ داری پنہاں ہے ، قدرتی جبر و انسان کی بے چارگی ، ظریفانہ شوخی اور طنزیہ اشعار ملاحظہ فرمایئے:
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
اس بحث کا محاصل یہ ہے کہغالبؔ ایک ذی شعور فنکار تھے ۔ ان کے اشعار کی نفسیاتی اور عملی زندگی کے علاوہ ان کی نظریاتی تھیوری کو سمجھنے میں مددگار ہیں ۔
ANS 05
مرزاغالب کی اولین خصوصیت طرفگیٔ ادا اور جدتِ اسلوبِ بیان ہے لیکن طرفگی سے اپنے خیالات ، جذبات یا مواد کو وہی خوش نمائی اور طرح طرح کی موزوں صورت میں پیش کرسکتا ہے جو اپنے مواد کی ماہیت سے تمام تر آگاہی اور واقفیت رکھتا ہو۔ میرؔ کے دور میں شاعری عبارت تھی محض روحانی اور قلبی احساسات و جذبات کو بعینہٖ ادا کردینے سے۔ گویا شاعر خود مجبور تھا کہ اپنی تسکین روح کی خاطر روح اور قلب کا یہ بوجھ ہلکا کردے۔ ایک طرح کی سپردگی تھی جس میں شاعر کا کمال محض یہ رہ جاتا ہے کہ جذبے کی گہرائی اور روحانی تڑپ کو اپنے تمام اثر کے ساتھ ادا کرسکے۔ اس لیے بے حد حساس دل کا مالک ہونا اول شرط ہے۔ یہ شدت اور کرب کو محض بیان کردینے سے روح کو ہلکا کرنا نہیں چاہتے بلکہ ان کا دماغ اس پر قابو پا جاتا ہے اور اپنے جذبات اور احساسات سے بلند ہوکر ان میں ایک لذت حاصل کرنا چاہتے ہیں، یا یوں کہئے کہ تڑپ اٹھنے کے بعد پھر اپنے جذبات سے کھیل کر اپنی روح کے سکون کے لیے ایک فلسفیانہ بے حسی یا بے پروائی پیدا کر لیتے ہیں۔ اگر میرؔ نے چر کے سہتے سہتے اپنی حالت یہ بنائی تھی کہ۔۔۔ ہمارے نہ مرنے کا غم ہے نہ جینے کی شادی، تو غالب اپنے دل و دماغ کو یوں تسکین دیتے ہیں کہ غالب کی شاعری میں غالب کے مزاج اور ان کے عقائد فکری کو بھی بہت دخل ہے۔ طبیعتاً وہ آزاد مشرب مزاج پسند ہر حال میں خوش رہنے والے رند منش تھے لیکن نگاہ صوفیوں کی رکھتے تھے۔ باوجود اس کے کہ زمانے نے جتنی چاہے ان کی قدر نہ کی اور جس کا انہیں افسوس بھی تھا، پھر بھی ان کے صوفیانہ اور فلسفیانہ طریق تفکر نے انہیں ہر قسم کے ترددات سے بچالیا۔ اور اسی لیے اس شب و روز کے تماشے کو محض بازیچۂ اطفال سمجھتے تھے۔ دین و دنیا، جنت و دوزخ ، دیر و حرم سب کو وہ داماندگیٔ شوق کی پناہیں سمجھتے ہیں۔ جذبات اور احساسات کے ساتھ ایسے فلسفیانہ تعلقات رکھنے کے باعث ہی غالب اپنی شدت احساس پر قابو پا سکے اور اسی واسطے طرفگیٔ ادا کے فن میں کامیاب ہوسکے اور میر کی یک رنگی کے مقابلے میں گلہائے رنگ رنگ کھلا سکے۔ لیکن غالب کو اپنا فن پختہ کرنے اور اپنی راہ نکالنے میں کئی تجربات کرنے پڑے۔ اول اول تو بیدل کا رنگ اختیار کیا لیکن اس میں انہیں کیامیابی نہ ہوئی سخیوں کہ اردو زبان فارسی کی طرح دریا کو کوزے میں بند نہیں کرسکتی تھی۔ مجبوراً انہیں اپنے جوش تخیل کو دیگر متاخرین شعرائے اردو اور فارسی کے ڈھنگ پر لانا پڑا۔ صائب کی تمثیل نگاری ان کے مذاق کے مطابق نہ ٹھہری۔ میر کی سادگی انہیں راس نہ آئی آخر کار عرفی و نظیری کا ڈھنگ انہیں پسند آیا اس میں نہ بیدل کا سا اغلاق تھا نہ میرکی سی سادگی۔ اسی لیے اسی متوازن انداز میں ان کا اپنا رنگ نکھر سکا اور اب غیب سے خیال میں آتے ہوئے مضامین کو مناسب اور ہم آہنگ نشست میں غالب نے ایک ماہر فن کار کی طرح طرفہ دل کش اور مترنم انداز میں پیش کرنا شروع کردیا۔ عاشقانہ مضامین کے اظہار میں بھی غالب نے اپنا راستہ نیا نکالا شدت احساس نے ان کے تخیل کی باریک تر مضامین کی طرف رہ نمائی کی گہرے واردات قلبیہ کا یہ پر لطف نفسیاتی تجزیہ اردو شاعری میں اس وقت تک (سوائے مومن کے ) کس نے نہیں برتا تھا۔ اس لیے لطیف احساسات رکھنے والے دل اور دماغوں کو اس میں ایک طرفہ لذت نظر آئی۔ ولی ، میر و سودا سے لے کر اب تک دل کی وارداتیں سیدھی سادی طرح بیان ہوتی تھیں۔ غالب نے متاخرین شعرائے فارسی کی رہ نمائی میں اس پر لطف طریقے سے کام لے کر انہیں معاملات کو اس باریک بینی سے برتا کہ لذت کام و دہن کے ناز تر پہلو نکل آئے۔ غرض کہ ایسا بلند فکر گیرائی و گہرائی رکھنے والا وسیع مشرب، جامع اور بلیغ رومانی شاعر برصغیرکی شاید ہی کسی زبان کو نصیب ہوا ہو موضوع اور مطالب کے لحاظ سے الفاظ کا انتخاب (مثلاً جوش کے موقع پر فارسی کا استعمال اور درد و غم کے موقع پر میر کی سی سادگی کا) بندش اور طرز ادا کا لحاظ رکھنا غالب کا اپنا ایسا فن ہے جس پر وہ جتنا ناز کریں کم ہے اسی لیے تو لکھا ہے۔ ٭…٭…٭
جہاں زندگی کے رموز و نکات ، تہذیب و ثقافت سے منسلک ہیں لیکن ادب کسی وقت یا دور کا پابند نہیں ہوتا تاہم اس کا عکس ادب میں ضرور نظر آتا ہے ۔ وہیں چند تخلیق کار اپنے وقت کے ممتاز و ممیز ہوتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ بھی قرار پاتے ہیں ان میں سے ایک عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ (1796-1869ء ) بھی ہیں ۔
غالبؔ کے عہد میں ہندوستان کی غیر مستحکم حکومت مغلیہ کا شیرازہ بکھر رہا تھا جس میں ہند ایرانی اثرات سے مملو تمدن آخری سانسیں لے رہا تھا ۔ دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی کی عملداری بڑھتی جارہی تھی گویا زندگی اور تمدنی انقلاب کے نئے نئے تقاضوں سے ہندوستانی عوام نبرد آزما تھے ۔ ان مایوس کن حالات میں غالبؔ نے اپنے کلام میں تخیل کی بلندی اور اپنے منفرد اور اچھوتے طرز بیان سے اردو کو ایک نئی قسم کی شاعری اور فلسفہ حیات سے روشناس کروایا ، دراصل غالب کی شاعری کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے متعدد بار غائر مطالعہ کے بعد ہی سمجھ میں آتی ہے اور مرزا غالبؔ کا کلام دنیائے ادب کی وحدت کا جزو لاینفک بن گیا ہے عمومی طور پر غالبؔ ایک مشکل پسند اور فکری شاعر سمجھے جاتے ہیں آپ بھی دیکھ لیجئے :
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
ہو گرمئی نشاط تصور سے نغمہ سنج
میں عندلیب گلشن ناآفریدہ ہوں
دام شنیدن ، گرمئی نشاط تصور اور گلشن ناآفریدہ جیسے نامانوس تراکیب کی بابت غالبؔ کی شاعری مشکل سمجھی گئی ۔ اس طرح نادر تشبیہات اور حشر خیز خیالات کو عہد غالبؔ میں اسی زمرہ میں رکھا گیا تھا ۔
تھا میں گلدشتہ احباب کی بندش کی گیاہ
متفرق ہوئے میرے رفقاء میرے بعد
الغرض غالبؔ کی شاعری کے تجزیہ نگاروں نے غالبؔ کی مشکل پسندی اور ان کے خیالات کی انفرادیت کو ان کی خوش پرستی ، انفرادیت پسندی سے تعبیر کیا جاتا رہا ، لیکن یہ مشکل پسندی دراصل جذبات و احساسات کی تہہ داری ہے ۔ ان کے گرد و پیش کے خیالات ، جبر و اختیار ، واقعات کی کشاکش اور ان کی زندگی کی تلخیاں انہیں فلسفہ زندگی کی جمالیات اور معیارات کا دوسرے ہم عصر شعراء سے الگ الگ شناخت عطا کی جو مشکل پسندی (Thinking poetry) ہے جو غور و فکر کرنے والے ادب کی بنیاد گزار بنی ہے ۔ غالبؔ کی ایک اور فکری عنصر تصوف کو ملاحظہ فرمایئے :
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ میں ہوتا تو کیا ہوتا
مندرجہ بالا شعر عبارت کی دشوار ترکیب ، استعارات کی پیچیدگی ، نقطہ نظر ، فلسفہ ادب اور زاویہ نگاہ کی دین ہے ۔ اسی لئے تو وہ خود کہتے ہیں:
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے انداز بیاں اور
غالبؔ نے اپنی شاعری کو فکری اور فلسفیانہ رنگ روپ دیا ہے ۔ گویا تہذیب و ثقافت کی ایک طویل ارتقائی سفر کو اپنی شاعری میں سمودیا ہے ۔ شاعری بنیادی طور پر جذبات پر مبنی ہوتی ہے لیکن غالبؔ کی شاعری میں خیالات اور جذبات کے ساتھ فکر بھی رواں دواں نظر آتی ہے ۔ اس فکری عنصر نے متعدد نتائج پیدا کئے ہیں ۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہوگئیں
غالبؔ کے مطابق لالہ و گل اور کیسی کیسی حسین و جمیل صورتیں پویند خاک ہوئیں جو اپنے وقت میں بے نظیر تھیں یہ تصور غالبؔ کی فکری حقیقت نگاری سے عبارت ہے :
دل میں شوق وصل دیار یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
سیاہ خانے کو روشن و منور کرنے والی شمع سحر ہونے تک جلتی رہتی ہے ۔ خدا معلوم اس وقفہ میں اس پر کیا گذرتی ہوگی ایک اور خیال میں غالبؔ محبوبہ کے ہونٹوں کی تصویرکشی اس طرح کرتے ہیں۔
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کے رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
غالبؔ اس شعر میں محبوب کی گالیوں کو میٹھی بولی سے تعبیر کررہے ہیں مزید محبوب کی بے وفائی سے متعلق کہتے ہیں ۔
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے
بہرحال غالبؔ کا دور سیاسی لحاظ سے ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار تھا لہذا اس پرآشوب زمانہ کی تلخ و پریشان کن حالات ان کی اقتصادی زندگی کو تہس نہس کررکھا تھا ،غالبؔ کی چیختی زندگی کی تصاویر ان کی شاعری میں محسوس ہوتی ہے ۔
نقش فریادی ہے کس شوخیٔ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
کرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت غالبؔ
تم کو بہ مہری یارانِ وطن یاد نہیں
شکوہ سنجی کی طبیعت غالبؔ کی ہرگز نہیں تھی لیکن ہم عصروں کی چشمک ، زمانہ کی ناقدر دانی ، حکومت کا زوال ، وظیفہ کی مسدودی نے غالبؔ کی زندگی کو بدمزہ کردیا ۔ انسانی نفسیاتی کا تقاضہ بھی یہی ہیکہ انسان جن حالات کا شکار ہوتا ہے اس کے اثرات اس کی شخصیت پر ظاہر ہوتے لگتے ہیں ۔
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی سے مرا بھلا نہ ہوا
زندگی اپنی جب اس شکل میں گذری غالبؔ
ہم بھی کیا یاد کریں گے خدا رکھتے تھے
غالبؔ کا جو عملی فلسفہ حیات رہا ہے اس میں غم روزگار بھی شامل ہے ۔ بے روزگاری زندگی کے لئے ایک ناسور کی طرح تکلیف دہ شئے ہے جس سے غالبؔ دوچار تھے ، زندگی کی اسی ویرانی کو دو مختلف مضامین میں دیکھئے:
اُؑگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالبؔ
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کر گھر یاد آیا
غالبؔ کے اشعار میں زندگی کی شکست و ریخت کے فکری و حقیقی عناصر کے ساتھ ان میں حاوی عنصر ان کا فلسفیانہ انداز بیان ہے اس تاثر کو انہوں نے ظاہری اور باطنی معانی میں مخفی رکھا تاکہ قاری اپنی بساط اور مشاہدے کے مطابق الفاظ اور معانی کی تہہ کھولتا چلا جائے :
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے
گر خامشی سے فائدہ اخضائے حال ہے
خوش ہوں کہ مری بات سمجھنا محال ہے
وقت زندگی کے فیصلے صادر کرتا ہے اس حقیقت کو غالبؔ اپنی شاعری میں ندرت فکر اور جدت بیان کے ساتھ اور موضوعات کی انفرادیت ، روزمرہ اور محاورہ کے استعمال اور منفرد مفکرانہ طریقہ اظہار کی بابت غالبؔ کی شاعری سمجھنے اور سمجھانے کی چیز بن گئی ہے :
بیان کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی
شب مدہو جو پنبہ رکھدیں دیواروں کے روزن میں
میرے خیال میں غالبؔ کے کلام کا مطالعہ اسلوب اور فکر کی بنیاد پر کیا جانا چاہئے مشکل اور آسان کا تصور محض بے جا ہے ۔ آپ کا تصور احساسات ، جذبات اور تجربات کا ردعمل ہے ۔ اسی لئے غالبؔ کی شاعری کی فہم مشاہدات اور حقائق کا فہم کا تقاضہ کرتی ہے
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تری زلفیں جس کے شانوں پر پریشاں ہوگئیں
جہاں غالب نے اپنی شاعری میں قاری کے لئے نامانوس ، اجنبی تشبیہات اور استعارات ، غیر مرئی اشیا کو مرئی اشیا کی حیثیت سے پیش کیا ہے وہیں نشتریت ، کثیر المعانی خیالات ، ایجاد وابداع ، فکر و تصوف ، تصورات کی ندرت ، دقیق مطالب ، تراکیب ، مضامین ، الفاظ کی بندش، معنی آفرینی ، شوخی تحریر اسلوب ، فلسفہ حیات ۔ غرض یہ کہ غالبؔ کے بیشتر تاثرات ذاتی تجربات اور عینی مشاہدات کی بنیاد پر مبنی محسوس ہوتے ہیں جس میں صداقت کی تہہ داری پنہاں ہے ، قدرتی جبر و انسان کی بے چارگی ، ظریفانہ شوخی اور طنزیہ اشعار ملاحظہ فرمایئے:
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
اس بحث کا محاصل یہ ہے کہغالبؔ ایک ذی شعور فنکار تھے ۔ ان کے اشعار کی نفسیاتی اور عملی زندگی کے علاوہ ان کی نظریاتی تھیوری کو سمجھنے میں مددگار ہیں ۔
A