ANS 01
جنگ آزادی ۱۸۵۷ءکی صورت میں وہ سانحہ عظیم رونما ہوا ، جس نے برصغیر پاک و ہند میں ملتِ اسلامیہ کے اقتدار کی رہی سہی باقیات بھی مٹا دیں ۔ ان حالات میں سرسیّد احمد خاں کو عظمت رفتہ کے تصور سے دست کش ہو کر تمام تر توجہ حال کی جانب مرکوز کرنا پڑی ۔ ان کی دوربین نگاہوں نے بھانپ لیا تھاکہ اب قوم کی ڈگمگاتی ہوئی کشتی کو سہارا دینے کے لیے ماضی کا راگ الاپنے کی بجائے تہذیبِ حاضر کی خوشہ چینی ضروری ہے ۔ صورت ِ حال کے پیشِ نظر سر سیّد احمد خاں نے مصلح کے طور پر معاشرتی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے اپنی تحریک کی فعالیت کو بروئے کار لاتے ہوئے شخصی فضائل کو اہمیت دی۔ سر سیّد نظریے کے مطابق شخصی فضائل میں سے بھی وہ فضائل زیادہ قابل ِ قدر ہیں کہ جن میں فرد اپنی بجائے معاشرے کے دیگر افراد کی فلاح و بہبود کے لیے سر گرمِ عمل ثابت ہو۔لہذا سرسیّد نے اپنی تحریک کی فعالیت اور علوم کے ذریعے شعور کے حصول کی طرف توجہ دی۔
بقول ڈاکٹر انور سدید:
عہدِ سرسیّد کے نثر نگاروں نے اردو نثر کا تضع دور کرنے اور اسےآرائشی اسلوب سے نجات دلانے کی جو کوشش کی، اس کی ایک صورت انشا نگاری کی صورت میں بھی سامنے آئی۔ شبلی ، آزاد ، حالی ، نذیر احمد اور میر کارواں سرسیّد نے نہ صرف انشاکے لیے اسالیب وضع کیے بلکہ انگریزی زبان کے انشا پردازوں کے خیالات سے چراغ شوق بھی روشن کیا (۱)مغرب ،سرسیّدکے لیے ایک سامراجی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ دراصل ایک تہذیبی اقتدار اور استحصال کی بھی علامت تھا ۔ آزادی کے حصول کے لیے اس نوآبادیاتی و استحصالی اقتدار سے چھٹکارے کا واحد راستہ تعلیمی و اخلاقی نشوونما تھی۔ سر سیّد احمد خاں زمانے کے رمز شناس ثابت ہوئے ۔ لہذا نئے آقا ئوں سےآزادی کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ وہ مفاہمتی رویے کی آڑ لیتے کیونکہ حال اور مستقبل کو مدِنظر رکھتے ہوئے ماضی، حال اور مستقبل کے تینوں دائروں کو متوازن کرنا ان کے پیشِ نظر تھا۔ سر سیّد نے مسلمانوں کو ان کے ماضی کی غلطیوں کا سدا خمیازہ بھگتنے کی بجائے اپنے حال اور مستقبل کے زاویوں کو سدھارنے کے لیے عملی زندگی میں ایک جہدِ مسلسل کا پابند بنانے کے لیے جدوجہد کی۔محمد حسین آزاد نے گو کہ سر سیّد احمد خاں کے نظریات و تحریک کی باقاعدہ تقلید تو نہیں کی مگر پیروی میں انشا پردازی کو اپنے رنگ و مزاج کی مناسبت سے اس طرح رواج دیا کہ اس سے امید کی وہ کرن پھوٹی جس نے مستقبل کی مایوسی سے بچایا بھی اور محنت کی طرف رغبت بھی دلائی۔ یہ بجا ہے کہ برطانوی سامراج سے مایوس و متنفر مسلمانوں کو اخلاقی و مذہبی ہر دو طرفہ سہارا ا و رہنمائی درکار تھے لہذا سر سیّد احمد خاں نے اپنے ادبی کارواں کے ذریعے اس کارِ خیر کی انجام دہی کا بیڑہ اٹھایا۔بقول ڈاکٹر انور سدید:
شبلی ، آزاد ، حالی، نذیر احمد اور میرِ کارواں سرسیّد نے نہ صرف انشا کے نئے اسالیب وضع کیے بلکہ انگریزی زبان کے انشا پردازوں کے خیالات سے چراغِ شوق بھی روشن کیا۔۔۔۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ایڈیسن ، اسٹیل ، جانسن اور مل سے خوشہ چینی کر کے آزاد اور سرسیّد نے جو چراغ جلایا تھا اس کی روشنی دور دور تک پھیلتی گئی اور ان ادبا کی تخلیقی نثر نے ہی انشائی ادب کا روپ اختیار کر لیا۔ (۲)
نیرنگِ خیال“کے مضامین نوآبادیاتی نظامِ حکومت کے شکنجے سے نجات کے لیے حقیقت میں وہ تدبیر نامہ سمجھا جا سکتا ہے کہ جس سے ہندوستانی مسلمان تعلیم اور محنت کے بل بوتے پر اپنی دنیا آپ پیدا کر سکتے تھے ۔ ایسے اخلاقی و تربیتی مضامین لکھنے کا رجحان اس لیے بھی پرورش پا گیا کیونکہ یہ سرزمینِ ہندوستان میں مسلمان قوم کے سیاسی ، معاشی و معاشرتی استحصال کا دور تھا۔ اس سیاسی ، سماجی و معاشی استحصال میں ہندوستانی مسلمانوں کا اپنامنفی کردار بھی شامل تھا ۔ صورتحال کچھ یْوں بھی مخدوش تھی کہ جن کے حالات و وسائل قدرے بہتر تھے وہ بھی سائنس ، آرٹ ، معیشت و سیاست میں اپنی نفسی توانائیاں اور طبعی وسائل صرف کرنے کو تیار نہ تھے بلکہ اکثریت تو ایسے علم کے حصول کو بدعت اور انگریز کی مزید غلامی متصّور کیے ہوئے تھی۔ سر سیّد جیسے دور اندیش مصلح نے اسے اپنی دوربیں نگاہ سے جان لیا تھا کہ نو آبادیاتی نظام کے طاقتور ریلے کا مقابلہ جواباً طاقت کا زور نہیں بلکہ ذہانت و فطانت کے حربے میں پنہاں ہے ۔ تو ہم پرستی ، جہالت اور سماجی بے راہ روی کی سیاہ راتوں میں امیدِ صبح کی خواہش و بیداری کا مثبت عمل انشائی مضامین کی صورت سر سیّد تحریک کے تقاضوں سے میل کھاتا حالات کے عین مطابق ثابت ہوا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب اصلاحی خیالات کی شدت ملا و ادیب دونوں کی تقریرو تحریر کا خاصہ تھی۔محمد حسین آزاد نے اپنے نظریات کو ایسے تقلیدی عمل سے بچایا ۔ آزاد کی انشا پردازی نظری وعملی حقائق کی غماز ہے یہی وجہ ہے کہ ”نیرنگِ خیال“کے زیادہ تر مضامین کی عمومی فضا مجردپیکروں سے جن مجسموں (concrete) کی تراش خراش پر بحث کرتی ہے وہ سب سر سیّد احمد خاں کے بطور میرِ کارواں شخصیت کو مجسّم بنانے اور نو آبادیاتی نظام سے نجات کا اخلاقی درس و سبق ہے ۔ یہ مضامین ہندوستانی مسلمان میں حبِ وطن کے جذبات، اخلاقیات کے اصول و قاعدے نئے سرے سے ترتیب دینے کا باعث بنتے ہیں۔ محمد حسین آزاد کے انشائیہ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں میں ماضی کی شاندار روایات کی جدید تناظر میں بازیافت کا شعور بھی بیدار کیا ہے۔
”نیرنگِ خیال“ دو حصوں پر مشتمل ۱۸۸۰ءمیں تصنیف ہوئی۔ اس میں کل تیرا (۱۳) مضامین ہیں۔ ”آغازِ آفرینش میں باغِ عالم کا کیا رنگ تھا اور رفتہ رفتہ کیا ہو گیا “ کے مضمون سے شروع ہونے والا تمثیلی انشائیہ کا شاہکار اپنی مثال آپ ہے ۔ اس کے آخری مضمون ”سیر ِ عدم “ تک آزاد نے نہ صرف اپنے خیال سے سحر انگیزی کا کام لیا ہے بلکہ ”نیرنگِ خیال“کی نثر رنگین بیانی کا ایک دل فریب مرقع ہے ۔ جس میں اخلاقی اور تمدنی اصلاح کے پہلوؤں کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے محمد حسین آزاد نے سرسیّد کی مقصدیدیت کی مشعل جلائے رکھی۔ ”نیرنگِ خیال“کے مضامین کی وسعت ِ خیا ل اور بلند پرواز فکر قابلِ شتائش ہے ۔ آزاد نے پہلے مضمون ” آغاز آفرینش میں باغِ عالم کا کیا رنگ تھا اور رفتہ رفتہ کیا ہو گیا“ میں ہندوستانی مسلمانوں کے ماضی ، حال اور مستقبل کا جو شاندار نقشہ کھینچا ہے وہ قابلِ دید ہے ۔ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد قاری اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ آزاد نے اس عہد کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کی پستی اور اس کے علاج کی بطور معالج نشاندہی کی ہے ۔ برطانوی سامراج کی نوآبادی بننے کی بجائے معاشرتی اصلاحات کی طرف استعارا تی ،تشبیہاتی ، تلمیحاتی و علامتی پیراے میں اشارہ کیا ہے جس سے محسوس کیا جاسکتا ہے کہ محنت پسند خرد مند یقینا ً سر سیّد احمد خاں کی ذات ہی مراد ہے جو اپنی قوم میں سیاسی و سماجی شعور کی بیداری کے لیے کوشاں رہتا ہے اور قوم کو محنت کی عظمت کا درس بھی دیتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ محمد حسین آزاد کے پیشِ نظر تمثیلی پیرائے میں سر سیّد تحریک کی مقصدیت کوسراہنے کا عمل بھی کارفرما تھا ۔بقول پروفیسر سحر انصاری ” آزاد کی خوبئ نگارش یہ ہے کہ انہوں نے تمثیلی مرقعوں میں بات بین السطور بھی کہی ہے اور ذیلی سرگرمیوں کے ذریعے مقصدیت کو بھی اجاگر کر دیا ہے “۔ (۳)
یہ بجا ہے کہ ”نیرنگِ خیال“کے تمام مضامین مبنی بر عصری تقاضا تھے اور سماجی تقاضوں سے ہم آہنگی کو مدِنظر رکھنا بھی سر سیّد احمد خاں کی اولیات میں سے تھا ۔ ”نیرنگِ خیال“کو حساس معاشرے کو نو آبادیتی نظام کی شر انگیزیوں سے بچاؤکے لیے عملی و اخلاقی تدابیر بھی کہا سکتا ہے بقول فرزانہ سیّد ” ان کا مجموعہ مضامین نیرنگ خیال اپنے اندر پوری پوری علمی ، ادبی ، تحقیقی اور تنقیدی توانائیوں لیے ہوئے ہے۔“(۴) ”نیرنگِ خیال“کے مضامین انیسویں صدی کے ربع ثالث کے بدلتے ہوئے سیاسی و سماجی نیز معاشی منظر نامے کے عکاس ہیں۔ مضامین کے عنوانات اسمِ بامسمیٰ ہیں اور ہندوستانی معاشرت کے تمام اوہام و خدشات کے پر آشوب دور کے ترجمان بھی ہیں۔ بھلے یہ رنگارنگ مضامین کا مرقع محمد حسین آزاد کی طبع زاد تصنیف نہ تھے بلکہ انگریزی کے بعض مشہور مضمون نگاران کے مضامین سے اخذ و ترجمہ تھے ۔ دوسری طرف یہ بھی ایک مسّلمہ حقیقت ہے کہ آزاد نے انہیں انگریزی زبان سے اردو کے ادبی قالب میں ڈھال کر اْردد و انشا پردازوں کے لیے مثال قائم کر دی۔ڈاکٹر انور سدید اس ضمن میں یوں رقم طراز ہوتے ہیں :
محمد حسین آزاد نے بھی زیادہ تر انگریزی مضامین ہی سے استفادہ کیا لیکن انہوں نے اپنی مشرقیت کو بہرحال قائم رکھنے کی کوشش کی۔ گلشن امید کی بہار ، سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ ، سیر زندگی، علوم کی بدنصیبی اور خوش طبعی جیسے مضامین میں آزاد نے اپنی شگفتہ انشائ سے خوبصورت لفظی مرقعے بنائے ہیں اور انشا نگاری میں اپنی انفرادیت کا پختہ نقش قائم کیا۔ (۵)
آزاد نے ”نیرنگِ خیال“کی نیرنگیوں پر گو کہ مجردو تمثیلی فضا غالب ہے مگر اسی رنگ کے ذریعے وہ مجسّم حقیقتوں کی بھی نقاب کشائی یوں کرتے ہیں کہ نو آبادیاتی نظام کی دین اخلاقی ، معاشی و سیاسی نیز سماجی بحران کی کئی سپہ کاریوں کا نقشہ تخّیل کی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے ”آغازِ آفرینش میں باغِ عالم کا کیا رنگ تھا اور رفتہ رفتہ کیا ہو گیا “ کا آغاز ہی ہمیں مغل حکمرانوں کے زریں تا تا ریک دور کا مفصّل حال بیان کرتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ کیجیئے :
سیر کرنے والے گلشن حال کے اور دوربین لگانے والے ماضی اور استقبال کے روایت کرتے ہیں کہ جب زمانہ کے پیراہن پر گناہ کا داغ نہ لگا تھا اور دنیا کا دامن بدی کے غبار سے پاک تھا تو تمام اولادِ آدم مسّرتِ عام اور بے فکریِ مدام کے عالم میں بسر کرتے تھے ۔ ملک ، ملک فراغ تھا اور خسرو ِ آرام رحمدل فرشتہ مقام گویا ان کا بادشاہ تھا ، وہ نہ رعیت سے خدمت چاہتا تھا نہ کسی سے خراج باج مانگتا تھا ۔(۶)
اس انشائیہ کا رنگ دھیرے دھیرے مجّرد کو مجسم بناتے ہوئے ہندوستانی عوام کے بدلتے ہوئے روّیوں اور مزاجوں کی اس منفی تبدیلی کی بات کرتا ہے کہ جو نو آبادیات کے ایجنڈے میں شامل تھا ۔ اقتباس ملاحظہ کیجیے ۔ ”دیکھو انسان کی نیت میں فرق آتا ہے اور کیا جلد اس کی سزا پاتا ہے ۔ اتفاقاًایک میدان وسیع میں تختہ پھولوں کو کھلا کہ اس سے عالم بہک گیا مگر بو اِس کی گرم اور تیز تھی تاثیر یہ ہوئی کہ لوگوں کی طبیعتیں بدل گئیں“۔(۷)
ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام ، ہندوستانی حکمرانوں کی سہل پسندی کا انجام اور بالآخر نو آبادیاتی نظام جبر و قہر کے استحصالی ہتھکنڈوں کی مکمل داستان پہلے انشائیہ میں ہی رقم ہے ۔ اس ضمن میں فریب کے جاسْوس ، سینہ زوری کے شیاطِین ، غارت، تاراج ، لوٹ مار جیسی رذالتوں کی آمد اور انسانی روّیوں و مزاجوں کی منفیت یعنی غرور ، خود پسندی اور حسد کی صورت میں ڈھال کر آزاد نے اس دور کے برطانوی سامراج کے طریقہ واردات کو ہی صرف بیان نہیں کیا بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کی علمی ، ادبی اور تعلیمی میدان میں انتہائی زبوں حالی کو بھی مجسّم پیش کر دیا ہے ۔ ”نیرنگِ خیال“کا یہ پہلا مضمون باقی مضامین پر فوقیت لے جاتا ہے کہ جب آزاد ماضی، حال اور مستقبل کے تین دائروں کو کھینچتے ہوئے الفاظ پر مکمل عبور اور قدرت بیان کی اچھوتی تاثریت سے مضمون نظم کر جاتے ہیں ۔ نثر میں الفاظ و مرّکبات کا اعلیٰ شاعرانہ چناؤآزاد کے جداگانہ اسلوب و شعور کا غماز ہے بقول ڈاکٹر انور سدید: ” لفظ وہ جسم ہے جسے خیال کی روح تحرک اور تازگی عطا کر تی ہے ۔ ادیب کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ تخلیقی ساحری سے لفظ کی مرمریں مورتیوں میں زندگی کا افسوں پھونک دے ” (۸) آزاد نے اس تخلیقی ساحری کے ذریعے صحیح مقام پر موزوں الفاظ کے استعمال کو بڑے سلیقے سے یوں برتا ہے کہ ”نیرنگِ خیال“ کی مکمل فضا پر ”محنت پسند خرد مند“ کا کردار سرسیّد احمد خان کے رنگ روپ کو اجاگر کرتا ہے ۔ یوں مجّرد سے مجسّم جیسے جاندار اسلوب کو اسلوبیاتی رعنائیوں سے پیش کر کے آزاد نے عظمتِ الفاظ کو معیار قائم کیا ہے ۔ اسی اسلوب کی اچھوتی معنویت کو وفا یزداں منش یوں بیان کرتی ہیں کہ ” آزاد ہر تلمیح کے پس منظر سے آشنا ہیں اور اس کا سہارا لے کر اپنے نصائح اور پند کو بہترین تمثیل نگاری سے دل و جان میں سمو دیتے ہیں “(۹)
محنت پسند خرد مند“ کا کردار یعنی سرسیّد احمد خاںاپنی ذات میں ایک تحریک تھے ۔ ان کو بطور مجّدد پیش قدمی کرتے دیکھ کر قوم نے فوراًلبیک تو نہیں کیا مگر راس دشت کی سیاحی میں عمر گزارنے کے بعد بالآخر سرسیّد احمد خاں کے رویے قوم کو رویہ بننے لگا۔ علامہ شبلی نعمانی نے مجّدد یا ر یفارمر کے لیے جو شرائط بیان کی ہیں لگتا ہے کہ وہ سرسیّد احمد خاں کو دیکھتے ہوئے قائم کی گئی ہیں :
۱۔مذہب، علم یا سیاست میں کوئی مفید انقلاب برپا کرے ۔
۲۔ جو خیال اس کے دل میں آیا ہو ، کسی کی تقلید سے نہ آیا نہ ہو بلکہ اجتہادی ہو۔
۳۔ جسمانی مصیبتیں اٹھائی ، جان پر کھیلا ہو ، سرفروشی کی ہو۔ (۱۰)
سرسیّد احمد خاں وہ ریفارمر ہیں کہ جنہوں نے علم اور سیاست میں مفید انقلاب برپا کیا اور اپنے تعلیمی و سیاسی نظریات کی ترویج کے لیے جسمانی اذیتیں بھی اٹھائیں مگر جہاں تک تقلید کی بات ہے تو اس ضمن میں بقول ڈاکٹر محمد اشرف:
مغربی تہذیب ، انگریزی تعلیم ، پارلیمنٹری طرزِ حکومت ، اصلاح معاشرت، مذہبی برلزم، عقلیت پسندی ، اخبار نویسی ، حتی کہ سادہ طرزِ تحریر شاید ہی کوئی ایسا عقیدہ ہو جس میں سرسیّد ، راجہ رام موہن رائے کے قدم بہ قدم نہ چلے ہوں۔ سرسیّد نے راجہ رام موہن رائے کی طرح نئے علوم کے لیے ذہن کی کھڑکیاں کھلی رکھیں اور برہمو سماج کے انداز میں علی گڑھ تحریک چلائی تو اس کی کامیابی کے لیے سکول ، کالج ، انجمنیں اور اخبارات جاری کیے اور حکومت سے براہِ راست تصادم میں قوت ضائع کرنے کی بجائے اسے تعمیر ی مقاصد میں صرف کیا ۔(۱۱)
علامہ شبلی نعمانی اور ڈاکٹر محمد اشرف کی آراء کو مد نظر رکھتے ہوئے سرسیّد احمد خاں کی شخصیت کا واضح خاکہ ”محنت پسند خرد مند“کے تعارف سے ہی بنتا دیکھا جا سکتا ہے :
جہاں لوٹ مار اور غارت و تاراج کا قدم آئے وہاں احتیاج و افلاس نہ ہو تو کیا۔۔۔ اب پچھتانے سے کیا حاصل ہے ۔ ہاں ہمت کرو اور محنت پر کمر باندھو ! ۔۔۔ احتیاج اور افلاس کا ایک بیٹابھی ہے جس کا نام محنت پسند خرد مند ہے ۔ اس کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہے کیونکہ اس نے امید کا دودھ پیا ہے ۔ ہنر مندی نے اسے پالا ہے ۔ کمال کا شاگرد ہے ، ہو سکے تو جا کر اس کی خدمت کرو ۔(۱۲)
محمد حسین آزاد جب اس انداز میں ”محنت پسند خرد مند“کو نجات دہندہ قرار دیتے ہیں تو اس ضمن میں اختر حسین بلوچ کی رائے بھی اہمیت کی حامل ہے ۔ جس کی روشنی میں ”محنت پسند خرد مند“کے کردار سے مراد سرسیّد احمد خاں ہی ہیں۔
سرسیّد احمد کی شخصیت میں ناصرف مسلمانوں کی سیاسی اور تعلیمی تربیت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی بلکہ اخلاقی اور مذہبی موضوعات پر بھی اپنی روشن خیالی کے نقوش چھوڑے ۔ سرسیّد احمد خان نے اس وقت مسلمانوں کے خیالات میں تبدیلی لانے کی تحریک کا آغاز کیا جب مسلم معاشرہ زوال پذیری کی جانب تیزی سے بڑھ رہا تھا ۔ انہوں نے ایک ایسے نظریے کی بنیاد رکھی جس کی بنیاد پر مسلمان ۱۸۵۷ءکی جنگ آزادی کے بعد کسمپرسی کا شکار تھے ۔ انہوں نے سائنسی فکر و سوچ کے زاویوں سے ہم آہنگ ہو کر سر سیّد کی ترقی پسندی انسان دوستی اور روشن خیالی کو اپنی فکر کی بنیاد بنایا ۔ سرسیّد سے قبل مسلمان علمی، ادبی اور تعلیمی میدان میں انتہائی ربوں حالی کا شکار تھے ۔ (۱۳)
یہ حقیقت اظہر من الشمسں ہے کہ محمد حسین آزاد کی اپنے سماجی ماحول اور مزاج میں عدام موافقت تھی جس کی مضبوط وجہ ”نیرنگِ خیال“ میں ان کے تخیلات کی کارفرمائی کی بہتات سے سمجھی جا سکتی ہے ۔ آزاد بہر حال اسمِ بامسّمی ٰبھی تھے وہ اپنے دور کے نو آبادیاتی نظام کے تنگ و تاریک راستوں پر امید کے دئیے بھی جلاتے گئے مگر باقاعدہ کسی تحریک کا سہارا بھی نہیں لیا۔
بقول مرزا محمد منور:
بہرحال آزاد نے اُردو نثر کے سرمائے کو بڑی وسعت دی۔ اُردو کو ایک نئے اسلوب سے آشنا کیا ۔ وہ سرسیّد اور شبلی کے حلقے سے باہر رہ کر کام کرتے رہے۔ اُنہیں سرسیّد کی تحریک سے ہمدردی تھی۔ وہ حقیقت پسند تھے ۔ زمانے کا ساتھ دینا چاہتے تھے۔ ۔۔ وہ اپنے من میں ڈوب کر مصروف کاررہے۔ کسی نئی تحریک کی مخالفت نہیں کی، محض اپنے کام سے کام رہا۔ وہ ہجوم خلائق میں بالکل اکیلے تھے۔ سرسیّد کو سراہا مگرا پنے انداز پر قائم رہے ۔ (۱۴)
سرسیّد احمد خاں کی مقصدیت اس بات کی متقاضی تھی کہ ہندوستانی مسلمان اپنےآپ کو سیاسی و سماجی ماحول کے تقاضوں کے مطابق ڈھال لیں۔ خواہ فی الوقت وہ کتنے ہی مخالف و معاند ہوں۔ وہ اس بات کے لیے ہمہ وقت کوشاں تھے کہ مسلمان اپنی توانائیاں اور اپنا عمل ان حالات و شروط سے ہم آہنگ کریں جو نئے حکمرانوں کی بنا پر عائد ہوئی تھیں ۔ اُس وقت کے حالات اسی بات کا تقاضا کررہے تھے کہ مسلمان نجات و آزادی کے لئے اپنا ہر عمل محنت اور جدید تعلیم کے حصول کے لئے صرف کریں۔ محنت پسند خرومند کا شخصی خاکہ دراصل سرسیّد احمد خاں کا اُس نوآبادیاتی نظام میں اُبھرتا ہوا اِستعاراتی تصوّر ہے جسے اِس تعارف سے بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔
دامن ِ کوہ میں دیکھا کہ ایک جواں قوی ہیکل کھڑا ہے۔ چہرہ اُس کا ہواسے جھرایا ہوا، دھوپ سے تمتماتا ہوا، مشّقت کی ریاضت سے بن اینٹھا ہوا، پسلیاں اُبھری ہوئیں ، ایک ہاتھ میں کچھ کھیتی کا سامان ، ایک ہاتھ میں معماری کے اوزار لیے ہانپ رہا ہے اور ایسا معلوم ہوا کہ ابھی ایک بُرج کی عمارت کی بنیاد ڈالی ہے ۔ سب نے جُھک کر سلام کیا اور ساری داستان اپنی مصیبت کی سُنائی۔ وہ اُنھیں دیکھتے ہی ہنسا اور قہقہہ مار کر پکارا کہ “آؤ انسانو! نادانو!آرام کے بندو! عیش کے پابند ! آؤ آؤ، آج سے تم ہمارے سپرد ہوئے ، اب تمھاری خوشی کی اُمید اور بچاؤ کی راہ اگر ہے تو ہمارے ہاتھ ہے۔ خسروِ آرام ایک کمزور ، کام چور، بے ہمت، کم حوصلہ، بھولا بھالا، سب کے مُنہ کا نوالہ تھا، نہ تمہیں سنبھال سکا نہ مصیبت سے نکال سکا۔ (۱۵)
یوں اس مردف و مقضیٰ، تمثیلی پیرائے میں محمد حسین آزاد نے مغل سلطنت کے ٹمٹماتے ہوئے آخری چراغ اور اُس تلخ حقیقت کے اِدراک کو بڑے کرب سے بیان کیا ہے کہ جو نوآبادیاتی نظام کی صورت ہندوستانی مسلمانوں کو افسردہ، نااُمید وبددل کئے ہوئے تھا۔ یہ وہ نوآبادیاتی نظام تھا کہ جس میں سرسیّد مسلمانوں کو پُر اُمید و متحرک کرنا چاہتے تھے ۔ اس نظام ِ زندگی سے مسلمان قوم میں احساس ِ محرومی اس قدر جڑ پکڑ گیا تھا کہ وہ اپنے تیئں غلام تصور کرتے رہتے۔ یہی منفی عمل تھا کہ جس نےسرسیّد کی فعالیت کے کے جواب میں ردِعمل کی صورت بے عملی اور مسلسل جمود و کا مظاہرہ کیا ۔
”نیرنگِ خیال“میں محمد حسین آزاد نے نوآبادیاتی نظام کے نفسیاتی و عمرانیاتی محرکات کو لامحالہ طور پرcaptureکرنے کے لیے انگریزی مضامین سے استفادہ کیا۔ دوسری طرف یہ بات بھی لائق تحسین ہے کہ وہ اُن مضامین کی ہندوستانی سرزمین سے مطابقت پیدا کرنے میں بے حد کامیاب رہے۔ ”نیرنگِ خیال“کے ہر ہر انشائیہ کا رنگ و موضوع اس بات کا عکاس ہے کہ دُنیا کے سارے سماجوں کا بیانیہ societal discourse میں ایسے ہی ڈھل جاتا ہے کہ جیسے بہت سے دریا ایک سمندر میں او ر سمندری دُنیا بہت سی کہانیوں کے توڑ جوڑ سے ایک مہابیانیے کو جنم دیتی ہے۔ یہی مثال ”نیرنگِ خیال“ میں ملتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِن سب کے لیے محمد حسین آزاد کو تمثیلیہ پیرائے میں بیان کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ بڑی واضح سی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ مایوسی، غم و غصے کے جذبات سے لبریز قوم کو براہِ راست نکتہ چینی سے نہیں بلکہ تدبر و دانائی سے کسی راہ کو چُننے کی ہدایت دینے کا عمل اسی طور پورا ہو سکتا تھا۔ اسی رنگ ڈھنگ کو حالی نے ”مسدس حالی“ میں برتا۔
”نیرنگِ خیال“کے مضامین کی لچکداری فضا اسے ہر دور سے موافق کرتی ہے اور یہی ایک بڑے ادب کی پہچان بھی ہے کہ وہ ہرزمانے میں قابلِ تقلید و ستائش ہو۔یہ محمد حسین آزاد کا محنت سے ہانپتا کانپتا اور معماری کے اوزار ہاتھ میں لیے ”محنت پسند خرومند“ کا کردار کوئی اور نہیں سرسیّد احمد خاں ہی ہے کہ جس نے خوابِ غفلت میں ڈوبی ہوئی قوم کو راہِ حق کے انتخاب کی طرف راغب کیا۔ ”محنت پسند خرومند“کے کردار کے ذریعے سرسیّد احمد خان کی اُس گہری بصیرت کی نشاندہی ہوتی ہے کہ جو اُنہوں نے نو آبادیاتی نظام سے ہندوستانی سرزمین کو آزاد کرانے کے لیے اختیار کی۔
سرسیّد احمد خاں کی اس حکمتِ عملی اور اُس کے پرچار میں حائل دشواریوں کو سرسیّد کے تمام حامیوں نے نہ صرف جھیلا بلکہ اس پر ڈٹے رہے۔ آزادؔ نے نوآبادیاتی نظام کے جلو میں جھوٹی تہذیب اور گورکھ دھندوں کی بھی قلعی کھول دی ہے ”نیرنگِ خیال“کے ایک مضمون ”سچ جھوٹ کا روزنامہ“ میں وہ یوں گویا ہوتے ہیں کہ:
چنانچہ اب یہی وقت آگیا ہے یعنی جھوٹ اپنی سیاہی کو ایسا رنگ آمیزی کرکے پھیلتا ہے کہ سچ کی روشنی کو لوگ اپنی آنکھوں کے لیے مضر سمجھنے لگتے ہیں۔ اگر سچ کہیں پہنچ کر اپنا نور پھیلانا چاہتا ہے تو پہلے جھوٹ سے کچھ زرق برق کے کپڑے مانگ تانگ کر لا تا ہے ۔ جب تبدیلی لباس کرکے وہاں جا پہنچتا ہے تو وہ لفافہ اُتار کر پھینک دیتا ہے پھر اپنا اصلی نْور پھیلاتا ہے کہ جھوٹ کی قلعی کُھل جاتی ہے”۔ (۱۶)
یہ جھوٹ کا زرق برق لباس ، انگریز کا استحصالی نظام تھا کہ جس کا چولا پہنے سرسیّد بھی مسلمانوں کو (ابتدا میں )اس نظام کا ایک ٹاؤٹ معلوم ہوتے تھے مگر دیر آئے درست آئے کی مصداق مسلمانوں پر بھی حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ سرسیّد ہی وہ حقیقی ”محنت پسند خردمند“ ہے کہ جو اپنے فہم و ادراک کے باعث اْمتِ مسلمہ کی رہنمائی و بھلائی کے لیے تادمِ مرگ کمر بستہ رہا۔
بقول ِ اکبرا لٰہ آبادی:
واہ رہے سیّد پاکیزہ گوہر کیا کہنا
یہ دماغ اور حکیمانہ نظر کیا کہنا
صدمے اُٹھائے، رنج سہے ، گالیاں سُنیں
لیکن نہ چھوڑا قوم نے خادم نے اپنا کام (۱۷)
سماجی استحصال و جبریت نے ہندوستانی ماحول پر ڈر، خوف، دہشت اور احساس محرومی کا ایک تاریک و سیاہ غلاف چڑھا رکھا تھا ۔ اس تاریک و سیاہ غلاف نے دو طرح کے مزاحمتی رویوں کی پرورش کی۔ ایک مزاحمتی رویے نے مذہب کے ہالے میں ہندوستانی عوام کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش شروع کی تو دوسرے نے کچھ دھیمے انداز میں قدم بڑھانے اور تاریکی سے نجات کا راستہ ڈھونڈنے کی راہ میں موافقت پائی۔ اس ماحولیاتی رنگ و آہنگ سے بہرحال ایک خوف و ہراس کی فضا پورے ہندوستانی منظر نامے پر غالب نظرآتی ہے۔ ”گلشن اُمید کی بہار“میں آزاد اس رنگ کی تصویر کشی یوں کرتے ہیں: ”ان کے دیکھتے ہی سارے باغ اور چمن آنکھوں میں خاک سیاہ ہوگئے اور یہ معلوم ہوا کہ بس عیش و آرام کا خاتمہ ہوگیا۔ دلوں میں خوف و ہراس چھا گیا ۔ لوگ جو ڈر کے مارے چیخیں مار مار کر چلائے تو گویا عالم میں ایک کہرام مچ گیا“۔ (۱۸)محمد حسین آزاد کے انشائیہ کا یہ امتیاز ہے کہ ”نیرنگِ خیال“ نو آبادیاتی نظام کی منظوم مگر نثری داستان ہے کہ جسے نظم کرنے کے لیے انہوں نے انشا پردازی کے اُس رجحان سے استفادہ کیا جو سرسیّد تحریک کے مشن کی ایک خاص جہت تھی۔ مسلسل جدوجہد کی اخلاقی تربیت سے مزین عکاسی ”آغازِ آفرینش میں باغِ عالم کا کیا رنگ تھا اور کیا ہوگیا“ سے یوں شروع ہوتی ہے کہ پھر اس کا ہر اگلا مضمون پچھلے انشائیہ کی ترقی یافتہ شکل ہونے کے ساتھ ساتھ پچھلی بات کی اگلی کڑی ، مزید صورت یا سیڑھی کہی جاسکتی ہے۔ ”آغاز آفرینش“ والے پہلے انشائیہ میں سماج کی تنزلی و عْروج کی منطقی صورت پیش کرنے کے بعد وہ اُس حقیقت سے آنکھیں چارکرواتے ہیں کہ جسے نفسی واخلاقی کمزوری کہا جاتا ہے یعنی ”انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا“: ”سقراط حکیم نے کیا خوب لطیفہ کہا ہے کہ اگر تم اہل دُنیا کی مصیبتیں ایک جگہ لا کر ڈھیر کردیں اور پھر سب کو برابر بانٹ دیں تو جو لوگ اب اپنے تئیں بدنصیب سمجھ رہے ہیں وہ اس تقسیم کو مصیبت اور پہلی مصیبت کو غنیمت سمجھیں گے“۔ (۱۹) ”نیرنگِ خیال“کے متنوع الموضوعات کے حامل مضامین جس محتاط رویے سے رقم کئے گئے اُس کی بادی النظر نو آبادیاتی نظام کے تحت پروان چڑھنے والا وہ ہندوستانی سماج تھا کہ جو روز جبر کی نئی داستان بقول غالبؔ یوں رقم کرتاتھا کہ:
روز یہاں اک حکم نیا ہوتا ہے
کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا ہوتاہے
جبریت کی اس فضا نےتعمیری عمل کو بھی مشکوک بنادیا تھا۔ تعمیر کو تخریب کے شکوک و شبہات سے نجات دلانے کے لئے ہی آزاد نے خیر و شر کے روایتی تصور کے بیان کو کہانی کی صورت دلپذیر ضروربنادیا۔ مگر اسے اس کے لئے جو ایک الگ تکنیک برتی وہ انشائیہ طرز ہے۔ ایسے انشائیہ کی دورِ جدید میں بھی لکھے جانے کی بے حد ضرورت ہے کہ جو انشا میں کہانی کی طرز پر واعظ ، تبلیغ اور نصیحت کرے۔ یہ جدید ملائی طرزِ نصیحت تھا کہ جس نے آزاد کے خیالات کو دھاڑ اور چنگھاڑ کی اثرپذیری سے مملو کرکے اظہار کے شفاف اسلوب بیان کی ہمت دی۔ آزاد جانتے تھے کہ ہماری سماجی ابتری کی ایک بڑی وجہ ہمارا اخلاقی عدم توازن بھی ہے۔ جو نئے سماجی علوم کی سمجھ سیکھ کے لئے سماجی روّیوں میں لچکداری راہ کے پنپنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اس حقیقت کو وہ یوں بیان کرتے ہیں کہ:
مگر میں فقط ایک ہی بات میں حیران تھا اور وہ یہ تھی کہ اتنے بڑے انبار میں کوئی بے وقوفی یا بداطواری پڑی ہوئی نہ دکھائی دی۔ میں یہ تماشے دیکھتا تھا اور دل میں کہتا تھا کہ اگر ہوس ہائے نفسانی اور ضعفِ جسمانی اور عیوب ِ عقلی سے نجات پانی چاہیئے تو اس سے بہتر موقع نہ ہاتھ آئے گا ۔ کاش کہ جلد آئے اور پھینک جائے۔ (۲۰)
آزاد کی تمام انشائی طرز پر جذبے کی تاثیر ، صداقت، خلوص اور ہمدردی کی وہ خالصیت غالب نظر آتی ہے کہ جو سرسیّد احمدخاں کی فعالیت کا بھی اظہار ہے۔ سماج سدھار کا یہ رویہ اُس دور میں کسی ذاتی ضرورت یا کسی مسلک کے ساتھ مشروط نہ تھا ۔ آزاد کا کمال ِ فن یہ ہے کہ وہ لفظ ، معانی اور خیال کے سنگم سے انشا پردازی کو مقصدیت کی راہ پر گامزن کرنےمیں نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ نو آبادیات سے مسخ شدہ انسانی سماج کے لئے مختلف انشائی صورتوں کی مدد سے ”نیرنگ خیال“ سا گلدستہ اخلاق بھی سجایا۔ یہ گلدستہ اخلاق اِس طرزِ نو پر مرصّع ہے کہ اس کا گلدان کوئی بھی نوآبادیاتی سماج ہوسکتا ہے۔
آزاد اِسی گلدستہ مضامین میں جب ”علوم کی بدنصیبی “ بیان کرتے ہیں تو پھر علوم و فنون کو بھی اس انداز میں مجسم کرتے ہیں کہ سر سیّد احمد خاں کی شخصیت کا عملی و سماجی پہلو جامع انداز میںمیں ابھرتا ہے کہ جہاںمصلحتیں تو ضرور ہیں مگر کوئی مصلحت کوتاہ ہمتی کا باعث نہیں بنتی۔ ” علوم و فنون نے بہت دھکے کھا کر معلوم کیا کہ اب اس جہان میں رہنا عزت نہیں بلکہ بے عزتی ہے“۔ (۲۱) سرسیّد احمد خاں کے جدید علوم و فنون سیکھنے کے پیغام کی آزاد نے انشائیہ طرز کی عصری ضرْورت کے تحت ترویج کی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ فرسودہ ، کہنہ اور استحصالی نظام کے تسلط سے نجات صرف جدید علوم کی اشاعت و ترویج سے ہی ممکن ہے۔
بقول اختر حسین بلوچ:
سرسیّد احمد خاں یہ سمجھتے تھے کہ اگر کسی قوم نے ترقی کرنی ہے تو اس کے لئے تعلیم بنیادی چیز ہے بغیر تعلیم کے انسان مختلف علوم کے بارے میں جاننے سے محروم رہتا ہے اور تعلیم ہی ایک ایسا ہتھیار ہے کہ جس کے ذریعے وہ نہ صرف اپنی بلکہ اپنے معاشرے کی اور قوم کی بھی تقدیر بدل سکتا ہے۔۔ کوئی قوم اُس وقت تک معاشی اور سماجی طور پر خوش حال نہیں ہوسکتی جب تک وہ تعلیم سے بے بہرہ ہو ترقی کا راز تعلیم میں ہی مضمر ہے۔ سرسیّد کو مسلمانوں کی تعلیمی میدان میں پسماندگی کا بہت بہت دُکھ تھا۔(۲۲)
سرسیّد احمد خاں کا یہ شعور روایت اور جدت کا اعلیٰ امتزاج بھی ہے اور نوآبادیاتی نظام میں جکڑے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے خلوص کا بہترین معیار بھی۔ سرسیّد احمد خاں کا یہ شعور حقائق کو تسلیم کرلینا اور پھر سیاسی ، سماجی و معاشی مسائل کا واحد حل جدید تعلیم کے حصول میں کوشاں رہنے کے عملی تصور کو پیش کرتا ہے۔ سرسیّد احمد خاں کی اس شعوری کاوش کے جواب میں اہل ہند کے ردِ عمل کو آزاد نے ”علمیت اور ذکاوت کے مقابلے “ کی صورت یوں مضمون کیا ہے :
القِصّہ جب ذکاوت اور علم دونوں نے دیکھا کہ اہل دُنیا کا وہ حال ہے اور جو نوکر اپنے تھے وہ سب نمک حرام ہوگئے تو دونوں نے مِل کر دو عرضیاں تیار کیں جن میں دولت اور دولت پر ستوں کی زیادتیاں اور اپنے نمک حراموں کی بدذاتیاں سب لکھیں اور سلطانِ آسمانی کی خدمت میں بھیج کر التجا کی کہ ہمیں ہماری قدیمی آرام گاہ میں جگہ مل جائے۔
ANS 02
(۱) ابتدائیہ
مرزا فرحت اللہ بیگ کو اردو ادب کے کامیاب مزاح نگاروں میں بلند مقام حاصل ہے وہ محقق، دانشور، انشاپرداز بھی تھے لیکن ان کی وجہ شہرت مزاح نگاری ہے- یہی ان کافن ہے اور اس فن کے اظہار کے لئے شخصیت نگاری ان کا محبوب موضوع ہے- مرزا فرحت اللہبیگ نے جب ہوش سنبھالا تو ان کے ارد گرد انگریزی اقتدار کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔مغل تہذیب اور قدیم اقدار کے اثرات مٹ رہے تھے۔ انہوں نے مٹتے ہوئے تہذیب و تمدن کو ’’ دہلی کا ایک یادگار مشاعرہ ‘‘ جیسی تحاریر سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔
بقول پروفیسر حسن عسکری :
’’ وہ ظرافت اور قصہ نگاری کو ملا کر شخصیت نگاری کا خمیر اٹھاتے ہیں- جس سے ان کے شخصی مرقعوں میں ادبی حسن اور فنی عظمت آجاتی ہے ‘‘-
مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریر کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:
(۲)زبان کی چاشنی :
فرحت اللہ بیگ کی نثر کی ایک نمایاں خوبی ان کی کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی زبان ہے۔ ان کی زبان میں مخصوص چٹخاروں کے ساتھ ایک خاص چاشنی ہے-آپ زبان کی لطافت ، جملوں کی چستی اور زورِ طبیعت سے ایک ایسی فضاء پیدا کردیتے ہیں کہ معمولی مواد اور عام سی بات بھی شگفتہ اور غیر معمولی بن جاتی ہے۔
اپنے مضمون ’’ ایک وصیت کی تعمیل ‘‘ میں رقمطراز ہیں :-
’’ آج کل کامرنا بھی کچھ عجیب مرنا ہوگیا ہے- پہلے زندگی کو چراغ سے تشبیہہ دیتے تھے بتی جلتی ،تیل خرچ ہوتا، تیل ختم ہونے کے بعد چراغ جھلملاتا ، لوبیٹھنی شروع ہوتی اور آخر رفتہ رفتہ ٹھنڈا ہو جاتا اب چراغ کی جگہ زندگی بجلی کا لیمث ہوگئی ہے ادھربٹن دبا ادھر اندھیرا گھپ –‘‘
(۳)اسلوب کی رنگینی :-
فرحت اللہ بیگ کے مضامیں پڑھ کر دل خوشی و مسرت کی بہاروں میں ڈوب جاتا ہے وہ قاری کو فطری مسکراہٹ سے مالامال کردیتے ہیں –اور آپ نے مزاح نگاری کو ایک نئے اسلوب سے آشنا کروایا ،جو آپ کا ہی خاصہ ہے۔
معروف نقاد عبد القادر سروری کہتے ہیں کہ:-
’’ ان کی زبان بڑی دلکش صاف ستھری اور بامحاورہ ہے وہ خیال کو اظہار کے سانچوں میں رہ کر مزاح پیدا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ‘‘ ۔
’’پھول والوں کی سیر‘‘ ، ’’ ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی ‘‘ اور ’’دہلی کا ایک یادگار مشاعرہ ‘‘۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ فرحت کی خوش اسلوبی اور رنگینی بیان کے بہت ہی اعلی نمونے ہیں –
(۴) دہلوی معاشرت کا اثر:-
فرحت اللہ بیگ کو ’’نذیر احمد اور محمد حسین آزاد ‘‘کی طرح دہلویت سے عشق تھا – دہلی کی زبان رنگ ڈھنک ، رسم ورواج ، ادب و معاشرت اور انداز تمدن ان کی تحریروں کی نمایاں خصوصیت ہے –
بقول ڈاکڑ وحید قریشی :-
’’ان کی تحریروں میں نہ صرف دہلوی زبان کا رنگ پوری طرح جھلکتا ہے بلکہ ان کے خاکے بھی قدیم دہلوی تہذیب و معاشرت کے بڑے کامیاب مرقعے پیش کرتے ہیں ‘‘-
(۵) فرحت کے مزاح کا انداز :-
مزاح نگاری کا بنیادی مقصد تنقید و اصلاح ہوتا ہے فرحت اپنے مزاج سے شگفتہ انداز میں تنقیدکو اتنا دلچسپ بنادیتے ہیں کہ غیر دلچسپ موادبھی بے حددلچسپ ہو جاتا ہے –
نمونہ ءِ تحریر ملاحظہ ہو۔
’’ ناک کسی قدر چھوٹی تھی اور نتھنے بھاری ،ایسی ناک کو گنواروں کی اصطلاح میں ‘‘ گاجر ’’ اور دلّی والوں کی بول چال میں پھلکی کہا جاتا ہے۔گو متانت چھو کر نہیں گزری تھی لیکن جسم کے بوجھ نے رفتارمیں خود بخود متانت پیدا کر دی تھی ۔‘‘
پروفیسر عظمت اللہ خان کہتے ہیں کہ :
’’ فرحت زبان کی لطافت ، جملوں کی چستی اور زورطبیعت سے ایک ایسی فضاپیدا کردیتے ہیں کہ جس میں معنی خیز تبسم کی ایک لہر نظر آتی ہے فرحت ہنساتے ہیں لیکن بے ادبانہ نہیں ایک اچھے مزاح نگار کی طرح ان کے تبسم کے پیچھے دردمندی کے آنسو پوشیدہ ہوتے ہیں ‘
(۶) حفظ ِ مراتب کا خیال فرحت اللہ بیگ کی تحریر کی خاص خوبی ہے:
آپ اپنی تحاریر میں حفظِ مراتب کا خصوصی اہتمام فرماتے ہیں،اور یہی وجہ ہے کہ باوجود کوشش کے آپ ان کی تحریروں میں سے کوئی پست یا غیر معیاری فقرہ کسی کیلئے نہیں تلاش کر سکتے۔ڈپٹی نذیر احمد کا خاکہ ان کے اس کمال کی عمدہ مثال ہے۔
نمونہءِ تحریر ملاحظہ ہو:
’’ ان کے نظامِ اوقات میں گرمی اور جاڑے کے لحاظ سے کچھ کچھ تغیر ہو جاتا تھا۔وہ ہمیشہ بہت سویرے اٹھنے کے عادی تھے۔گرمیوں میں اٹھتے ہی نہاتے اور ضروریات سے فارغ ہو کر نماز پڑھتے ،ان کی صبح کی اور عصر کی نماز کبھی ناغہ نہ ہوتی تھی۔باقی کا حال اللہ کو معلوم ہے۔ نہ میں نے دریافت کیا اور نہ مجھ سے کسی نے کہا۔‘
(۷)مرقع نگاری:
فرحت اللہ بیگ اردو کے صف اول کے مرقع نگار ہیں فرحت کی مرقع نگاری میں مصورانہ شعوروآگہی کا پتہ چلتا ہے –
’’ یادگار مشاعرہ میں مشاعرہ پڑھنے والے مرقعے اس خوبصورتی سے لکھے گئے ہیں کہ ان کے نقوش انمٹ ہو کررہ گئے ہیں – ‘‘
نذیر احمد کی کہانی سے چند سطور ملاحظ ہوں :-
آنکھیں چھوٹی چھوٹی ذرا اندد کو دھنسی ہوئی تھیں ، بھویں گھنی اور آنکھوں کے اوپر سایہ فگن تھیں ۔ آنکھوں میں غضب کی چمک تھی وہ چمک نہیں جو غضے کے وقت نمودار ہوئی ہے بلکہ وہ چمک تھی جس میں شوخی اور ذہانت کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔ اگر میں ان کو مسکراتی ہوئی آنکھیں ’’ کہوں تو بے جانہ ہوگا‘‘۔
پروفیسر رشید احمد صدیقی اپنی کتاب طنزیات و مضحکات میں لکھتے ہیں کہ :
’’ فرحت اللہ بیگ کو عہد مغلیہ کے آخری دور کی معاشرت اور تمدن کا صحیح اور دلکش ترین مرقع اتارنے میں بڑی قدرت حاصل ہے ‘‘۔
(۸) سنجیدہ تحریریں مرزا فرحت اللہ بیگ کا خاص مزاج ہے:
آپ کی تحاریر میں سنجیدگی کا عنصر خوب پایا جاتا ہے۔ان میں ’’پھول والوں کی سیر ‘‘ اور ’’دلی کا تاریخی یادگار مشاعرہ ‘‘ آج تک لوگوں کے اذہان میں محفوظ ہیں۔ دلی کے مشاعرے میں انہوں نے جس انداز سے اس مشاعرے کا منظر نامہ تحریر کیا ہے ،وہ دل کو ایک دم اپنی جانب کھینچتا ہے۔اجڑتی ہوئی دلی اور برباد ہوتی ہوئی مغلیہ سلطنت نظروں کے سامنے تصویر ہو جاتی ہے۔
اسی لئے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کچھ یوں رقم طراز ہیں:
’’بعض جگہ تو ان کا مذاح بھی سنجیدگی کی چادر اوڑھے نظر آتا ہے اور قاری یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ اس کے زیرِ مطالعہ کوئی علمی و ادبی مضمون ہے یا ظرافت کی تحریر۔‘‘
(۹)جزئیات نگاری :
فرحت اللہ بیگ نے اپنے اظہار کو جزئیات کے ساتھ بے حددلچسپ بنا کر پیش کیا ہے وہ واقعات اور مناظر کو نہایت سلیقے سے جزئیات کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔آپ کسی بھی منظر کے حصے اس خوبصورتی سے ملاتے ہیں کہ تحریر کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ آپ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی بڑی وضاحت سے اپنے پڑھنے والے کے سامنے پیش کرتے ہیں۔اس سے مضمون میں طوالت تو آتی ہے ،مگر مضمون دلچسپ اور مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔
مثلا ََمولوی وحید الدین سلیم کے گھر کا احوال یوں لکھتے ہیں کہ :
’’ بر آمد ے میں بان کی چار پائی پڑی ہے وہ تین تختے جڑی ہوئی ٹوٹی پھوٹی کرسیاں ہیں ، اندر ایک ذراسی دری ہے اس پر میلی چاندنی ہے سامنے کمرے میں کھونٹیوں پر دو تین شیروانیاں ، دو تین ٹوپیاں لٹک رہی ہیں ‘‘۔
(۱۰) عورتوں کی زبان پر قدرت :
فرحت اللہ بیگ نے اپنی تحریروں میں دہلی کی بیگماتی زبان کوبڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے یہ ہنر انھیں اپنے استاد ’’مولوی نذیر احمد ‘‘ سے ورثے میں ملا تھا ، وہ عورتوں کی نفسیات کو بڑی مہارت سے پیش کرتے ہیں ۔
نمونہءِ تحریر ملاحظہ ہو:
بس اس گھر کا اللہ ہی مالک ہے۔ بچے ایسے نکلے ہیں کہ نوج کسی کے ہوں۔ ہر وقت منہ چلتا رہتا ہے اور اس پر نیت کا یہ حال ہے کہ ذرا کچھ مانگو تو سامنے سے ٹل جائیں کیوں نہ ہوں بی اصغری کے بچے ہیں۔ایسے نہ ہونگے تو کیسے ہونگے۔یہ تو وہ ہیں کہ دوسروں کے حلق میں انگلی ڈالکر کھایا پیا سب نکلوالیں۔اور کوئی مرتا بھی ہو تو اس کے حلق میں پانی کی بوند نہ ٹپکائیں ۔
(۱۱) احساس دردمندی :
فرحت اللہ بیگ بڑے صاحب دل اورحساس انسان تھے انہوں نے اپنے مضامین میں ہنسنے ہنسانے کے ساتھ ساتھ قاری کی آنکھوں کو آنسوئوں کے موتیوں سے بھی بھر دیاوہقاری کو مسکراتے مسکراتے اچانک غم کی کیفیت سے دو چار کردیتے ہیں ۔
ان کے بعض مضامین مثلا :
پھول والوں کی سیر اور مولوی نذیر احمد کی کہانی ، کے اختتا میے ذہنوں میں المیہ کا تاثر چھوڑتے ہیں ۔
(۱۲) تمہیدکا شگفتہ انداز :
مضمون کی دلچسپی کا انحصار اس کے تمہیدی پیرا گراف پر ہوتا ہے فرحت کو مضمون کا ابتدائیہ شگفتہ انداز میں لکھنے پر کمال حاصل تھا ۔
ممتاز کالم نگار نصر اللہ خان اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ :
’’ وہ ایک قادر الکلام ااور ماہر فن ادیب ہیں ۔ ان کی شگفتہ اور دلچسپ تمہیدیں ان کی مہارت فن اور تخربہ کاری کا منہ بولتا ثبوت ہیں ‘‘۔
(۱۳) مرزا فرحت اللہ بیگ خاکہ نگاری کے شہنشاہ ہیں :
آپ کی تحاریر کے اسلوب نے خاکہ نگاری کو ایک نئی جُہت عطا کی ہے، آپ اپنے ممدوح کا اپنے لفظوں اور خوبصورت جملوں کے ذریعے ایسا پیکر تراشتے ہیں کہ وہ ممدوح قاری کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ آپ اپنے خاکوں میں سلاست ، ذہانت اور نکتہ آفرینی کا بے مثال اہتمام کرتے ہیں۔ ’’ نذیر احمد کی کہانی ‘‘ ’’ ایک وصیت کی تکمیل‘‘ اور ’’ دلّی کاایک یادگار مشاعرہ ‘‘ آپ کی خاکہ نگاری اور شخصیت نگاری کی لازوال دستاویز ہیں۔ خاص کر ’’ دلّی کاایک یادگار مشاعرہ ‘‘ میں چلتی پھرتی دلّی کی اہم شخصیات نظر آتی ہیں۔اس طرح اردو شاعری کے کلاسیکی عہد کے شعراء بمع پڑھنے کا انداز اور داد دینے کا انداز تک بیان ہوگیا ہے۔ یوں دلی کا مشاعرہ ایک عظیم تاریخی دستاویز بن گیا ہے، جس میں نواب ضیاالدین احمد خان ،مرزا تفتہ ، مولوی امام بخش صہبائی ،مفتی صدرالدین آزردہ، نواب شیفتہ اور حافظ غلام رسول ویران جیسی شخصیات کا ذکر امر ہو گیا ہے۔
نمونہءِ تحریر ملاحظہ ہو:
’’ میرا نام کریم الدین ہے۔میں پانی پت کا رہنے والا ہوں۔یہ قصبہ دہلی سے ۴۰ کوس پر بہ جانب شما ل مغرب واقع ہے اور اپنی لڑائیوں کی وجہ سے تاریخ میںمشہور ہے۔ ہم اچھے کھاتے پیتے لوگ تھے۔‘‘
(۱۴) تصانیف:
مضامین فرحت …. پانچ مجموعے ، جس میں ڈاکٹر نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی ، بہادر شاہ اور پھول والوں کی سیر، دلّی کا یادگار مشاعرہ ،نانی اشّو اور ایک وصیت کی تعمیل وغیرہ بہت مشہور ہوئے۔ دیوان یقین کی ترتیب ، دیوانِ یقین پر زبر دست تحقیقی مقالہ،دیوانِ نظیر کا………… وغیرہ وغیرہ ۔
(۱۵) تبصرہ کچھ اپنی ناقص رائے میں :
بلا شبہ فرحت اللہ بیگ نئی روایت کے مزاج نگاروں کے قافلے کے سب سے نمایاں سپہ سالار ہیں۔ مزاح میں قہقہہ کے بجائے تبسم زیر لب کو روا رکھا ۔آپ نے مزاح میں شرارت کے بجائے شرافت اور وضع داری کا دامن تھا ما۔ ظرافت کو کاٹ دار بنانے کے بجائے اسمیں شگفتگی اور نرمی کے رنگ بھرے ۔ ظرافت کو زبان کی رنگینی اور چاشنی سے موثر بنایا ۔
مزاح کے پس منظر میں ہمدردی اور دردمندی کا جذبہ کا ر فر مارکھا ۔آپ نے اپنی مزاح نگاری کو مقصدیت کے تابع رکھا۔آپ بہترین انشاء پر داز تھے ۔آپ نے اپنے مضا مین میں اپنے دور کی ثقافت اور تمدن کی نہا یت عمدہ تصویر کشی کی ہے۔آپ نے اس ماحول میں آنکھ کھولی جب پرانی تہذیب دم توڑرہی تھی۔ سرسید کی تحریک اپنا اثر دکھارہی تھے۔ ایسے ماحول میں آپ نے محسوس کیا کہ پرانی تہذیب میں زندگی کی اعلٰی اقدار موجود ہیں۔ آپ کو عہدِرفتہ کی ان اقدار سے دلی لگاو ءتھا۔ اسی لئے آپ اپنی بھرپور کوششوں سے پرانی یادوں کا بار بار تذکرہ کرتے ہیں۔ آپ کا اسلوبِ نگارش خود آپ ہی سے شروع ہوکر آپ ہی پر ختم ہوگیا۔میں اپنے تبصرے کا اختتام مرزا صاحب کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے چند ناقدین کی آراء پر کرتا ہوں۔
بقول عبدالقادر سروری:
’’مرزا صاحب کے قلم سے سلاست اور فصاحت کا دامن بہت کم ہی چھوٹنے پاتا ہے۔‘‘
بقول بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق :
’’مرزا فرحت اللہ بیگ کا بیان بہت سادہ و دل آویز ہے جس میں تصنع نام کو نہیں۔‘‘
بقول ڈاکٹر سید عبداللہ :
’’فرحت کی زبان شگفتہ فارسی آمیز ہے اور بعض اوقات تمسخر کچھ اس طرح ملا ہوتا ہے کہ جس میں پھول اور کانٹے نظر آئیں۔‘‘
ANS 03
شعرو ادب میں خوش طبع یا مزاح ایک حسین اور دلآویز صفت ہے اور دنیا کی ہر زبان کا ادب اس صفت سے مالا مال ہے۔ کیو نکہ اس فن کا تعلق براہ راست انسانی معاشرت اور اس کے مسائل سے مربوط ہے۔ فرد کی اصلاح اور معاشرے کا سدھار اس کا خاص مقصد ہے۔ یہ گہرے شعور، زندگی کے وسیع مشاہدات، بے کراں تجربات اور عرفان ذات کے عمیق مطا لعے سے پیدا ہو تا ہے۔ چنانچہ ابتدا ئی نمونوں سے لے کر عصر حاضر کے ترقی یافتہ مزاحیہ نمونوں تک میں سماجی مسائل اور انسانی اخلا قیات کا عکس اپنی پوری آ ب و تاب کے ساتھ نظر آ تا ہے۔ لیکن اس کے با وجود بعض اہل علم اسے ادب عالیہ میں شمار نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مزاح محض ایک افتاد طبع نہیں بلکہ پروفیسر محمود الٰہی کے بقول:
’’ایک ایسا اسلوب بیان ہے جس کی کیفیت تقسیم در تقسیم کا شکار ہو تی رہی ہے۔ یہی کیفیت کبھی تمسخر اور پھکڑ پن کا مظہر بن جاتی ہے اور کبھی طنز وتعریض کی غمازی کرتی ہے۔ انتخاب الفاظ میں اگر فن کار سے چوک ہو جائے تو طنز و دشنام طرازی کا مرقع بن جا تی ہے۔ طنز میں طبیعت کو بھی سنبھالنا پڑتا ہے اور الفاظ کو بھی اور جسے طبیعت اور الفاظ کو قابو میں رکھنے کا سلیقہ آ تا ہے وہ ہی اچھا طنز نگار ثا بت ہو تا ہے۔ جو لوگ مزاحیہ ادب کو ادب عالیہ میں شمار نہیں کرتے ان کی مراد مزاح کے ان نمونوں سے ہو تی ہے جن میں گفتار کا اسلوب عا میانہ ہو جاتا ہے۔‘‘
[اگر یہاں میں یہ عرض کروں تو شاید بے جا نہ ہو گا کہ غزل اور بچوں کے ادب کی طرح طنز و مزاح بھی اردو کی ان مظلوم اصناف میں شامل ہیں جنہیں عموماً بچوں کا کھیل سمجھا جاتا ہے اور ہر نو سیکھیا سب سے پہلے ان ہی میں سے کسی ایک پر ہاتھ صاف کر بیٹھتا ہے۔ جب کہ یہ تینوں ہی اصناف بالخصوص گہرے مطالعے، عمیق مشاہدے، وسیع تجربے اور زبان و بیان پر قدرت کاملہ کی متقاضی ہیں۔ کیو نکہ جس طرح غزل میں بڑے سے بڑے خیال یا واقعہ کو دو مصرعوں میں سمونا یا بچوں کے ادب میں بچوں کی نفسیات کا خیال رکھ کر گویا دریا کو کوزے میں بند کرنے کا سوال ہے اسی طرح طنز و مزاح ایک ایسی پل صراط سے گزر نے کا نام ہے کہ جس میں معمو لی سی لغزش نہ صرف تخلیق کو ابتذال و پھکڑ پن کا پلندہ بنادیتی ہے بلکہ خالق کی شخصیت کو بھی مجروح کردیتی ہے۔ در اصل دا نشوروں کے نزدیک طنز و مزاح نگار کی مثال اس مسخرے کی سی ہے جسے بادشاہ کے منہ پر اس کی کمزوریاں بیان کر نے کی آزادی ہو تی ہے۔ لیکن یہ آ زادی کتنی خطرناک ہوسکتی ہے اس کا اندازہ آپ خود بھی بآسانی لگا سکتے ہیں۔ اس لیے طنز و مزاح کی پوری روا یت میں کم ہی افراد ایسے ہیں جن کے مزاحیہ نمونے اردو کو طرۂ امتیاز عطا کرتے ہیں۔
خطہ جونپور سے اس فہرست میں ایک نمایاں نام رشید احمد صدیقی کا ہے۔رشید احمد صدیقی1892ء میں جونپور کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ گھر پر بنیادی تعلیم حاصل کر نے کے بعد آگے کی تعلیم حاصل کر نے کے لیے جونپور گئے۔ بورڈنگ اسکول میں بھی تعلیم حاصل کی۔ اعلی تعلیم حاصل کر نے کی غرض سے علی گڑھ گئے جہاں سے ایم اے کیا اور پھر ملازم ہو گئے۔ انہوں نے اردو ادب کے میدان میں اس قدر ترقی کی کہ علی گڑھ یو نیورسٹی کے شعبۂ اردو کے صدر مدرس کی ذمہ داری ان پر ڈال دی گئی جس کو انہوں نے بحسن و خوبی نبھایا۔ رشید احمد صدیقی نے بہت سے مضا مین تحریر کیے جن میں طنز و مزاح نمایاں ہے۔ ان کے یہاں تنقید کی بھی اچھی مثا لیں ملتی ہیں۔ ان کے مزاحیہ مضا مین بھی قابل قدر ہیں اور اردو ادب کے سر مائے میں بیش بہا اضا فہ ہیں۔ ان کے مضامین میں نہ صرف ہنسی بلکہ عبرت بھی پوشیدہ ہے۔ لہٰذا یہ کہنا جائز ہے کہ اردو مزاح نگاری کی تاریخ میں رشید احمد صدیقی ایک اہم شخصیت کے مالک ہیں۔
رشید احمد صدیقی اردو ادب میں ایک روا یت کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ انہوں نے اردو ادب کو مختلف حیثیتوں سے متاثر کیا ہے۔ ان کے طنزیہ و مزاحیہ مضا مین، ان کی پر مغز تنقیدیں اور ان کی مرقع نگاری ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ ان کی تخلیقا ت سے محظوظ ہونے کے لیے ایسے تربیت یافتہ ذہن کی ضرورت ہے جو ان کے ذہن، ان کی پہلو دار شخصیت اور ان کے ماحول کے ساتھ ساتھ علم و ادب کا بھی مزاج شناس ہو۔
رشید احمد صدیقی کے طنز و مزاح کے دو مجمو عے ہیں۔’’ مضامین رشید‘‘ اور’’ خنداں‘‘۔ اس کے علاوہ بہت سے مضامین و مقالات مختلف اخبارات و رسا ئل میں بکھرے ہوئے ہیں۔’’ مضامین رشید‘‘ کو نقش اول ہو نے کے با وجود فنی اعتبار سے نقش ثا نی’’ خنداں‘‘ پر فوقیت حاصل ہے۔ مضامین رشید سے ،رشید احمد صدیقی کی تخلیقی صلاحیت، شعور کی پختگی، وسعت نظری اور علمی عظمت کا اظہار ہو تا ہے۔’خنداں‘ میں یہ ندرت فکر، طنز و مزاح کا ٹھہرا ہوا انداز اور شا ئستگی و رچاؤ نظر نہیں آ تا۔ زبان و بیان کا چٹخا رہ اور متنوع موضو عات کا احساس تو ضرور ہوتا ہے لیکن اس میں وہ تازگی اور طنز و مزاح کی چھٹکی ہوئی چاندنی نہیں ملتی جس سے مضامین رشید عبارت ہیں۔ ساتھ ہی خنداں کے مضامین میں موضوع سے ہٹ جانے بے جا تکرار و طوالت اور پھیکا پن جیسی خامیاں کچھ زیادہ نظر آ تی ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ خنداں چو نکہ ریڈیائی مضامین کا مجمو عہ ہے۔لہٰذا بے جا پابندیوں اور اندیشہ ہائے دور دراز کے با عث اس میں وہ بلندی، پختگی، فطری پن اور فنی رچاؤ پیدا نہیں ہو نے پایا جو مضامین رشید میں نظر آ تا ہے۔
رشید احمد صدیقی نے زندگی کے ہر پہلو کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ وہ ہر شئے کو معاشرتی ڈھانچے میں دیکھتے ہیں۔ انہوں نے اداروں اور جما عتوں پر نظر معا شرتی پس منظر میں ڈا لی ہے۔ اس طرح ان کے یہاں تمدنی تنقید کے بہترین نمونے ملتے ہیں۔ مشرقی اقدار کو عزیز رکھنے کی وجہ سے انہوں نے مغربی تہذیب پر کڑی چوٹ کی ہے۔ یہاں وہ اکبر سے بہت زیادہ قریب نظر آ تے ہیں۔ زندگی کے ہر پہلو پر وہ تنقیدی نظر ڈالتے ہیں اور پورے خلوص کے ساتھ معاشرتی زندگی کے جھول اور زندگی کے مختلف گوشوں میں پائی جانے وا لی نا ہمواری کو دور کرنا چاہتے ہیں ۔ان کی تمدنی تنقید کے پیش نظر بہت سے نقا دوں نے انہیں ایک اہم تمدنی نقاد قرارد یا ہے۔
رشید احمد صدیقی کی ایک مخصوص ذہنی سطح ہے جس سے وہ نیچے نہیں اترتے۔ اس لیے ان کے یہاں عام لوگوں کی تسکین ذوق کا سامان کم ہی مل پاتا ہے۔ کیو نکہ ان کا انداززیادہ تر عالمانہ ہو تا ہے ۔چونکہ ان کے طنز و مزاح میں شعر و ادب کے ساتھ ساتھ سیاست، تاریخ اور دیگر علوم و فنون کا امتزاج ہو تا ہے۔ اس لیے ان سے وہی شخص محظوظ ہو سکتا ہے جو نکھرے ہو ئے مذاق کے ساتھ ساتھ اردو کے ادبی پس منظر سے واقف اور با شعور ہو۔ان کے فن کے مخصوص دائرے تک محدود ہونے کی وجہ ان کا مخصوص مقامی رنگ بھی ہے جو ان کی علی گڑھ سے جذباتی وا بستگی کا وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ رشید احمد صدیقی کے لیے علی گڑھ بہشت بریں سے کم نہیں۔ وہ ان کی زندگی کا آئیڈیل ہے۔ دنیا کے کسی خطے کا ذکر ہو، بات علی گڑھ تک ضرور پہنچ جائے گی۔ ان کی شخصیت کی تشکیل میں علی گڑھ کا ہا تھ تھا اور ان کے ذہن پر اس شہر علم و فن کے اثرات اتنے گہرے تھے کہ زندگی کی آ خری سانسوں تک اس میں کمی نہیں آ ئی۔ ان کی تحریروں میں علی گڑھ اپنی مخصوص روایات کے ساتھ ہر جگہ موجود نظر آ تا ہے۔ علی گڑھ کی اس وابستگی و وارفتگی کی وجہ سے کسی نے انہیں’’محرک علی گڑھ‘‘ قرار دیا ہے۔ ان کی علی گڑھ سے اس جذباتی وابستگی کو بعض نقادوں نے ان کے فن کے لیے نیک فعل قرار دیا ہے۔
لیکن زیادہ تر نقادوں کا یہ خیال ہے کہ علی گڑھ کی وابستگی ان کی نظر کی حد بن گئی ہے جو ان کے فنی افق کو وسیع ہونے سے روک دیتی ہے۔انہوں نے اپنے فن کو علی گڑھ مارکہ بنا کر اسے محدود کردیا ہے۔ ان کے طنز کی واقعیت کو وہی شخص محسوس کرسکتا ہے جو علی گڑھ کے شب و روز اور وہاں کی مخصوص روایات سے واقف ہو۔ اس محدود رنگ کے با وجود ان کی عظمت اپنی جگہ مسلم ہے۔ علی گڑھ کسی مخصوص مقام کا نام نہیں وہ چند روایات اور ذہنی رویوں کی علا مت ہے۔ رشید صاحب نے اسے علا مت بنا کر زندگی کی مختلف قدروں اور تہذیبی روا یتوں کے نقوش ابھا رے ہیں اور اپنے اسلوب، ادبی اشاروں، بلاغت اور اپنی سنجیدہ اقدار پر مضبوط پکڑ کے باعث طنز و مزاح کے بڑے نمائندہ بن گئے ہیں۔
ANS 04
1
مولانا محمد حسین آزادؔ کی شاہکار اور بہترین تصنیف ’آبِ حیات‘ ہے ۔اس میں مشہور شعراء کے حالات مع نمونۂ کلام اور موصوف کے دلچسپ اور عالمانہ تنقید کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس سے قبل اس قسم کا تذکرہ کسی نے نہیں لکھا تھا ۔آب حیات لکھ کر مولانا نے ایک جدید طرزکی تذکرہ نگاری کا آغاز کیا ۔گنجینۂ معلومات ہونے کے علاوہ اس کتاب کی خوبی اس کی بے مثال طرزِ عبارت ہے کہ جس کی نقل کی سب کوشش کرتے آئے ہیں مگر کماحقہٗ کوئی نہیں کر سکا۔ ڈاکٹر رام بابو سکسینہ اس کتاب کی تنقیدی اہمیت ان الفاظ میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ اسی کتاب سے تنقید کا صحیح معیار اردو میں قائم ہوا۔حالیؔ کی یادگار غالبؔ کو اسی کتاب کے مطالعہ کا نتیجہ سمجھنا چاہئے ۔‘‘ ۴
آزادؔ نے اس کتاب کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے ۔شاعر کے واقعاتِ حیات اور ان کی سرگذشت قلمبند کرنے میں آزاد کے پر لطف اوردلچسپ اسلوب بیان اور ان کی محاکاتی صلاحیتوں نے ان کی اچھی رہبری کی ہے ۔’آبِ حیات‘ اردو کی ادبی تاریخ کا ایک ایسا البم ہے کہ جس میں ہر تصویر اپنے خد و خال اور اپنی شخصیت کے تمام اہم پہلوؤں کے ساتھ اجاگر ہوتی ہے ۔ڈاکٹر محمد صادق لکھتے ہیں کہ:
’’ آب حیات محض اردو شاعری کی تاریخ ہی نہیں بلکہ ایک توانا ،متحرک اور زندگی سے لبریز دستاویز ہے جو عہد ماضی کو از سر نو زندہ کرکے ہماری آنکھوں کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے ۔‘‘ ۵
کلیم الدین احمدبھی تذکروں میں اس کتاب کی اہمیت پر رقمطراز ہیں:
’’آزاد ؔشاعروں کے نام نہیں گناتے ،متفرق اوصاف و نقائص کی فہرست مرتب نہیں کرتے ۔ہر شاعر کی زندہ تصویر کھینچتے ہیں۔ میرؔ، سوداؔ، دردؔ، انشاؔ، مصحفیؔ، ناسخؔ غرض ہر شاعر کی الگ الگ تصویر ہے۔‘‘۶
آبِ حیات کے اسلوب میں جو نزاکت اور سادگی موجود ہے وہ بہت کم انشاپردازوں کے حصے میں آئی ہے یہی وجہ ہے کہ تذکرے کے بہت سے واقعات غلط ثابت ہونے کے باوجود بھی اس کی ادبی اہمیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ عبدلقادر سروری آب حیات کی اہمیت پر اظہارخیال کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں کہ:
‘The most remarkable book,however in the writings of Azad is his Aab-Hayat, which is a history of urdu poetry from the time of the earliest- poets like wali to the time of ghalib……it has been said by some critics that inaccuracies have crept in here and there in certain details and that at places the author have even drawn on his imagination a good deal. That may be true but taking the work as whole, we cannot be sufficiently grateful to Azad for the pains he took in producing this book.” 7*
دربارِ اکبری:
یہ ایک عالیشان تصنیف ہے جس میں آزاد ؔ نے بادشاہ اکبر کے عہد اور ان کے اراکین سلطنت کے حال درج کئے ہیں۔اس کتاب میں آزاد ؔ نے عہد اکبری کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے کہ تمام مناظر جیتی جاگتی تصاویر کی طرح آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ اکبر کی شان کے مطابق زبان کا استعمال کیا ہے اس کتاب کا ترجمہ انگریزی زبان میں بھی ہو چکا ہے۔موصوف نے اکبر کے نام سے ایک ڈرامہ بھی لکھا تھا۔ سیدہ جعفر آزادؔ کی دربار اکبری کی وجہ تصنیف بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ:
’’آزادؔ نے بڑی غیر معمولی محنت اور لگن کے ساتھ ‘دربار اکبری’ کا پہلا ایڈیشن ۱۴ ستمبر۱۸۹۸ء میں مرتب کرکے شایع کیا تھا۔ اس میں تاریخ ہند کے ایک سنہری دور کو موضوع بنایا گیا ہے ۔اکبر اعظم کی رواداری ،وسیع النظری اور روشن خیالی آزادؔ کے مزاج میں میل کھاتی تھی اور اس رجحان نے بھی آزاد ؔ کو دربار اکبری کی تصنیف کرنے پر مائل کیا تھا۔’’ ۸
اسی طرح دیوان ذوق ؔکے فلیپ پر آغا محمد طاہر اس کتاب کی اہمیت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
’’جلالدین اکبر شہنشاہِ ہندوستان اور اس کے نورتن(امرائے جلیل القدر)کے دلچسپ حالات اس خوبی سے قلم بند کئے ہیں کہ مذاقِ سلیم عش عش کرتا ہے ۔۔۔‘‘ ۹
عتیق اﷲ دربار اکبری کو اکبر کی سوانح، شخصیت اور ان کو کارناموں اور عہد کی مفصل تاریخ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’دربار اکبری’ محض دربار کے امراء کے سوانح پر مبنی نہیں ہے بلکہ اکبر کے روز و شب ان کی معاملہ فہمی اور انسان فہمی،ان کی سیاسی حکمت عملی،جنگی مہمات۔ مختلف فنون کے ماہرین اور امراء سے ان کے تعلق کی نوعیت،ان کی وسیع المشربی اور مذہبی تصورات ،ان کے عہد کی تصانیف اور عمارات،ان کے عادات و خصائل ،ان کے بچپن اور لڑکپن سے لے کر بڑھاپے تک اہم سوانحی مراحل گویا اکبر کی زندگی کے مختلف ادوار کو بڑے موثر اور دلپذیر پیرائے میں بیان کیا ہے۔’’ ۱۰
یرنگ خیال:
نیرنگ خیال محمد حسین آزادؔ کے تمثیلی مضامین کا مجموعہ ہے ۔یہ ۱۸۸۰ء میں دو حصوں میں شائع ہوا۔ان مضامین میں آزادؔ نے تمثیل نگاری (Allegory) سے کام لیا ہے ۔یہ مضامین ہلکی پھلکی اور شگفتہ مضمون نگاری کا عمدہ نمونہ ہیں۔ان میں آزاد ؔ نے انگریزی ادب سے بھر پوراستفادہ کیا ہے ۔آزاد ؔ کو اس تصنیف کا خاکہ ڈاکٹر جی ۔ڈبلیو۔لائٹنر G.W.Lietner) سے ملا تھا جو یونانی اور انگریزی ادب کا ماہر تھاان ہی کی مفید معلومات اور مہیا کردہ مواد سے آزادؔ نے نیرنگ خیال کی عمارت تعمیر کی۔ سیدہ جعفر بھی اس حقیقت پر ان الفاظ میں روشنی ڈالتی ہیں کہ:۔
ان (آزاد)کے سامنے جانسن اور ایڈیسن کی مضمون نگاری کے نمونے تھے اور ان ہی سانچوں میں آزادؔ نے اپنے انشائیوں کو ڈھالنا چاہا تھا۔’’ ۱۱
نیرنگ خیال میں جتنے بھی مضامین شامل ہیں ان میں سے چھے مضامین جانسن کے ہیں ،تین ایڈیسن کے ہیں اور بقیہ دوسرے انگریزی ادیبوں کے ۔لیکن ان ترجموں میں آزاد نے اپنی ذہانت اور سحر بیانی سے اتنا ردوبدل کر دیا ہے کہ ان میں تخلیقیت کی شان پیدا ہوئی ہے ۔ نیرنگ خیال کے تمام مضامین میں ’’شہرت عام اور بقائے دوام کا دربار‘‘نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے ۔اس میں آزاد نے مختصر انداز میں مختلف شخصیتوں جیسے نظامی،ؔ سعدیؔ ،اورنگ زیب،غالبؔ،جرأتؔ وغیرہ وغیرہ کا خاکہ پیش کیا ہے جس میں ان کی مرقع نگاری کے جوہر سامنے آتے ہیں ۔غالب کی شاہانہ شان کا مختصر سا خاکہ کچھ اس طرح سے پیش کرتے ہیں:
’’۔۔۔غالبؔ اگرچہ سب سے پیچھے تھے پر کسی سے نیچے نہ تھے ۔بڑی دھوم دھام سے آئے اور نقارہ اس زور سے بجا کہ سب کے کان گنگ کر دئے ۔کوئی سمجھا اور کوئی نہ سمجھامگر واہ واہ اورسبحان اﷲ سب کرتے رہے ۔۔۔۔’’ ۱۲
دیوانِ ذوقؔ:۔
خاقانیٔ ہندشیخ ابراہیم ذوقؔ کے کلام اور قصائد کو آزاد نے ترتیب دے کر دیوان کی صورت میں چھپوایا۔اس کتاب کی ترتیب و تالیف سے محمد حسین آزادؔ نے اردو ادب کی بیش بہا خدمات انجام دی ہے اور اپنے استاد کو گمنام ہونے سے بچا لیاہے ۔دیباچہ میں ذوقؔ کی سوانحی زندگی کے کچھ واقعات رقم کئے ہوئے ہیں۔مذکورہ دیوان میں آزادؔ نے اشعار کے ساتھ ساتھ کچھ دلچسپ نوٹ بھی لکھے ہیں جن سے نہ صرف اشعار کی قدر و قیمت ہی بڑھ گئی بلکہ ان میں ایک رومان کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے ۔محمد حسین آزاد ؔنے حالات غدر میں دیوان ذوق ؔ کے خام مواد کو کسی طرح سے بچا لیا اس پر عبدالقادر سروری روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
‘He left Delhi with the woman and children ofthe family and the only thing that he managed to save from the general ruin was a bundle of manuscript poems of his great master Zauq. which were subsequently published by him in his enlarged edit -ion of Diwan-i-Zauqwith a suitable preface.”13*
سخندانِ فارس:۔
سخندان فارس ان مختلف مقالات کا مجموعہ ہے جوفارسی زبان و ادب سے متعلق ہیں۔فارسی ادب کے تعلق سے یہ کتاب بہت ہی دلچسپ ہے ۔یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے پہلے حصے میں آزادؔنے علم فلالوجی اور سنسکرت اور فارسی زبان کے آپسی رشتے پر روشنی ڈالی ہے اور دوسرا حصہ گیارہ لیکچروں پر مشتمل ہے جو کہ فارسی زبان و ادب اور دوسرے موضوعات سے متعلق ہیں۔ یہ کتاب علم فلالوجی (Philology)یعنی علم لسانیات کے فن پراردو کی اولین تصانیف میں اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے ۔بلا شبہ آج کے دور میں علم لسانیات کے جو اصول و ضوابط وضع ہوئے ہیں وہ آزاد کے زمانے سے بالکل مختلف ہیں۔لیکن ایک ایسے دور میں جب یہ علم نیا نیا ہی تھا خاص کر اردو ادب میں علمی موضوعات اور مسائل کی کی طرف بہت کم توجہ کی جاتی تھی اس کتاب کی حیثیت ایک بہت بڑے کارنامے سے کم نہیں ہے ۔آزادؔ اردو کا پہلا محقق ہے جس نے اردو اور فارسی کے لسانی رشتوں کی طرف توجہ دلانے کے ساتھ ساتھ قدیم فارسی اور قدیم سنسکرت کے لسانی رشتوں پر بھی بحث کی اور یہ ثابت کیا کہ اردو کی لسانی اور ادبی وراثت میں صرف فارسی ہی کا نہیں بلکہ قدیم سنسکرت کے ذخیروں کا بھی بڑا حصہ ہے ۔ اس کتاب میں آپ نے فارسی اور سنسکرت زبان کو متحدالاصل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس کتاب کے بارے میں محمد صادق لکھتے ہیں کہ:۔
”The book has a two foldthesis.First,that language is a living organism and passes inevitably through the stages of growth decline,and modification through which organism pass.Words are not the immutable symbols of fixed ideas; they change in sound and meaning,anddie,as other things do.This naturally takes him on the study of Phonetics,Semantic s, Degeneration of meaning, Theory of loan words,Race mixture and Linguis tic growth, Fossils,FolkEtymology,and other cognate subjects. Sketchy as most of these notes are, they reveal insight into linguistic processes. The second is the famous discovery of philology that a language,like other aspects of civilisation,bears only too palapably the impact of its natural and social sorroundings.” 14*
پروفیسر صادق اپنی ایک اور کتاب میں مذکورہ تصنیف کے بارے رقمطراز ہیں :
’’ سخندان فارس جس میں آزاد نے وسطِ ایشیا کے مشاہدات قلمبند کئے ہیں۔گزشتہ صدی کی چند جاندار کتابوں میں سے ایک ہے ۔’’ ۱۵
سیدہ جعفر بھی اس کتاب کے بارے میں لکھتی ہیں کہ:۔
’’اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں پہلی بار آزاد نے زبان کو ایک نامیاتی حقیقت کے طور پر پیش کیا ہے ۔جو گرد و پیش کے حالات سے بدلتی اور نئے روپ دھارتی رہتی ہے اور بتایا ہے کہ زبان پر ماحول کے اثرات برابر رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ آزادؔ نے اس کتاب میں مقفیٰ اورمسجع عبارت آرائی پر سخت تنقید کی ہے ۔’’ ۱۶
نگارستانِ فارس:۔
نگارستانِ فارس ایران اور ہندوستان کے فارسی شعراء کا ایک مختصر تذکرہ ہے ۔جس میں رودکی سے لے کر نورالعین واقف بٹالوی تک۳۶ شعراء کے حالات و واقعات مع نمونۂ کلام کے ساتھ ساتھ ان کے لطیفے بھی درج ہیں۔ حاشئے پر ان کتابوں کے نام بھی درج ہیں جن سے ان شعراء کے حالات و واقعات اخذ کئے گئے ہیں ۔اس کتاب میں صاف و سادہ زبان کا استعمال کیا گیا ہے ۔مگر آب حیات کی سی شان اس میں نہیں ہے ۔شاید اسی لئے اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آزادؔکے ابتدائی دور کی تصنیف ہے یا نظر ثانی سے محروم رہ گئی ہے ۔اگر ہم یہ کہیں کہ یہ کتاب سخندان فارس کی توسیع شدہ شکل ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ آغا محمد طاہربھی اس کتاب کے دیباچے میں اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:۔
’’یہ حضرت آزادؔ کا ہی جگر اور حوصلہ تھا کہ سفر کی مصیبتیں اور تکلیفیں جھیل کر فارسی کی سرزمین میں پہنچے۔وہاں کے دستور اور موبدوں سے ملے۔ژند،پاژند،درّی،پہلوی۔سُغدی،زابلی،کابلی فارسی زبانوں کی الگ الگ چھان پھٹک کی۔ایرانی،تورانی قوموں کے میلے ٹھیلے دیکھے ۔ان کی شادی غمی کی مجلسوں میں شریک ہوئے اور سخندان فارس کا ایسا تحفہ بنا یا کہ دانایانِ فرنگ نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیااور اپنے وطن کو لے گئے ۔اس سے بہت پہلے دوسرا حصہ بھی تیار کرلیا تھااور نگارستان فارس اس کا نام رکھا ۔اس تذکرہ میں رودکیؔ شاعر سے لے کر واقفؔ تک شعرائے فارسی زبان کے احوال قلم بند کئے ۔’’ ۱۷
نگارستان فارس ،آزاد کی وفات کے بعد ۱۹۲۲ء میں آغا محمد طاہر نے شائع کرائی۔اس کا قلمی نسخہ آغا محمد طاہر کو مختلف بستوں سے ملا۔جس میں بہت ساری خامیاں بھی رہ گئی ہیں جس کے بارے میں عتیق اﷲ بھی تحریر کرتے ہیں ۔ ‘‘نگارستان فارس’ اصلاََ فارسی شعراکا ایک تذکرہ ہے ۔ جس میں ان کمیو ں اور خامیوں نے بھی بار پا لیا ہے ۔ جو اکثر تذکرہ نگاروں کے ساتھ منسوب کی جاتی ہے ۔آب حیات ایک تذکرے کی حیثیت سے ‘نگارستان فارس ’سے کئی درجہ بہتر ہے ۔نگارستان فارس میں شعرالعجم کی طرح فارسی شاعری کی تاریخ بیان نہیں کی گئی ہے بلکہ تاریخ وار چند منتخب اور قابل ذکر شعرا ہی کو مطمح نظر رکھا گیا ہے ۔آغا محمد طاہرکو کافی تلاش و جستجو کے بعد جو قلمی مسودہ مختلف بستوں میں سے ملا وہ بھی جگہ جگہ سے مخدوش اور غیر مربوط تھا وہ لکھتے ہیں کہ بعض شعرا کے انتخابِ کلام بھی نہ مل سکے ۔کیا جانے حالات جذب میں کہاں سے کہاں باندھ دئے دو تین جلیل القدر شاعر بھی رہ گئے مثلاََ عمر خیام ،ابن یمین وغیرہ ۔لیکن ان تمام باتوں کے باوجودبھی اس قدر شعرا کسی اردو کے تذکرے میں نہ ملیں گے ۔ ’’ ۱۸
نظم آزاد:
‘نظم آزاد’ ان کے شعری کلام کا مجموعہ ہے ۔نیچرل شاعری کے موجدمحمد حسین آزاد فطری شاعر تھے اور ازل سے شاعرانہ طبیعت لائے تھے ۔ آپ نے ہی جدید شاعری کی داغ بیل ڈالی اور اردو شاعری کو گل و بلبل اور حسن و عاشقی کے چکر سے نکالنے میں بڑا اہم رول ادا کیا اور موضوعاتی نظم نگاری کا آغاز کیا۔انھوں نے جدید رنگ میں متعدد چھوٹی چھوٹی مثنویاں اور نظمیں تحریر کیں۔کرنل ہالرائیڈ کے ایماء پر آزادؔ نے ایک ادبی انجمن ‘انجمن پنجاب ’کے نام سے لاہور میں قائم کی ۔یہاں انھوں نے مختلف لیکچر پیش کئے اور جدید رنگ کی موضوعاتی نظمیں اور مثنویاں بھی پڑھیں،سب سے پہلے انھوں نے مثنوی‘شب قدر’ پڑھی۔آپ کے بیٹے مولوی محمد ابراہیم نے ۱۸۹۹ء میں آزادؔ کا مجموعہ کلام ‘نظم آزاد’ کے نام سے شائع کیا۔عبدالقادر سروری لکھتے ہیں کہ:
‘‘آزادؔ کا رتبہ اردو شاعری میں وہی ہے جو اسکاٹ کا انگریزی شاعری میں ہے ۔کسی نئے خیال کے پیدا کرنے والے اور کسی نئی تحریک کے بانی کو دنیا جس وقعت کی نظروں سے دیکھ سکتی ہے ۔آزادؔ بھی اس کے پوری طرح مستحق ہیں۔انھوں نے ہی قدیم شاعری کی اصلاح کا سب سے پہلے بیڑا اٹھایا اور انھوں نے ہی جدید تصور کو سینچا ۔آزاد ہی کی بدولت لوگ نیچرل شاعری کے مفہوم سے آشنا ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں کی ہر چیز اپنی دلکشی اور رعنائی کے لئے صرف دستِ قدرت کی مرہون ہے ۔اس میں صبح اور شام کے سمے ،پرندوں کی چہک ،پھولوں کی مہک ،آبشاروں کا شور،سبزہ زاروں کی دلکشی اور کہساروں کی بے ترتیبی غرض حسن فطرت کی بو قلمونیوں کا پورا نقشہ موجود ہے ۔ ’’ ۱۹
آزادؔ اپنی شاعری کو ذریعہ اصلاح نہیں بناتے پند و نصائح سے گریز کرتے ہیں اسی وجہ سے ان کا کلام خشک اور پھیکا نہیں ہونے پاتا۔جو موضوع ان کو پسند آجاتا ہے اس پر طبع آزمائی کرکے بطور نمونہ پیش کرتے ہیں ۔ان کی یادگار کئی ایک مثنویاں ہیں۔مثلاََ شب قدر۔صبح امید،گنج قناعت،دادِ انصاف،وداع انصاف ،خواب ِامن اور نظموں میں مبارک باد جشن جوبلی، الوالعزمی کے لئے کوئی سدراہ نہیں،سلام علیک،معرفت الٰہی،محنت کرو ،نوطرز مرصع وغیرہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ آزادؔ نے اپنے ایک لیکچر میں اپنے ہم وطنوں کو ‘فصاحت’ کی اصطلاح سے صحیح معنوں میں روشناس کراتے ہوئے ان کو انگریزی ادب خصوصاََ نظم سے استفادہ کر کے اپنے اردو ادب خصوصاََ اردو نظم کو مالامال کرانے کیلئے آمادہ کر رہا ہے ۔اور ان کو اس بات کیلئے بھی آمادہ کرتا ہے کہ اردو نظم نے ہمارے بزرگوں سے لمبے لمبے خلعت اور بھاری بھاری زیورات میراث پائے ہیں مگر کیا کرے اب یہ خلعت پرانے ہوگئے ہیں اور ان زیورات کو وقت نے بے رواج کردیا ہے ۔اسی لئے اب ہمیں اُن کی تقلید کرنے کے بجائے ایک نیا راستہ اختیار کرنا چاہئے جس کیلئے اب ہمیں انگریزی ادب کی طرف بھی متوجہ ہونا چاہئے ۔کیونکہ ہیرے جواہرات سے ہم اپنے ادب کو آراستہ کر سکتے ہیں وہ انگریزی صندوقوں میں قید ہیں۔آزادؔ اپنے اس لیکچر میں اپنے ہم وطنوں سے مخاطب ہو کر کچھ اس طرح فرماتے ہیں۔:
‘‘اے گلشن فصاحت کے باغبا نو! فصاحت اسے نہیں کہتے کہ مبالغے اور بلند پروازی کے بازؤں سے اڑے ،قافیوں کے پروں سے فرفر کرتے گئے ۔لفاظی اور شوکت الفاظ کے زورسے آسمان پر چڑھتے گئے اور استعاروں کی تہہ میں ڈوب کر غائب ہو گئے ۔ فصاحت کے معنی یہ ہیں کہ خوشی یا غم ،کسی شئے پر رغبت یا اس سے نفرت ،کسی شئے سے خوف یا خطر ،یا کسی پر قہر یا غضب، غرض جو خیال ہمارے دل میں ہو،اُس کے بیان سے وہی اثر ،وہی جذبہ، وہی جوش سننے والوں کے دلوں پر چھا جائے ۔ جو اصل کے مشاہدہ سے ہوتا ہے ۔۔۔۔۔اے میرے اہلِ وطن ! ۔۔۔تمہارے بزرگ اور تم ہمیشہ نئے مضامین اور نئے انداز کے موّجد رہے مگر نئے انداز کے خلعت اور زیور جو آج کے مناسب حال ہیں ۔وہ انگریزی صندوقوں میں بند ہیں کہ ہمارے پہلو میں دھرے ہیں اور ہمیں خبر نہیں ۔ہاں صندوقوں کی کنجی ہمارے ہم وطن انگریزی دانوں کے پاس ہے ۔’’ ۲۰
2
نیرنگِ خیال“کے مضامین نوآبادیاتی نظامِ حکومت کے شکنجے سے نجات کے لیے حقیقت میں وہ تدبیر نامہ سمجھا جا سکتا ہے کہ جس سے ہندوستانی مسلمان تعلیم اور محنت کے بل بوتے پر اپنی دنیا آپ پیدا کر سکتے تھے ۔ ایسے اخلاقی و تربیتی مضامین لکھنے کا رجحان اس لیے بھی پرورش پا گیا کیونکہ یہ سرزمینِ ہندوستان میں مسلمان قوم کے سیاسی ، معاشی و معاشرتی استحصال کا دور تھا۔ اس سیاسی ، سماجی و معاشی استحصال میں ہندوستانی مسلمانوں کا اپنامنفی کردار بھی شامل تھا ۔ صورتحال کچھ یْوں بھی مخدوش تھی کہ جن کے حالات و وسائل قدرے بہتر تھے وہ بھی سائنس ، آرٹ ، معیشت و سیاست میں اپنی نفسی توانائیاں اور طبعی وسائل صرف کرنے کو تیار نہ تھے بلکہ اکثریت تو ایسے علم کے حصول کو بدعت اور انگریز کی مزید غلامی متصّور کیے ہوئے تھی۔ سر سیّد جیسے دور اندیش مصلح نے اسے اپنی دوربیں نگاہ سے جان لیا تھا کہ نو آبادیاتی نظام کے طاقتور ریلے کا مقابلہ جواباً طاقت کا زور نہیں بلکہ ذہانت و فطانت کے حربے میں پنہاں ہے ۔ تو ہم پرستی ، جہالت اور سماجی بے راہ روی کی سیاہ راتوں میں امیدِ صبح کی خواہش و بیداری کا مثبت عمل انشائی مضامین کی صورت سر سیّد تحریک کے تقاضوں سے میل کھاتا حالات کے عین مطابق ثابت ہوا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب اصلاحی خیالات کی شدت ملا و ادیب دونوں کی تقریرو تحریر کا خاصہ تھی۔محمد حسین آزاد نے اپنے نظریات کو ایسے تقلیدی عمل سے بچایا ۔ آزاد کی انشا پردازی نظری وعملی حقائق کی غماز ہے یہی وجہ ہے کہ ”نیرنگِ خیال“کے زیادہ تر مضامین کی عمومی فضا مجردپیکروں سے جن مجسموں (concrete) کی تراش خراش پر بحث کرتی ہے وہ سب سر سیّد احمد خاں کے بطور میرِ کارواں شخصیت کو مجسّم بنانے اور نو آبادیاتی نظام سے نجات کا اخلاقی درس و سبق ہے ۔ یہ مضامین ہندوستانی مسلمان میں حبِ وطن کے جذبات، اخلاقیات کے اصول و قاعدے نئے سرے سے ترتیب دینے کا باعث بنتے ہیں۔ محمد حسین آزاد کے انشائیہ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں میں ماضی کی شاندار روایات کی جدید تناظر میں بازیافت کا شعور بھی بیدار کیا ہے۔
”نیرنگِ خیال“ دو حصوں پر مشتمل ۱۸۸۰ءمیں تصنیف ہوئی۔ اس میں کل تیرا (۱۳) مضامین ہیں۔ ”آغازِ آفرینش میں باغِ عالم کا کیا رنگ تھا اور رفتہ رفتہ کیا ہو گیا “ کے مضمون سے شروع ہونے والا تمثیلی انشائیہ کا شاہکار اپنی مثال آپ ہے ۔ اس کے آخری مضمون ”سیر ِ عدم “ تک آزاد نے نہ صرف اپنے خیال سے سحر انگیزی کا کام لیا ہے بلکہ ”نیرنگِ خیال“کی نثر رنگین بیانی کا ایک دل فریب مرقع ہے ۔ جس میں اخلاقی اور تمدنی اصلاح کے پہلوؤں کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے محمد حسین آزاد نے سرسیّد کی مقصدیدیت کی مشعل جلائے رکھی۔ ”نیرنگِ خیال“کے مضامین کی وسعت ِ خیا ل اور بلند پرواز فکر قابلِ شتائش ہے ۔ آزاد نے پہلے مضمون ” آغاز آفرینش میں باغِ عالم کا کیا رنگ تھا اور رفتہ رفتہ کیا ہو گیا“ میں ہندوستانی مسلمانوں کے ماضی ، حال اور مستقبل کا جو شاندار نقشہ کھینچا ہے وہ قابلِ دید ہے ۔ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد قاری اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ آزاد نے اس عہد کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کی پستی اور اس کے علاج کی بطور معالج نشاندہی کی ہے ۔ برطانوی سامراج کی نوآبادی بننے کی بجائے معاشرتی اصلاحات کی طرف استعارا تی ،تشبیہاتی ، تلمیحاتی و علامتی پیراے میں اشارہ کیا ہے جس سے محسوس کیا جاسکتا ہے کہ محنت پسند خرد مند یقینا ً سر سیّد احمد خاں کی ذات ہی مراد ہے جو اپنی قوم میں سیاسی و سماجی شعور کی بیداری کے لیے کوشاں رہتا ہے اور قوم کو محنت کی عظمت کا درس بھی دیتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ محمد حسین آزاد کے پیشِ نظر تمثیلی پیرائے میں سر سیّد تحریک کی مقصدیت کوسراہنے کا عمل بھی کارفرما تھا ۔بقول پروفیسر سحر انصاری ” آزاد کی خوبئ نگارش یہ ہے کہ انہوں نے تمثیلی مرقعوں میں بات بین السطور بھی کہی ہے اور ذیلی سرگرمیوں کے ذریعے مقصدیت کو بھی اجاگر کر دیا ہے “۔ (۳)
یہ بجا ہے کہ ”نیرنگِ خیال“کے تمام مضامین مبنی بر عصری تقاضا تھے اور سماجی تقاضوں سے ہم آہنگی کو مدِنظر رکھنا بھی سر سیّد احمد خاں کی اولیات میں سے تھا ۔ ”نیرنگِ خیال“کو حساس معاشرے کو نو آبادیتی نظام کی شر انگیزیوں سے بچاؤکے لیے عملی و اخلاقی تدابیر بھی کہا سکتا ہے بقول فرزانہ سیّد ” ان کا مجموعہ مضامین نیرنگ خیال اپنے اندر پوری پوری علمی ، ادبی ، تحقیقی اور تنقیدی توانائیوں لیے ہوئے ہے۔“(۴) ”نیرنگِ خیال“کے مضامین انیسویں صدی کے ربع ثالث کے بدلتے ہوئے سیاسی و سماجی نیز معاشی منظر نامے کے عکاس ہیں۔ مضامین کے عنوانات اسمِ بامسمیٰ ہیں اور ہندوستانی معاشرت کے تمام اوہام و خدشات کے پر آشوب دور کے ترجمان بھی ہیں۔ بھلے یہ رنگارنگ مضامین کا مرقع محمد حسین آزاد کی طبع زاد تصنیف نہ تھے بلکہ انگریزی کے بعض مشہور مضمون نگاران کے مضامین سے اخذ و ترجمہ تھے ۔ دوسری طرف یہ بھی ایک مسّلمہ حقیقت ہے کہ آزاد نے انہیں انگریزی زبان سے اردو کے ادبی قالب میں ڈھال کر اْردد و انشا پردازوں کے لیے مثال قائم کر دی۔ڈاکٹر انور سدید اس ضمن میں یوں رقم طراز ہوتے ہیں :
محمد حسین آزاد نے بھی زیادہ تر انگریزی مضامین ہی سے استفادہ کیا لیکن انہوں نے اپنی مشرقیت کو بہرحال قائم رکھنے کی کوشش کی۔ گلشن امید کی بہار ، سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ ، سیر زندگی، علوم کی بدنصیبی اور خوش طبعی جیسے مضامین میں آزاد نے اپنی شگفتہ انشائ سے خوبصورت لفظی مرقعے بنائے ہیں اور انشا نگاری میں اپنی انفرادیت کا پختہ نقش قائم کیا۔ (۵)
آزاد نے ”نیرنگِ خیال“کی نیرنگیوں پر گو کہ مجردو تمثیلی فضا غالب ہے مگر اسی رنگ کے ذریعے وہ مجسّم حقیقتوں کی بھی نقاب کشائی یوں کرتے ہیں کہ نو آبادیاتی نظام کی دین اخلاقی ، معاشی و سیاسی نیز سماجی بحران کی کئی سپہ کاریوں کا نقشہ تخّیل کی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے ”آغازِ آفرینش میں باغِ عالم کا کیا رنگ تھا اور رفتہ رفتہ کیا ہو گیا “ کا آغاز ہی ہمیں مغل حکمرانوں کے زریں تا تا ریک دور کا مفصّل حال بیان کرتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ کیجیئے :
سیر کرنے والے گلشن حال کے اور دوربین لگانے والے ماضی اور استقبال کے روایت کرتے ہیں کہ جب زمانہ کے پیراہن پر گناہ کا داغ نہ لگا تھا اور دنیا کا دامن بدی کے غبار سے پاک تھا تو تمام اولادِ آدم مسّرتِ عام اور بے فکریِ مدام کے عالم میں بسر کرتے تھے ۔ ملک ، ملک فراغ تھا اور خسرو ِ آرام رحمدل فرشتہ مقام گویا ان کا بادشاہ تھا ، وہ نہ رعیت سے خدمت چاہتا تھا نہ کسی سے خراج باج مانگتا تھا ۔(۶)
اس انشائیہ کا رنگ دھیرے دھیرے مجّرد کو مجسم بناتے ہوئے ہندوستانی عوام کے بدلتے ہوئے روّیوں اور مزاجوں کی اس منفی تبدیلی کی بات کرتا ہے کہ جو نو آبادیات کے ایجنڈے میں شامل تھا ۔ اقتباس ملاحظہ کیجیے ۔ ”دیکھو انسان کی نیت میں فرق آتا ہے اور کیا جلد اس کی سزا پاتا ہے ۔ اتفاقاًایک میدان وسیع میں تختہ پھولوں کو کھلا کہ اس سے عالم بہک گیا مگر بو اِس کی گرم اور تیز تھی تاثیر یہ ہوئی کہ لوگوں کی طبیعتیں بدل گئیں“۔(۷)
ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام ، ہندوستانی حکمرانوں کی سہل پسندی کا انجام اور بالآخر نو آبادیاتی نظام جبر و قہر کے استحصالی ہتھکنڈوں کی مکمل داستان پہلے انشائیہ میں ہی رقم ہے ۔ اس ضمن میں فریب کے جاسْوس ، سینہ زوری کے شیاطِین ، غارت، تاراج ، لوٹ مار جیسی رذالتوں کی آمد اور انسانی روّیوں و مزاجوں کی منفیت یعنی غرور ، خود پسندی اور حسد کی صورت میں ڈھال کر آزاد نے اس دور کے برطانوی سامراج کے طریقہ واردات کو ہی صرف بیان نہیں کیا بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کی علمی ، ادبی اور تعلیمی میدان میں انتہائی زبوں حالی کو بھی مجسّم پیش کر دیا ہے ۔ ”نیرنگِ خیال“کا یہ پہلا مضمون باقی مضامین پر فوقیت لے جاتا ہے کہ جب آزاد ماضی، حال اور مستقبل کے تین دائروں کو کھینچتے ہوئے الفاظ پر مکمل عبور اور قدرت بیان کی اچھوتی تاثریت سے مضمون نظم کر جاتے ہیں ۔ نثر میں الفاظ و مرّکبات کا اعلیٰ شاعرانہ چناؤآزاد کے جداگانہ اسلوب و شعور کا غماز ہے بقول ڈاکٹر انور سدید: ” لفظ وہ جسم ہے جسے خیال کی روح تحرک اور تازگی عطا کر تی ہے ۔ ادیب کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ تخلیقی ساحری سے لفظ کی مرمریں مورتیوں میں زندگی کا افسوں پھونک دے ” (۸) آزاد نے اس تخلیقی ساحری کے ذریعے صحیح مقام پر موزوں الفاظ کے استعمال کو بڑے سلیقے سے یوں برتا ہے کہ ”نیرنگِ خیال“ کی مکمل فضا پر ”محنت پسند خرد مند“ کا کردار سرسیّد احمد خان کے رنگ روپ کو اجاگر کرتا ہے ۔ یوں مجّرد سے مجسّم جیسے جاندار اسلوب کو اسلوبیاتی رعنائیوں سے پیش کر کے آزاد نے عظمتِ الفاظ کو معیار قائم کیا ہے ۔ اسی اسلوب کی اچھوتی معنویت کو وفا یزداں منش یوں بیان کرتی ہیں کہ ” آزاد ہر تلمیح کے پس منظر سے آشنا ہیں اور اس کا سہارا لے کر اپنے نصائح اور پند کو بہترین تمثیل نگاری سے دل و جان میں سمو دیتے ہیں “(۹)
محنت پسند خرد مند“ کا کردار یعنی سرسیّد احمد خاںاپنی ذات میں ایک تحریک تھے ۔ ان کو بطور مجّدد پیش قدمی کرتے دیکھ کر قوم نے فوراًلبیک تو نہیں کیا مگر راس دشت کی سیاحی میں عمر گزارنے کے بعد بالآخر سرسیّد احمد خاں کے رویے قوم کو رویہ بننے لگا۔ علامہ شبلی نعمانی نے مجّدد یا ر یفارمر کے لیے جو شرائط بیان کی ہیں لگتا ہے کہ وہ سرسیّد احمد خاں کو دیکھتے ہوئے قائم کی گئی ہیں :
۱۔مذہب، علم یا سیاست میں کوئی مفید انقلاب برپا کرے ۔
۲۔ جو خیال اس کے دل میں آیا ہو ، کسی کی تقلید سے نہ آیا نہ ہو بلکہ اجتہادی ہو۔
۳۔ جسمانی مصیبتیں اٹھائی ، جان پر کھیلا ہو ، سرفروشی کی ہو۔ (۱۰)
سرسیّد احمد خاں وہ ریفارمر ہیں کہ جنہوں نے علم اور سیاست میں مفید انقلاب برپا کیا اور اپنے تعلیمی و سیاسی نظریات کی ترویج کے لیے جسمانی اذیتیں بھی اٹھائیں مگر جہاں تک تقلید کی بات ہے تو اس ضمن میں بقول ڈاکٹر محمد اشرف:
مغربی تہذیب ، انگریزی تعلیم ، پارلیمنٹری طرزِ حکومت ، اصلاح معاشرت، مذہبی برلزم، عقلیت پسندی ، اخبار نویسی ، حتی کہ سادہ طرزِ تحریر شاید ہی کوئی ایسا عقیدہ ہو جس میں سرسیّد ، راجہ رام موہن رائے کے قدم بہ قدم نہ چلے ہوں۔ سرسیّد نے راجہ رام موہن رائے کی طرح نئے علوم کے لیے ذہن کی کھڑکیاں کھلی رکھیں اور برہمو سماج کے انداز میں علی گڑھ تحریک چلائی تو اس کی کامیابی کے لیے سکول ، کالج ، انجمنیں اور اخبارات جاری کیے اور حکومت سے براہِ راست تصادم میں قوت ضائع کرنے کی بجائے اسے تعمیر ی مقاصد میں صرف کیا ۔(۱۱)
علامہ شبلی نعمانی اور ڈاکٹر محمد اشرف کی آراء کو مد نظر رکھتے ہوئے سرسیّد احمد خاں کی شخصیت کا واضح خاکہ ”محنت پسند خرد مند“کے تعارف سے ہی بنتا دیکھا جا سکتا ہے :
جہاں لوٹ مار اور غارت و تاراج کا قدم آئے وہاں احتیاج و افلاس نہ ہو تو کیا۔۔۔ اب پچھتانے سے کیا حاصل ہے ۔ ہاں ہمت کرو اور محنت پر کمر باندھو ! ۔۔۔ احتیاج اور افلاس کا ایک بیٹابھی ہے جس کا نام محنت پسند خرد مند ہے ۔ اس کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہے کیونکہ اس نے امید کا دودھ پیا ہے ۔ ہنر مندی نے اسے پالا ہے ۔ کمال کا شاگرد ہے ، ہو سکے تو جا کر اس کی خدمت کرو ۔(۱۲)
محمد حسین آزاد جب اس انداز میں ”محنت پسند خرد مند“کو نجات دہندہ قرار دیتے ہیں تو اس ضمن میں اختر حسین بلوچ کی رائے بھی اہمیت کی حامل ہے ۔ جس کی روشنی میں ”محنت پسند خرد مند“کے کردار سے مراد سرسیّد احمد خاں ہی ہیں۔
سرسیّد احمد کی شخصیت میں ناصرف مسلمانوں کی سیاسی اور تعلیمی تربیت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی بلکہ اخلاقی اور مذہبی موضوعات پر بھی اپنی روشن خیالی کے نقوش چھوڑے ۔ سرسیّد احمد خان نے اس وقت مسلمانوں کے خیالات میں تبدیلی لانے کی تحریک کا آغاز کیا جب مسلم معاشرہ زوال پذیری کی جانب تیزی سے بڑھ رہا تھا ۔ انہوں نے ایک ایسے نظریے کی بنیاد رکھی جس کی بنیاد پر مسلمان ۱۸۵۷ءکی جنگ آزادی کے بعد کسمپرسی کا شکار تھے ۔ انہوں نے سائنسی فکر و سوچ کے زاویوں سے ہم آہنگ ہو کر سر سیّد کی ترقی پسندی انسان دوستی اور روشن خیالی کو اپنی فکر کی بنیاد بنایا ۔ سرسیّد سے قبل مسلمان علمی، ادبی اور تعلیمی میدان میں انتہائی ربوں حالی کا شکار تھے ۔ (۱۳)
یہ حقیقت اظہر من الشمسں ہے کہ محمد حسین آزاد کی اپنے سماجی ماحول اور مزاج میں عدام موافقت تھی جس کی مضبوط وجہ ”نیرنگِ خیال“ میں ان کے تخیلات کی کارفرمائی کی بہتات سے سمجھی جا سکتی ہے ۔ آزاد بہر حال اسمِ بامسّمی ٰبھی تھے وہ اپنے دور کے نو آبادیاتی نظام کے تنگ و تاریک راستوں پر امید کے دئیے بھی جلاتے گئے مگر باقاعدہ کسی تحریک کا سہارا بھی نہیں لیا
Download AIOU Course Code 5610-1 Solved Assignment Autumn 2021 in pdf. so keep visiting malikaccademy.com