Malik Accademy Provides you AIOU Course Code 5611-1Solved Assignment Autumn 2021. So keep Visiting Malik Accademy for More Assignments.
ANS 01
میر تقی میر کی پیدائش 1773ء میں آگرہ میں ہوئی تھی ان کے والد کا نام محمد علی تھا اور اپنے زہد و تقوی کی بنا پر علی متقی سے مشہور تھا میر نے ابتدائی تعلیم اپنے والد کے دوست سید امان اللہ سے حاصل کی ان کے انتقال کے بعد خود ان کے والد نے ان کی تعلیم و تربیت کی جب میر گیارہ برس کے قریب پہنچے تو ان کے والد بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے یہاں سے میر کی دنیا اندھیریہوگئی اور ان کی حیات میں حزن و ملال اور درد و الم کے طویل باب کی شروعات ہوئی ان کے سوتیلے بھائی محمد حسن نے باپ کے کل ترکہ پر قبضہ کرلیا گیارہ برس کی عمر جو کھیلنے,کودنے ,گھومنے ,ہنسنے اور اسکول و مدرسہ جانے کی عمر ہوتی ہے اس وقت میر غم کا پہاڑ اٹھائے پھرتا رہا بے آسرا،بے سہارا اور تحفظ سے محروم تلاش معاش کے لئے آگرہ سے نکلا اور تن تنہا قافلوں کے ساتھ سفر کرتا ،صعوبتیں جھیلتا ,بد وضع سراؤں میں قیام کرتا اور بچتا بچاتا 1734ء میں دلی پہنچا اس وقت دلی کی تخت پر محد شاہ بیٹھا تھا ہر طرف عیش و عشرت اور شباب و کباب کی خوشبوئیں پھیلی ہوئی تھیں حسینوں اور جمالں کی کثرت تھی ,دلی کے لال قلعہ میں تاج پوشی اور گردن تراشی کے تماشے نے سلطنت مغلیہ کا حال بہت پتلا کر رکھا تھا گویا بادشاہ دلی کی حیثیت شاہ شطرنج سے زیادہ نہ تھی .دلی کی رنگینیوں اور تخت و تاراج کو دیکھ کر میر دنگ رہ گیا اجنبی شہر ,اجنبی لوگ,بےیار و مددگار داغ یتیمی سے رنجور ,عدم تحفظ اور بے سروسامانی کے احساسات سے تھکا ہارا میر محمد شاہی عھد کی دلی میں تلاش معاش کے لئے گھومتا پھرا لیککن جلد ہی ایک نواب کے پاس ملازم ہوگئے نواب صاحب نادر شاہی حملہ 1739ء میں مارے گئے تو میر آگرہ لوٹ آئے لیکن گزر اوقت کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو دوبارہ دھلی روانہ ہوئے اور اپنے سوتیلے بھائی کے خالو سراج الدین آرزو کے یہاں ٹہرے سوتیلے بھائی کے اکسانے پر خان آرزو بھی درپے آزار ہوگئے ان پے در پے صدمات کی وجہ سے انہیں جنوں کی کیفیت پیدا ہوگئی .میر کا زمانہ بڑا پر آشوب زمانہ تھا ہر چہار جانب محتاجی و تنگدستی اور درد و الم کو سہنے کے بعد تھک ہار کر میر گوشئہ عافیت کی خاطر لکھنؤ روانہ ہوگئے وہاں ان کی شاعری کی دھوم مچ گئی نواب آصف الدولہ نے تین سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا اور میر راحت و آرام کی سانس لینے لگے لیکن کچھ اسباب و عوامل کی بنیاد پر ناراض ہوکر دربار کو خیر آباد کہہ دیئے آخری تین سالوں میں جوان بیٹی اور شریک حیات کے انتقال نے صدمات میں اور اضافہ کردیا آخر اقلیم سخن کا یہ حرماں نصیب شہنشاہ 87سال کی عمر پاکر 1810ء میں اپنے آبائی وطن سے دور لکھنؤ کے آغوش میں ہمیشہ کے لئے سوگیا (تاریخ ادب اردو صفحہ 125)میر کی حیات مبارکہ کے متعلق جانکاری کا سب سے اہم ذریعہ ان کی سوانح عمری “ذکر میر “ہے یہ ان کی بچپن سے لکھنؤ میں قیام کے آغاز کی مدت پر محیط ہے میر نے اپنی زندگی کے کچھ سال دلی میں گزارے اس زمانے میں وہ جس محلہ میں رہتے تھے اسے “کوچہ چلم”کہا جاتا تھا مولانا محمد حسین آزاد اپنی مشہور زمانہ کتاب “آب حیات”صفحہ 289 پر رقمطراز ہے کہ میر تقی میر جب دلی سے لکھنؤ روانہ ہورہے تھے اس وقت معاشی تنگ دستی اور غربت کا یہ عالم تھا کہ ان کے پاس گاڑی کا کرایہ بھی نہ تھا مجبورا ایک شخص کے ساتھ شریک ہوگئے تو دلی کو خدا حافظ کہا لکھنؤ پہنچے تو انہیں جانکاری ملی کہ یہاں آج ایک شاندار مشاعرہ منعقد ہونے والا ہے میر نے اسی وقت غزل لکھی اور مشاعرہ میں جاکر شریک ہوگئے ان کی وضع قدیمانہ تھی جب وہ مجلس میں داخل ہوئے تو پورا مجمع ان کی ہیئت کو دیکھ کر کھلکھلا ہنسنے لگا مہر صاحب بیچارے غریب الوطن ,زمانے کے ہاتھ سے پہلے ہی دل شکستہ اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف کبارے میں جاکر بیٹھ گئے شمع جب ان کے سامنے آئی تو پھر سب کی نظر پڑی کچھ لوگوں کے قلوب و اذہان میں یہ سوال پیدا ہورہے تھے کہ موصوف کا وطن کہاں ہے ؟میر صاحب نے برجستہ یہ قطعہ کہہ کر غزل طرحی میں شامل کیا,
کیا بود باس پوچھو ہو پورب کےساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کر ویران کردیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
سب کو حال معلوم ہوا بہت معذرت کی عفو تقصیر چاہی ,کمال کے طالب تھے صبح ہوتے ہوتے پورے شہر میں ہنگامہ مچ گیا کہ میر صاحب تشریف لائے ہو ئے ہیں
میر کا سماج اور دلی کی بربادی !
ہر شاعر اپنے سماج اور ماحول کا پھل ہوتا ہے ان کے سامنے وقوع پزیر ہونے والے واقعات ,حادثات ,ان کی ذاتی زندگی میں رونما ہونے والے تجربات اور اس متعلق اس کے تاثرات ہی حقیقت میں ان کی ادبی ذوق و شوق کی تربیت کرنے ان کی شاعری کو جلا بخشنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں سماج اور معاشرے کی الٹ پھیر کے ساتھ ساتھ لاشعوری طور پر شاعر اپنی افکار و نظریات کو مختلف رنگ میں رنگ کر ایک خوبصورت غزل تیار کرتے ہیں اور اس طرح ان کی شاعری وقت کی رفتار کے ساتھ بدلتی رہتی ہے .میر تقی میر کا وجود اس دنیا میں ایک ایسے زمانے کے اندر ہوا جو سیاسی ,سماجی ,ملکی اور مراشی اعتبار سے سخت انتشار اور افرا تفری کا دور تھا مغل حکومت دن بدن کنزور ہو رہی تھی جو شخص بھی اپنی ذاتی قابلیت اور ریشہ دوانیوں سے یا اپنے حلیفوں کی مدد سے وزارت اعلی کے منصب پر فائز ہو جاتا در اصل وہی حکمران وقت تھا ہندوستان کے ڈھیر سارے صوبے خودمختار ہو چکے تھے پورا ملک لوٹ مار کا شکار تھا میر قیام دلی کے زمانہ میں لوٹ مار اور قتل و خون کے ایسے بے شمار مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اپنی ذات پر سہے لٹے پٹے شہروں,کاروانوں اور انسانوں کے یہ منظر میر کی شاعری میں ایک المیہ رنگ پیدا کردیا اس رنگ کا غلبہ اتنا شدید تھا کہ بعد ازاں وہ علم سے محبت کرتا ہوا نظر آنے لگا اس کی شاعری میں ایک سوگ وار ماتمی لے مستقل طور پر سنائی دینے لگی دلی کی بربادی,عزیزوں اور خاندانوں کی تباہی, آئے دن کے انقلاب ,مرہٹوں,جاٹوں ,درانیوں کی قتل و غارت گیری میر نے اپنی آنکھوں سے دیکھے میر کی شاعری میں خون کے یہ دھبے آج تک نمایاں ہیں ”
دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں اسے
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا
میر زندگی کے نہایت بھرپور تجربہ کا شاعر تھا ایک ایسا شاعر کہ جس نے اپنے عھد کے کرب ناک مناظر دیکھے وہ ہمارے تہذیبی اور تاریخی حافظے کا شاہد تھا اس نے تاریخ کو نہایت تیزی سے ٹوٹتے اور بکھرتے دیکھا اس عذاب کو اس نے اپنی ہڈیوں سہا وہ تہذیبی زوال اور آشوب کا مورخ بھی تھا اور نوحہ خواں بھی ان کے اشعار پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کا ہر ایک شعر ایک آنسو ہے اور ہر مصرع خون کی ایک بوند ہے
میر کا درد و الم :
زندگی کے بارے میں میر کا نقطئہ نظریہ حزنیہ تھا حزن ایک ایسے درد و الم سے عبارت ہے جو اپنے اندر تفکر اور تخلیقی صلاحیتیں بھی رکھتا ہےمیر کا تصور زندگی مایوس کن نہیں صرف اس میں حزن و ملال کا وجود بہت زیادہ ہے مگر یہ حزن و ملال ہمیں زندگی سے نفرت و عداوت کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ زندہ رہنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے میر کا کمال فن یہی ہے کہ اس نے کانٹوں پر زندگی بسر کرنے کے بعد بھی زندگی کی بھرپور توانائی کا احساس دلایا ”
میر کا تصور غم :
میر کا تصور غم تخلیقی اور فکری ہے یہ قنوطیت پیدا نہیں کرتا اس کے ہوتے ہوئے میر کی شاعری میں توازن اور ٹہراؤ نظر آتا ہے شکستگی کا احساس نہیں ہوتا اور ضبط ,سنجیدگی اور تحمل ملتا ہے وہ حزن و الم سے دوچار ہونے کے باوجود بھی اسے فرحت و نشاط بنادیتے ہیں میر کی شاعری کو پڑھنے کے بعد ہمارے احساسات و جذبات اور افکار و نظریات میں وہ برداشت اور سنجیدگی پیدا ہوتی ہے جس کو صحیح معنوں میں تحمل کہا جاتا ہے
ہر صبح غموں میں شام کی ہے میں نے
خونابہ کشی مدام کی ہے میں نے
یہ محلت کم کہ جس کو کہتے ہیں عمر
مر مر کے غرض تمام کی ہے میں نے
میر کی دردمندی:
میر کی شعر و شاعری میں درد مندی حزن و الم کا دوسرا نام ہے دردمندی سے مراد زندگی کے اندر درپیش آنے والے تلخ حقیقتوں کا اعتراف و ادراک اور حتی المقدور ان تلخیوں کو دور کرنے کی سعی و کوشش کا نام ہے درد مندی ان کی حیات مبارکہ کے تضادات سے جنم لیتی ہیں درد مندی کا منبع و مصدر قلب ہے میر کہتے ہیں
آبلے کی طرح ٹھیس لگی پھوٹ ہے
دردمندی میں کٹی ساری جوانی اپنی
نہ درد مندی سے تم یہ راہ چلے ورنہ
قدم قدم پہ تھی یاں جائے نالہ و فریاد
درد مندی کے محرکات:
میر کا زمانہ قتل و خون ریزی کا زمانہ تھا ہر طرف فتنہ و فساد اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا اور اس چیز نے انسانوں کو بے حد متاثر کیا تھا میر اس تباہیبکے محض تماشائی نہ تھے بلکہ وہ خود اس تباہ کن معاشرہ کے ایک فرد تھے جو صدیوں کے لگے بندھے نظام کی تباہی سے تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر کر رہ گیا تھا اور اس کو جوڑنا ہمالیہ پہاڑ کو اٹھانے کے مترادف تھا .میر اس سماج کے اثرات شدت سے محسوس کیے ہیں .ان کی غزلوں میں اس تباہی کے نقوش ملتے ہیں .لٹے ہوئے نگروں,شہروں اور اجڑی ہوئی بستیوں کے حالات ,بجھے ہوئے دلوں کی تصویریں ,زمانے کے گرد و غبار کی دھندلاہٹیں,تشبیہوں اور استعاروں کی شکل میں میر کے یہاں موجود ہیں :
روشن ہے اس طرح دل ویراں میں آگ ایک
اجڑے نگر میں جیسے جلے ہیں چراغ ایک
دل کی ویرانی کا کیا مذکور
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گہا
میرکی بلند حوصلگی:
یہ ممکن ہی نہیں کہ میر کو زندگی سے بیزار شاعر کہا جائے کیونکہ ان کا غم دیگر شعراء کے غموں سے مختلف ہے ان کا غم ایک مہذب اور درد مند آدمی کا غم ہے جو زندگی کے تضاد کو گہرے طور پر محسوس کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ درد و الم کے ساگر میں غوطہ زن ہونے کے باوجود بھی میر بے حوصلہ نہیں ہوتے وہ سپاہیانہ دم خم رکھتے ہیں ,فوجی ساز و سامان کے استعاروں میں مطلب ادا کرکے زندگی کا ایسا احساس دلاتے ہیں جس میں بزدلی بہر حال ایک عیب ہے میر کہتے ہیں :
خوش رہا جب تلک رہا جیتا
میر معلوم ہے قلندر تھا
حوصلہ شرط عشق ہے ورنہ
بات کا کس کو ڈھب نہیں آتا
میر کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی!
اردو شعر و شاعری کی دنیا میں بےثباتی دنیا کا احساس بہت مشہور و معروف ہے اس موضوع پر لگ بھگ تمام شعراء نے طبع آزمائی کی ہے لیکن خاص طور سے میر تقی میر کی شاعری میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر بہترین اسلوب اور سلجھے ہوئے الفاظ میں ملتا ہے .جس کی اصل وجہ اس عھد کے غیر یقینی اور ہنگامی صورت حال تھے جس کی وجہ سے ان کی شاعری میں دنیا سے بے ثباتی کے موضوعات پروان چڑھے
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
نمود کرکے وہیں بحر غم میں بیٹھ گیا
کہے تو میر بلبلا تھا پانی کا
جس سر کو ہے یاں غرور تاج وری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
میر کی شاعری میں خلوص,سادگی اور صداقت:
میر کی شاعری میں ایک نہایت ہی اہم خصوصیت یہ رہی ہے کہ وہ اپنی شاعری میں فنی خلوص کو پوری صداقت سے لاتے ہیں فنی خلوص کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شاعر زندگی کے حادثات کو کو جس طرح اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے ٹھیک اسی طرح بیان کرے میر کی شاعری اس لئے بھی مشہور و معروف ہے کہ اس میں سچائی اور خلوص کے ساتھ ساتھ تمام باتیں بے تکلفی کے انداز میں کہی گئی ہیں میر نے اپنی شاعری میں دوسروں کی طرح صرف تخیل کے گھوڑے نہیں دورائے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ کہ میر عوام کے ساتھ شاعر تھے اس کے ارد گرد کی زندگی سے حزن و ملال کے مضامین کے فوارے ابل رہے تھے میر نے انہی مضامین کو بہترین لب و لہجہ اور سادہ الفاظ میں پیش کیا میر کے خلوص و صداقت کا اندازہ ان اشعار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے
قدم رکھتی نہ تھی متاع دل
سارے عالم کو میں دکھا لایا
دل مجھے اس گلی میں لے جاکر
اور بھی خاک میں ملا لایا
ابتداء ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا
میر کا خطابیہ انداز :
میر کے ڈھیر سارے ایسے اشعار ہیں جس میں وہ خطابیہ انداز اختیار کرتے ہیں کبھی وہ خود سے مخاطب ہوتے ہیں تو کبھی کسی دوسرے شخص سے کبھی ان کا تخاطب بلبل سے ہے تو کبھی شمع و پروانہ سے ان تمام کیفیتوں میں بات چیت اور بے تکلفی کا رنگ بہر حال قائم رہتا ہے چند اشعار بطقر نمونہ ذیل میں درج کئے جارہے ہیں
چلتے ہو تو چمن کو چلیے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے .
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد
ابتدائے عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
میر کا طنز :
میر کی شاعری میں طنز در حقیقت ان کی فطرت کی عکاسی ہے جب کوئی جملہ طنز کے ساتھ بولتے ہیں تو اس سے صرف بے تکلفی نہیں جھلکتی بلکہ ایسا پتہ چلتا ہے کہ وہ اس تجربہ سے گزر چکے ہیں ان کے طنز میں ایک مدہم سی تلخی ہوتی ہے جو پختہ مغزی
کی علامت ہوتی ہے ان کے طنز میں غالب کی تیزی کی جگہ ایک عجب پر کیف نرمی ہوتی ہے .
ہوگا کسو دیوار کے سائے تلے میں میر
کی کام محبت سے اس آرام طلب کو
عشق کرتے ہیں اس پری رو سے
میر صاحب بھی کیا دیوانے ہے
میر کی تشبیہات و استعارات :
میر نے اپنی شاعری کو زیادہ خوبصورت بنانے کے لئے تشبیہ و استعارے کا بڑے سلیقے سے استعمال کیا ہے یہ تشبیہات مردہ نہیں بلکہ ان کے اندر زندگی دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے میر اپنی زندگی بھر کے حادثات ,واقعات,تجربات اور تاثرات کو پوری صداقت کے ساتھ تشبیہات و استعارت کی شکل دیتا ہے جس میں تصنع یا بناوٹ کا شائبہ تک نہیں ہوتا
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
میر کی ترنم اور موسیقیت :
میر کی شاعری میں غنائیت اور موسیقیت اپنے اندر فنی دلکشی کے بہت سے پہلو رکھتی ہے میر کے انداز کی نغمگی اور ترنم مسلم ہے اور یہی میر کی عظمت کا راز ہے ان کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ مختلف خیالات کے اظہار کے لئے مختلف بحروں کا انتخاب کرکے نغمگی پیدا کرتے ہیں فارسی کی مروجہ بحروں کے استعمال کے ساتھ ساتھ میر نے ہندی کے پنگل کو اردو غزل کے مزاج کا حصہ بنا کر ہم آہنگی کی صورت دینے کی کامیاب کوشش کی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی شاعری میں بڑی کیف آور اورباثر انگیز غنائیت و موسیقی پیدا ہوتی ہے .
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا
جانے ہے
چلتے ہو تو چمن کو چلیے سنتے ہیں کہ
بہاراں ہے
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و
باراں ہے
میر کی شاعری میں متصوفانہ رنگ:
میر کی شاعری کے فکری عناصر میں متصوفانہ رنگ خاص طور پر قابل ذکر ہے ان کے والد اور چچا صوفیانہ افکار و نظریات کے حامل تھے اور رات دن جذب و مستی کی کیفیات میں سرشار رہتے تھے میر نے ان بزرگوں کی صحبت میں چند سال گزارے تھے تو وہ بھلا کس طرح صوفیانہ تجربہ سے الگ رہ سکتے تھے ان کے یہاں تصوف کا تجربہ محض روایتی نہیں ہے یہ رسمی بھی نہیں ہے اس تجربے نے میر کے ذہن و فکر کی تہذیب پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں وہ زندگی کو کسی عام انسان کی طرح نہیں دیکھتے ان کی نظر صاف دل صوفی کی نظر ہے
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
سرسری تم جہاں سے گزرے
ورنہ ہر جا جہاں دیگر تھا
میر کی شاعری میں تصور محبوب:
یہ بات صد فیصد صحیح ہے کہ میر نے ایک گوشت پوست کے زندہ و متحرک محبوب سے صرف محبت ہی نہیں بلکہ بھرپور محبت کی تھی اور محبوب سے ان کے احساس جمال قوت تخیل اور تصور حسن پر روشنی پڑتی ہے ان کا محبوب حسن و جمال کی پڑی اور خوبصورتی کا منبع و مصدر ہے میر کا محبوب صرف چاند جیسا ہی نہیں بلکہ جسم خوشبودار اور رنگ و نو کا مجسمہ بھی ہے
ان گل رخوں کی قامت لہکے ہے یوں ہوا میں
جس رنگ سے لچکتی پھولوں کی ڈالیاں ہیں
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
میر کی شاعری میں تصور عشق:
میر کے یہاں عشق آداب سیکھاتا ہے محبوب کی عزت و تکریم کا درس دیتا ہے اگرچہ اس کا انجام ہمیشہ دردناک ہوتا ہے پھر بھی میر کو اس عشق سے پیار ہے یہی عشق ان کی زندگی کا اصل مقصد ہے اسی عشق نے ان کی زندگی میں خوشی و مسرت اور حرکت وعمل پیدا کی.میر کے خیال میں زندگی ساری رونق اور چہل پہل اسی عشق کی وجہ سے یے اگر عشق نہ ہوتا تو یہ کارخانہ قدرت بےکار ,خاموش ,بےحرکت اور بے لذت ہوتا تصور عشق کے حوالے سے ان کے نمائندہ اشعار درج ذیل ہیں .
دور بیٹھا غبار میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
محبت ہی اس کارخانے میں ہے
محبت سے سب کچھ زمانے میں ہے
ہم طور عشق سے واقف نہیں ہیں لیکن
سینے میں جیسے دل کو کوئی ملا کرے ہے
میر کی شاعری میں احساس برتری:
میر کی شاعری کے ڈھیر سارے رنگوں میں سے ایک نہایت ہی اہم رنگ احساس برتری کا رنگ ہے یہ شعر گوئی کا ایک ایسا انداز ہے جس نے تمام شاعروں کو بے حد متاثر کیا ہے اور سارے شاعروں نے اس رنگ میں طبع آزمائی کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن صلاح و فلاح سے ہمکنار نہ ہوسکے اسی لئے میر احساس برتری کو سامنے لاتے ہوئے کہتے ہیں کہ
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر
یہ ہماری زبان ہے پیارے
پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں
کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں
خلاصہ کلام :
میر تقی میر نے ڈھیر سارے اصناف سخن میں طبع آزمائی کی.ان تمام سخن کو یہاں پہ ذکر کرنا سورج کو چراغ دیکھانے کے مترادف ہے لیکن ان کے مجموعہ کلام کو سامنے رکھتے ہوئے اتنی بات تو ضرور کہنا چاہونگا کہ مہر تقی میر سرتاج شعرائے اردو ہیں .ان کا کلام اسی ذوق و شوق سے پڑھا جائیگا جیسے سعدی کا کلام فارسی میں اگر دنیا میں ایسے شاعروں کی ایک فہرست تیاتر کی جائے جن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا تو میر کا نام اس فہرست میں ضرور داخل ہوگا کیونکہ میر نے اپنی تخلیقی قوتوں سے زندگی کا رس نچوڑ کر اسے شاعری کے قالب میں ڈھال دیا ہے اس لئے جب تک اردو زبان و ادب اس دنیا کے اندر پڑھی,لکھی اور بولی جائے گی اس وقت تک لوگوں کے لسان و زبان پر میر کے اشعار رہیں گے
ANS 02
میر ان شعراء کرام میں سے ہیں ،جو اپنی حقیقت کو خود خوب پہچانتے تھے ۔ اسی لئے اکثر اپنے اشعار میں شاعرانہ تعلی کا اطلاق کیا ہے۔اپنے لئے فرماتے ہیں۔
سب دیئے ہیں میر کو جگہ اپنی آنکھوں پہ
اس خاک رہ عشق کا اعزاز تو دیکھو
میر تقی میر اردو شاعری کے اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جو اردو شاعری کاسنہری دور کہلاتا ہے ۔ لیکن میری ناقص رائے میں یہ اردو شاعری کی خوش نصیبی ہے کہ اس کو میر جیسا صاحب طرز ،صاحب اسلوب اور غم کو آفاقیت بنادیئے والا شاعر نصیب ہوا ۔ اسی لیے ’’ آب حیات ‘‘ میں مولانا محمد حسین آزادرقم طراز ہیں ،کہ میرؔ نے اپنی مشہور کتاب ’’ نکات الشعراء ‘‘ میں اس دور میں صرف دو شعراء کو تسلیم کیا جن میں خود ایک ، دوسرے سودا مگر کسی کے پوچھنے پر درد کو بھی آدھا شاعر تسلیم کرلیا ۔
سارے عالم پہ ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا !!!
خراج تحسین میر جیسے استاد کے لیے میری ناقص نظر میں:
بچپن میں جس نے غزل خوانی کے جھنڈے گاڑے
غزل چمن میں ناصر عندلیب کچھ یوں پکارے
ہر دور کی آواز رہیں گے میر خو ش نصیب ہمارے
غم اورانسو دے کر گیسو غزل کے خوب سنوارے
عظمت میر:
میر تقی میر اردو ادب کے سب سے بڑے شاعر ہیں وہ ہر عہد میں شہنشاہ غزل کہلاتے گئے ۔ غزل کی دنیا میں کوئی بھی شاعر میر کے مقام تک نہیں پہنچ سکا نہ ہی کسی نے میر کی ہمسری کا دعوی کیا ۔ میر کے بعد آنے والے تقریبا تمام شعااء نے میر کی پیروی کو ہی غطمت سمجھا ۔
غالبؔ میر کی عظمت کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں:
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر ؔ نہیں
ابن انشاء میر کی عظمت کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں:
اک بات بتاؤ انشاء جی تمہیں ریختہ کہتے عمر ہوئی
تم سارے جہاں کا علم پڑھے کوئی میر سا شعر کہا تم نے
شیخ ابراہیم ذوق ؔ میر کی عظمت کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں:
نہ ہوا، پرنہہوا میر ؔ کا انداز نصیب
ذوق یارونے بہت زور غزل میں مارا
مرزا رفیع سودا ؔمیر ؔکی عظمت کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں:
سودا تو اس زمیں میں غزل در غزل ہی لکھ
ہونا ہے تجھ کو میر ؔ سے استاد کی طرح
حسرت ؔ موہانی میر ؔ کی عظمت کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں:
شعر میر ےبھی ہیں پر درد و لیکن حسرتؔ
میر کا سا شیوہءِ گفتار کہاں سے لاؤں
غلام ہمدانی مصحفی ؔ میر کی عظمت کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں:
اے مصحفی ؔ تو اور کہاںشعر کا دعویٰ
پھبتا ہے یہ اندازِ سخن میر ؔ کےمنہ پر
اکبر ؔالہٰ آبادی میر ؔ کی عظمت کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں:
میں ہوں کیا چیز جو اس طرز پہ جاؤں اکبرؔ
ناسخ ؔ و ذوق ؔ بھی جب چل نہ سکے میرکے ساتھ
میاں میر مہدی مجروح ؔ میر کی عظمت کا اعتراف یوں کرتے ہیں:
یوں تو ہیں مجروح ؔ شاعر سب فصیح
میر ؔ کی پر خوش بیانی اور ہے
حالی ؔ میر کی عظمت کا اعتراف یوں کرتے ہیں:
حالی ؔ سخن میں شیفتہ سے مستفید ہے
غالب ؔ کا معتقد ہے مقلد ہے میر ؔ کا
میر کا تصور غم:
بقول مجنوں گو رکھ پوری:
’’ میر الم کو ایک نشاط اور درد کو ایک سرور بنا دیتے ہیں ‘‘
شعر ملاحظہ ہو :
روتے پھر تے ہیں ساری ساری رات
اب یہی روزگار ہے اپنا
درحقیقت میر کی شاعری درد و غم ، رنج والم ، آنسو کی ترجمان ہے ۔ انہوں نے اپنی پوری شاعری کو غم کے سانچے میں ڈھال دیا ہے ۔ گویا غزل نہیں ان کا غم حقیقت کے پردے سے نکل کر غزل کے سانچے میں ڈھل گیا ہے۔
شعر ملاحظہ ہو :
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لہو آتا ہے تب نہیں آتا
غم کی کسک عشق کی جان درحقیقت ان کے زمانی طور پرنا کام ہونے کی دلیل ہے یا یوں کہیئے وہ ناکام نہیں ہوئے ،حالات زمانہ نے انہیں ناکام کردیا تھا ۔ اسی لیے اک تڑپ ،اک کسک ،محرومیاں اور ناکامیاں ان کے کلام میں رچی بسی ہیں ۔شاید ان کے سینے میں اک آگ سی لگی ہوئی ہے ۔
خلوص وصداقت و سوزوگداز:
یہ ایک زندہ حقیقت ہے جگرنے کیا خوب کہا ہے ۔
صداقت ہو تو دل سنتے سے کھچنے لگتے ہیں واغط
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی
میر نے اپنی شاعری میں اپنے ذاتی غم کو آفاقی غم بنا کر پیش کیا ہے اور یہ کھلی حقیقت ہے کہ اپنا غم دنیا کے پر غم پر حاوی نظر آتا ہے ۔ اسی لیے سوزوگداز پیدا کرنے کے لئے موسیقار حضرات گلوکاروں کوبھی غم سے آشنا کرتے ہیں ۔ میر کے ہاں غم کی یہی کیفیت موجود ہے جس نے ان کے غم کو آفاقیت نجشی ہے ۔
شعر ملاحظہ ہو :
مرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
میر نے اپنی ذاتی زندگی میں والد کی وفات ،سوتیلے بھائیوں کا ناروا سلوک پھر اس پر اپنے سوتیلے ماموں خان آرزو کا سلوک ۔ ان کے غم کو اور سنیے کی جلن کو آتش نوا بنانے کے لئے کافی تھا یہ غم غزل کا لبا دہ اوڑھ کر اک بہتا دریا بن گیا ۔
اشعار ملاحظہ ہو ں:
ہمیشہ آنکھ ہے نمناک ہاتھ دل پر ہے
خداکسی کومجھ سا سادرد مند نہ کرے
سرہانے میر ؔ کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
میر کا غم عشق :
میر کے ذہن میں عشق کا مفہوم بہت وسیع ہے۔یہ جذبہ ان کےرگ و پے میں بچپن سے سرائیت کر گیا تھا۔میر کے غم عشق کے لیے اشعار ملاحظہ ہوں ، ایسا لگتا ہے میر جیسے استاد کے لیے شاید میری زبان گنگ ہوگئی اور قلم نے بھی ساتھ دینا چھوڑ دیا ہے ۔ کچھ ربط کے بعد میر کے اشعار ملاخطہ ہوں ۔
محبت نے طلمت سی کاڑھاہے تور
نہ ہوئی محبت نہ ہوتا ظہور
محبت ہی اس کا رخانےمیں ہے
محبت ہی سب کچھ زمانے میں ہے
ناقدین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ میر کا مفہوم عشق بہت وسیع ہے اور عشق کا جذبہ ان کے سنیے میں حقیقی طور پر سرائیت کرگیا تھا لہذا میر صوفیاء کے اس گروہ سی تعلق رکھتے ہیں جوکہ پوری کائنات کوہی عشق کا مظہر سمجھتے ہیں ۔شعر ملاحظہ ہو۔:
جب نام ترا لیجیئے تب چشم بھر آوے
اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے
اک ہوک سی دل میں اٹھتی ہے اک درد جگر میں ہوتا ہے
ہم راتوں کو اٹھ کر روتے ہیں جب سارا عالم سوتا ہے
میر کی عظمت اپنی نظر میں:
میر تقی میر بڑے سخن فہم ،خود نگر اور خود شناس انسان تھے ۔اسی لئے اپنی حیثیت اور مقام کو واضح انداز میں پہچانتےتھے۔ اور بر ملا کئی مقامات پر انہوں نے اپنے عظیم تر ہونے کا اظہار کیا۔ناقدین نے اس اصطلاح کو ’’شاعرانہ تعلی ‘‘قرار دیا ہے۔
اشعار ملاحظہ ہو ں :
اگر چہ گوشہ گزیں ہوں میں شاعروں میں میرؔ
پہ میرے شور نے روئے زمیں تمام لیا
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیئے گا
پڑھتے کسی کو سنیئے گا تو دیر تلک سر دھنئیے گا
میر دریا ہے شعر سنے زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی
میر کا دل ،دلی اور حالات زمانہ :
ڈاکٹر سید عبداللہ اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’’ نقد میر ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ
’’ اگر میر زمانے کی تاریخ نہ لکھی جاتی تو میر کی شاعری پڑھ کر ایک گہری نظر رکھنے والا اس زمانے کی تاریخ مرتب کر سکتا ہے ‘‘ ۔
آب حیات میں مولانا محمد حسین آزاد نے کیا خوب جملہ لکھا ہے کہ ’’اگر کوئی دلی کی تاریخ پڑھنا چاہے تو وہ دیوان میر پڑھ لے ‘‘
میر کا زمانہ سیاسی زوال ، اقتصادی ، بدجالی ، معاشرتی افراتفری اور اخلاق انحطاط کا زمانہ تھا ۔ اسی لیے انہوں نے ان مخصوص حالات کو گویا اپنی غزلیات کے سانچے میں ڈھال دیا۔
اشعار ملاحظہ ہوں:
دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
میر ؔ صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھا میے دستار
مرثئے دل کے کئی کرکے دیئے لوگوں کو
شہر دلی میں سب پاس ہے نشانی اس کی
میر کی تشبیہات اور استعارات :
تشبیہ اور استعارات تقریبا ََ ہر شعر کا جوہر ِ خاص ہوتے ہیں۔ لیکن میر نے تشبیہ اور استعارات ایسے معیاری انداز میں اختیار کیے ، کہ وہ زبانِ زد عام ہو گئے۔اور یقیناَ۔ یہ کہنا درست ہوگا میر کا کلام ان خصوصیات سے مالا مال ہے۔ شاید اسی لئے ڈاکٹر عبادت بریلوی رقم طراز ہیں۔
میر تشبیہوں اور استعاروں کے ذریعے سے بعض کیفیات کی ایسی خوبصورت تصویر کشی کرتے ہیں ،اور اس میں شک نہیں کہ ان کے ہاتھوں اس فن میں مصوری جیسی شان پیدا ہو گئی ہے۔
تشبیہات اور استعارات کے باب میں میر کا کچھ کلام ملاحظہ ہو:
نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میر ؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
میر ؔ دریا ہے شعر سنے زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
میر اور دنیا کی بے ثباتی کا تصور :
حادثات زمانہ اور گردش دوراں نے میر کے دل میں گوشہ نشینی کا تصور اور بھی گہرا کردیا تھا اس کیفیت کا اظہار انہوں نے جابجا کیا ہے ۔ دنیا کےعارضی ہونے کا تصور ان کی شاعری میں ایک خاص مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔
اشعار ملاحظہ ہوں:
چار دیواری عناصر میرؔ
خوب جگہ ہے پر ہے بے بنیاد
سرسری تم جہاں سے گزرے
ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا
کہا میں نے کتنا ہے گل کو ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
انسان دوستی اور احترام آدمیت:
میر نے اپنی شاعری میں انسانی عظمت اور اعلیٰ انسانی اقدار کو بڑی کثرت سے اپنی شاعری میں بیان کیا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ مضمون ان کی شاعری کا مستقل موضوع بن گیا ہے ۔اوران کے کلام میں جگہ جگہ اس رنگ کی نشانیاں موجود ہیں ۔
کلام ملاحظہ ہو :
آدمی کو ملک سے کیا نسبت
شان ارفع ہے میر انساں کی
کعبے سو بار وہ گیا تو کیا
جس نے یاں ایک دل میں راہ نہ کی
آہنگ اور موسیقیت میر کی شاعری کا خاص جوہر ہیں :
کلیم الدین احمد نے میر کی ان خصوصیات سے متاثر ہو کر کیا خوب کہا ہے ۔ مقولہ ملاحظہ ہو۔
’’ میر سید ھے سادھے مختصر،نرم اور ملائم لفظوں میں اپنے اچھوتے احساسات اور تاثرات کو صفائی اور درد انگیزی کے ساتھ بیان کرتے ہیں ان کے اشعار میں ایسا ترنم ہوتا ہے کہ گویا ان میں روح موسیقی آبسی ہے ‘‘۔
آہنگ اور موسیقیت کے لیے میر کا کلام ملاحظہ ہو :
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
عالم عالم عشق و جنوں دنیا دنیا تہمت ہے
دریا دریا روتا ہوں میں صحرا صحرا وحشت ہے
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
تبصرہ میری اپنی ناقص رائے میں:
اس میں کوئی شک ہی نہیں کی میر اردو ادب میں غزل کے سب سے بڑے استاد ہیں ۔اور ہر دور میں ان سے متاخرین نے فیض اٹھایاہے۔ویسے تو میر نے مختلف اصناف ِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ لیکن غزل میں ان کا رتبہ سب سے بلند ہے۔سچ یہ ہے کہ تغزل جس کامیابی اور خوش اسلوبی سے میر ؔ نے نبھایا ہے ،وہ ان ہی کے حصے کی بات ہو گئی ہے۔یا یوں کہیئے کہ غزل ان کا مزاج بن گئی تھی۔احساس کی شدت ۔تجربے کی گہرائی، مضامین کی شدت، آلامِ روزگار اور غمِ عشق وغیرہ وہ خصوصیات ہیں۔جنہونے جمع ہو کر میر ؔ کو شہنشاہِ غزل اور غزلوں کا امام بنادیا ہے۔جس کی بناء پر میر ؔ اردو شاعری کے افق پر ہمیشہ ایک سورج کی طرح چمکتے رہیں گے
ANS 03
جب ہم میر کی زندگی کو مطالعہ میں لاتے ہیں تو ہمیں ان کی زندگی گود سے لیکر گور تک مسلسل دکھوں تکلیفوں سے گھری نظر آتی ہے۔ میر رنج والم کے حوالے سےاردو کے معروف نقاد مجنوں گورکھپوری لکھتے ہیں کہ ” میر الم کو ایک نشاط اور درد کو ایک سرور بنا دیتے ” اصل میں میر کی شاعری میں جو درد ہے وہ اس کی حقیقی زندگی کا عکس ہے میر نے جس دور میں آنکھ کھولی اس زمانہ میں ہندوستان شورشوں و فتنوں کے دور سے گزر رہا تھا۔ یعنی جہاں ایک طرف مغلوں کی سلطنت کا سورج غروب ہو رہا تھا وہیں دوسری طرف فرنگیوں کی حکومت ملک کے چاروں اطراف اپنے پاؤں پسار رہی تھی۔ دراصل میر کی شاعری انکی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ ملک میں ہو رہی معاشی اقتصادی اور سیاسی تبدیلیوں کی بھی عکاس ہے۔ مولانا محمد حسین آزاد آب حیات میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ‘اگر کوئی دلی کی تاریخ پڑھنا چاہے تو وہ دیوان میر پڑھ لے ” اسی طرح ایک جگہڈاکٹر سید عبداللہ اپنی مشہور تصنیف ” نقد میر ” میں لکھتے ہیں کہ” اگر میر زمانے کی تاریخ نہ لکھی جاتی تو میر کی شاعری پڑھ کر ایک گہری نظر رکھنے والا اس زمانے کی تاریخ مرتب کر سکتا ہے ” چند اشعار آپ بھی دیکھیں جن میں میر نے سیاسی افرا تفری ملک کی کمزور ہوتی معیشت اور زوال پذیر ہورہی سلطنت کے حالات کو کچھ اس انداز میں پیش کیا ہے۔
دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
میر ؔ صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھا میے دستار
مرثئے دل کے کئی کرکے دیئے لوگوں کو
شہر دلی میں سب پاس ہے نشانی اس کی
دراصل میر کو زندگی میں جن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔۔انھیں حالات کو انھوں نے اپنی شاعری میں سمو کر رنج وغم کی یادگار تصاویر بنا دیا یا یوں سمجھ لیں کہ میر کے اشعار تاریخ کے وہ اہم دستاویزات ہیں جو انکے عہد کے سیاسی حالات و واقعات کی بھرپور شہادت دیتے ہیں میر نے اپنی شاعری میں انھیں مضامین کو قلمبند کیا جو زندگی کے راستے پر گامزن ہوتے ہوئے درپیش آئے بقول ساحر لدھیانوی کے..
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں دیا
جو کچھ مجھے دیا وہ لوٹا رہا ہوں میں
یہاں قابل ذکر ہے کہ آگرہ میں پیدا ہونے والے میر نے ابتدائی تعلیم اپنے والد کے دوست سید امان للہ سے حاصل کی ۔ میر ابھی نو برس کے تھے کہ انکے استاد انتقال فرما گئے جس کے بعد میر کے والد نے خود انکی تعلیم و تربیت کرنا شروع کر دی۔ لیکن افسوس کہ چند ماہ بعد انکے والد محمد علی بھی انتقال فرما گئے بس میر کے سر سے انکے والد کا سایہ اٹھتے ہی انکی زندگی میں رنج و الم کا ایک ایسا طویل باب شروع ہوا جسکا اختتام میر کی موت کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔والد کی موت کے بعد ان کے سوتیلے بھائی نے ان پر بے تحاشہ ظلم ڈھائے جسکے چلتے میر دل برداشتہ ہو کر تلاش معاش کی فکر میں دہلی پہنچ گئے۔ یہاں دہلی میں ایک نواب کی ملازمت اختیار کر لی ۔ مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ نواب موصوف بھی ایک جنگ میں مارے گئے ۔تو میر نے ایک بار پھر آگرہ کا رخ کیا ۔
لیکن تلاش معاش میں وہاں کافی جدو جہد کے باوجود بھی جب گزر بسر کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہ ہو سکا تو آپ دوبارہ دہلی روانہ ہوگئے ۔جہاں اپنے خالو سراج الدین خان آرزو کے یہاں سکونت اختیار کی۔ چنانچہ سوتیلے بھائی نے یہاں بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا اور آرزو کے کان بھرتے رہے۔ جس کے نتیجے میں خان آرزو نے بھی آپ کو پریشان کرنا شروع کر دیا۔ان تمام حالات یعنی غم دوراں، غم جاناں سے میر کی طبیعت میں ایک جنوں کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ میر خود ایک جگہ کہتے ہیں کہ۔
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا۔
میر نے مذکورہ تنگدستی و مشکلات سے دل برداشتہ ہو کر بالآخر گوشہ عافیت اختیار کرنے کے لیے لکھنؤ کے راستے پر گامزن ہوئے ۔ چنانچہ آپ کے لکھنؤ کے سفر کے حالات و واقعات کے بارے میں محمد حسین آزاد اپنی کتاب “آب حیات” میں لکھتے ہیں کہ
” میر تقی میر جب لکھنؤ چلے تو گاڑی کا کرایہ بھی پاس نہ تھا۔ ناچار ایک شخص کے ساتھ شریک ہوگئے تو دلی کو خدا حافظ کہا۔ تھوڑی دور آگے چل کر اس شخص نے کچھ بات کی۔ یہ اس کی طرف سے منہ پھیر کر ہو بیٹھے۔ کچھ دیر کے بعد پھر اس نے بات کی میر صاحب چیں بجبیں ہوکر بولے کہ صاحب قبلہ آپ نے کرایہ دیا ہے۔ بے شک گاڑی میں بیٹھے۔ مگر باتوں سے کیا تعلق! اس نے کہا۔ حضرت کیا مضائقہ ہے۔ راہ کا شغل ہے باتوں میں ذرا جی بہلتا ہے۔ میر صاحب بگڑ کر بولے۔ کہ خیر آپ کا شغل ہے۔ میری زبان خراب ہوتی ہے۔ “اسی طرح جب آپ لکھنؤ پہونچے تو دیگر مسافروں کی ایک سرائے میں قیا م کیا اسی دوران آپ پتا چلا کہ شہر میں مشاعرہ ہے تو فوراً ایک غزل کہی اور مشاعرے میں شرکت کی۔ جس وضع قطع اور انداز میں میر تقی میر نے اس مشاعرے شمولیت کی اس منظر کو مولانا محمد حسین آزاد نے کچھ انداز میں آب حیات میں پیش کیا ہے۔” ان کی وضع قدیمانہ تھی۔ کھڑکی دار پگڑی، پچاس گز کے گھیر کا جامہ، اک پورا تھان پستولیے کا کمر سے بندھا، ایک رومال پٹڑی دار تہہ کیا ہوا اس میں آویزاں، مشروع پاجامہ، جس کے عرض کے پائیچے، ناگ پھنی کی انی دار جوتی جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی نوک، کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار، ہاتھ میں جریب، غرض جب داخل محفل ہوئے تو وہ شہر لکھنؤ ، نئے انداز ، نئی تراشیں، بانکے ٹیڑھے جوان جمع، انہیں دیکھ کر سب ہنسنے لگے، میرؔ صاحب بیچارے غریب الوطن، زمانے کے ہاتھ سے پہلے ہی دل شکستہ اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف بیٹھ گئے، شمع ان کے سامنے آئی، تو پھر سب کی نظر پڑی۔ بعض اشخاص نے سوچھا! حضور کا وطن کہاں ہے؟ میرؔ صاحب نے یہ قطعہ فی البدیہہ کہہ کر غزل طرحی میں داخل کیا:؎
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
سب کو حال معلوم ہوا۔ بہت معذرت طلب کی”
اس کے بعد لکھنؤ کے تمام ادبی حلقوں میں میر کی تشریف آوری کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی جب اس ضمن میں نواب آصف الدولہ نے میر کے بارے میں سنا تو دو سو روپیہ مہینہ دینے کے ساتھ ساتھ عظمت و اعزاز سے نوازا۔لیکن میر کی نازک مزاجی و انا پرستی جو انکی ذات میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی نے لکھنؤ میں بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔
چنانچہ ایک واقع مشہور ہے کہ کبھی کبھی میر نواب کی ملازمت میں جاتے تھے۔ ایک دن نواب نے بلا وا بھیجا۔ جب میر پہنچے تو دیکھا کہ نواب حوض کے کنارے ہاتھ میں چھڑی لیے کھڑے ہیں۔ پانی میں الگ الگ رنگوں کی مچھلیاں تیرتی پھرتی ہیں اور نواب صاحب گویا ان مچھلیوں کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ جب میرؔ صاحب کو دیکھا تو نواب صاحب بہت خوش ہوئے اور کہا میر صاحب کچھ ارشاد فرمائیں ۔ تو میرؔ نے غزل سنانی شروع کی۔ نواب صاحب سنتے جاتے تھے اور چھڑی کے ساتھ مچھلیوں سے بھی مسلسل کھیلتے جا رہے تھے۔ میر صاحب چیں بجبیں ہوتے اور ہر شعر پر ٹھہر جاتے ۔ نواب صاحب کہے جاتے تھے کہ ہاں مزید آگے پڑھتے جائیں ۔ آخر چار شعر پڑھ کر میر صاحب رک گئے اور بولے کہ پڑھوں کیا آپ مچھلیوں سے کھیلتے ہیں۔ اگر آپ دھیان دیں تو پڑھوں۔ نواب نے کہا جو شعر قابل تعریف و پر کشش ہوگا وہ خود ہی دھیان کھینچ لے گا۔ میر کو یہ بات بہت ناگوار گزری جس کے نتیجے میں آپ غزل جیب میں ڈال کر گھر کو واپس چلے آئے اور پھر دوبارہ کبھی نواب کے یہاں نہیں گئے۔ کچھ دن بعد جب دن میر اتفاق سے بازار میں چلے جا رہے تھے کہ نواب صاحب کی سواری سامنے سے آگئی۔ دیکھتے ہی نواب صاحب محبت سے بولے کہ میرؔ صاحب آپ نے بالکل ہی ہم سے ہی قطع تعلق کر لیا کیا۔ کبھی تشریف ہی نہیں لاتے۔ میرؔ نے کہا۔ بازار میں باتیں کرنا شریف آدمیوں کو زیب نہیں دیتا۔ یہ کیا گفتگو کا موقع ہے۔ غرض بدستور اپنے گھر میں بیٹھے رہے اور فقر و فاقہ کے ساتھ ساتھ درویش و قلندروں کی طرح زندگی بسر کرتے رہے اور آخر کار یہیں لکھنؤ میں ہی 1810 میں قریب 87سال کی عمر میں انتقال فرما گئے اور یہیں لکھنؤ کی مٹی ہی دفن ہوئے۔
سرہانے میر کے آہستہ بولو ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
اردو ادب میں جب شعراء کی عظمت کا تصور کرتے ہیں تو بے شک میر تقی میر غزل کے سب سے بڑے شاعر کے طور پر ابھر کر ہمارے سامنے آتے ہیں وہ ایک ایسے واحد شاعر ہیں جواپنے بعد کے ہر عہد میں خدائے سخن ،شہنشاہ غزل یا غزل کی آبرو کہلائے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اردو کے بڑے سے بڑے استاد شاعر نے میر شاعری اور اسکے منفرد اور دلکش انداز بیاں کو سر خم تسلیم کیا ہے اور میر کی پیروی کرنے میں تقریباً سبھی غزل کہنے والے شاعر فخر محسوس کرتے ہیں
استاد شاعر مرزا اسد اللہ خان غالبؔ میر کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر ؔ نہیں
جبکہ ابن انشاء میر کی بڑائی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
اک بات بتاؤ انشاء جی تمہیں ریختہ کہتے عمر ہوئی
تم سارے جہاں کا علم پڑھے کوئی میر سا شعر کہا تم نے ذوق ؔ نے میر کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ،
نہ ہوا، پرنہ ہوا میر ؔ کا انداز نصیب
ذوق یارونے بہت زور غزل میں مارا
مرزا رفیع سودا ؔ جو کہ میر کے ہم عصر تھے اور خود ایک استاد شاعر تھے میر کو استاد شاعر کا درجہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
سودا تو اس زمیں میں غزل در غزل ہی لکھ
ہونا ہے تجھ کو میر ؔ سے استاد کی طرح
جبکہ مولانا حسرت ؔ موہانی میر ؔ کے شیوہء گفتار کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
شعر میر ےبھی ہیں پر درد و لیکن حسرتؔ
میر کا سا شیوہءِ گفتار کہاں سے لاؤں
طنز و مزاح کے شہنشاہ اکبر ؔالہٰ آبادی میر ؔ کے قدم سے قدم ملا کر چلنے میں خود کو قاصر محسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ۔۔
میں ہوں کیا چیز جو اس طرز پہ جاؤں اکبرؔ
ناسخ ؔ و ذوق ؔ بھی جب چل نہ سکے میرکے ساتھ
جبکہ اردو کے پہلے سوانح نگار،نقاد وجدید شاعر مولانا الطاف حسین حالی ؔ میر کی عظمت کا اعتراف اپنے مخصوص انداز میں کچھ اس طرح فرماتے ہیں کہ۔۔
حالی ؔ سخن میں شیفتہ سے مستفید ہے
غالب ؔ کا معتقد ہے مقلد ہے میر ؔ کا
میر جنھیں ادبی دنیا میں آہ کے شاعر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے آپ کے اشعار کو نشتر کہا جاتا ہے کیونکہ میر کی تمام شاعری ان کے دل سے نکلتی ہے اور پڑھنے والے کے سیدھا دل پر اثر کرتی ہے۔ایک چھوٹی بہر کی دلکش غزل کے چند اشعار دیکھیں۔
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھِیے ہوتا ہے کیا
قافلے میں صبح کے اِک شور ہے
یعنی غافل ہم چلے سوتا ہے کیا
یے نشان عشق ہیں جاتے نہیں
داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا
میر کی ایک اور مشہور غزل کے چند اشعار دیکھیں ۔ کس خوبصورت انداز میں اپنی بے بسی و لاچاری کا اظہار کیا ہے کہ۔
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں ، کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیمارئ دل نے ، آخر کام تمام کیا
عہدِ جوانی رو رو کاٹا، پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے ، صبح ہوئی آرام کیا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ، ہم کو عبث بدنام کیا
یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کی، یا دن کو جوں توں شام کیا
ایک مزید چھوٹی بہر کی غزل میں تغزل کا رنگ دیکھیں کیا خوبصورت سماں باندھا ہے ۔
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
نازکی اُس کے لب کی کیا کہئیے
پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے
بار بار اُس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے
میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز
اُسی خانہ خراب کی سی ہے
میر اُن نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
میر کے دیوان کو جہاں سے بھی پڑھنا شروع کر تے ہیں وہیں سے گویا اک شعر شور انگیز نکلتا دکھائی دیتا ہے۔اسی لیے وہ ایک جگہ خود کہتے ہیں کہ
جہاں سے دیکھیے یک شعر شور انگیز نکلے ہے
قیامت کا سا ہنگامہ ہے ہر جا میرے دیواں میں
تغزل کا ایک اور خوبصورت رنگ دیکھیں کہ
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے
یوں اُٹھے آہ اس گلی سے ہم
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
عشق میر اک بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
میر تقی میر کو تشبیہات اور استعارات کے استعمال پر جو عبور و قدرت حاصل ہے اس میں وہ ایک طرح سے اپنی مثال آپ ہیں اس ضمن میں آپ بھی کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میر ؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
میر ؔ دریا ہے شعر سنے زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
اسی طرح میر کے کلام میں جو خوبصورت سماں باندھ موسیقی کا جذبہ پایا جاتا ہے وہ انھیں اپنے شعراء کی برادری میں بالکل ممتاز و منفرد مقام پر پہنچا دیتا ہے ان کی شاعری کے اسی جوہر کے ضمن میں کلیم الدین احمد ایک جگہ کچھہ اس انداز میں رقمطراز ہیں کہ
” میر سید ھے سادھے مختصر،نرم اور ملائم لفظوں میں اپنے اچھوتے احساسات اور تاثرات کو صفائی اور درد انگیزی کے ساتھ بیان کرتے ہیں ان کے اشعار میں ایسا ترنم ہوتا ہے کہ گویا ان میں روح موسیقی آبسی ہے ”۔میر کی شاعری میں موسیقی کے مذکورہ رنگ کو آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
عالم عالم عشق و جنوں دنیا دنیا تہمت ہے
دریا دریا روتا ہوں میں صحرا صحرا وحشت ہے
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
میر کے کلام میں جو تڑپ و کسک ، ناکام عشق و محرومیاں اور ناکامیوں کا ایک تسلسل ملتا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی اس کے ساتھ ہی جو
خلوص وصداقت و سوزوگداز کی کیفیت پائی جاتی ہے اس نے میر کے غم کو ایک آفاقیت بخشی ہے ۔تبھی تو وہ کہتے ہیں کہ
مرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا۔
سرہانے میر ؔ کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
میر کی نظر میں عشق کا مفہوم بہت وسیع ہے ۔ آپ بھی ملاخطہ فرمائیں۔
محبت ہی اس کا رخانےمیں ہے
محبت ہی سب کچھ زمانے میں ہے
اردو کے ناقدین و شعراء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ میر کا عشق عظیم تر و بے حد وسیع ہے اور عشق کا جذبہ ان کے سنیے میں حقیقتاً رچ بس گیا ہے۔میر قلندر و صوفیاء کی برادری میں ایسے چنندہ لوگوں میں شامل ہیں جو اس تمام کائنات کوہی عشق کا مظہر سمجھتے ہیں ۔چنانچہ ایک جگہ خود کہتے ہیں کہ
جب نام ترا لیجیئے تب چشم بھر آوے
اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے
اک ہوک سی دل میں اٹھتی ہے اک درد جگر میں ہوتا ہے
ہم راتوں کو اٹھ کر روتے ہیں جب سارا عالم سوتا ہے
میر کو اس بات کا ضرور احساس رہا ہوگا کہ ان کی شاعری میں درج خیالات یقیناً مثال ہیں بے شک ان کی عظمت سے اہل ادب کو انکار نہیں ہے۔ان میں جو خود شناسی کی صفت موجود ہے وہ بہت کم لوگوں میں ہوا کرتی ہے۔شاید اسی کے چلتے میر اپنے اشعار میں کئی مقامات پر برملا خود کو عظیم قرار دیتے ہوئے کچھ اس طرح کے تاثرات کا اظہار کر جاتے ہیں آپ بھی ملاحظ فرمائیں چند اشعار۔۔
اگر چہ گوشہ گزیں ہوں میں شاعروں میں میرؔ
پہ میرے شور نے روئے زمیں تمام لیا
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیئے گا
پڑھتے کسی کو سنیئے گا تو دیر تلک سر دھنئیے گا
میر دریا ہے شعر سنے زبانی اس کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی
میر نے اپنی ایک نظم میں اپنے گھر کی حالت کا نقشہ کس طنزیہ انداز میں پیش کیا ہے آپ بھی ملاحظہ فرمائیں چند اشعار:
ایسے گھر میں ہوتے ہیں بیٹھے
جیسے رستے میں ہو کوئی بیٹھے
دو طرف سے تھا کتوں کا رستہ
کاش جنگل میں جا کے بستہ
چار آتے ہیں چار جاتے ہیں
چار عف عف سے مغز کھاتے ہیں
کس سے کہتا پھروں یہ صحبت نغز
کتوں کا سالاؤں کہاں سے مغز
آخر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بے شک غزل کے سب سے بڑے استاد شاعر ہیں ۔ اور آپ کے بعد ہر دور میں مختلف شعراء نے آپکی شاعری سے استفادہ حاصل کیاہے ۔میر نے مختلف اصناف ِ سخن میں طبع آزمائی کی ۔ لیکن ان کا اصل فیلڈ انکی غزلیہ شاعری ہے اس میں کوئی دورائے یا شک نہیں ہے کہ تغزل کو جس کامیابی اور خوش اسلوبی سے میر ؔ نے ادا کیا ہے ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف اور صرف انھیں کے حصے خاصہ تھا یا یوں کہہ لیجئے کہ غزل ان کے یا وہ غزل کے لیے پیدا ہوئے یعنی دونوں ہی ایک دوسرے کے بنا لازم و ملزوم ہیں۔
میر کی غزلیہ شاعری میں جو احساسات کی شدت ۔تجربے کی گہرائی، آلامِ روزگار اور غمِ عشق وغیرہ کی خصوصیات و صفات نظر آتی ہیں وہی میر ؔ کو شہنشاہِ غزل اور امام غزلیات کا لقب دلا جاتی ہیں۔آخر میں میرکو پریم وار برٹنی کے اس شعر کے ساتھ ہی خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنی بات کو یہیں ختم کرنے کی اجازت چاہیں گے کہ:
دیتا رہوں گا روشنی بجھنے کے بعد بھی
میں بزمِ فکر و فن کا وہ تنہا چراغ ہوں
ANS 04
عہد میر تک فارسی شعر و ادب صدیوں کی منازل ارتقاء طے کر لینے ا ور آفاقی و ادبی شہرت کے حامل ادباء و شعراء وجود میں لانے کے بعد دنیا کے بہترین زبان و ادب کے زمرے میں ایک بلند و ا علیٰ مقام حاصل کر چکا تھا۔یہ زبان و ادب برصغیر پاک و ہند میں بھی علمی ، ادبی اور درباری زبان و ادب کی حیثیت سے کم وبیش سات سو سال تک قائم و دائم رہا۔ایک خارجی زبان ہونے کے باوجود یہاں کے شعراء و ادباء نے گراں بہا بیش قیمت کارنامے انجام دیے جن کو دیکھ کر اہل زبان بھی انگشت بدنداں رہ گئے ۔ مغل حکومت کے زوال کے ساتھ اس زبان کی اہمیت و افادیت سے چشم پوشی کی جانے لگی شاہی سر پرستی حاصل نہ رہنے کے سبب اس شیریں و دلکش زبان کی نگہداشت کے بجائے بے اعتنائی و بے مروتی کے ساتھ مٹا دینے میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا گیا ۔ اپنوں و بیگانوں کی تمام تر بے التفاتی و بے رخی کے باوجود اس زبان کے ہمہ گیر اور دیرپا اثرات کے سبب اس کے نقش پوری طرح محو نہ کیے جا سکے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اردو زبان کے متعدد عالمگیر شہرت کے حامل شعراء نے فارسی زبان میں بھی اپنے گرانقدر کارنامے یادگار چھوڑے ہیں ۔ اس سلسلہ میں حاتم ، سودا، فانی، مصحفی ، انشاء ، غالب، مومن ، حسرت، رخشاں اور اقبال وغیرہ جیسے ممتاز شعراء کے نا م سر فہرست ہیں۔ انہیں میں ایک اور اردو ادب کی ناقابل فراموش شخصیت میر تقی میر کی بھی ہے ۔وہ ایک طرف اردو ادب کے ملک الشعراء ، امام المتغزلین، خدائے سخن اور سرتاج الشعرا ء کے القاب سے نوازے گئے تو طرف دیگر وہ فارسی زبان و ادب کے بھی ایک بہترین شہ سوار ہیں ، حالانکہ اردو کے مقابلے میں ان کا فارسی کلام بہت کم ہے۔ اردو میں ان کے چھ دیوان یادگار ہیں جو ان کی شاعرانہ عظمت پر دال ہیں لیکن فارسی میں صرف ایک دیوان ہے جس میں پونے تین ہزارسے متجاوز ابیات ہیں لیکن کسی شاعر یاادیب کی ادبی عظمت کا انداز اس کے کلام کی مقدار و تعداد کے اعتبار سے نہیں لگایا جا سکتا۔ میر تقی میر کا فارسی کلام کمیت کے لحاظ سے مختصر لیکن ’’کہتر بہ قیمت بہتر،، کا مصداق ہے۔ اس مختصر مضمون میں ان کی قد آور تہ دار شخصیت کے تمام پہلوؤں کا تعارف کرانا تو ممکن نہیں لہٰذامیں اپنی کم علمی اور کوتاہ قلمی کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی فارسی غزلیات کی روشنی میں ان کی زندگی کے ایک پہلو پر نظر ڈالنے کی سعی ناتمام کر رہی ہوں اور وہ پہلو ہے میر کے عاشقانہ احساسات و جذبات جن کے بارے میں لوگ مختلف الآرا ء نظر آتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ وہ قنوطی شاعر ہیں تو کسی نے رائے دی کہ وہ پیدائشی غمگین اور افسردہ شخصیت ہیں، کسی کا دعویٰ ہے کہ عشق کی ناکامی نے انہیں مردم بیزار بنا دیا تو کوئی ماحول کی نا مساعدی و ناسازگاری کے پیش نظر انہیں شاعر غم کہہ کر سکون قلب حاصل کرنے کی کوشش کرتا نظر آیا تو کسی نے ان کے عزیزوں کی بے وفائی و ظلم و ستم سے گھبراکر گوشہ تنہائی میں پناہ لینے یا دنیا سے کنارہ کشی کی داستان کو پیش کیا اور ان کی بیشتر شاعری کو مرثیہ گوئی پر محمول کرتے ہوئے اپنا دامن جھاڑنے کی کوشش کی۔
’’میر کی شاعری میں کنارہ کشی کی مختلف شکلیں پائی جاتی ہیں۔ ان کی ساری غزلوں میں میر کا خون جگر جھلکتا نظر آتا ہے۔ میر نے زندگی ناکامیوں میں بسر کی۔ اس لیے ان کے بہت سے اشعار ناکامیوں کے مرجھائے ہوئے غنچے معلوم ہوتے ہیں جن کو موج بہار اور باد صبا کھلانے سے قاصر رہی ‘‘۔ ۱
یہ درست ہے کہ میر کی زندگی کا بیشتر حصہ تنگ دستی ومصائب میں گزرا ۔خود ان کا کلام اس کاشاہد ہے ان کی اردو وفارسی شاعری کی فضا عموماًافسردہ ،سوگوار ، درد و اذیت ، رنج واندوہ، ہجرو فراق، ناکامی ومحرومی ، تلخی و تندی اور حسرت و یاس کی مظہر ہے جس میں نیم شب کی بے خوابی کی فریادیں ، آہ دل سوز کی پرسوز و پر درد شرر باری، اشک ہائے گرم و آتش ہائے دروں کی اضطرابی بے سکونی، حساس و ناکام دل کی آہ و زاری پورے شد و مد کے ساتھ جلوہ گر ہو کر قاری کے اذہان کو خیالستان سوگوار میں منہمک و مستغرق کر دیتی ہے۔ ان کے یہاں الفاظ کی بازی گری پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے بلکہ دل نازک پر گزرنے والے ہر واقعہ اور حادثہ کو مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے، خصوصاً ان کی فارسی غزلیات میں جو عشقیہ مضامین بیان کیے گئے ہیں ان میں لطافت و حلاوت و شیرینی کی نظیر معاصرین شعراء کے یہاں شاذو نادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
’’ان کی فارسی شاعری ہلکی پھلکی اور رواں ہے۔ اس میں نرمی ‘گھلاوٹ اور شیرینی ملتی ہے اور عشق کے آفریدہ درد و غز کی تصویر کشی کے لیے بے حد موزوں ہے ۔ ۲عشق مجازی کی محرومی و دل شکستگی ، تلخی و ناکامی اور سوز و گداز نے ان کی شعر گوئی کو صیقل کرنے اور اس کو نئی سمتیں دکھانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے یہاں جذبہ صادق کی جو ترجمانی کی گئی ہے وہ انہیں انفرادی رنگ عطا کرتی ہے ۔ ’’متاخرین کے مقلدین کی بے رس اور بے سوزشاعری کی جگہ ہمیں اپنی تازہ واردات کی لذت سے بھی آشنا کر گئے ‘‘۔ ۳
میر نے اپنی عشقیہ شاعری بالخصوص فارسی غزلیات میں غزل کے حقیقی معنی و مفہوم ’’راز گفتن بہ معشوق ‘‘کو نہایت سلیقے و ہنر مندی کے ساتھ برتا ہے۔ان کے متعدد اشعار سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ آدم بیزار ، گوشہ نشین اور قنوطی شاعر نہیں بلکہ ہماری دنیا کے گوشت پوست سے بنے انسان ہیں جن کے سینے میں عشقیہ جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر در شکل دل موجود تھا ۔ظاہر ہے وہ انسانوں میں رہ کر اور بحیثیت انسان اس عالمگیر جذبے یعنی عشق سے اپنی ذات کو مبرا کیسے رکھ سکتے تھے ۔
کہتے ہیں کہ آفاقی شاعرہونے کے لئے عاشق ہونا شرط لازم ہے۔ اس کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ تقریباً تمام اکابر غزل گو اور مشاہیر عشقیہ شاعر اپنے اپنے عہد کے درد دل رکھنے والے عاشق رہے ہیں ۔ جن کی شہادت یا توان کی تخلیقات میں موجود ہے یا پھر تاریخی اوراق میں ان کی عشقیہ داستانیں ہمیں دعوت فکر دیتی ہیں۔ میر بھی آتش عشق سے اپنا دامن بچا نہیں سکے۔ ان کے یہاںیہ جذبہ اپنی تمام تر جلوہ آرائیوں کے ساتھ از اول تا آخر موجود رہا بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ان کی ہمہ زندگی عشق ہے اور اس پر خطر و پر پیچ و پر خار راہ عشق میں اس کا ایک ہی تجربہ ہے اور وہ ہے غم ۔یہی وہ غم ہے جو عشق کا مرہون منت ہے ۔وہی ان کی شاعری کا سب سے بڑا محرک ہے جو انہیں قوت و دانائی بخشتا ہے۔ عشق مجازی کی وجہ سے ہی کہ ان کے یہاں عشق حقیقی کا جذبہ پیدا ہوا ، لیکن ان کا صوفیانہ رنگ ان کی تمام شاعری پر غالب نہیں ہے بلکہ ان کی بیشتر شاعری مجازی محبوب کے ہجر و وصال ، شکایت بے التفاتی و بے نیازی ، تند خوئی و سرد مہری کی دلچسپ داستاں ہے۔
میر کے یہاں اگرچہ کہیں کہیں وحدت الوجود کا نظریہ ، جبر کا فلسفہ اور قناعت و درویشی کا رویہ مل جاتا ہے مگر بنیادی طورپر ان کی شاعری خالص عشقیہ شاعری ہے ۔ ۴ میر کی داستان عشق کی تفصیلی رودادمثنویوں میں اور بھی زیادہ شدت سے بیان کی گئی ہے۔ عام رائے یہ ہے کہ میر کا عشق صوفیانہ عقائد و افکار کا عکاس ہے۔ اس میں جستہ جستہ اشعار مجازی عشق کی ترجمانی کرتے ہیں مگرحقیقتاً ان کی پوری عشقیہ شاعری ان صوفیانہ رحجانات کو ہی پیش کرتی ہے لیکن ان کو صدفی صد درست نہیں کہا جا سکتا۔ ان کے کلام کا بڑا حصہ ایسا ہے جس میں وہ کسی دنیاوی ’’شاخ بنات‘‘کے عشق میں تڑپتے اور آہیں بھرتے مانند مرغ بسمل نظر آتے ہیں ۔
ان کا عشق تو انسانی جذبات ، جسمانی تقاضوں ، ہجر و وصال اور انسانی رشتوں کی جستجو تھا جو صدیوں سے انسان کے دل کی دھڑکن تھے۔ اس عشق نے تو خود انہیں جنون میں مبتلا کر دیا تھا ۵خود ان کا یہ شعر ان کی دیوانگی کی جانب اشارہ کرتا ہے :
دل از بے طاقتی در سینہ خوں بشد
داماغی داشتم صرف جنوں شد
میر کے آئینہ خیال میں وہی جلوے زیادہ واضح، صاف اور روشن ہیں جو براہ راست ان پر اثر انداز ہوتے ہیں۔گویا ان کا ایک ایک شعر ان کی زندگی کی تفسیر ہے۔ وہ عاشقانہ جذبات کو بغیر کسی تصنع و بناوٹ کے سیدھے عام انداز میں بیان کرتے ہوئے ’’ازدل خیزد بردل ریزد ،، کا مصداق بنا دیتے ہیں ۔ملاحظہ کیجیے کچھ اشعار جو بغیر کسی لفظی و معنوی آرائش کے دل پر گہرے نقش مرتب کرتے ہیں ۔
بت بے مہر من ہمہ کین است
دشمن جاں و رہزن دین است
جان تلخی کشیدہ می داند
کہ گل دلبراں چہ شیریں است
از خرامش بہار می ریزد
رفتن یار بس کہ رنگین است
قامت را بہ خلق بنمود است
کلفت روز گار من ایں است
جب معشوق تند خو عاشق کی جانب متوجہ ہونے کے بجائے بہ طرف رقیب راغب ہوتا ہے تو میر شکوہ زبان پر لانے سے روک نہیں پاتے اور اس کی بے مروتی سے اپنے دل پر گزرنے والی قیامت کو سادگی کے ساتھ کہتے ہیں اور یہ سادگئی بیان ہی شعر کا اصل حسن بن جاتا ہے ۔
مے خورد بارقیب شب و روئے مانہ دید
ایں بے مروتی دل مارا کباب کرد
وہ صرف رقیب سے ہی نالاں و بے زار نہیں بلکہ انہیں تو یہ گوارہ نہیں کہ کوئی پرندہ بھی اس کوچہ سے گزرے جہاں معشوق رہتا ہے ۔ کیونکہ وہ ایک عاشق و دنیا دار کی طرح اپنے معشوق کے حسن بے پناہ پر کسی اور کی نگاہ پڑنے دینا نہیں چاہتے پھر چاہے وہ کوئی پرندہ ہی کیوں نہ ہو ۔
شد کباب از آتش غیرت دلم
گر بہ کویش طائر پرواز کرد
شاعر کے یہاں خیال و فکر میں ندرت کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے تجربات و مشاہدات کے ساتھ خلوص یا صدق جذبات عشقیہ شاعری کی جان ہے۔اگر ندرت و خلوص کی باہمی آمیزش سے کوئی شعر وجود میں آئے تو اس کی اثر آفرینی و دل پذیری حد درجہ بڑھ جاتی ہے۔اس کا اندازہ میر کے اس شعر سے بآسانی ہو سکتا ہے ۔
سحر ہر روز خورشید از سر کویت گزر دارد
نمی داند مگر آں سادہ کیں رہ صد خطر دارد
یوں تو میر کو تمام ہی اصناف سخن پر استادانہ قدرت و مہارت حاصل ہے لیکن ان کا خاص میدان غزل ہے اور غزل میں وہ مضامین تغزل کے دائرے سے باہر نکلنا گوارہ نہیں کرتے ۔ان کی فارسی غزلوں میں بھی تغزل کے اعلٰی نمونے ملتے ہیں جن میں محبوب کے حسن ناز و انداز غرض اس کی ہر ادا کو نہایت جالب انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ تغزل کے عناصر میں تکلف وتصنع کا عکس نہیں پڑتا۔اسی لیے دوراز کار تشبیہات و استعارات کے استعمال سے میر نے اپنے تغزل کا چہرہ مہرہ نہیں بگاڑا یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں علم بدیع کے صنائع و بدائع خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ حدیث دل بیان کرنے کے لیے جس صاف ستھرے پیچیدگی سے پاک انداز بیان کی ضرورت ہے، میر نے اس کو اپنا اسلوب بنایا ہے۔ میر سراپا عشق و سراپا سوز تھے ۔اس کی ترجمانی فطری طور پر اس انداز بیان سے نہیں ہو سکتی جو میر کے ضروری تکلفات کے بوجھ سے دبا ہو‘‘۔ ۶
میر نے الفاظ کی خوش آہنگی ، اسلوب کی ندرت ، خیال کی تازگی، احساس کی شدت اور مسحور کن انداز بیان سے تغزل کو اتنا اعلیٰ مُقام عطا کیا ہے کہ کوئی ان کی برابری کو نہیں پہنچا۔ ان کی ایک فارسی غزل دیکھیے جس میں انہوں نے اپنے معشوق دلفریب کی کم عمری ، ناپختگئ خیال ، زمانے کے سرد گرم کی بے خبری ، عشق و عاشق سے بے نیازی ، دل کے فتنہ اٹھانے والے حالات سے ناواقفیت وغیرہ جیسی خصوصیات کو نہایت مؤثر انداز میں بیان کیا ہے ۔ انہوں نے نہ صرف غزل کے الگ الگ اشعار کے مابین ایک معنوی رشتہ قائم کیا ہے بلکہ ایک پر کیف جمالیاتی فضا قائم کر دی ہے۔
اوچہ داند کہ گل داغ نہ چیدہ ست ہنوز
غنچہ ای ہست و ہوائش نرسیدہ ہنوز
اوچہ داند کوچہ در دوری اومی باشد
چند گامی بہ رہ غم بہ دویدہ ست ہنوز
بر سر رہگزر از حال من او را چہ خبر
انتظاری چو خودی را نہ کشیدہ ست ہنوز
گوش بر قصہ عشاق نیند اختہ است
شور ہنگامہ دل ہم نہ شنیدہ ست ہنوز
کی بہ ایں چشم جگر بار منش چشم افتاد
اشک ہم از مژد�ۂاو نہ چکیدہ ست ہنوز
قدر ما سینہ فگاران چہ کند کآن بی رحم
چُوں گل از شوق گریباں نہ دریدہ ست ہنوز
داغم اے میر من از بکر نگاہی کہ زشرم
صورت آئینہ یک چشم نہ دیدہ ست ہنوز
میر کے متعدد فارسی اشعار میں محبوب کے خدو خال ، چشم و ابرو، قدو قامت ، زلف و رخسار، ناز و ادا ، ہجر و وصال ، شکوہ شکایت ، نامہ و پیام، خلوت و جلوت وغیرہ جیسے مضامین اپنی تمام تر فکری رفعت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔ ان کی عشقیہ شاعری میں غور طلب بات ہے کہ وہ محبوب کے جسمانی محاسن اور عشوہ طرازیوں کا ذکر اس انداز سے کبھی نہیں کرتے جو تہذیب و اخلاق کی نگاہ کو جھکا دے۔ ان کا وصف خاص یہ ہے کہ وہ بغیر کسی تفصیل کے معشوق کے حسن کا ذکر اس انداز سے کر جاتے ہیں کہ اس کے نازک سراپا اورحسن کی تصویر نگاہوں میں رقص کرنے لگتی ہے ۔ان کا مندرجہ ذیل شعر دیکھیے جس میں انہوں نے نہ تو محبوب کے خوبصورت چہرے سے متعلق کچھ کہا ہے، نہ آنکھوں کی مد ہوشی اور نہ ہی اس حسن بے پناہ کا بیان کرنے میں کسی اور چیز کا سہارا لیا ہے ،بس اتنا کہا ہے ۔
زروافگندہ برقع در چمن چوں جلوہ گر گشتی
گل از خود رفت سنبل گشت والہ سرو مائل شد
ان کا ایک اور شعر بھی دیکھیے:
وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
میر کے یہ فارسی اشعار دیکھیے جو ان کے تغزل کی بہترین مثال کہے جا سکتے ہیں :
نومید ز جاں گشت بہ ہر کس کہ نگہ کرد
ایں چشم سیاہ تو بسے خانہ سیہ کرد
یک صبح نہ صد بارخ خوب تو برابر
ہر چند کہ گل مشورہ شب ہا بہ کلہ کرد
ان کی غزل کے چند اشعار اور ملاحظہ کیجیے:
درد مندے کہ عشق خوافتاد
باغم و درد کار او اُفتاد
رشتۂ الفت بت آخر کار
ہم چو زنار در گلو افتاد
دیدن او را بہ حشر ہم رمزے ست
طبع شو خش بہا نہ جو افتاد
زلف بکشوہ فتنہ ایں برخاست
چشم بنمود ہائے و ہو افتاد
قد بر افراشتے قیامت شد
گام برداشتے غلو افتاد
نامہ ام چوں پر فتادہ بہ راہ
در دیار تو کو بہ کو افتاد
ان کا ایک اور شعر ہے:
مپرس اے میر انداز چشم انداز چشم نیم بازاو
قیامت نشۂ زآں جام شراب نیم رس دارم
اسی خیال کا ان کا ایک اور شعر بہت مشہور ہے :
میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
میر کی عشقیہ فارسی شاعری کی ایک بڑی اور اہم خصوصیت جدت طرازی ہے ۔میر اپنی قوت اجتہادی کی مدد سے نیا ،انوکھا مضمون باندھنے پر قادر نظر آتے ہیں ۔وہ فرسودہ کہنہ اور پامال مضمون کو بھی اپنے تخیل اور شاعرانہ کمال سے دلچسپ ، جدید اور اثر انگیز بنا دیتے ہیں۔ ان کے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے:
از دل مگو کہ تیر بلا را نشانہ است
و ز سینہ ام مپرس زنبور خانہ است
دیشب بہ یاد زلفے کی می سوختی دلا
دو د جگر چو مارسیہ بیچ و تاب داشت
شد رہ آشیاں فراموشم
طائر نو پریدہ رامانم
میر کے اردو کلام میں معاملہ بندی سے متعلق متعدد اشعار موجود ہیں لیکن فارسی شاعری میں اس قسم کے اشعار نہیں ملتے اور اگر انہوں نے اس قسم کے اشعار کہے بھی ہیں تو اسلوب بیان کی ندرت و پاکیزگی کے سبب ابتذال ، عریانی یا جنسیت کا دھبہ نہیں آنے دیا ہے اور نہ ہی ایسے مضامین کو موضوع بنایا ہے جن سے کلام میں عامیانہ پن اور رکاکت پیدا ہوتی ہے یا جس سے تہذیب کی آنکھیں جھک جاتی ہیں ۔ ان کے یہ اشعاردیکھیے جن میں معاملہ بندی کا عنصر تو ہے مگر فحاشی و ابتذال کا کوئی شائبہ نظر نہیں آتا :
سر مست در رسیدی و دست و بغل شدی
قربان می شوم کہ ترا بے حجاب کرد
ہر کس بہ دلبر خود شد ہم کنار شاداں
حسرت فرود بے تو در روز عید مارا
عید تقریب خوشے بود و لیکن صد حیف
ماند بر عید دگراز تو ہم آغوشی من
اسی مضمون سے متعلق ان کا ایک اور شعر یہ ہے :
عید آئندہ تک رہے گا گلہ
ہو چکی عید تو گلے نہ ملا
میر کے اشعار میں پاکیزگی وطہارت کا اظہار ہوتا ہے ۔
صحبت چگونہ گرم تواں کردیا گلے
کافسردہ می شود نزاکت چو بو کنند
میر کو ایک عاشق بے قرار کی مانند معشوق کی جدائی کسی بھی لمحہ برداشت نہیں ہوتی ۔ وہ بے قراری سے کہہ اٹھتے ہیں :
امشب کہ در من کام جاں نبود
حالے گزشتہ است کہ جاں در میاں نبود
اور جب طویل انتظار کے بعد شب وصل کی نعمت حاصل بھی ہوتی ہے تو
دوش وصل او میر شد ولے
دل زبے تابی بہ فکر خویش برد
میر کو معشوق کے احترام اور اس کی عزت کا ہمیشہ خیال رہا ، لہٰذا کہتے ہیں ۔
مردم بایں راز عشق نہ رفعت
بعد عمرے غبار من برخاست
میر کے اشعار میں ایک کسک ، خلش اور سوزش کا احساس ہوتا ہے اور یہی چبھن و سوزش عشقیہ شاعری کا طرہ امتیاز ہے ۔ان کے یہاں عشق میں ظہور پذیر ہونے والے تمام تلخ و شیریں تجربات کی سچی ترجمانی ملتی ہے۔ جب وہ اپنے اضطراب، تشنگی ، بے اطمینانی ، ناراضگی اورکم یقینی کو بیان کرتے ہیں تو ان کا ہر ایک شعر شاہکار لازوال بن جاتاہے ۔
بہ بزم عیش او اساتدم خاموش از حیرت
بداں ماند کہ بر دیوار چسپا نند تصویر ے
اکثر مواقع پر ان کے یہاں ناکام عاشق کی بے بسی ، مجبوری اور لاچاری کا رنگ بہت گہرا اور نمایاں ہے ۔ اس قسم کے عشقیہ اشعار میں بڑی صداقت، خلوص ،وارفتگی اور اضطرابی کیفیت پائی جاتی ہے جو قاری کو حال خود فراموشی میں لے جاتی ہے۔ عشق میں ناکامی کے بعد عاشق کے دل سے جو کراہیں نکلتی ہیں ان کے بیان کرنے پر ہمارے شاعر کو غیر معمولی قدرت حاصل ہے۔
’’میر حسن پرست تھے ۔عشق میں چوٹ کھائے تھے اور اپنے اس جذبے کو اس صداقت سے بیان کرتے ہیں کہ وہ دل پر نشتر کا کام کر جاتے ہیں ۔۷
عاشق جب معشوق کو یاد کرتا ہے تو اس کے فراق کا احساس اور زیادہ شدت اختیار کر لیتا ہے اور یہ احساس آہ و زاری کی شکل میں ظہور پذیر ہوتا ہے اور وہ بے چین ہو کر اس کی ایک جھلک پانے کو طرح طرح کی تدابیر اختیار کر تا ہے۔اپنی تمام تر ناتوانی و بے کسی کے باوجود برائے وصل معشوق وہ ایسے راستے اختیار کرتا ہے کہ اعتدال کی حالت میں جن کا کرنا محال ہوتا ہے ۔مثلاً میر کا یہ شعر دیکھیے:
روزے ہزار بار ز شوق در کسے
ایں پا شکستہ دست بہ دیوار می برد
میر کے یہاں گفتگو کا سلیقہ پایا جاتا ہے۔ وہ سیدھے انداز میں بات نہیں کرتے۔ ان کی بات تہہ در تہہ ہوتی ہے لیکن اس میں تکلف و تصنع کا شائبہ تک نہیں ہوتا بلکہ فطری انداز ہونے کے باعث اس میں ایک انوکھی کشش و سحر انگیزی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس میں ان کے احساس و جذبے اور ادراک و شعور کا لہو دوڑتا ہے۔ ان کے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے جن میں معشوق کی سنگدلی ، سرد مہری اور بے وفائی کی شکایتیں اور شکوے ہیں :
بامن آں رشک ماہ صاف نہ شد
جرم نا کردہ ام معاف نہ شد
باما ہنوز بے مزگی ہاست یار را
بے وجہ رنجشے ست ہماں آں نگاررا
مردیم و مکاں ہم شدہ و یراں و نہ گفتی
کایں رہ گزر تکیہ در یوزہ گرے داشت
بے رحمی تو تاچہ مقام است خود ببیں
مردیم بے تو و نہ رسیدی بہ دردما
من اے ظلم کیشاں زجاں دست شستم
بیا رید نطعے و تیغے وطشتے
سالہا بیمار ماندم بے تو کے دیدی مرا
مردم از بے لطیف آخر نہ پر سیدی مرا
جب وہ معشوق کی کبھی نہ ختم ہونے والی تند خوئی ، سرد مہری اور سنگ دلی سے اکتا جاتے ہیں تو خود کو بڑے مشفقانہ و مخلصانہ انداز میں تسلی و تشفی دیتے ہیں ۔
دلبراں جز جفا نمی دانید
راہ و رسم وفا نمی دانید
جب دل شوخ و چنچل و شرارتی طفل کی طرح بار بار محبوب کی طرف مائل و راغب ہوتا ہے توناصحانہ انداز اختیار کرتے ہیں ۔
بجز پامالی کشت امید اے میر درآخر
بگو بارے کہ ازورزیدن عشقت چہ حاصل شد
مایوسی حد درجہ بڑھ جاتی ہے تو کہہ اٹھتے ہیں۔
چوں شمع چند گویم بے اختیار ہر شب
تاکے زنم بر آتش پروانہ وار ہر شب
ایک وقت تو ایسا آتاہے کہ وہ عشق مجازی سے بیزار و دل آزار ہو جاتے ہیں :
شدم بے زار از عشق مجازی
نمی آید زمن ایں بچہ بازی
انہیں عشق مجازی کی مسلسل ناکامیوں سے گھبراکر حسن مجاز کے عارضی ہونے کے احساس سے عشق حقیقی کی جانب مائل و متوجہ کرنے کے لیے اپنے دل شوریدہ کو اس انداز میں سمجھاتے ہیں :
تا چند میر خاک در چوں بود بے شدں
برخیز و ہر چہ می طلبی از خدا طلب
میر کے یہاں حقیقی دل کی آواز کی شان پائی جاتی ہے۔ مثلاًجب عشق مجاز میں بوالہوسی و حسن پرستی کا جذبہ کارفرما ہو تو واعظ یا ناصح کی باتیں سرد اور غیر ضروری محسوس ہوتی ہیں۔ ہوش و خرد کی گفتگو سے بیزاری محسوس ہوتی ہے۔ بقول حافظ :
چوں شدم مجنوں بروئے عشق لیلٰی در جہاں
عاقلا پندے مدہ ہمچوں من دیوانہ را
ANS 05
میر تقی میر اردو ادب کے سب سے بڑے شاعر ہیں وہ ہر عہد میں شہنشاہ غزل کہلاتے گئے ۔ غزل کی دنیا میں کوئی بھی شاعر میر کے مقام تک نہیں پہنچ سکا نہ ہی کسی نے میر کی ہمسری کا دعوی کیا ۔ میر کے بعد آنے والے تقریبا تمام شعااء نے میر کی پیروی کو ہی غطمت سمجھا ۔
غالبؔ میر کی عظمت کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں:
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر ؔ نہیں
ابن انشاء میر کی عظمت کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں:
اک بات بتاؤ انشاء جی تمہیں ریختہ کہتے عمر ہوئی
تم سارے جہاں کا علم پڑھے کوئی میر سا شعر کہا تم نے
شیخ ابراہیم ذوق ؔ میر کی عظمت کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں:
نہ ہوا، پرنہہوا میر ؔ کا انداز نصیب
ذوق یارونے بہت زور غزل میں مارا
مرزا رفیع سودا ؔمیر ؔکی عظمت کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں:
سودا تو اس زمیں میں غزل در غزل ہی لکھ
ہونا ہے تجھ کو میر ؔ سے استاد کی طرح
حسرت ؔ موہانی میر ؔ کی عظمت کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں:
شعر میر ےبھی ہیں پر درد و لیکن حسرتؔ
میر کا سا شیوہءِ گفتار کہاں سے لاؤں
غلام ہمدانی مصحفی ؔ میر کی عظمت کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں:
اے مصحفی ؔ تو اور کہاںشعر کا دعویٰ
پھبتا ہے یہ اندازِ سخن میر ؔ کےمنہ پر
اکبر ؔالہٰ آبادی میر ؔ کی عظمت کا اعتراف کچھ یوں کرتے ہیں:
میں ہوں کیا چیز جو اس طرز پہ جاؤں اکبرؔ
ناسخ ؔ و ذوق ؔ بھی جب چل نہ سکے میرکے ساتھ
میاں میر مہدی مجروح ؔ میر کی عظمت کا اعتراف یوں کرتے ہیں:
یوں تو ہیں مجروح ؔ شاعر سب فصیح
میر ؔ کی پر خوش بیانی اور ہے
حالی ؔ میر کی عظمت کا اعتراف یوں کرتے ہیں:
حالی ؔ سخن میں شیفتہ سے مستفید ہے
غالب ؔ کا معتقد ہے مقلد ہے میر ؔ کا
میر کا تصور غم:
بقول مجنوں گو رکھ پوری:
’’ میر الم کو ایک نشاط اور درد کو ایک سرور بنا دیتے ہیں ‘‘
شعر ملاحظہ ہو :
روتے پھر تے ہیں ساری ساری رات
اب یہی روزگار ہے اپنا
درحقیقت میر کی شاعری درد و غم ، رنج والم ، آنسو کی ترجمان ہے ۔ انہوں نے اپنی پوری شاعری کو غم کے سانچے میں ڈھال دیا ہے ۔ گویا غزل نہیں ان کا غم حقیقت کے پردے سے نکل کر غزل کے سانچے میں ڈھل گیا ہے۔
شعر ملاحظہ ہو :
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لہو آتا ہے تب نہیں آتا
غم کی کسک عشق کی جان درحقیقت ان کے زمانی طور پرنا کام ہونے کی دلیل ہے یا یوں کہیئے وہ ناکام نہیں ہوئے ،حالات زمانہ نے انہیں ناکام کردیا تھا ۔ اسی لیے اک تڑپ ،اک کسک ،محرومیاں اور ناکامیاں ان کے کلام میں رچی بسی ہیں ۔شاید ان کے سینے میں اک آگ سی لگی ہوئی ہے ۔
خلوص وصداقت و سوزوگداز:
یہ ایک زندہ حقیقت ہے جگرنے کیا خوب کہا ہے ۔
صداقت ہو تو دل سنتے سے کھچنے لگتے ہیں واغط
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی
میر نے اپنی شاعری میں اپنے ذاتی غم کو آفاقی غم بنا کر پیش کیا ہے اور یہ کھلی حقیقت ہے کہ اپنا غم دنیا کے پر غم پر حاوی نظر آتا ہے ۔ اسی لیے سوزوگداز پیدا کرنے کے لئے موسیقار حضرات گلوکاروں کوبھی غم سے آشنا کرتے ہیں ۔ میر کے ہاں غم کی یہی کیفیت موجود ہے جس نے ان کے غم کو آفاقیت نجشی ہے ۔
شعر ملاحظہ ہو :
مرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
میر نے اپنی ذاتی زندگی میں والد کی وفات ،سوتیلے بھائیوں کا ناروا سلوک پھر اس پر اپنے سوتیلے ماموں خان آرزو کا سلوک ۔ ان کے غم کو اور سنیے کی جلن کو آتش نوا بنانے کے لئے کافی تھا یہ غم غزل کا لبا دہ اوڑھ کر اک بہتا دریا بن گیا ۔
اشعار ملاحظہ ہو ں:
ہمیشہ آنکھ ہے نمناک ہاتھ دل پر ہے
خداکسی کومجھ سا سادرد مند نہ کرے
سرہانے میر ؔ کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
میر کی شاعری میں ایک نہایت ہی اہم خصوصیت یہ رہی ہے کہ وہ اپنی شاعری میں فنی خلوص کو پوری صداقت سے لاتے ہیں فنی خلوص کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شاعر زندگی کے حادثات کو کو جس طرح اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے ٹھیک اسی طرح بیان کرے میر کی شاعری اس لئے بھی مشہور و معروف ہے کہ اس میں سچائی اور خلوص کے ساتھ ساتھ تمام باتیں بے تکلفی کے انداز میں کہی گئی ہیں میر نے اپنی شاعری میں دوسروں کی طرح صرف تخیل کے گھوڑے نہیں دورائے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ کہ میر عوام کے ساتھ شاعر تھے اس کے ارد گرد کی زندگی سے حزن و ملال کے مضامین کے فوارے ابل رہے تھے میر نے انہی مضامین کو بہترین لب و لہجہ اور سادہ الفاظ میں پیش کیا میر کے خلوص و صداقت کا اندازہ ان اشعار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے
قدم رکھتی نہ تھی متاع دل
سارے عالم کو میں دکھا لایا
دل مجھے اس گلی میں لے جاکر
اور بھی خاک میں ملا لایا
ابتداء ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا
میر کا خطابیہ انداز : میر کے ڈھیر سارے ایسے اشعار ہیں جس میں وہ خطابیہ انداز اختیار کرتے ہیں کبھی وہ خود سے مخاطب ہوتے ہیں تو کبھی کسی دوسرے شخص سے کبھی ان کا تخاطب بلبل سے ہے تو کبھی شمع و پروانہ سے ان تمام کیفیتوں میں بات چیت اور بے تکلفی کا رنگ بہر حال قائم رہتا ہے چند اشعار بطقر نمونہ ذیل میں درج کئے جارہے ہیں
چلتے ہو تو چمن کو چلیے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے
.پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد
ابتدائے عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
میر کا طنز : میر کی شاعری میں طنز در حقیقت ان کی فطرت کی عکاسی ہے جب کوئی جملہ طنز کے ساتھ بولتے ہیں تو اس سے صرف بے تکلفی نہیں جھلکتی بلکہ ایسا پتہ چلتا ہے کہ وہ اس تجربہ سے گزر چکے ہیں ان کے طنز میں ایک مدہم سی تلخی ہوتی ہے جو پختہ مغزیکی علامت ہوتی ہے ان کے طنز میں غالب کی تیزی کی جگہ ایک عجب پر کیف نرمی ہوتی ہے .
ہوگا کسو دیوار کے سائے تلے میں میر
کی کام محبت سے اس آرام طلب کو
عشق کرتے ہیں اس پری رو سے
میر صاحب بھی کیا دیوانے ہے
میر کی تشبیہات و استعارات : میر نے اپنی شاعری کو زیادہ خوبصورت بنانے کے لئے تشبیہ و استعارے کا بڑے سلیقے سے استعمال کیا ہے یہ تشبیہات مردہ نہیں بلکہ ان کے اندر زندگی دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے میر اپنی زندگی بھر کے حادثات ,واقعات,تجربات اور تاثرات کو پوری صداقت کے ساتھ تشبیہات و استعارت کی شکل دیتا ہے جس میں تصنع یا بناوٹ کا شائبہ تک نہیں ہوتا
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
میر کی ترنم اور موسیقیت : میر کی شاعری میں غنائیت اور موسیقیت اپنے اندر فنی دلکشی کے بہت سے پہلو رکھتی ہے میر کے انداز کی نغمگی اور ترنم مسلم ہے اور یہی میر کی عظمت کا راز ہے ان کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ مختلف خیالات کے اظہار کے لئے مختلف بحروں کا انتخاب کرکے نغمگی پیدا کرتے ہیں فارسی کی مروجہ بحروں کے استعمال کے ساتھ ساتھ میر نے ہندی کے پنگل کو اردو غزل کے مزاج کا حصہ بنا کر ہم آہنگی کی صورت دینے کی کامیاب کوشش کی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی شاعری میں بڑی کیف آور اورباثر انگیز غنائیت و موسیقی پیدا ہوتی ہے .
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا
جانے ہے چلتے ہو تو چمن کو چلیے سنتے ہیں کہ
بہاراں ہے پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد وباراں ہے
میر کی شاعری میں متصوفانہ رنگ: میر کی شاعری کے فکری عناصر میں متصوفانہ رنگ خاص طور پر قابل ذکر ہے ان کے والد اور چچا صوفیانہ افکار و نظریات کے حامل تھے اور رات دن جذب و مستی کی کیفیات میں سرشار رہتے تھے میر نے ان بزرگوں کی صحبت میں چند سال گزارے تھے تو وہ بھلا کس طرح صوفیانہ تجربہ سے الگ رہ سکتے تھے ان کے یہاں تصوف کا تجربہ محض روایتی نہیں ہے یہ رسمی بھی نہیں ہے اس تجربے نے میر کے ذہن و فکر کی تہذیب پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں وہ زندگی کو کسی عام انسان کی طرح نہیں دیکھتے ان کی نظر صاف دل صوفی کی نظر ہے
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
سرسری تم جہاں سے گزرے
ورنہ ہر جا جہاں دیگر تھا
میر کی شاعری میں تصور محبوب: یہ بات صد فیصد صحیح ہے کہ میر نے ایک گوشت پوست کے زندہ و متحرک محبوب سے صرف محبت ہی نہیں بلکہ بھرپور محبت کی تھی اور محبوب سے ان کے احساس جمال قوت تخیل اور تصور حسن پر روشنی پڑتی ہے ان کا محبوب حسن و جمال کی پڑی اور خوبصورتی کا منبع و مصدر ہے میر کا محبوب صرف چاند جیسا ہی نہیں بلکہ جسم خوشبودار اور رنگ و نو کا مجسمہ بھی ہے
ان گل رخوں کی قامت لہکے ہے یوں ہوا
میںجس رنگ سے لچکتی پھولوں کی ڈالیاں ہیں
کھلنا کم کم کلی نے سیکھا
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
میر کی شاعری میں تصور عشق: میر کے یہاں عشق آداب سیکھاتا ہے محبوب کی عزت و تکریم کا درس دیتا ہے اگرچہ اس کا انجام ہمیشہ دردناک ہوتا ہے پھر بھی میر کو اس عشق سے پیار ہے یہی عشق ان کی زندگی کا اصل مقصد ہے اسی عشق نے ان کی زندگی میں خوشی و مسرت اور حرکت وعمل پیدا کی.میر کے خیال میں زندگی ساری رونق اور چہل پہل اسی عشق کی وجہ سے یے اگر عشق نہ ہوتا تو یہ کارخانہ قدرت بےکار ,خاموش ,بےحرکت اور بے لذت ہوتا تصور عشق کے حوالے سے ان کے نمائندہ اشعار درج ذیل ہیں .
دور بیٹھا غبار میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
محبت ہی اس کارخانے میں ہے
محبت سے سب کچھ زمانے میں ہے
ہم طور عشق سے واقف نہیں ہیں لیکن
سینے میں جیسے دل کو کوئی ملا کرے ہے
میر کی شاعری میں احساس برتری: میر کی شاعری کے ڈھیر سارے رنگوں میں سے ایک نہایت ہی اہم رنگ احساس برتری کا رنگ ہے یہ شعر گوئی کا ایک ایسا انداز ہے جس نے تمام شاعروں کو بے حد متاثر کیا ہے اور سارے شاعروں نے اس رنگ میں طبع آزمائی کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن صلاح و فلاح سے ہمکنار نہ ہوسکے اسی لئے میر احساس برتری کو سامنے لاتے ہوئے کہتے ہیں کہ
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر
یہ ہماری زبان ہے پیارے
پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں
کو لوگ مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں